آب و ہوا کا بدل تھا کہ سفر کی تکان اس کے سر میں درد شروع ہوا تھا. کافی کی طلب نے اسے بےچین کیا کہ وہ کمرے سے نکلا اور ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں چلا آیا. ایک خالی اور قدرے کونے میں میز منتخب کر کے اس پر بیٹھا اور کافی کا آرڈر دیا. ویٹر نے کھانے کا پوچھا تو سبھاؤ سے اسے منع کر دیا.
“سر.! شاید آپ غیرملکی کھانوں کی وجہ سے انکار کر رہے ہوں گے. لیکن ہمارے ہاں ہر طرح کا کھانا مل جائے گا آپ بس اپنی پسند بتائیے” اس نوعمر ملنسار سے جوان نے اصرار سے دریافت کیا.
“میں نے آپ سے کہا نا کہ کچھ بھی نہیں چاہیے. سفر کے بعد کافی دیر تک مجھ سے کچھ کھایا نہیں جاتا.” زرک جہاں خود کے اِس نرم رویّے پر حیران تھا. وہ بھلا کب اتنا نرم خُو تھا کہ بنا برا مانے اس سے بات کر رہا تھا.
“اس مبارک سفر پر آتے تو ساری بھوک پیاس ہی ختم ہو جاتی ہے. میں جب پہلے پہل یہاں آیا تھا تو ایسا ہی تھا.” وہ کہتا ہوا چلا گیا. اور زرک جہاں سوچنے لگا.
“مبارک سفر… اور میرا…؟؟؟” دل نے کہا:
“ہاں اگر وہ مل جائے تو سفر مبارک ہو ہی جائے گا.” کافی سرو کر دی گئی تھی. اس نے کپ اٹھایا تبھی دو لوگ کسی بات پر بحث کرتے قریب کے میز پر آ کر بیٹھے:
“دیکھو ابراهيم بیٹا.! دعا عبادت کا مغز ہے. اور اللّٰہ کو بڑا محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا مانگیں.”
“لیکن دادا ابّو.! جب اللّٰہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے تو وہ ہمیں بن مانگے کیوں نہیں دیتا. بنا سوال کیے ہی.؟”
“تاکہ جو چیز ہم مانگ رہے ہوں اسے پا لینے کے بعد اس کی قدر بھی کریں. کیونکہ اکثر بن مانگے مل جانے والی چیزوں کی یہ ناشکرا انسان قدر نہیں کرتا.” ان بزرگ نے بہت اچھی بات کہی تھی.
“اور بیٹا.! اللّٰہ کے اس بابرکت گھر میں، کہ جہاں ہر لمحہ رحمت برستی ہے کیا خوب ہو کہ تم گڑگڑا کے دعا مانگو.”
“کیا واقعی یہ سچ ہے کہ یہاں مانگی گئی ہر دعا قبول ہوتی ہے.؟” ان کی بات سن کر وہ خود سے مخاطب ہوا تھا.
“چلو آزماتے ہیں.” بل ادا کرکے وہ واپس کمرے میں چلا آیا تھا. بیگ سے سفید شلوار سوٹ نکال کر پہنا. صد شکر تھا اسید کا کہ جس نے اسے خود ہی کچھ شاپنگ کر دی تھی اور اس نے بنا سوال جواب کیے رکھ بھی لی تھی. وہ کمرے سے باہر نکلا اور پھر واپس آیا.
“وضو تو کیا ہی نہیں… میں نے سنا تھا کہ ایسی مقدّس جگہوں پر پاک صاف جاتے ہیں.” واش روم میں نل کھولے، بہتے پانی کے نیچے ہاتھ رکھے وہ بچپن میں سیکھا گیا وضو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا… لیکن صد افسوس کہ کافی کوشش کے بعد بھی وہ کچھ یاد نہ کر پایا. یاد آتا بھی کیسے؟ زندگی میں کبھی نماز یا قرآن پڑھا ہوتا تب نا. اس کے تمام کاغذات میں مذہب کے خانے میں اسلام درج تھا اس کا نام مسلمانوں والا تھا… بس اتنا ہی اسلام پتا تھا اسے مزید جاننے کی کبھی نہ ضرورت پیش آئی اور نہ ہی حاجت محسوس کی. یہ تو دل نے اسے سودائی کیا تھا کہ وہ اپنا ہوش تک گنوا بیٹھا تھا. منہ ہاتھ دھو کر واپس کمرے میں آکر بیڈ پر ٹک گیا. اور سوچنے لگا:
“میں کیسے مانگوں؟؟” تبھی نفس نے نئی راہ سجھائی.. گویا نفس پھر اڑ گیا.
“کیوں کیا اللّٰہ کو خبر نہیں کہ تم کس چاہ میں یہاں آئے ہو؟ اللّٰہ سب سنتا، دیکھتا اور جانتا ہے تو کیا اسے نہیں پتا کہ زرک جہاں کو کیا چاہیے..؟” اور اس کے دماغ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی تھی. ضد پر اتر آیا تھا. کہ جب بچپن سے اب تک ہر من چاہی چیز بنا مانگے دیتا آیا ہے تو آج بھی کیوں نہیں.؟ دل نے کہا “زرک جہاں مانگو… کہ کیا پتا مانگنے سے ہی عطا کیا جائے اللّٰہ کو بندوں کا خود سے مانگنا پسند ہے.” لیکن ضدی دماغ نے سن کر نہ دی.
“نہیں.. میں نہیں مانگوں گا. اسے سب خبر ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں تو اسے بنا مانگے دینا ہی ہوگا” دل نے چپ سادھ لی، وہ اس سمجھانے کی کوشش میں اب عاجز آ چکا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“مجھے نہیں معلوم آنٹی کہ زرک جہاں کو کیا ہوا ہے؟” بیگم اسفند جہاں کے پوچھنے پر وہ صاف مکر گیا. پہلے تو وہ انہیں اپنے آفس میں دیکھ کر ہی حیران ہو گیا تھا. کہ وہ اور وہاں… اور پھر ان کی بات سن کر حیران در حیران ہوا. بیگم اسفند جہاں سفید جھوٹ پر تلملا گئیں.
“وہ آج کل کس ملاّ کی صحبت میں رہا ہے اسید کہ عمرہ کرنے چلا گیا؟ اور آپ کو کچھ پتا ہی نہیں.” وہ اپنا غصہ دبا نہ پائی تھیں.
“آنٹی وہ ان دنوں مجھ سے نہیں ملتا تھا کجا کہ کوئی اور صحبت.!!؟؟ اور عمرہ کرنے کے لیے محض ویزے یا ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اور بھی بہت سے لوازمات ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا لازمی ہوتا ہے اور زرک جہاں کو کچھ پتا ہی نہیں.” وہ سوچ میں پڑ گئیں کہ واقعی اس نہج پر تو سوچا ہی نہیں تھا. “لیکن کوئی تو وجہ ہو گی ایک اسی جگہ جانے کی..؟” دوبارہ پوچھا گیا اب کے اسید چپ نہ رہا تھا.
“جی ہے کوئی وجہ.. لیکن میں معذرت خواہ ہوں کہ اس کی مرضی کے بغیر میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا.” اب کے وہ خفگی سے اٹھ کھڑی ہوئیں.. ان کا اندازہ صحیح تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے راز نہیں اگلتے تھے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
ؔ؎ تنگ آئے ہیں دو عالم تیری بیتابی سے.
چین لینے دے تپ سینۂ سوزاں ہم کو
زرک جہاں کے دل نے اسے گویا دشت کی خاک چھنوانے کا فیصلہ کرلیا تھا. وہ ابھی مسجد حرم پاک کی سرزمین پر قدم نہیں رکھ پایا تھا کہ اس پری وش کی دید کی پیاس بھڑکی تھی اور وہ ایسے تڑپا تھا جیسے کوئی مچھلی بنا پانی کے تڑپتی ہے. وہ سب چھوڑ چھاڑ الٹے قدموں واپس لوٹ آیا تھا. قیام منسوخ کروایا، اور ملنے والی پہلی پرواز پکڑ کر، رات کے تین بجے گھر پہنچا تو گارڈ کو چپ رہنے کا کہہ کر سامان اسے تھمایا گاڑی لیکر نکل کھڑا ہوا. دل کا یہ حال تھا کہ خود بےحال ہوا تھا.
ؔ؎ یاد میں جس کی نہیں ہوش تن و جاں ہم کو.
پھر دکھا دے وہ رخ، اے مہر فروزاں ہم کو
“میں اللّٰہ کے گھر جا کر اسے مانگ آیا، اب تو مل جائے گی وہ مجھے.” اپنی مخصوص جگہ پہنچ کر گاڑی کو بریک لگے تھے. دماغ عرش پر تھا کہ اُس جگہ پر ہو آیا اور مانگ آیا.
“مانگا کب تم نے زرک جہاں.! تم تو اللّٰہ سے ضد لگا کر واپس آئے.” دل نے دماغ کی خوش فہمی دور کی.
