وہ صبح بھی عام صبحوں جیسی ہی تھی۔ موتیا کی آنکھ کھلی تو اس نے ہادی کو نماز پڑھتے پایا تھا۔ وہ بھی سرعت سے اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی۔ رات تو گزر گئی تھی، لیکن اب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، دعا تو کیا مانگنا تھی۔ ذہن میں ایک کے بعد ایک مختلف سوچیں اپنا گھر بنانے لگی تھیں۔ اس کے اندر کی لڑکی بیدار ہو گئی، وہی لڑکی جسے اپنی عزت نفس اپنا پندار بہت عزیز ہوتا ہے۔
“کیا ہادی کی مجھ سے شادی ان کی مرضی کے بغیر ہوئی ہے؟” کسی کی زندگی میں زبردستی داخل ہونا۔۔۔ بہت تکلیف دہ تھا۔
“کیا ضرورت تھی خالہ کو یہ شادی کروانے کی جب یہ دل سے راضی نہیں تھے۔” اس نے شکوہ کیا۔ حالانکہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا کہ آیا وہ جو سوچے بیٹھی ہے، سچ بھی ہے یا نہیں؟؟
“کتنی لمبی دعا مانگنی ہے موتیا؟” ہادی کی آواز اسے خیالات سے باہر لے آئی تھی۔ دعا مانگ ہی کب رہی تھی، وہ تو ہاتھ پھیلائے کہیں اور ہی گم تھی۔ وہ جائے نماز تہ کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہادی نے ایک مخملیں ڈبہ اس کی جانب بڑھایا:
“معافی چاہتا ہوں موتیا۔! رات طبیعت کی خرابی کے باعث میں تمھیں، یہ شادی کا تحفہ نہیں دے پایا تھا۔” ہادی کو صبح ہی اس مخملیں ڈبے کا خیال آیا تھا جو کل رات سعدیہ نے اسے دیا تھا۔
“شکریہ۔!” ہلکی سی مسکان نے اس کے لبوں کو چھوا، اس نے ڈبہ کھولا تھا۔ سنہرے رنگ کا سرخ نگینوں سے مزین جگمگاتا کنگن۔ اس کی نگاہوں میں ستائش تھی۔ اور یہی لمحہ تھا جب ہادی کا دل اس کی طرف کھنچا تھا۔ اور وہ جو کنگن ہاتھ میں لیے اس سوچ میں تھی کہ پہنے یا نہیں، اس وقت حیران رہ گئی جب ہادی نے اس کے ہاتھ سے کنگن لے کر، خود اس کے ہاتھ میں پہنا دیا تھا۔ چہرے پہ شرم و حیا کر سارے رنگ قوس قزح بن کر بکھر گئے تھے۔ ہادی نے سعدیہ کی بات ذہن میں دہرائی
“موتیا کے ذہن میں کسی کا خیال ہو گا تو تمھارا ہی ہو گا۔” اس خیال کے آتے ہی وہ اتنے عرصے میں پہلی بار کھل کر مسکرایا تھا۔ کہا تو انھوں نے سچ ہی تھا۔ نہ عدی بھائی کو اس کے ذہن تک رسائی تھی اور نہ موتیا ہی کو عدی سے دلچسپی ہونی تھی۔ ہاں کبھی ملتے تو شاید۔۔۔ اس نے ہر باطل اور دماغ خراب کرنے والے خیال کو جھٹک کر، موتیا کی طرف قدم بڑھائے تھے۔ اور سچ کہا تھا بڑے بوڑھوں نے کہ نکاح کے دو بول اپنے اندر بےپناہ طاقت رکھتے ہیں۔
“زندگی کا نیا سفر مبارک ہو۔” اس نے شگفتگی سے کہا تھا۔ سخت سردی میں بھی موتیا کی ہتھیلیاں پسینے میں بھیگ گئی تھیں۔
“خیر مبارک۔!” اپنے شوخ و چنچل انداز سے ہٹ کر قدرے دھیمی آواز میں جواب دیا تھا۔ ساری شوخی و شرارت نجانے کہاں کھو گئی تھی، حالانکہ یہ وہی ہادی تھا جسے گھر پہ وہ ترکی بہ ترکی جواب دے دیا کرتی تھی۔ لیکن تب وہ صرف کزن تھا، اب شوہر کا رتبہ پا چکا تھا۔ اور شوہر کی عزت و احترام کرنے کا سبق اسے صوفیہ نے ہمیشہ دیا تھا۔ اور وہ صبح موتیا کی زندگی میں بہار بن کر طلوع ہوئی تھی۔ صرف راتیں ہی نہیں، کچھ صبحیں بھی زندگی بھر کے لیے یادگار ہو جاتی ہیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
