(Last Updated On: )
درِفشاں نے یشب سے کئی بار بات کرنے کی کوشش کی تھی. لیکن وہ تھا کہ بات کرنے کے لئے تیار نہیں تھا،نا اس کی کال اٹھتا تھا نا کسی میسج کا جواب دیتا تھا اور ہر وقت اسے
اگنور کرتا رہتا تھا.. جب بھی درِفشاں اس کے پاس جاتی وہ اسے نظر انداز کر دیتا۔
اور یہی بات درِفشاں کو تکلیف دے رہی تھی، لیکن مجبوری یہ تھی کہ وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
ناراض اس نے کیا تھا تو منانا بھی اس نے تھا،لیکن کیسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
وہ تو ہمیشہ اس معاملے میں کمزور رہی تھی،شادی میں اب صرف ایک دن رہ گیا تھا۔
آج اس کی مہندی تھی سب لوگ لان میں آگے تھےرسم کے لیے، مہندی کے فنکشن کے حساب سے لان کو پیلے اور سفید گوٹے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا اور اوپر سے لائٹنگ نے چار چاند لگا دیئے تھے ڈیکوریشن میں ،نکاح پہلے ہی ہوچکا تھا۔
پہلے اجالا اور آزر کو اسٹیج پے لیجایا گیا تھا۔
پھر درِفشاں اور یشب کو، بلا شبہ وہ چاروں ہی بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔
آزر بار بار اجالا سے کچھ کہتا اور وہ کھل کھل جاتی لیکن درِفشاں وہ تو بُت بنی بیٹھی تھی۔
لیکن یشب ایسے بیٹھا رہا جیسے،اس کو جانتا تک نہیں ہے۔
مہندی کی رسم ختم ہو گئی تھی، اب صرف گھر والے ہی رہ گئے۔
بڑے سب ایک طرف ہو کے بیٹھ گئے تھے،اور وہ لوگ اپنی مذاق مستی میں لگ گئے تھے۔
درِفشاں کو لگا جیسے وہ مس فٹ ہے تبھی وہ اٹھ کے چلی گئی تھی،جبکہ یشب وہی اکیلا بیٹھا رہا۔
_____________________
بارات کا انتظام بھی لان میں کیا گیا تھا لال اور سفید پھولوں سے اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی ہر چیز اور جتنی نفاست سے سجایا گیا تھا وہ اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا مہمان آنا شروع ہوچکے تھے۔
ِیشب گولڈن شیروانی میں موجود پیروں پر کھسہ چڑھائے بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے بڑھی ہوئی بئیرڈ وہ بہت بہت زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا وہاں موجود بہت سی لڑکیوں کی نظر بس اسی پر تھی مگر وہ کسی اور کے ہی انتظار میں وہاں بیٹھا باہر کی طرف نظریں مرکوز کیے تھا۔
آزر نے بلیک کلر کی شیروانی پہنی تھی اور وہ بھی بہت پیارا لگ رہا تھا وہاں بیٹھا ہر شخص ان کے اتنے پیارے دامادوں کو دیکھ کر کچھ رشک کر رہے تھے اورکچھ حسد کی آگ میں جل رہے تھے۔
خالد صاحب اور مبشرہ بیگم بدمزگی نہیں چاہتے تھے کہ شادی پر ان کے خاندان کو دیکھ کر کوئی باتیں بنائے اس لیے افراء بیگم اور ان کے بچوں کو بھی بلایا تھا لیکن افراءبیگم کی وہی عادت دوسروں کی ٹوہ میں اور حسد کرنے والی عادت ابھی تک نہیں گئی تھی ،فائق تو پہلے ہی اجالا سے شادی نہ ہونے پر صدمے میں تھا اور ارصم اُس کا دل میں تو ہول اٹھ رہے تھے اور جائشہ باتیں بنانے میں اپنی ماں کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی۔