“ہاں تو ضد بھی اپنوں سے کی جاتی ہے اور اللّٰہ سے بڑھ کر کون اپنا ہوتا ہے.” دل حیران تھا کہ یہ کیا بول گیا تھا وہ، اور اسے پتا بھی نہیں چلا کہ کیا کہہ گیا ہے. دل نے خاموشی اختیار کر لی. وہ گاڑی سے باہر نکل کر کھڑا ہوا. صبح کا ستارہ بس نمودار ہونے کو تھا. سردی زوروں پر تھی وہ پینٹ شرٹ پر محض ایک جیکٹ پہنے ہوئے تھا لیکن پھر بھی سردی گرمی جیسے ہر احساس سے عاری تھا. تبھی اس نے دیکھا وہ پری رُو گھر سے نکل کر دبے قدموں چلتی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی. اس کی گہری آنکھیں زرک جہاں کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھیں.
؎ منظر منظر، عالم عالم آئے نظر بس تو.
دونوں ہی دم سادھے کھڑے تھے. وقت جیسے ساکن ہو گیا تھا، وہ اتنی قریب تھی کہ وہ ہاتھ بڑھا کر چُھو لیتا اور بس ایک بار ہاتھ سے محسوس کرنے کی خواہش اتنی منہ زور تھی کہ وہ خود کو روک نہیں پایا، ہاتھ بڑھا کر اس کے صبیح چہرے کی طرف لے گیا اور ابھی چُھوا چاہتا ہی تھا کہ وہ جو سراپا مجسّم تھی یک لخت روشنی کی طرح ہوا میں تحلیل ہو کر نگاہوں سے اوجھل ہوئی تھی.
ؔ؎ دیر سے آپ میں آنا نہیں ملتا ہے ہمیں.
کیا ہی خودرفتہ کیا جلوۂِ جاناں ہم کو.
اور زرک جہاں اپنی اس تخیل آفرینی پر ششدر رہ گیا کتنی ہی دیر بےحس وحرکت کھڑا رہا تھا.
یوسف محمد آج نماز سے آدھا گھنٹہ قبل نکلنے لگے تو زلیخا بی نے بھی حیران ہو کر جلدی جانے کی وجہ پوچھی وہ “ایسے ہی کوئی خاص وجہ نہیں” کہہ کر باہر آئے اور اسی جوان کو دیکھ کر ساکت رہ گئے. اس کے بےجان وجود میں انہیں دیکھ کر جنبش ہوئی تھی وہ گھر سے دو قدم ہی دور تھے جب وہ ان کے سامنے آ پہنچا. اور ادب سے انہیں سلام کیا اور کچھ توقف کے بعد پھر اپنی بات دہرائی. اس کی بیتابی اور دل کی تڑپ لہجے سے عیاں تھی. یوسف محمد نے بنا کچھ کہے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر کے سامنے لے جا کر دروازہ کھول کر اسے دکھایا. اور دید کی چاہ میں تڑپتے اس کے بےچین دل نے آنکھوں کے ہمراہ خود کو پیامبر بنا کر بھیجا تھا کہ شاید کاسۂِ دید میں دیدار کی جھلک بھیک کی طرح مل جائے. لیکن حیف قسمت پر کہ وہ نگاہ مایوس و نامراد ہو کر پلٹ آئی تھی.
ؔ؎ نہ گئی تاک جھانک کی عادت.
لیے پھرتی ہیں دربدر آنکھیں.
ماتم کناں دل نے یوسف محمد کو کہتے سنا:
“آپ کے محل نما گھر کے ایک کمرے جتنا تو صرف میرا گھر ہے یا شاید اس سے بھی چھوٹا.”
“اور اسی چھوٹے سے گھر میں زرک جہاں کی زندگی بستی ہے.” زرک جہاں نے بند دروازے کو دیکھ کر سوچا تھا. اور ان کی بات پر کان دھرے.
“کبھی کبھی تو وہ اس چھوٹے گھر میں بھی گم جاتی ہے اور مجھے بار بار بلانے پر ہی ملتی ہے. تو آپ کے محل میں تو وہ بالکل ہی لاپتا ہو جائے گی. بلانے پر بھی نہیں ملے گی… تو میں اور میری نمانی بیوی تو زندہ درگور ہو جائیں گے.” زرک جہاں کچھ بول نہ پایا تھا. کہتا بھی کیا.؟
“نہیں پتر.! ایک اس کے علاوہ ہم غریبوں کے پاس اور کوئی ایسی دولت بھی تو نہیں کہ جس کا خیال ہو اور ہم زندگی کریں. ہمیں معاف کر دو، مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگ سکتا.”
“لیکن سر.! آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں پلیز. میں بھی اب اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.” لگتا تھا وہ ابھی رو دے گا. لیکن انہوں نے ان سنی کر دی اور بولے:
“اس کا رشتہ طے ہے. جلد ہی شادی ہوکر چلی جائے گی. آپ سے گزارش ہے کہ بار بار یہاں مت آیا کریں. کسی کو ذرا سی بھی بھنک پڑ گئی تو میری دھی رانی کی زندگی مشکل ہو جائے گی.” انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا لیکن اس نے نہیں سنا. ذہن میں فقط ایک جملے نے طوفان برپا کیا تھا.
“اس کا رشتہ طے ہے.” وہ کیسے گاڑی تک پہنچا کیسے گاڑی اسٹارٹ کی اور کس حال میں وہاں سے چلا کچھ خبر نہیں تھی نہ ذہن کام کر رہا تھا نا دل کو کچھ سوجھ رہا تھا. تبھی ساری فضا ایک دھماکے کی خوفناک آواز سے گونج اٹھی تھی.
اور دوسری طرف اسی چھوٹے سے گھر میں وہ پری وش کسی خوف کے زیرِ سایہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی. دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں. آنکھیں وحشت زدہ ہرنی کی مانند خوف سے پیلی پڑ گئی تھیں. اسے محسوس ہوا جیسے دل کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹ گیا ہو.
ؔ؎ بساط بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش ، سبو چپ ، اداس پیمانے.
یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لوٹ لیا.
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے.
بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا.
مری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“حورعین پتر.! کیا ہوا بچے” اس کے اس طرح اٹھنے پر زلیخا بی بھی پریشان ہو گئی تھیں.
“کچھ نہیں امّاں.! بس دل بہت گھبرا رہا ہے. اندر ہی اندر ڈوب رہا ہے.” اس نے دو تین گہری گہری سانسیں لیں. زلیخا بی نے دیکھا اس کا رنگ ہلدی کی مانند زرد ہو رہا تھا. وہ مصلی چھوڑ کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں. اور تینوں قل اور آیت الکرسی کا ورد کرکے اس پر پھونکنے لگیں.
“خواب میں ڈر گئی ہو گی. اللّٰہ خیر کرے” اس کا سر سینے سے لگاتے انہوں نے اسے دلاسا دیا.
” نہیں اماں خواب نہیں تھا یوں لگ رہا تھا جیسے میں کسی گہری کھائی میں گر رہی ہوں.” لہجہ خوف کا غماز تھا. “درود شریف پڑھ پتر. اللّٰہ رحم کرے گا.” وہ آنکھیں بند کرتے بھی خوف محسوس کر رہی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے اب بھی آنکھیں بند کیں تو پھر کچھ ہو جائے گا. درود شریف کا ورد کرتے کرتے کب آنکھیں بند ہوئیں کب ہوش و خرد کا دامن چُھوٹا اسے کچھ خبر نہ ہوئی. زلیخا بی کو اس کا سر تکیے پر رکھتے پتا چلا کہ اس کا وجود بخار میں جل رہا تھا. “یاالٰہی خیر.! کیا ہو رہا ہے میری دھی کو.؟” وہ وہیں بیٹھے اس کے لیے تادیر دعا مانگے گئیں یہاں تک کہ سورج کی پہلی کرن چمکی تھی.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
اسفند جہاں کی آنکھ موبائل کی رنگ سے کھلی تھی. انہوں نے ٹیبل لیمپ آن کرکے رسٹ واچ سے ٹائم دیکھا اور بےتحاشا بجتا فون اٹھایا کوئی رانگ نمبر تھا انہوں نے یس کی کو ٹچ کیا.
“اسفند جہاں اسپیکنگ.!” قدرے بارعب اور غصیلی آواز میں کہا
“انسپکٹر راحیل اسپیکنگ.!” دوسری جانب سے تعارف سن کر وہ سیدھے ہو بیٹھے: “یہاں ایک ایکسیڈنٹ ہوا ہے. بلیک لینڈ کروزر، نمبر ہے..” دوسری جانب سے گاڑی کا نمبر دہرایا جانے لگا.
“یہ میرے بیٹے کی گاڑی ہے” انسپکٹر کی بات کاٹ کر بیتابی سے بولے.
“آپ کے بیٹے کو ہاسپٹل منتقل کر دیا گیا ہے. آپ وہاں رابطہ کر لیجیے.” انسپکٹر نے ہاسپٹل کا نام بتا کر فون بند کر دیا. ان کی آنکھوں سے نیند اُڑ گئی یہ سوچ کر کہ زرک جہاں تو پاکستان تھا ہی نہیں. وہ کب آیا؟ اور کس وقت گاڑی لے کر نکل کھڑا ہوا؟ کہ گارڈ کو بھی پتا نہیں چلا. لیکن یہ وقت گارڈ کو جھاڑنے یا اس کے آنے پر بحث کرنے کا نہیں تھا. وہ چینج کرکے آئے اور اسید کا نمبر ملانے لگے اسی اثناء میں شیریں جہاں کی آنکھ کھل گئی تھی.