سعدیہ کو ساری رات ٹھیک سے نیند نہیں آئی تھی۔ نجانے یہ لڑکا کیا کرتا؟ یا اس نے کیا کیا ہو گا؟ یہی سوچتے سوچتے صبح ہو گئی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ یہ بات شوہر یا بڑے بیٹے سے کہہ کر دل بھی ہلکا نہیں کر سکتی تھیں۔ نماز کے بعد انھوں نے دل سے بیٹے اور بہو کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے دعا مانگی تھی۔ ابراھیم صبح میں نیم گرم پانی پینے کے عادی تھے، وہ پانی لینے باورچی خانے میں آئیں تو عدی کو دیکھا جو کافی میکر کا سوئچ آن کر رہا تھا۔ پلیٹ میں براؤن بریڈ کا ایک سلائس رکھا تھا اور چولہے پہ دھرے پین میں انڈے ابل رہے تھے۔
“السلام علیکم ماما جان!” اس نے انھیں دیکھا، مسکرا کر سلام کیا اور سلائس پہ مکھن لگانے لگا تھا۔
“اتنی صبح صبح جاگ گئے عدی؟” وہ اپنے کام خود کرنے کا عادی تھا۔ اس لیے ان کا یہ کہنا عبث تھا کہ اس نے ناشے کے لیے انھیں کہا ہوتا۔ اس کے روز و شب کے معمولات ایسے تھے کہ اکثر اوقات وہ خود ہی ناشتہ کرکے ہسپتال چلا جاتا یا واپس آ کر خود کھانا گرم کرکے کھا لیا کرتا تھا۔ اپنے ذاتی کاموں کے سلسلے میں عدی نے بچپن سے لے کر آج تک انھیں کبھی تنگ نہیں کیا تھا۔
“ہسپتال جانا ہے ماما جان۔” کافی مگ بھرتے اس نے اطلاع دی تھی۔
“سورج کو تو نکلنے دو عدی۔” وہ جو اب ابلے انڈے چھیل رہی تھیں، انھوں نے کھڑکی سے باہر پھیلے ہلکے سے اندھیرے کو دیکھا اور پھر اپنے بیٹے کو، جسے اپنی صحت کا بالکل خیال نہیں تھا۔
“سورج کے ساتھ ہی گھر سے نکلوں گا بےفکر رہیے۔ میرا اس مریض کو دیکھنا ضروری ہے ماما جان۔!” پلیٹ اور مگ لیے کچن میں رکھی کرسی پہ بیٹھا تھا۔
“اپنے کھانے پینے کا خیال رکھا کرو عدی!” انھوں نے نصیحت کی۔
“آپ ہیں نا خیال رکھنے کے لیے۔”
“کاش تم کبھی موقع دو مجھے اپنا خیال رکھنے کا۔” وہ ھنس دیا تھا۔
” ہادی ہے نا آپ سے اپنا خیال رکھوانے کے لیے” عدی تعلیم کے سلسلے میں، پھر سپیشلائزیشن کے لیے، زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہا تھا۔ اور اس کے برعکس ہادی فوج میں آنے سے پہلے تک گھر ہی رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ہر معاملے میں سعدیہ کو خوب تنگ کیا تھا۔
“اب موتیا آ گئی ہے اس کا خیال رکھنے والی۔”
“موتیا۔۔!؟”وہ کچھ سوچنے لگا۔
“کیا ہوا؟” سعدیہ کو لگا جیسے کچھ انہونی ہونے والی ہے۔
“نکاح نامے پہ میں نے دیکھا تھا نام تو معتداء لکھا تھا۔” اس کی بات سن کر انھوں نے سکھ کا سانس لیا۔ دل کا چور ہی تھا شاید۔
“معتداء ہی نام ہے، یہ تو پیار سے سب موتیا کہتے ہیں۔”
” مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ اتنے مشکل نام رکھتے ہی کیوں ہیں جب پکارے نہیں جاتے اور عرفیت رکھنی پڑتی ہے۔” وہ سر جھٹک کر کہتے کافی پینے لگا۔
“بھئی پیار سے نام دینے میں حرج ہی کیا ہے؟”
“جو نام پیار سے دینا ہے، وہی نام رکھ دیا جائے تو بھی کیا مضائقہ ہے؟ آپ کو معلوم ہے کہ نام کا کتنا اثر پڑتا ہے شخصیت پہ؟”
” افففف۔!!” انھوں نے بےساختہ ماتھے پہ ہاتھ مارا۔