تبھی درِفشاں اور اجالا لان میں داخل ہوئیں درِفشاں زرینہ بیگم کیساتھ لال رنگ کے لہنگہ ہم رنگ چولی پہنے اس پر گولڈن رنگ کا کام ہوا ہوا سر پر ریڈ ڈوپٹہ ٹکائے لائٹ سے میک ایپ میں ہونٹوں پر لائٹ براؤن لپسٹک لگائے گولڈن رنگ کی جیولری پہنے پیروں پر ہیلز چڑھائے وہ غضب ڈھا رہی تھی آج وہ سب کی نظروں کا مرکز بنی کھڑی تھی،اجالا نے میرون کلر کا لہنگا پہنا تھا اُس پر اورنج اور پیچ کلر کا ڈوپٹہ لیے برائے نام جیولری پہنے اور نفاست سے کیے گئے میک اپ میں بہت پیاری لگ رہی تھی دونوں بہنوں پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔
مبشرہ بیگم اور زرینہ بیگم نے ان دونوں کو لا کر اسٹیج پر بیٹھا دیا تھا، یشب اسے دیکھنے میں مصروف تھا وہ لگ ہی اس قدر حسین رہی تھی درِفشاں گھبرائی ہوئی نظریں جھکائے بیٹھی تھی یشب اسے اپنے پاس دیکھ کر مسکرایا۔
پھر کچھ رسموں کے بعد رخصتی کا شور اُٹھا اور درِفشاں اور اجالا اپنے ماں باپ کے گلے لگ کر بہت روئی تھیں افتحار صاحب نے بھی آگے بڑ کر ان کو گلے لگایا،اجالا کا بھائی نہ ہونے کی وجہ سے یشب نے بڑا بھا ئی بنتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور وہ اسے دیکھ کر خوشی سے اس کے گلے لگ گئی۔
اب چاروں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔
درِفشاں اور یشب جب گھر پہنچے تو زرینہ بیگم اور سرفراز صاحب نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا۔
وہ دونوں کسی ریاست کے شاہی جوڑے سے کم نہیں لگ رہے تھے۔
تبھی رسموں کا دور شروع ہوا تھا.
اور پھر رسموں سے فارغ ہو کر درِفشاں کو یشب کے کمرے میں پہنچا دیا گیاتھا۔
____________________
یشب کے کمرے میں سجے بیڈ پر بیٹھی جو لال پھولوں سے سجا ہوا تھا دل ایک ہی الگ ہی اسپیڈ سے دھڑک رہا تھا وہ نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی،اور یشب کے رویے کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان بھی ہو رہی تھی تبھی دروازہ کھولنے کی آواز آئی۔
یشب کمرے میں داخل ہوا اور ایک نظر بیڈ پر بیٹھی ہوئی درِفشاں پر ڈالی اور ڈریسنگ روم میں چلا گیا اور کافی دیر چینج کرنے کے بعد وہ درِفشاں کو اگنور کرتا ہوا صوفے میں جا کر بیٹھ کر موبائل میں مصروف ہوگیا۔
کافی دیر تک درِفشاں اس کا انتظار کرتی رہی اسے اپنی بے بسی پر رونا آرہا تھا وہ جتنا کوسنا چاہتی تھی خود کوکوس چکی تھی پھر کچھ سوچ کر بیڈ سے اتر لہنگا سنبھالتی ہوئی یشب کے پاس چلی گئی اور یشب کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کراپنےگھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔
یشب نے چونک کر اسے دیکھا جو رونے میں مصروف تھی اور بس یہی آنسو دیکھ کر وہ پگھل گیا۔
“تم نیچے کیوں بیٹھی ہو تمہاری جگہ میرے پاوْں میں نہیں ہے یہاں ہے”، اس نے درِفشاں کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پاس بیٹھاتے ہوئے کہا۔
“آپ مجھ سے ناراض ہیں”،درِفشاں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
“ہاں تو کیا نہیں ہونا چاہئے ناراض”،یشب نے سنجیدگی سے کہا۔
اس دن تم نے جو کچھ بھی اجالا آپی سے کہا تھا میں نے سب سنا تھا،مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تم۔ مجھے اتنا بُرا سمجھتی ہو،اگر مجھے تمہاری اتنی نفرت کا اندازہ ہوتا تو کبھی اس رشتے کے لیے ہاں نہ کرتا”۔