“آپ اس وقت کہاں جا رہے ہیں؟” فون کان سے لگائے انہوں نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا کال ریسیو کر لی گئی تھی.
“اسید، زرک جہاں پاکستان کب آیا؟” بیگم اسفند بھی اٹھ بیٹھیں. اور توجہ سے سننے لگیں.
“آپ کو بھی نہیں معلوم.. پتا نہیں اس لڑکے کے دل میں ہے کیا.”آخری جملہ انہوں نے خودکلامی کے سے انداز میں کہا تھا.
“بہرحال تم ہاسپٹل پہنچو. اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے.” ان کا لہجہ فکر اور پریشانی سے پر تھا کہ جانے کس حال میں ہوگا اسید کی رہی سہی نیند اُڑ گئی تھی وہ اچھل ہی تو پڑا تھا. جبکہ شیریں جہاں بھی اضطراری کیفیت میں اٹھ کر ان کے پاس چلی آئیں.
“کب ہوا؟ کیسے ہوا؟وہ ٹھیک تو ہے نا.! وہ پاکستان کب آیا؟” ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھے.
“ریلیکس شیریں.! مجھے نہیں پتا کیا کب اور کیسے؟؟؟ میں ہاسپٹل جا کر ڈاکٹر سے ملنے کے بعد ہی کچھ بتا سکتا ہوں تب تک تم گارڈ سے پوچھو.” وہ اسی شب خوابی کے لباس میں نکلنے لگیں کہ اسفند جہاں نے ان کے حلیے کو ناگواری سے دیکھا اور چینج کرنے کا کہہ کر خود باہر نکل گئے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
آندھی طوفان کی طرح گاڑی بھگاتے اسید ہاسپٹل پہنچا کبھی تو اسے لگا کہ وہ خود کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے. پر صد شکر کہ ایسا کچھ نہ ہوا تھا. وہ اور اسفند جہاں ایک ساتھ ریسیپشن پر پہنچے. اور وہاں سے آئی سی یو تک.. جہاں ڈاکٹر نے انہیں اس سے ملنے سے روک دیا.
“کیسا ہے وہ؟ ایکسیڈنٹ سیریس تو نہیں ہوا؟” اسید کانپتی آواز میں پوچھ رہا تھا. سانس سینے میں اٹکی تھی.
“جو لوگ اسے یہاں لائے تھے ان کا کہنا تھا کہ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود ہم سب حیران ہیں اور اللّٰہ کی قدرتِ کاملہ کے قائل ہوئے ہیں کیونکہ اسے معمولی سی خراشوں اور ہلکی سی سر کی چوٹ کے علاوہ کوئی سنجیدہ نوعیت کا زخم نہیں آیا.” اسید کی اٹکی سانس بحال ہوئی تھی.
“بس ابھی کوئی شدید ذہنی دھچکا لگا ہے انہیں شاید. جس کی وجہ سے سکون آور ادویات دی گئی ہیں. لیکن خدا کا شکر کیجیے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے.” ڈاکٹر نے انہیں مژدہ جانفزا سنایا اور ملنے کا عندیہ دیا. جبکہ اسفند جہاں کا دماغ ایک ہی فقرے میں اٹکا تھا.
“شدید ذہنی دھچکا…” اسید نے دیکھا وہ عجیب مشکوک سی نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے. اس سے پہلے کہ نظر میں پنہاں سوال زبان تک آتا وہ زرک جہاں کو دیکھنے چلا گیا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“تم نے ہمیں بتایا کیوں نہیں کہ زرک جہاں گھر آ گیا ہے؟ کہاں تھے تم جب وہ گاڑی لے کر گیا؟” بیگم اسفند جہاں گارڈ پر برس رہی تھیں اور اس کی کسی وضاحت اور صفائی کو خاطر میں نہیں لا رہی تھیں. جو بار بار یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ زرک جہاں نے خود اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا. ان کے سیل فون پر آنے والی کال نے گارڈ کی جاں بخشی کروائی تھی.
“زرک جہاں کو ٹھیک ہو لینے دو پھر کرتی ہوں تم سب کا بندوبست.” پہلے کی نسبت اب کے ان کا لہجہ نرم تھا اور تناؤ بھی کافی کم تھا.
اگلے تین دنوں میں زرک جہاں ڈسچارج ہو کر گھر آ گیا تھا. اگرچہ سر درد اور بخار نے ابھی بھی پیچھا نہیں چھوڑا تھا لیکن اس کا دل اب ہاسپٹل کے ماحول سے اوب گیا تھا لہٰذا اس کی ذہنی حالت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے اسے گھر جانے کی اجازت دے دی تھی. اسید اس کے ساتھ ساتھ تھا اور ابھی بھی بس کسی کام سے کمرے سے نکلا جب بیگم اسفند جہاں اس کے پاس آئیں اور بولیں:
“میں یہ نہیں پوچھوں گی کہ تم واپس کب آئے تھے، لیکن یہ ضرور جاننا چاہوں گی زرک جہاں! کہ شہر کے اس دور دراز اور پسماندہ علاقے میں رات کے اس وقت کیا کرنے گئے تھے تم؟” اس نے کرب سے آنکھیں بند کیں اور جھٹک کر اسی پل کھول دیں.جلن اتنی تکلیف دہ تھی کہ وہ آنکھیں کھولے رکھنے پر مجبور تھا.
“ایسا کیا ہوا ہے زرک جہاں جو تمھیں یوں پل پل بےچین رکھنے لگا ہے.”
“ایسا کچھ نہیں ہے ممّی.” وہ بمشکل بولا اور یہ ایک جملہ کہنے میں اسے گویا صدیاں لگیں تھی.
“میں نہیں مانتی زرک جہاں کہ کچھ نہیں ہے. اسید تک جانتا ہے لیکن منہ نہیں کھولتا.” اپنا نام سن کر اسید وہیں دروازے میں رک گیا.
” اور نہ ہی تم کچھ بتاتے ہو، بس اندر ہی اندر گُھل رہے ہو. مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟”
” اس کا رشتہ طے ہے صاحب.” ایک جملے کی صدا ذہن میں کیا گونجی کہ وہ بیقرار ہو اٹھا تھا اور شیریں جہاں کے دونوں ہاتھ تھام کر بولا:
“ممّی.! بچپن سے لے کر آج تک آپ نے میری ہر خواہش پوری کی ہے. مجھے میری پسند کی ہر چیز لا کر دی ہے تو اب بھی لا دیں ممّی.” تڑپ، بیقراری اور اضطراب کیا کیا کچھ نہیں تھا اس کے لہجے میں.
“ممّی میں اب اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا. میں مر جاؤں گا آپ پلیز مجھے…” اس کی آواز رندھ گئی تھی. حلق میں آنسوؤں کا گولہ پھنسا تھا.
“کون ہے وہ.؟” اتنا تو وہ سمجھ ہی چکی تھیں کہ کسی کے عشق میں ہی وہ اس حال کو پہنچا تھا، لیکن یہ بھی سچ تھا کہ انہیں زرک جہاں سے اس شدت کی توقع نہیں تھی. وہ تو لڑکیوں سے دور بھاگنے والا مرد تھا. ایسا کیا تھا اس لڑکی میں کہ وہ اس حال کو آ گیا تھا.
“میں نہیں جانتا کون ہے؟ کیا نام ہے اس کا.. میں بس یہ جانتا ہوں ممّی کہ میری زندگی اس سے وابستہ ہے. آپ کو اسید لے جائے گا اس کے گھر” اتنا کہہ کر اس نے اسید کو آواز دی. وہ دروازے کے پیچھے کھڑا تھا ذرا حیران نہ ہوا کہ زرک جہاں کو اس کی موجودگی کا علم کیسے ہوا؟ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ان کے دل کے تار آپس میں جڑے تھے اور خوشبو کی طرح انہیں ایک دوسرے کا پتا دیتے تھے. کچھ سوچ کر وہ اسی وقت اسید کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئیں. اور زرک جہاں نے ان کے جاتے ہی گھڑیاں گننا شروع کر دیں. ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو رہا تھا. دل اچانک اللّٰہ سے ہم کلام ہوا تھا.
“اللّٰہ یہ کیسی بےبسی ہے کہ میں یہاں اس پری وش کے فراق میں گُھل رہا ہوں لمحہ لمحہ جان سے جا رہا ہوں اور وہاں اسے خبر ہی نہیں، وہ تو کتنے سکون سے اپنی زندگی گزار رہی ہو گی. کیوں اللّٰہ کیوں؟ سب مخلوقات کا خالق و مالک تو تو ہی ہے نا مولا. تجھے تیرے سب بندے عزیز ہوتے ہیں. بھلے وہ نیک ہو یا گنہگار، تیرے نام لیوا ہوں یا تیرے وجود کے منکر.. تُو تو سب کی سنتا ہے سب کو نوازتا ہے. بنا مانگے بھی اور مانگ کر بھی. تو مجھے کیوں نہیں.؟ جب تُو اپنے بندوں کا دکھ درد دور کرتا ہے تو پھر بتا اے اللہ! کہ یہاں میں اتنا بےچین ہوں، مر رہا ہوں اور وہاں اسے کوئی خبر ہی نہیں کہ کوئی اپنی جان تک وارنے کو تیار ہے اس پر… جب کہا جاتا ہے کہ عشق کی آگ دو دلوں میں یکساں بھڑکتی ہے تو پھر یہ آگ صرف مجھے ہی کیوں جلا رہی ہے؟ نارسائی اور ہجر کا درد صرف مجھے ہی کیوں سونپا گیا ہے؟” وہ شکوہ کناں تھا. بلک رہا تھا.