“اب بس کرو عدی۔۔ پہلے تمھاری ڈاکٹری آئے دن گل کھلاتی ہے، اب یہ نفسیات۔” وہ ھنس پڑا اور بولا:
“میں سوچ رہا ہوں کہ نفسیات میں بھی ایک اضافی ڈگری لے لوں۔ ڈاکٹر عدی ابراهيم سائیکاٹرسٹ بھی ہو جائیں گے۔” سعدیہ نے ٹرے میں پانی کا گلاس رکھتے پلٹ کر اسے دیکھا اور فوراً بولیں:
“ایک بات کان کھول کر سن لو عدی! جو کرنا ہوا یہیں رہ کر کرنا، میں نے ملک سے باہر کہیں نہیں جانے دینا تمھیں۔” اس نے کوئی جواب دیے بنا خالی مگ اور پلیٹ دھو کر رکھی، سعدیہ نے کچھ نہ کہا جانتی تھیں وہ اپنے کام کرنے میں ملازمین کا محتاج نہیں رہتا تھا۔
“میں نکلتا ہوں ماما جان! ولیمہ کس ہوٹل میں ہے بھلا؟” سعدیہ نے خفگی اور حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ شرارت سے ھنستا ہوا باہر نکلتا چلا گیا تھا۔ وہ بھی اس کی شرارت سمجھ کر مسکرا دی تھیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
موتیا رنگ کے شرارے میں موتیا کا حسین سراپا دمک رہا تھا۔ سعدیہ اس کے چہرے پہ سجی مسکان سے اندازہ نہیں لگا پا رہی تھیں کہ آیا وہ واقعی خوش تھی یا۔۔۔ پلٹ کر دور دوستوں کے نرغے میں کھڑے ہادی کو دیکھا جو سیاہ ڈنر سوٹ میں روشن رات کے سارے رنگ چرائے ہوئے تھا۔ انھوں نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری تھی۔ اور پھر ہال کے مرکزی دروازے پہ نگاہیں مرکوز کیں۔ عدی کا ابھی تک پتا نہیں تھا۔ بس آدھا گھنٹہ پہلے فون پہ اطلاع دی تھی کہ پہنچ رہا ہوں۔ گھڑی دیکھتیں وہ مہمانوں کی جانب متوجہ ہوئیں۔
“یہ ابراهيم اور سعدیہ کا بڑا بیٹا عدی ہے نا!؟ ڈاکٹر عدی ابراهيم۔؟” انھوں نے چند خواتین کو کہتے سنا۔ بالآخر وہ آ ہی گیا تھا۔
“یار ہادی۔! تم مانو یا نہ مانو، تم کبھی بھی عدی بھائی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔” ہادی کے دوست حاشر نے کہا تھا۔ ہادی نے رخ موڑ کر بھائی کو دیکھا۔ گہرے نیلے رنگ کے تھری پیس سوٹ میں، میرون ٹائی لگائے، بال جیل لگا کر سلیقے سے جمے ہوئے، اپنے مخصوص انداز میں ہلکی بڑھی شیو کے ساتھ، عدی نے مسکراتے ہوئے ہال میں قدم رکھا تھا۔
“مجھے ان سے مقابلہ کرنا بھی نہیں ہے، میں اپنے بھائی کو ہر مقام پر بنا کسی مقابلے کے خود سے برتر مانتا ہوں۔ ان جیسا کوئی نہیں ہے۔” اس کے لفظ لفظ میں عدی ابراهيم کے لیے احترام اور محبت کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور دونوں بھائی گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے تھے۔ کئی لوگوں کے سیل فونز کے کیمرے حرکت میں آئے تھے۔
سعدیہ نے لوگوں کو کہتے سنا کہ عدی نے قدم رکھتے ہی محفل لوٹ لی تھی۔ انھیں اب اس کے دل کی محفل لوٹنے والی کی تلاش تھی۔
ہادی اور موتیا سٹیج پر تھے، جب عدی وہاں آیا تھا۔
“السلام علیکم معتداء۔!” وہ تو اپنا پورا نام سن کر ہی حیران ہوئی تھی، بہت کم لوگ اس کے اصل نام سے واقف تھے، عدی بھائی کو کیسے پتا چلا؟ وہ تو ان سے کبھی ملی بھی نہیں تھی۔ بچپن میں جب کبھی اسلام آباد آنا ہوتا تو ہمیشہ یہی پتا چلتا کہ وہ ہاسٹل میں ہے۔ یہاں ہے، وہاں ہے وغیرہ۔ عدی نے بھی شاید اس کی حیرت بھانپ لی تھی۔ مسکرا کر بولا:
“اتنا خوبصورت، منفرد نام ہے۔ موتیا کیوں پکاروں؟”
“عدی بھائی کو ہمیشہ سے انفرادیت متاثر کرتی ہے۔” ہادی نے بتایا۔
“اس کی باتوں میں مت آنا، یہ میرے متعلق بہت کچھ اول فول کہتا رہتا ہے۔” عدی نے کہہ کر کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور ہادی کو دیا۔
“یہ کیا ہے بھائی؟” وہ کہتے ہوئے بند لفافہ چاک کرنے لگا تھا۔ دبئی کے دو ریٹرن ٹکٹس تھے۔
“میری طرف سے تم دونوں کی شادی کا تحفہ، خوش رہو ہمیشہ۔” عدی نے تہ دل سے کہا تھا۔ ہادی ٹکٹ ہاتھ میں لیے دیکھتا رہا تھا۔ سعدیہ نے بغور اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا تھا۔ دل انجانے خدشات کا شکار تھا۔ کچھ دن لگیں گے وہ سب کچھ بھول جائے گا۔ سعدیہ نے خود کو تسلی دی تھی۔ اور ہر خدشے کو دل سے نکال دیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔*
ولیمے سے اگلے دن ہی ہادی کو اس کے آفیسر کی کال آ گئی اسے واپس بلا لیا گیا تھا۔ حالات کشیدگی اختیار کر گئے تھے۔ اس بلاوے پہ دل نے گویا شکر کا کلمہ پڑھا تھا۔ وہ ابھی تک اس نئے رشتے کے لیے خود کو تیار نہیں کر پا رہا تھا جتنا موتیا کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا اتنا دل و دماغ میں جنگ چھڑ جاتی تھی۔ اس وقت کا بلایا جانا اسے اپنے لیے رحمت ہی لگا تھا۔ اس نے عصر کی نماز پڑھ کر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلا کر خوب دعا مانگی تھی۔ پھر کچھ سوچ کر بائیک لے کر عدی کے ہسپتال کی طرف چلا گیا۔ وہ فارغ ہی تھا اپنے کمرے میں بیٹھا کسی مریض کی کیس ہسٹری دیکھ رہا تھا۔ عدی اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
“تم یہاں ہادی۔!؟” فائل رکھی اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کا استقبال کیا۔ بھائی کی اتنی محبت پہ اس کا دل خوش ہو گیا۔
“کہیں معتداء سے جھگڑا کرکے تو نہیں آئے؟” عدی کا اشارہ کس جانب تھا وہ بخوبی سمجھ گیا تھا۔ بچپن میں جب تک عدی ہاسٹل نہیں گیا تھا۔ ہادی کا اگر کسی دوست سے جھگڑا ہو جاتا تو وہ ہمیشہ اسی کے پاس آتا تھا اور وہ ہمیشہ اس کے جھگڑے ختم کروایا کرتا تھا۔ اس نے عدی کو مزید کہتے سنا
“دیکھو بیٹا۔! اگر اب بھی یہی معاملہ ہے تو مجھے معاف رکھو، میاں بیوی کے جھگڑے میں، میں نہیں پڑنے والا۔” شرارت سے کہتے اس نے ہاتھ اٹھا دیے۔
“آپ بھی نا بھائی۔۔!” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑا تھا۔ عدی نے ہادی کے لیے چائے اور اپنے لیے کافی کا آرڈر دیا تھا۔
“میرے آفیسر کی کال آئی تھی، مجھے کل واپس جانا ہے۔” پیپر ویٹ گھماتے اس نے اطلاع دی۔ عدی نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ وہ بہت چپ چپ تھا۔ عدی سمجھ سکتا تھا۔
“ہادی۔!” اس کے ہاتھ سے پیپر ویٹ لیا تھا۔
“تم اس شادی سے خوش ہو؟” ہادی نے گھبرا کر بھائی کو دیکھا جس کی نظریں اسی پہ ٹکی تھیں۔
“آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں خوش نہیں ہوں۔”