درِفشاں کی آنکھیں ایک بار پانی سے بھرنے لگی۔
“جس طرح تم نے اپنے بڑوں کے اخترام میں یہ رشتہ کیا ہے ویسے میں نے بھی اپنی امی ابو کی پسند کو مان لیا، ہاں وہ الگ بات ہے کہ تمہیں اتنی دیر دیکھنے کے بعد اچھا لگالیکن”،اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اور درِفشاں کی جیسے سانس اٹھک گئی۔
“خیر یہ رشتے زور زبردستی سے نہیں نبھائے جاتے اس کی بنیاد میں اعتبار اور محبت ہونا لازمی ہے جو تمہیں مجھ سے نہیں “،یشب کی اتنی لمبی تقریر پر وہاں ابھی تک خاموشی تھی۔
“آئی ایم سوری”اب کے اس نے نظریں اُٹھا کر کہا اور آنسو جو آنکھوں میں جمع تھے تیزی سے گالوں میں بہنے لگے۔
“میں جانتی ہوں کہ میں نے آپ کو بہت ہرٹ کیا ہے ،مجھ سے غلطی ہو گئی ہے میں اُس کے لئے بہت شرمندہ ہوں کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتے”،وہ اتنی معصومیت سے پوچھ رہی تھی کہ یشب کو خود پر قابو رکھنا مشکل لگ رہا تھا۔
” ایک شرط پر اگر تم میرے سسوالوں کے صحیح صحیح جواب دے دو”،درِفشاں نے جلدی میں سر ہلایا اور یشب نے اُس کے دونوں ہاتھ تھام لیے،درِفشاں نروس ہوکر اسے دیکھنے لگی۔
“تمہیں مجھ پر اعتبار ہے؟ “
“جی!!!”
“کتنا۔۔۔”
“اتنا کہ آپ کو آئندہ زندگی میں کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی”،درِفشاں نے سوچے سمجھے بغیر دل سے بولی۔
اِس کے ہاتھ پر یشب کے ہاتھوں کی گرفت سخت ہو گئی۔
“اور محبت کرتی ہو مجھ سے” ،یشب کی نظریں اس کے چہرے پر جم ہی گئیں وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔
درِفشاں سر اثبات میں ہلاتی ہوئی مسکرا دی۔
یشب نے فدا ہونے والی نظروں سے اس کی مسکراہٹ کو دیکھا تھا۔
“کتنی محبت کرتی ہو” ،یشب نے مزید قریب ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
“پتا نہیں”۔
“یہ کیا جواب ہو”،یشب بد مزہ ہو کر بولا۔
“اس بات کا یہی جواب ہوتا ہے”،درِفشاں نے ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔
“پر میں اس کا جواب بہت اچھے سے دے سکتا ہوں”،یشب زیرِ لب مسکراتے ہوئے بولا۔
درِفشاں نے نظریں اُٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اس کے لئے صرف محبت ہی محبت تھی۔
“تھینکیو میری زندگی میں آنے کے لیے” ،درِفشاں نے مسکراتے ہوئے سر یشب کے کندھے پر رکھ دیا۔
“ارے یار!!!تم کیوں میرے سوئے ہوئے جزبات جگانے کی کوشش کر رہی ہو” ،آج تم مجھے دنیا کی سب سے پیاری لڑکی لگ رہی ہو،یشب نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“کیوں میں پہلے آپ کو پیاری نہیں تھی لگتی”،درِفشاں نے بغور اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
“نہیں پہلے تو تم مجھے چڑیل لگتی تھی”۔
یشب!!!،درِفشاں غصے سے بولی۔
ان کی زندگی ایسے ہی گزرنے والی تھی کٹھی میٹھی۔۔۔۔ان دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی گلے شکوے نہیں تھے اور نہ یہ بتایا تھا کہ جو غلط فہمیاں ان کے درمیان آئی تھی وہ کیسے کہے بغیر ختم ہو گئی تھی اور غلط فہمیوں کے ختم ہونے کے رشتے کو جو ان کے درمیان (محبت کا رشتہ) کا اعجاز سمجھا تھا اور آنے والے لمحوں کو سوچ کر دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور ان کی مسکراہٹ دیکھ کر باہر اترتی ہوئی رات بھی مسکرا دی۔