؎ شاہوں کا شاہ عشق ہے، صدر ِصدور عشق.
دربارِ دل میں تخت نشیں ہے حضور عشق.
اس حسن خوش ادا کی تجلی میں یوں لگا.
موسی ہوں، لے گیا ہے، سر کوہ طور عشق.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
آج چار دن ہو گئے تھے حورعین کا بخار ہی اترنے میں نہ آ رہا تھا. اس کا دل اندر ہی اندر انجانے غم میں گھلتا جا رہا تھا. تین دن سے آنکھیں نیند کو ترس رہی تھیں. چند ہی دنوں میں رنگ کملا گیا تھا. زلیخا بی اور یوسف محمد کی تو جان پر بنی ہی تھی ہادیہ بھی پریشان ہو اٹھی.
“کیا ہوا ہے تمہیں حورعین.؟ ڈاکٹر کہتا ہے کوئی غم لاحق ہے. خدارا مجھے تو بتا دو. دیکھو چچا یوسف اور زلیخا چچی نے تین دن سے ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا. تمہارے درد میں گھل رہے ہیں دونوں.” ہادیہ اسے بہلا پھسلا کر بولنے پر آمادہ کر رہی تھی. وہ خود سمجھ پاتی تو اسے بتاتی. اس کے ہاتھ تھام کر رو پڑی اور فقط اتنا بولی:
“مجھے نہیں پتا ہادیہ کہ کیا ہو گیا ہے مجھے. ایسا لگتا ہے دل کو اندر ہی اندر کوئی مسل رہا ہے. ہر لمحہ کچھ اجنبی سی صدائیں ذہن و دل کے دریچوں میں گونجتی رہتی ہیں. مجھے نہیں پتا کہ میرے ساتھ پچھلے چار پانچ دن سے کیا ہو رہا ہے. خدا کی قسم ایک لمحے کے لیے نہ سو پاتی ہوں نہ سکون ہی ملتا ہے.” آتشِ عشق نے دونوں ہی جانب یکساں آگ بھڑکا دی تھی بس اتنا تھا کہ دوننوں ہی اس بات سے بےخبر اس آگ میں جل رہے تھے.
؎ اس بار سامنا تھا سلیمان کا تجھے.
بلقیس! اب بھی ہونا تھا تجھ کو ضرور عشق.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
بیگم اسفند جہاں نے نہایت ناگواری اور حقارت سے اس جگہ کو دیکھا جہاں اسید نے گاڑی روکی تھی. گندگی اور غربت… سارا راستہ وہ دنیا جہان کی بیزاری چہرے پر سجائے خاموش رہی تھیں لیکن اب بولے بنا رہ نہ پائیں:
“اوہ میرے خدایا.! اس گندی جگہ پر آنے والا مزاج نہیں تھا زرک جہاں کا اسید… اسے یہاں کا پتا کس نے دیا.” وہ خود خواب میں بھی وہاں آنے کا تصوّر نہیں کر سکتی تھیں کجا کہ حقیقت میں… لیکن اسید کی صرف ایک بات نے پل بھر کو ان کی ساری تیزی و طراری ہوا کر دی تھی.
“یہاں کا پتا زرک جہاں کو اُسی تقدیر نے دیا تھا آنٹی جو تقدیر آج آپ کو یہاں تک لے آئی ہے.”
“میں تو ایک منٹ یہاں کھڑا ہونا پسند نہ کروں. اور زرک جہاں یہاں…” ناگواری سے کہتے انہوں نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی اور گھر کا پوچھا.
“وہ سامنے والا گھر ہے آپ ہو آئیے میں یہں آپ کا انتظار کرتا ہوں.” گاگلز آنکھوں پر چڑھا کر اس نے گاڑی سے ٹیک لگا لی. جانتا تھا کہ وہ ابھی کچھ ہی دیر میں واپس آ جائیں گی. انہوں نے اس گھر کی جانب انتہائی حقارت سے دیکھا اور طوہاً و کرھاً قدم اس گھر کی جانب بڑھائے ایک ایک قدم پر وہ ان لوگوں کی غربت اور اس گندگی پر لعنت بھیجتی آئی تھیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی اپنی امیری اور ان لوگوں کی غریبی میں ان سب کا اپنا کوئی اختیار نہیں تھا یہ سب تو قدرت کی تقسیم تھی کہ جو کسی کو کم دے کر تو کسی کو زیادہ دے کر آزماتا ہے، . ہاتھ کی دو انگلیوں کے ناخن استعمال کرتے ہوئے انہوں نے کچھ نزاکت اور اندرونی غصّے کو قابو لاتے دروازہ بجایا اور ساتھ ہی دروازے کو اندر کی جانب دکھیل دیا. بنا کواڑ کے لگا دروازہ چررررر کی آواز سے کھلتا چلا گیا. وہ بنا اجازت اندر داخل ہوئیں. انہوں نے کبھی اپنے گھر میں اجازت لینا گوارا نہیں کی تھی تو یہاں اس معمولی سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینا کیسے خاطر میں لاتیں. ہائی ہیل کی ٹِک ٹِک اور قیمتی پرفیوم کی مہک جلدی ہی اس محتصر سے مکان میں چارسسُو پھیل گئی. زلیخا بی اور یوسف محمد حیرت اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات لیے صحن میں کھڑے تھے. اور سوالیہ نگاہوں سے کبھی ایکدوسرے کو تو کبھی اس امیر و کبیر خاتون کو دیکھتے، جو شاید نہیں بلکہ یقیناً غلطی سے ان کے گھر میں آ گئی تھی. بیگم اسفند جہاں نے ایک ہی نظر میں ان دونوں میاں بیوی کا اور ان کے گھر کا جائزہ لے کر ان کی معاشی و مالی حالت کا اندازہ کر لیا تھا. کچی پکی اینٹوں سے بنا چھوٹا سا صحن اور جگہ جگہ سے اکھڑے پلستر والی گندی دیواریں. ایسے گھر تو ان کے ملازمین کے نہیں تھے.
“میں آپ کی بیٹی کو دیکھنا چاہتی ہوں.” بنا کوئی لگی لپٹی رکھے، یا بنا کسی تمہید کے انہوں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا. غصّے کی ایک لہر تھی جس نے یوسف محمد کے دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا.
“معاف کیجیے گا بیگم صاحبہ.! وہ میری بیٹی ہے کسی نمائش میں رکھی کوئی تصویر یا کٹھ پتلی کا تماشا نہیں کہ کوئی بھی ایرا غیرا منہ اٹھا کر آئے اور اسے دیکھنے کی فرمائش کرے.” نپے تلے لفظوں میں ان کی شخصیت، ظاہری آن بان سے متاثر ہوئے بغیر یوسف محمد نے انہیں کہا تھا. کیا ہوا جو وہ غریب تھے، کیا ہوا جو معاشی اور مالی خوشحالی نصیب نہیں تھی. لیکن وہ باپ تھے. اپنی لاڈلی بیٹی کے غیرت مند باپ. یہ سب تو آنی جانی چیز تھی. انہیں اس سب کی پروا بھی نہیں تھی. لیکن حورعین کے معاملے میں وہ بادشاہ تھے. حورعین ان کے اس چھوٹے سے گھر کی شہزادی تھی اور بچپن سے لے کر آج تک انہوں نے اپنی چادر میں رہ کر ایک شاہ کی طرح ہی اس کے سب لاڈ اٹھائے تھے. تو آج یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ کسی کو بھی اپنی شہزادی کی تحقیر کرنے دیتے. بیگم اسفند جہاں نے غصّے اور تحیّر سے اس مرد کو دیکھا جو اس درجہ غربت کے باوجود کس شان سے اپنی بیٹی کے حق میں بول رہا تھا. “کیا چیز ہو گی وہ لڑکی کہ جس کے لیے یہاں اس کا باپ دیوانہ تھا اور وہاں ان کا اپنا بیٹا موت کی دہلیز کو چُھو آیا تھا.” اس لڑکی کو بس ایک نظر دیکھ لینا ناگزیر ہوا تھا. یوسف محمد کا قطعاً کوئی ارادہ نہ تھا انہیں حورعین سے ملوانے کا لیکن کیا کیا جائے اس تقدیر کا، جو خود آگے بڑھ کر سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر سب فیصلے سناتی ہے. گھر کے اکلوتے کمرے میں نیم خوابی کی سی کیفیت میں لیٹی حورعین کا دل اکیلے اکتا گیا تو وہ ان دونوں کو آواز دیتی باہر آئی. بخار کا زور ٹوٹ چکا تھا لیکن کچھ نقاہت ابھی باقی تھی. جہاں وہ ایک اجنبی خاتون کو دیکھ کر ٹھٹکی تھی وہیں بیگم اسفند جہاں کو بھی اسے دیکھ کر سکتہ ہوا تھا. “کیسے کیسے قیمتی لعل غریب کی کٹیا میں ہوتے ہیں.؟” ان کے دل نے سرگوشی کی تھی. وہ حقیقتاً گدڑی کا لعل تھی. سرتاپا سانچے میں ڈھلی ہوئی. گہرے نیلے رنگ کے ملگجے سے لباس میں بھی اس کا رنگ روپ لشکارے مار رہا تھا. ذرا نک سک سے تیار ہوگی تو کیا عالم ہوگا. گوری رنگت گویا دودھ میں گلاب کی پتیاں گھول دی گئی ہوں. کیا آنکھیں کیا ہونٹ اور کیا ناک نقشہ…وہ سراپا حسن کا مکمل شاہکار تھی. انہیں ساری تشبیہات اور سب استعارے بھول گئے تھے کہ جو وہ اس کے مکمل حسن کو سامنے رکھ کر بولتیں. ذہن مرعوب تھا اور زبان گنگ. یوسف محمد کی آواز پر وہ ہوش میں آئیں جو بیٹی سے مخاطب تھے:
“حورعین پتر.! تو اندر جا کر بیٹھ،” وہ اپنے نام کا پرتو تھی اسم بامسمی. انہوں نے سوچا اور یوسف محمد کی بات پر کان دھرے.