“سوال پہ سوال مت کرو، جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔” پنسل ہاتھ میں گھماتے، کرسی پہ جھولتے اس کی گہری نظر ہادی پہ تھی
“خوش ہوں بھائی، بس ابھی میں یہ شادی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن ماما جان کو کون سمجھاتا۔” اس نے نظریں چرائیں، اور یہ نظر چرانا عدی جیسے بندے سے چھپا نہیں رہا تھا۔ لیکن اس نے مزید کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔
“کل جانے کی وجہ سے پریشان ہو؟” چائے آ چکی تھی۔ اس نے چائے کا کپ ہادی کے آگے رکھا اپنا کافی کا مگ بھی اٹھایا تھا
“پتا نہیں بھائی۔! کچھ سمجھ نہیں آ رہی پریشان ہوں، خوش یا کیا۔۔۔؟”
“جاب کوئی بھی ہو، وقت اور خوشیوں کی قربانی ہر جگہ ہی دینی پڑتی ہے۔ لیکن یہ فوج کی نوکری کچھ زیادہ ہی قربانی مانگتی ہے۔ اپنے بہت سے رشتے قربان کرنے پڑتے ہیں۔ یہ نوکری ہم سے وقت اور خوشیوں کی ہی نہیں جان کی قربانی بھی مانگ لیتی ہے، بڑی بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے ایک فوجی پہ ہادی ابراھیم! ” گھونٹ گھونٹ چائے پیتے ہادی اس کی ایک ایک بات بغور سن رہا تھا۔
“ابھی تمھاری نئی زندگی کی شروعات ہے، اگر تمھیں لگتا ہے کہ تم یہ ذمہ داریاں نبھا نہیں سکتے تو ابھی وقت ہے چھوڑ دو اور بابا جان کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹاؤ۔” عدی ایسا ہی تھا آر یا پار، ایک واضح فیصلہ کرنے والا۔ اور فیصلہ کرکے اس پہ ڈٹ جانے والا۔
“نہیں بھائی! میں اس نوکری کی ذمہ داری سے نہیں بھاگ رہا۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں نے خود اپنی مرضی سے یہ ذمہ داریاں منتخب کی تھیں۔” چائے کا خالی کپ ٹرے میں رکھتے، اس نے تڑپ کر عدی کو باور کروایا تھا۔
“ماما جان اور موتیا کو کیسے بتاؤں گا؟”
“جیسے مجھے بتایا ہے۔” اس کا مگ بھی خالی ہو چکا تھا۔
“دیکھو ہادی! ماما جان کو بھی اور معتداء کو بھی علم ہے کہ تمھاری نوکری کس قسم کی ہے، دونوں تھوڑا سا پریشان تو ہوں گی ہی۔ لیکن سمجھ جائیں گی۔” پنسل دوبارہ سے عدی کے ہاتھ میں گھوم رہی تھی۔
“اگر وہ تمھیں یعنی ایک فوجی کو قبول کر چکی ہے تو یقیناً ایک فوجی کی ذمہ داریوں کو بھی قبول کرکے ہی تمھاری زندگی میں آئی ہو گی۔ بیوی ہے تمھاری اسے سمجھاؤ، اسے سمجھنا ہو گا۔ اچھے شوہر بیویوں کو سمجھاتے ہیں اور اچھی بیویاں ہمیشہ شوہر کو سمجھ جاتی ہیں۔” عدی نے اس کا بڑا مسئلہ حل کیا تھا۔
“اور ماما جان!؟؟”
“ماما جان کی فکر مت کرو، پریشان رہنے کی خصلت شاید ازل سے ہی ان ماؤں کے دلوں میں موجود ہے۔ اور فطرت سے ہم لڑ نہیں سکتے۔” دونوں ہی اس بات پہ ہنس دیے تھے۔ عدی نے گھڑی میں وقت دیکھا تھا۔
“مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا ہے، تم بھی گھر پہنچو، میں رات کے کھانے پر ملتا ہوں۔”ہادی اٹھ کھڑا ہوا
“اور ہاں سنو۔! کھانے سے پہلے یہ بات مت کرنا۔ ورنہ ماما جان کا کھانا حرام ہو جائے گا۔” کمرے سے نکلنے سے پہلے عدی نے بطور خاص اسے تاکید کی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