____________________
وہ دونوں زینے اتر کر نیچے آرہے تھے سب کی نظریں ان دونوں پر گئے درِفشاں گلابی کام والے فراک میں بالوں کی سائیڈ جوڑی کی شکل میں قید کیے بلکہ لائٹ سے میک ایپ کانوں میں جھمکے پہنے وہ بہت زیادہ پیاری لگ رہی تھی یشب بلیک شلوار قمیض میں بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے بڑھی ہوئی بیئرڈ میں ہاتھوں میں گھڑی پہنے مغرور چال چلتا وہ بہت زیادہ ہینڈسم اور وجیح لگ رہا تھا انہیں ساتھ دیکھ کر وہ بہت زیادہ والا خوش ہوئے بہت زیادہ وہ دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے سب کو گڈ مارننگ کہا تو زرینہ بیگم اور سرفراز صاحب نے جواب دیا۔
“تم دونوں کیلیے کچھ ہے شادی کا گفٹ”۔۔۔!!!! سرفراز صاحب کہنے لگے تو یشب اور درِفشاں نے انکی طرف دیکھا وہ بھی اسے دیکھنے لگے۔
“یہ لو”۔۔۔۔!!!!! ایک لفافہ انہوں نے ان دونوں کی طرف بڑھایا جو یشب نے تھاما اس نے کھولی تو کینڈا کی ٹکٹس تھی۔
“شکریہ چاچو”۔۔۔!!!!!درِفشاں ہلکا سا مسکرا کر کہنے لگی۔
“تھینکس ابو”۔۔۔!!!!! یشب نے بھی ہلکا سا مسکرا کر کہا تو سرفراز صاحب بھی مسکرائے۔
زرینہ بیگم نے درِفشاں کو منہ دیکھائی میں کنگن دیے۔
اور پھر سب لوگ ناشتہ کرنے لگ گئے۔
_____________________
دوسال بعد۔۔۔۔
گاڑی سے نکلتا یشب تیز تیز قدم اٹھاتا گھرمیں داخل ہوا تھا۔ پورے گھرمیں خاموشی چھائی ہوئی تھی، ایسی خاموشی یشب کو فکرمندی میں مبتلا کرگئی تھی،اورطسرفراز صاحب اور زرینہ بیگم بھی نظر نہیں تھےآرہے، آج بھی وہ اپنی ایک اہم میٹنگ کسی کے حوالے کرکے گھر آیا تھا، اسے گھر سے ایمرجینسی کال آئی تھی۔
ایمرجینسی کیا تھی یہ اسے معلوم نہیں تھا، لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اپنے کمرے کی جانب آیا جہاں اندر سے سسکیوں کے ساتھ ساتھ ایک بچے کے رونے کی آواز بھی آرہی تھی۔
ایک لمحہ لگا تھا یشب کو سارا معاملہ سمجھنے میں، گہری سانس خارج کیے اس نے آنے والے وقت کے لیے خود کو پرسکون کیا تھا،جانتا تھا کہ اندر اب بیوی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
دروازہ کھولے یشب کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں سامنے ہی درِفشاں سر ہاتھوں میں گرائے سسکیاں بھرنے میں مصروف تھی جبکہ اسکے پاس لیٹی وہ آٹھ ماہ کی آفت کی پڑیا بھی اپنا باجا خوب زوروشور سے بجانے میں مصروف تھی۔
’’درِفشاں!‘‘ یشب فورا اسکے پاس بھاگا تھا، جس نے یشب کی آواز سنتے ہی سر اٹھایا اور اپنی لال انگارہ آنکھوں سے اسے گھورا۔
یشب نے روتی ہوئی اپنی بیٹی الايا کو اُٹھایا اور یشب کی گود میں آتے ہی اسکا باجا بجنا بند ہوگیا تھا،یشب اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا تھا اور باپ بیٹی کا یہ محبت بھرا ڈرامہ دیکھ کر درِفشاں دل و جان سے جل چکی تھی اسی لیے بنا کچھ بولے وہ ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی اور بیگ میں کپڑے ڈالنا شروع ہوگئی تھی۔