“اب آپ چلی جائیے بیگم صاحبہ. میری بچی پہلے ہی تین دن بعد آج بخار سے ہوش میں آئی ہے کہیں آپ کی کسی بات پر دوبارہ ہی…” وہ بات مکمل نہ کر پائے.
“کب سے بیمار ہے یہ؟ کیا ہوا؟” انہیں خود پتا نہیں چلا کہ وہ یہ سب کیوں پوچھ رہی ہیں.
“تین دن پہلے صبح فجر کے وقت سے بخار میں تپ رہی ہے. اور کوئی بات بھی نہیں جانے کس غم میں مبتلا.” جذبات میں بولتی زلیخا بی کو یوسف محمد نے نرمی سے روکا اور پھر ان سے جانے کی التجا کی. اب کی بار وہ گہری سوچ میں گم وہاں سے نکل آئی تھیں.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
اسید نے انہیں دیکھتے ہی گاڑی اسٹارٹ کی تھی وہ اس کی توقع سے زیادہ وقت لگا کر آئیں تھی.
“اسید.! تم اس کا نام جانتے ہو کیا؟” گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے پوچھا تھا.جواباً اس نے وہاں آنے کا سارا قصّہ کہہ سنایا تھا. انہوں نے ایک گہری سانس خارج کی اور بولیں.
“وہ لڑکی حقیقتاً اپنے نام کا پرتو ہے حورعین… جیسا نام ویسا روپ.” اسید اس کایا پلٹ پر حیران تھا وہ اتنی جلدی کسی سے متاثر ہونے والوں میں سے نہیں تھیں.
“میں ایک عورت ہو کر اس کے رعبِ حسن سے مرعوب ہو گئی ہوں تو سوچو کہ زرک جہاں کا کیا حال ہوا ہو گا.” وہ عجیب سی کشمکش کا شکار تھیں.
“اس کا حال ہم سب کے سامنے ہے آنٹی.” گاڑی کو یوٹرن دیتے اس نے یاد دہانی کروائی. انہوں نے سر جھٹکا تھا اور اسید سمجھ گیا تھا کہ وہ اب صرف زرک جہاں کو قائل کریں گی کہ اس لڑکی کا خیال دل سے نکال دے. بھلے وہ ایک ماں تھیں بیٹے کے لیے محبت بھی رکھتی تھیں لیکن اِس سب سے پہلے وہ شیریں اسفند جہاں تھیں، جن کا سوسائٹی میں ایک نام تھا ایک نمایاں حیثیت تھی یہ کیونکر ممکن تھا کہ صرف بیٹے کی محبت سے مغلوب ہو کر وہ اسٹیٹس اور سوسائٹی سب فراموش کر دیتیں. حورعین کے پاس صرف حسن ہی تھا اور ایسا حسن ڈھونڈے سے انہیں اپنے ہم پلّہ لوگوں میں مل ہی جانا تھا. اور حسن و خوبصورتی کا کیا ہے ایک نہ ایک دن ڈھل ہی جاتا ہے باقی تو حسب نسب نام اور جاہ و حشمت ہی رہتی ہے. اور حورعین کے پاس کچھ بھی تو نہیں تھا. باقی کا راستہ نہایت خاموشی سے کٹا تھا.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“کون تھیں یہ.؟” زلیخا بی نے شوہر سے پوچھا ذہن میں کتنے وسوسے سر اٹھا رہے تھے. یوسف محمد نے زرک جہاں سے ہوئی دو مختصر ملاقاتوں کا حال کہہ سنایا تھا. حتی المقدور آواز نیچی رکھی کہ کہیں حورعین نہ سن لے لیکن اس چھوٹے سے گھر میں ہوا کی شرارت تھی جو ساری بات اس کے کانوں میں کہہ گئی تھی. اس کی دھڑکن تیز ہوئی تھی اور پردۂِ چشم پر ان دو سیاہ آنکھوں کا عکس لہرایا تھا. اور آج اسے اپنے دل کی بےچینی اور خانہ ویرانی کی وجہ سمجھ آئی.
“یاالٰہی. اس اجنبی کے عشق کی آگ میرے وجود میں بھی لگا دی تُو نے.. ھائے کیا کروں؟ کیوں کیا یہ سب… کیوں اس روز نگاہ اٹھائی تھی… کیوں مولا کیوں؟؟؟ کہا تھا نا کہ میں بہت کمزور اور ناتواں ہوں اتنا بوجھ نہیں سہار سکتی.” بےبسی اور بےکلی کے احساسات سے مغلوب وہ تکیے پر سر پٹک کر بلک بلک کر روئی تھی.
ؔ؎ عشق ہے ازل سے اپنے اصولوں پہ قائم.
امتحاں جس کا بھی لیتا ہے رعایت نہیں کرتا.
**،،،***،،،***،،،***،،،***،،
اسید انہیں ڈراپ کر کے کسی ضروی کام کا کہہ کر گاڑی نکال لے گیا تھا. وہ سیدھی اپنے کمرے میں گئی تھیں فی الوقت ان کا زرک جہاں سے بات کرنے کا کچھ ارادہ نہیں تھا. وہ مناسب الفاظ جمع کر رہی تھیں جن سے اسے قائل کیا جا سکتا.
“ممّی آپ واپس بھی آ گئیں اور مجھے بتایا تک نہیں.” وہ دستک دے کر اور اجازت کا انتظار کیے بنا ہی اندر داخل ہوا تھا “وہ تو میں نے اسید کو فون کیا کہ اتنی دیر ہو گئی آئے نہیں تو اس نے بتایا.”
“میرے نمبر پر کال کر لینی تھی.” انہوں نے کمال مہارت سے اپنے اندرونی تفکرات کو چھپایا. کمال کا فنکار گھرانہ تھا ان سب کا بھی، خود ایک دوسرے سے ہی اپنا آپ چھپاتے پھرتے تھے.
“پہلے آپ کا نمبر ہی ملایا تھا، وہ شاید آف….” زرک جہاں نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی.
“آں ھاں… بیٹری لو ہو گی بیٹا..” اب کے وہ تاثرات چھپا نہیں سکی تھیں. کہ فون تو گھر داخل ہوتے وقت انہوں نے خود آف کیا تھا.
“بیٹری کم تھی یا آپ فی الحال میرا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھیں ممّی؟.” اس کا لہجہ عجیب سا تھا. وہ شرمندہ سی ہو گئیں.
“آپ گئیں تھیں نا وہاں؟؟؟” اس نے بےیقینی سے پوچھا.
“ہاں گئی تھی… لیکن زرک جہاں تمہیں کیا دکھائی دیا وہاں..؟؟؟” وہ زیادہ دیر خود پر قابو نہیں رکھ سکتی تھیں سو اب بھی ان کے لہجے میں وہی مخصوص نخوت عود آئی جو ان کے مزاج کا خاصہ تھی.
“شاید آپ وہ دیکھ ہی آئی ہوں گی جو میں نے بھی دیکھا وہاں.” زرک اتنا کہہ کر گلاس ونڈو کے پاس آ کھڑا ہوا اور بلائنڈز ہٹا کر باہر کا نظارہ کرنے لگا.
“زرک جہاں.! اس گندگی اور غربت زدہ ماحول میں کیسے پہنچ گئے تم؟ مجھے تو ابھی بھی سوچ کر کراہیت ہو رہی ہے… اف… اتنی بُو اتنی گندگی..” انہوں نے کراہت سے ایسے سر جھٹکا جیسے ابھی بھی وہیں موجود ہوں. اگرچہ اتنا سب تھا بھی نہیں جیسے وہ بیان کر رہی تھیں.
“اس کا مطلب ہے ممّی آپ نے وہ دیکھا ہی نہیں جو میں نے دیکھا.” اس کی نظریں ڈوبتے سورج کو حِصار میں لیے ہوئے تھیں.
“ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ ہم وہی دیکھتے ہیں جو ہمارا دل اور دماغ ہمیں دکھاتا ہے، جیسے خانۂِ خدا میں جا کر کچھ لوگ صرف خانہ کعبہ دیکھتے ہیں اور کچھ باطن کی آنکھ سے اسی گھر کے مالک کو دیکھ لیتے ہیں.” اس کی آنکھیں سورج کا مکمل عکس لیے ہوئے تھیں.
“وہاں جا کر آپ نے وہی دیکھا جو آپ دیکھنا چاہتی تھیں اور مجھے وہی دکھایا گیا جو میرے دیکھنے کو رقم کیا گیا تھا.”
“زرک جہاں.!” بیگم اسفند جہاں نے زور سے اس کا بازو جھنجھوڑا تھا “یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟” پریشانی ان کی آواز سے مترشح تھی وہ چونکا. سورج ڈھلنے پر، جیسی بےبسی اندھیرے کو گود لیتے زمین کے مقدر میں آتی ہے. ایسی ہی بےبسی سے اس وقت زرک جہاں کا چہرہ زرد ہوا پڑا تھا.
“آپ کو نہیں لگتا ممّی کہ ہم سب انسان اس تقدیر کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح ناچتے ہیں؟” ان کا سوال ان سنی کرکے اس نے اور ہی بات کی. “یہ ہماری ڈور ہاتھ میں لیے جیسے جی میں آتا ہے، جدھر کو اِس کا دل کرتا ہے موڑتی اور چلاتی ہے. بظاہر ہمیں سارے اختیارات حاصل ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ہم اس کی رضا کے بغیر اپنا ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے.” انہیں اس کی باتوں سے خوف محسوس ہونے لگا تھا.
“اب دیکھیں نا.. میرا اس جگہ جانا.. ایک بار نہیں کئی کئی بار جانا… آپ کا بھی وہاں جانا گویا سب طے تھا، لیکن.. لیکن ممّی ہمیں پتا کیوں نہیں چلتا کہ کیا ہے ہمارے مقدر میں؟ یہ تقدیر ہماری ہی زندگی کے بارے میں اتنی سفاکی اور بےرحمی سے فیصلے کیونکر کرتی ہے؟؟ فیصلے کا اختیار ہمیں ہی کیوں نہیں دیا جاتا؟”
“زرک جہاں ہوش میں آؤ”اب کے انہوں نے پہلے سے زیادہ زور سے اس کا کندھا ہلایا تھا.
“زرک جہاں.! تم ہوش میں تو ہو؟”
“مجھے لگتا ہے کہ میں اب کبھی ہوش میں نہیں آؤں گا.”
“زرک جہاں.! ہمارا اور ان کا کوئی جوڑ نہیں ہے بیٹا.. ان کا حسب نسب، نام شہرت پیسہ کچھ بھی تو ہمارے ہم پلّہ نہیں ہے.” اپنے تئیں انہوں نے اسے سمجھایا تھا لیکن وہ سمجھنے اور سمجھانے کی حدود سے بہت آگے نکل چکا تھا.
“مجھے یہ سب چاہیے بھی نہیں ممّی.! مجھے صرف وہ چاہیے جس کے بغیر اب ساری زندگی بےمعنی لگتی ہے.” اس کے جواب نے انہیں سرتاپا جلا کے رکھ دیا تھا.
“ابھی ہر شے دسترس میں ہے اسی لیے اس سب کی قدر نہیں ہے جب پاس کچھ نہیں ہوگا تب احساس ہوگا کہ محبت اور عشق بھی بھرے پیٹ کی باتیں ہوتی ہیں”
“آپ سمجھتی ہیں کہ میں محض لفاظی کر رہا ہوں؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں قول سے زیادہ عمل کا قائل ہوں، آپ جو بھی سمجھیے ممّی! بہرحال سچ یہی ہے کہ ایک اس کے علاوہ دنیا کی ہر چیز میرے لیے ہیچ ہے.” اس کا لہجہ الفاظ کی سچائی کا عکاس تھا.
“کیا آپ کو اس بات سے اندازہ نہیں ہوا کہ اب مجھے اپنی چہیتی اور جان سے عزیز گاڑی جو ڈیڈی نے برطانیہ سے صرف میری ضد پر امپورٹ کروائی تھی .اس کے تباہ ہو جانے کا کوئی غم نہیں ورنہ پہلے ایک ذرا خراش تک گوارا نہ تھی مجھے اور اب… میں نے وہ لباس کبھی نہیں پہنا تھا جس پر ہلکی سی شکن بھی ہوتی تھی اور اب مجھے فکر ہی نہیں کہ کیسا لباس پہنا ہے اور شکنوں سے پُر ہے.”
“یہ ایک وقتی دور ہے بیٹا مجھے یقین ہے تم بہت جلد اس کے اثر سے نکل آؤ گے.” اس کا چہرہ ہاتھ میں لے کر اسے سمجھاتے ہوئے ذرا نرمی سے بولیں.
”ایک سے ایک حسین اور طرح دار لڑکی ہے ہماری سوسائٹی میں تم بس اشارہ تو کرو میری جان.” ان کے ہاتھ ہٹاتا وہ ٹھنڈے سے لہجے میں بولا:
“اگر آپ کا بیٹا ہی نہ رہا تو کیا کریں گی آپ اس سوسائٹی اس حسب نسب اور جاہ و حشمت کا.؟” وہ کچھ بول نہیں پائیں.
“اور ممّی مجھے کوئی نہیں، بس ایک وہ چاہیے”
“زرک جہاں.! میرے بچے سچ میں ایک اس لڑکی حورعین کے سوا…”
“حورعین..” ان کی بات بیچ میں رہ گئی تھی جب زرک جہاں نے بہت جذب کے عالم میں اس کا نام زیرِلب دہرایا تھا. “کیا خوب نام ہے نا ممّی…” انہوں نے محسوس کیا کہ اب وہ ان کے پاس ہو کر بھی پاس نہیں رہا تھا.
“اب اس کا نام لے کر فریاد تو کر سکوں گا کہ مجھے حورعین چاہیے.” اسی انداز میں وہ ان کے کمرے سے جا چکا تھا وہ سر پکڑے بیٹھی تھیں وہ ان کی سوچ سے کہیں زیادہ آگے نکل چکا تھا.
ؔ؎ پھاڑا ہزار جا سے گریبانِ صبر میر.
کیا کہہ گئی نسیمِ سَحر گُل کے کان میں.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
آج تیسرا دن تھا کہ اس کا بخار اترنے میں نہیں آ رہا تھا. یوسف محمد کو اندیشہ ستاتا کہ کہیں اس نے ان کی اور زلیخا بی کی گفتگو نہ سن لی ہو. اور پھر دل ہی دل میں وہ اپنے اس اندیشے کو بری طرح رد بھی کرتے. کچھ شک اس کے گریز نے بھی پیدا کیا جب بھی وہ اس کے پاس جا کر ماتھے پر ہاتھ دھر کے یا کلائی تھام کر بخار کا اندازہ کرتے وہ یا تو ہاتھ آنکھوں پر دھر لیتی یا آنکھیں ہی موند لیتی کچھ پوچھتے تو صرف ہوں ہاں میں جواب دیتی. اور یہ سب ان کے لیے نہایت تکلیف دہ تھا کہ ان کی جان سے پیاری بیٹی ان سے یوں کھنچی کھنچی رہے. دل کہہ رہا تھا کہ وہ سب سن چکی ہے اور دماغ اس بات کو ماننے سے انکاری تھا. وہ دن میں کام سے جلدی واپس آ گئے اور زلیخا بی کو بہانے سے کہیں بھیجا اور چائے کے دو کپ بنا کر لائےاور اس کے پاس آ بیٹھے دو گھونٹ بھرنے کے بعد اس سے پوچھا
“کیسا لگ رہا ہے اب پتر.” اس نے فقط سر ہلایا انہوں نے محسوس کیا لیکن کچھ کہا نہیں چائے کی چسکی لیتے کچھ یاد کرکے بولے:
“آج صبح میں گھر سے چائے نہیں پی کر گیا، تیری ماں سے رات چُوک ہو گئی کہ دودھ ڈھانپنا بھول گئی اور دودھ ہی بلی پی گئی..”
” جی بتایا تھا اماں نے..” وہ آہستگی سے بولی.
“میرا ایک بیلی ہے کام پر ساتھ ہوتا ہے اس نے کہا آ جا یوسف چل کے چائے پیتے ہیں… قسم سے دھیے بڑی طلب تھی اس وقت چائے کی لیکن کرنا خدا کا کیا ہوا دیکھو… ” انہوں نے ڈرامائی سا توقف دیا خالی کپ سائیڈ پر رکھا اس دوران وہ سوالیہ نگاہوں سے انہیں تکتی رہی تھی.
“اسی وقت کریم علی کو اس کا بیٹا بلانے آگیا کہ اماں نے بلایا مہمان آ گئے جلدی گھر آؤ” اور ہم بنا چائے پیے ہی ڈھابے سے اٹھ آئے پھر سارا وقت چائے کی طرف دھیان رہا. کوئی کام مزے کا نہیں ہوا پتر. اور اب تیرے ساتھ بیٹھ کر چائے پی تو مزہ ہی آگیا” وہ سر جھکائے ان کی بات سن رہی تھی.
