خورشید ناظر(بھاولپور)
اعادہ
کوئی قصہ ، کہانی، داستاں
پھر سے سنا ڈالو
سرابوں میں اترنے والی چھاؤں کی ہر اک تصویر
اب خود ہی مٹا ڈالو
مرے ہونٹوں پہ لفظوں کی نئی زنجیر کہتی ہے
صدا کی ایک پیلی نہر اب سڑکوں پہ بہتی ہے
ہر اک پتلی تماشا جان لیوا بنتا جاتا ہے
سبھی سانسوں پہ اک آسیب کی اب حکمرانی ہے
لہو میری محبت ہے
عجب میری کہانی ہے
کہانی گو پرانی ہے مگر سب کو سنانی ہے
٭
ہوا اب کے برس بھی شہر زادوں پر قیامت ہے
سبھی اشجار پر اسرار روحوں کی کمیں گاہیں
سلگتی ہیں سبھی راہیں
حسیں چہرے ہیں لیکن آنکھ سے شعلے ٹپکتے ہیں
خموشی کا حسیں جنگل ہے جس میں چلنے والوں کا
قدم دھرتی پہ پڑتا ہے تو پتے تھرتھراتے ہیں
بظاہر لفظ خوشبو ہیں
مگر آنکھوں میں آنسوں ہیں
مناظر درد سہتے ہیں
دبے لفظوں میں کہتے ہیں
ہوا اب کے برس بھی شہر زادوں پر قیامت ہے
یہی تیری محبت ہے
یہی میری کہانی ہے
کہانی گو پرانی ہے مگر سب کو سنانی ہے