’’یار میرا قصور تو بتادو؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ یشب نے زچ ہوکر سوال کیا۔
’’آپ کا قصور؟ یہ ہے آپ کا قصور!‘‘ درِفشاں اس آفت کی پرکالا کی جانب اشارہ کرتی غصے سے بولی۔
’’اب اس میں اکیلا میں تو نہیں تھا تمہاری بھی برابر کی شراکت داری ہے!‘‘ بولتے ہی یشب نےزبان دانتوں تلے دبائی تھی جبکہ درِفشاں کا غصہ مزید بڑھ گیا تھا۔
’’ہاں ڈال دے مجھ پر۔۔۔۔۔ سب میری ہی غلطی ہے۔۔۔۔۔۔ جو ایسی اولاد پیدا کی میں نے!‘‘ درِفشاں غصے سے اپنی بیٹی الايا کو گھورتے بولی۔
’’اچھا ہوا کیا ہے بتاؤں تو سہی مجھے!‘‘ یشب نے پیار سے اسکی کہنی تھامی اور اسے اپنے قریب کرتے ہوئے پوچھا۔
یشب کے پوچھتے ہی درِفشاں نے ایک بار پھر رونا شروع کردیا تھا۔
’’پوری رات تنگ کرتی ہے مجھے۔۔۔۔۔۔ نہ دن میں سکون ہے اور نہ ہی رات میں۔۔۔۔۔۔ ہر وقت چوبیس گھنٹے صرف باپ چاہیے۔۔۔۔۔۔ ماں کو دو پل بھی برداشت نہیں کرتی۔۔۔۔۔ اسے اپنے پاس ہی رکھا کرے۔۔۔۔۔ میرے پاس چھوڑ کرجانے کی ضرورت نہیں!‘‘ یشب نے سر نفی میں ہلایا۔
’’درِفشاں وہ بچی ہے تنگ تو کرے گی نا!‘‘ یشب نے سمجھاتے ہوئے درِفشاں سے کہا۔
’’تو پھر مجھے بتاؤں میں کیا کروں؟ اب روزانہ تو آفس چھوڑ کر نہیں نہ آسکتا؟‘‘ یشب نے بےبسی سے سوال کیا۔
’’مجھے نہیں معلوم کچھ بھی کرے۔۔۔۔۔۔ مگر اس آفت کی پرکالا کو سمجھا دے کہ مجھے، یعنی کے اپنی ماں کو تنگ کرنا چھوڑ دے۔۔۔۔۔۔ اب دیکھے کب سے سلانے کی کوشش کررہی تھی نہیں سوئی اور آپ کے آتے ہی سو گئی!‘‘ وہ غصے سے اپنی بیٹی کو گھورتے بولی جو دنیا جہان کو بھلائے سوئی پڑی تھی۔
“آچھا تم چھوڑو ان سب باتوں کو، آج کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے”،یشب نے الايا اور درِفشاں کے کپڑے بیڈ پر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“آج ضارب کی برتھڈے ہے”،درِفشاں نےاُٹھتے ہوئے کہا۔
“اووہو مجھے تو یاد نہیں تھا رہا اچھا تم ایسا کرو جلدی سے تیار ہوجاوْ پھر ہم لوگ چلتے ہیں”،
درِفشاں مسکراتے ہوئے ڈریسنگ روم میں چلی گئیں کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ آفت کی پر کالہ دوبارہ اُٹھ جاتی اور اسے تیار بھی نہ ہونے دیتی۔
ان دوسالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا یشب کو انجیئرینگ کی وجہ سےکسی آفس میں اچھی جگہ پر جاب مل چکی تھی آٹھ ماہ پہلے اللّه نے انہیں اپنی رحمت سے نوازہ تھا جس کا نام یشب نے الايا رکھا تھا سرفراز صاحب اور زرینہ کی تو اپنی پوتی میں جان بستی تھیں لیکن درِفشاں کو اپنی بیٹی سے کوئ خاص قسم کا بیر تھا کیونکہ وہ ہر وقت باپ باپ کرتی رہتی تھی اور درِفشاں کے حصے کا ٹائم بھی وہ لے جاتی تھی اس لیے لیکن اس کو بھی اپنی بیٹی بہت پیاری لگتی تھی جب وہ سوئی ہوئی ہوتی تھی۔
اور اجالا اور آزر کو ایک سال۔ پہلے بیٹے سے نوازہ تھا جس کا نام ضارب تھا جس کی برتھڈے پر وہ آج جا رہے تھے۔
یشب اپنے سامنے لگی دیوار پر اپنی فیملی کی تصویر دیکھ کر مسکرا دیا،جس میں وہ ایک مکمل فیملی کا منظر پیش کر رہی تھے۔
_____________________
ختم شد۔