“اب اس سب سے میں نے آج ایک بات سیکھی اور وہ پتا ہے کیا؟؟” کہہ کر وہ اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگے جیسے پہلے وہ ہر بات کے جواب میں اچھا، جی، ہوں کیا کرتی تھی آج وہ انداز نہ تھا. بہرکیف انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
“آج میں نے یہ جانا دھیے.! کہ کوئی چیز بھلے ہمیں کتنی ہی محبوب کیوں نہ ہو یا اس چیز کی طلب کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو جائے وہ اس وقت تک ہمیں نہیں ملتی جب تک ہمارے مقدّر میں اس سے ملنا لکھ نہیں دیا جاتا.” اس نے پوری گفتگو میں پہلی بار سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا انہوں نے بنا رکے اپنی بات جاری رکھی:
“ہم لاکھ سر پٹکیں، لاکھ روئیں، پر جب وہ چیز نہیں ملنی تو نہیں ملنی. اور اگر کوئی چیز مقدّر میں ہے تو ہماری کوشش کے بغیر بھی ایسے اسباب بن جاتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے مقررہ وقت پر مل کر ہی رہتی ہے.” انہوں نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیا جو وہ بنا پیے ہی ہاتھ میں پکڑے کب سے بیٹھی تھی.
“اور جب ہم ایسی چیز کے لیے روتے بلکتے ہیں جو ہمارے مقدّر میں نہیں ہوتی تو سمجھو ہم اپنے دل و دماغ کی حکمرانی اپنے نفس کو سونپ دیتے ہیں کہ لو جی جیسے چاہو ہمیں سنبھالو. پھر نفس وہ بلی بن جاتا ہے جو ہماری ذرا سی چُوک کی منتظر رہتی ہے اور موقع ملتے ہی دودھ پی جاتی ہے. ہمارا ایمان سے پُر دل نفس کے لیے دودھ جیسا ہوتا ہے. جسے وہ ہر آن ہڑپ کرنے کے چکر میں ہوتا ہے.” وہ جیسے سب سمجھتی جا رہی تھی. سر جھکائے کافی دیر آنسو ضبط کرتی رہی اور آخر جب ہمت نہ رہی تو آنسو رخساروں پر بکھر گئے. لوہا گرم دیکھ کر انہوں نے آخری نصیحت کرنا مناسب سمجھا.
“تجھے پتا ہے دھیے میں نے سنا تھا کہ ہمارا نفس سرکش گھوڑے جیسا ہوتا ہے جب ہم دل و دماغ کی ساری باگیں اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں نا تو یہ ہمیں ہمیشہ منہ کے بل گراتا ہی ہے.” وہ اس کے آنسو دیکھ چکے تھے اگرچہ ایک ایک آنسو ان کے دل پر گر رہا تھا لیکن آج پہلی بار وہ دل پر جبر کیے رہے. اسی اثنا میں عصر کی ذان کی صدا بلند ہوئی.
“چل اٹھ دھیے! نماز پڑھ اور نفس کے شر سے پناہ مانگ اور اللّٰہ سے مقدّر پر راضی اور اس کے دیے پر صابر و شاکر شاکر رہنا مانگ. اللّٰہ بڑا کریم ہے. تجھے مجھ سے اور تیری ماں سے کہیں زیادہ محبت کرنے والا.” اس کا سر تھپکتے نرمی سے کہتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اس کے دل کے سکون اور اچھے نصیب کی دعا دیتے ہوئے نل پر جا کر وضو کرنے لگے. آج کتنے دنوں بعد حورعین کو لگا کہ ان بہتے آنسوؤں کے ساتھ دل کی ساری بےچینی و وحشت بھی بہہ رہی ہو. دل میں یک لخت سکون اترا تھا.
ؔ؎ کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے ، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے.
نجابت سراپا ، شرافت تبسّم ، بہ عصمت مزاجی ، بہ عفّت مآبی.
جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں ، جن آنکھوں میں جادو تھا ، اب با وضو ہیں.
یہ پاکیزہ چہرے ، یہ معصوم آنکھیں ، نہ وہ بے حجابی ، نہ وہ بے نقابی.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“اس کا رشتہ طے ہو چکا ہے” رات کے آخری پہر اس کی آنکھ کھلی تھی. سخت وحشت کا عالم تھا. اسے اپنی اس درجہ بےبسی پر جی بھر کر رونا آیا تھا.
“کیوں اللّٰہ کیوں؟؟؟ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے. صرف میں ہی کیوں اکیلا اس آگ میں جھلس رہا ہوں؟ اسے بھی کیوں نہیں ایسی ہی تپش میں جلنا پڑ رہا.. میں نے تو نہیں کہا تھا اسے کہ میرے سامنے آئے یا اپنا دیدار کروائے. پھر میں اکیلا ہی کیوں…”
ؔ؎ کیوں آنکھ ملائی تھی، کیوں آگ لگائی تھی.
اب رُخ کو چھپا بیٹھے کر کے مجھے دیوانہ.
وہ اونچا لمبا مرد بچوں کی طرح بلک کر رویا تھا.اور جیسے کوئی روتا بچہ ماں کی آغوش تلاشتا ہے ایسے ہی وہ کسی مہربان ہاتھ یا کندھے کی تلاش میں تھا کہ جو آگے بڑھ کر اس کے سارے درد سمیٹ لے، اور سینے میں بھڑکی آگ کو ٹھنڈا کر دے. لیکن یہ آگ جس کی بھڑکائی تھی اس کے علاوہ کوئی اس کا مداوا بھی نہیں کر سکتا تھا. آتشِ عشق کی چنگاری تو مولا نے اس کی دعاؤں کے طفیل اس کے دل میں بھڑکا دی تھی بس کرم کی ایک بوند ہی رہ گئی تھی. جو اس آتشِ عشق کو مزید فزوں کرتی اور اسے دو عالم سے بیگانہ بھی. وہ بستر سے نکلا اور باہر آیا گاڑی نکالی اور اس کا رُخ سعادت علی کے گھر کی جانب موڑ دیا یہ وہی بزرگ تھے جو اسے زبردستی اپنے گھر لے گئے تھے. جس وقت وہ ان کے دروازے پر پہنچا وہ فجر کی ادائیگی کے لیے نکل رہے تھے اسے دیکھتے ہی کھل اٹھے اور پرتپاک انداز میں اسے گلے لگایا اور اپنے ساتھ نماز کے لیے دعوت دی.
“مجھے نہیں آتی نماز پڑھنا اور نہ ہی وضو کرنا.” لگی لپٹی رکھے بنا اس نے کہہ دیا. انہوں نے نہ ملامت کیا نہ ہی کسی قسم کا لعن طعن… کہا تو صرف اتنا،
“اللّٰہ کا گھر ہے بیٹا، وہاں سبھی بلا جھجک چلے آتے ہیں تم بھی آؤ. وضو میں سکھا دیتا ہوں ایسا بھی کچھ مشکل نہیں. آ جاؤ شاباش.” اس کا ہاتھ تھامے اسے مسجد لے گئے، اپنی نگرانی میں وضو کروایا اور اپنے ساتھ ہی لیے پہلی صف میں کھڑے ہوئے لیکن اس کا دل وہاں کھڑے ہونے پر آمادہ نہ ہوا اور وہ سب سے پیچھے آ کھڑا ہوا. تکبیر کے لیے ہاتھ بلند کیے ہی تھے کہ دل جیسے کسی نے مٹھی میں لیا تھا. قیام کے لیے سیدھا کھڑا تھا تو محسوس ہوا دل کی دنیا زیر و زبر ہو رہی ہے. آنکھوں میں سیلاب اتر آیا تھا. امام کیا کہہ رہا تھا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا. دل کی بس ایک ہی رٹ تھی “مجھے حورعین چاہیے” رکوع میں گیا تو جسم میں ایسا رعشہ پیدا ہوا گویا صدیوں کا مریض ہو. اور سجدے میں جانے سے قبل ہی حالت غیر ہو گئی ضمیر ملامت کرنے لگا:
“صد حیف ہے تم پر زرک جہاں.! خالقِ کائنات کے حضور کھڑے ہو کر غیرِ خدا کا تصوّر باندھتے ہو. ہیہات ہیہات… تباہی ہے تم پر زرک جہاں.. نماز کس کی اور خیال کسی اور کا..” اور مزید سہنے کی اس میں تاب نہ تھی اس نے نیت توڑی اور وہاں سے ہٹ کر الگ تھلگ کونے میں جا بیٹھا.. دل وحشت سے لرز رہا تھا اور سخت سردی میں بھی اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور تھا.
“اللّٰہ کے حضور اس کے سوا کسی اور کو مانگے گا تو ضمیر ایسے ہی لعن طعن کرے گا.!” سعادت علی اس کے پاس آئے تھے اور نرم لہجے میں بولے. وہ اسے لیے باہر آئے تھے.
“میں نے خود سے کب چاہا تھا ایسا.. اس نے خود ہی یہ راہ دکھائی اور اب خود ہی..” آنسوؤں نے بات پوری نہ کرنے دی.
“او جھلیا… وجود کا کیا کرے گا تُو؟ خاک کے پتلے کو خاک کے پتلے کا عشق نہیں جچتا.. ہم بھی فانی دوسرا انسان بھی فانی… دونوں فنا کا سفر کرنے والے بھلا لافانیت کے مزے کو کب چکھ سکتے ہیں” اور سردی کی پرواہ کیے بغیر اسے لیے مسجد کے داخلی دروازے کے قریب بنے چبوترے پہ بیٹھے.
