(Last Updated On: )
نصرت ظہیر
سفید چادر پہ بکھرے رنگوں کے درمیاں
وہ چمکتی آنکھیں
ستارے جیسے تلاش کرتے ہوں کہکشاں میں
شہابِ ثاقب کی رہ گزاریں
وہ اس کے انفاس کی حرارت
کہ جیسے بستر کی سلوٹوں میں لپیٹ لی ہو
کسی نے گزرے حسین لمحوں کی ہر شرارت
وہ اس کے ریشم سے بھی ملائم بدن کی خوشبو
کہ جیسے لوبان کا دھواں ہو فضا میں قائم
وہ آج کی شب پھر آگئی ہے
خفیف قدموں سے میرے کمرے میں
حسبِ عادت!