ہادی نماز پڑھ کر گھر آیا تو سعدیہ کھانے کی تیاری کر رہی تھیں اور موتیا اپنے کمرے میں تھی۔ وہ سیدھا کمرے میں آیا۔ اسے موتیا کو ہی سمجھانا تھا، ماما جان کو عدی بھائی نے سنبھال لینا تھا۔
“السلام علیکم!” موتیا کھڑکی کے پاس بیٹھی باہر لان میں پھیلے ملگجے اندھیرے میں نجانے کیا تلاش رہی تھی۔
“وعليكم السلام۔!” وہ کھڑکی کے پاس سے اٹھ گئی۔ ہادی نے الماری کے اوپر سے اپنا سوٹ کیس اتارا اور پھر الماری کھول کر اس میں کپڑے نکال کر سوٹ کیس میں رکھنے لگا۔
“آپ کہیں جا رہے ہیں؟” نیا نیا رشتہ جڑا تھا، کچھ کہتے، کچھ پوچھتے بھی شرم آتی تھی۔
“مجھے کل واپس جانا ہے موتیا۔” نظریں چراتے اس نے اطلاع دی تھی۔ موتیا ایک لمحے کے لیے کچھ بول نہیں پائی تھی۔
“تمھیں معلوم ہے موتیا! کہ اس فوج کی نوکری میں ہم پہ صرف ہمارے گھر کی نہیں، پورے ملک کے ہر گھر کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔” وہ کچھ بول ہی نہیں رہی تھی۔ کاجل بھری آنکھیں، نم ہونے لگی تھیں۔ کھڑی انگلیاں چٹخاتی رہی تھی۔ ہادی نے اپنا سامان باندھا آخر میں بیڈ کی داہنی جانب والے میز سے ایک ڈائری، سفید رنگ کا خوبصورت پین اور نقرئی رنگ کی بیش قیمت کلائی کی گھڑی نکالی تھی۔ تینوں چیزیں خریدنے والے کا شاندار ذوق کی نشاندہی کر رہی تھیں۔
“یہ تینوں چیزیں بھائی میرے لیے جرمنی سے لائے تھے موتیا۔” اس کا دھیان بٹانے کے لیے ہادی نے گفتگو کا سلسلہ جوڑا۔
“انھیں معلوم ہے کہ مجھے ڈائری لکھنا پسند ہے۔ اور یہ گھڑی۔۔۔ ہمیشہ مجھے ان کے اپنی زندگی میں ہونے کا احساس دلاتی ہے۔” ڈائری اور فاؤنٹین پین سوٹ کیس میں رکھ کر اس نے گھڑی کلائی میں باندھی تھی۔ اور آگے بڑھ کر موتیا کے دونوں ہاتھ تھام لیے:
“مجھے معاف کر دینا موتیا۔” اور اسے لیے بیڈ پہ بیٹھا۔ وہ بےجان پتلے کی مانند اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
“تم بہت اچھی ہو موتیا! اور اچھی لڑکیوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اچھی بیویاں بھی ہوتی ہیں۔” اس کے ہاتھوں میں لیے وہ آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔
“اور اچھی بیویاں، شوہر کو سمجھتی ہیں۔” ایک آنسو پلکوں سے ٹوٹ کر چہرے پہ پھسلتا چلا گیا تھا “اچھی بیوی اپنے شوہر کے شوق، دلچسپی اور مجبوری سب کو سمجھتی ہے۔ اور یہ نوکری میری مجبوری نہیں، میرا شوق ہے۔۔” موتیا نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں کی گرفت سے چھڑائے اور آنسو پونچھ کر بدقت مسکرائی تھی۔
“میں سمجھ سکتی ہوں۔ اور آیندہ بھی آپ کا ہر شوق، دلچسپی اور مجبوری سمجھ جاؤں گی۔ آپ مجھے بتائیے کیا تیاری باقی ہے؟” ہادی نے طمانیت کی سانس بھری تھی۔ اور اس کے آنسوؤں کی طرف اشارہ کرکے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔
“اس معاملے میں آپ مجھے سمجھ کر ایک اچھا شوہر ہونے کا ثبوت دیجیے۔” ہادی کے دل کو دھچکا لگا تھا۔
“لیکن میں اچھا شوہر نہیں ہوں۔” وہ بس یہ سوچ کر ہی رہ گیا تھا۔ کہہ نہیں سکا تھا، کہہ سکتا ہی نہیں تھا۔ اسے یہ رشتہ مرتے دم تک نبھانا تھا
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...