“ربّ کا عشق مانگ، اس کی محبت کا جام پی، تو دیکھنا فنا سے بقا تک کا سفر کیسے طے ہوتا ہے.” اس نے عجیب بےیقین سی نظروں سے انہیں دیکھا تھا اور یاسیت سے گویا ہوا:
” مجھ ایسے ناکارہ و بدکار بھلا کب اس جام کو پی سکتے ہیں. پورا جام تو دور ایک گھونٹ تک ملنا محال ہے” وہ مسکرائے اور پوچھا:
“تجھے کیا لگتا ہے کہ یہ بیقراری و بےچینی ایک انسان ہی کے عشق کے سبب ہے” اس نے اثبات میں سر ہلایا.
“نہیں بچے.! ایک انسان کا عشق یوں حال سے دیوانہ اور گردوپیش سے بےپرواہی نہیں سونپتا، یہ اس کا خاص اعجاز ہے جو ہرکس و ناکس پر نہیں ہوتا. بن مانگے سے بھی نہیں دیتا وہ.”
“میں نے تو آپ مانگ کر یہ عشق کا وبال اپنے سر لیا.”
“مانگا تو اور بھی بہت کچھ ہو گا ناں تو صرف یہ عشق ہی کیوں ملا؟”
“عشق ہی مانگا تھا بس.. اور تو کچھ مانگنے کی نہ احتیاج پیش آئی کبھی نہ طلب ہوئی.”
“کیوں مانگا تھا بچے؟ صرف عشق ہی کیوں مانگا تھا؟” سوال جواب جاری تھے مسجد رفتہ رفتہ خالی ہو رہی تھی.
“یہ تو پتا نہیں… بس دل میں خواہش جاگتی تھی اکثر، کہ مجھے بھی عشق ہو جائے. لیکن کبھی یہ دھیان نہیں دیا تھا کہ عشق ہو تو کس سے ہو.. بس ہو جائے. مخلوق سے ہو یا خالق سے ہو بس ہو سہی.” وہ دور خلاؤں میں تکتے بول رہا تھا سعادت علی نے محسوس کیا عجب سی روشنی تھی جو اس کی آنکھوں میں تھی. انہوں نے دل سے اس کی ہدایت کی دعا مانگی اور دھیمے لہجے میں بولے:
“تم نے اللّٰہ سے وہی مانگا جو وہ چاہتا تھا کہ تم مانگو… تمہارے دل میں یہ خیال ڈالا گیا کہ تم عشق مانگو اور تم نے مانگا، اور بیٹا.! اللّٰہ ہمیں وہی دیتا ہے جو ہمارے حق میں بہتر ہے”
“تو جو میں مانگ رہا ہوں اللّٰہ اسی کو میرے حق میں بہتر کرکے کیوں نہیں دیتا؟ ترساتا کیوں ہے؟ ” لگتا تھا وہ ابھی رو دے گا.
“ارے پگلا گیا ہے کیا… ترساتا کب ہے وہ؟ آزماتا ہے. آزمائش کی بھٹی میں پکا کر کندن کرتا ہے اور پھر اپنی معرفت کا جام پلاتا ہے.”
“مجھ ایسے کو معرفت کا جام؟؟؟” اس نے خود کی ہنسی اڑائی اور سر جھٹک کر گویا ہوا:
“ستائیس سال کی زندگی میں کوئی ایک بھی تو دن ایسا نہیں جو میں نے کوئی نیکی کی ہو… سارا دفتر ہی گناہوں سے پُر ہے” انہوں نے تحمّل سے سب سنا اور فقط اتنا کہا:
“یہ گناہ ثواب اور سزا و جزا میرے ربّ اور اس کے بندے کا آپس کا معاملہ ہوتا ہے. میں یا کوئی اور کون ہوتے ہیں اس کے فیصلوں کو رد کرنے یا ان کا انکار کرنے والے.؟” اور اس کے مزید قریب ہوتے ہوئے بولے:
“یہ اُس کی اپنی مرضی بیٹا کہ وہ کسی بھی وقت بڑے سے بڑے فاجر و گنہگار انسان کو وہ رتبہ سونپ دے کہ ملائکہ تک رشک کریں.”
“مجھے ایک انسان نہیں دیتا وہ، بڑے رتبے کا کیا کرنا ہے..” شکوہ پھر زبان پر آ گیا. اب کے انہوں نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی اور کہا:
“او جھلیا.! تُو اب بھی ایک انسان کے لیے رو رہا ہے؟ ارے وہ تجھے اپنا آپ دے رہا اور تو ہے کہ…. گھاٹے کا سودا کیوں کر رہا ہے تو؟ لوگ ترستے ہیں کہ اس عشق کے ذائقے کو چکھیں اور ..” اس نے ان کی بات قطع کی.
“میں جس چیز کو ترس رہا ہوں وہ تو دیتا نہیں.” انہیں اس کی ضد پر اب غصّہ آنے لگا تھا. لیکن ضبط کرکے نرمی سے بولے:
“اڑی نہ کر پتر اڑی نہ کر، گھوڑا چاہے جتنا ہی اڑیل کیوں نہ ہو مالک کے کوڑے کھا کر آخر سدھرنا ہی پڑتا ہے اسے. تو بھی سدھر جائے گا لیکن کیا ضروری ہے پتر کہ کوڑے کھا کر ہی سدھرے؟”
“کوڑے ہی تو کھا رہا ہوں سر.! پچھلے کتنے مہینوں سے.. اس کے ہجر و فراق میں گزرنے والے دن رات کوڑے ہی برس رہے ہیں مجھ پر.” وہ یاسیت سے گویا ہوا.
“خود ہی میرے دل میں عشق کی آگ بھڑکائی، خود ہی اس پر بیقراری اور وحشت کے پانی سے چھینٹے ڈالے اور خود ہی کہتا ہے اس سے دستبردار ہو جاؤ، کیوں.؟ کیا میں نے کہا تھا کہ مجھے انسان کا عشق دے؟ وہ کُن کہہ کر کائنات تخلیق کرنے والا رب کیا مجھے پہلی ہی بار میں اپنا عشق نہیں دے سکتا تھا؟” گو کہ اس کا سوال لاجواب کر دینے والا تھا لیکن ان کے دماغ نے فوراً کام کیا اور کچھ توقف کے بعد بولے:
“اس عشق نے توحضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکوایا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھری تلے لٹوایا. ارے اسی عشق نے محبوبِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو طائف میں لہولہان کروایا اور تو اور .. امام حسین رضی اللّٰہ عنہ نے اسی عشق کے ہاتھوں کربلا میں سر کٹوایا… جب یہ عشق محبوبینِ خدا کو ایسے ایسے آزماتا آیا ہے تو ہم عام سے بندے بھلا کب اس قابل ہیں کہ ایک ہی بار اس عشق کا جام پی لیں.؟” اس نے عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھا دل اب بھی کشمکش میں تھا وہ جیسے اس کی نگاہوں کا مفہوم سمجھ گئے تھے.
“لوہا بھٹّی میں تپ کر ہی کندن ہوتا ہے بیٹا.! اور جب تُو یہ سمجھ لے گا نا کہ تُو خام لوہا تھا اور تجھے کندن بنانے کو ہی اس نے وجودِ خاکی کے عشق کا ذرا سا مزہ چکھایا تھا تو بس… ساری الجھنیں سارے سوال ختم ہو جائیں گے.” اس نے ایک گہری سانس بھری اور آنکھ میں آیا آنسو پونچھا اور بولا:
“مجھ ایسے بدکار کو عشقِ لا فنا کا جام..” اور پھر ان کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں نگاہوں میں تنبیہ چھپی تھی تو تمام شکوے دل میں دبا کر سر گھٹنوں پہ رکھ لیا. مبادا ضبط کا بندھن ٹوٹے اور وہ پھر ملامت کریں اگرچہ دل تو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا.
ؔ؎ منع گریہ نہ کر تُو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی
**،،،***،،،***،،،***،،،**
ابّاجی کی باتوں سے ملنے والا سکون اپنی جگہ لیکن اِس دلِ وحشی کی وحشت کا کیا علاج کرتی جو ہر آن بڑھتی جاتی تھی. وہ اندر ہی اندر یوں جھلس رہی تھی جیسے گیلی لکڑی تڑپ تڑپ کر آگ پر سلگتی ہے… آگ کم دھواں زیادہ. ایسے ہی وہ تڑپ رہی تھی.
“مانگے سے سب ملتا ہے اس کی قدرت میں کوئی کمی نہیں.” بچپن سے اب تک پڑھائے سب سبق یاد آ رہے تھے اور سبق بھی وہ جس میں دعا اور قبولیت کا پڑھا تھا باقی نفس و تقدیر سے متعلق پڑھا اور سیکھا گیا ہر سبق اسے بھول گیا. وہ یوسف محمد اور زلیخا بی کی دھی رانی حورعین نہیں رہی تھی، وہ تو وہ حورعین بن گئی تھی جسے زرک جہاں رو رو کر مانگتا تھا. وہ آتشِ عشق اس کے دل میں بھی بھڑک اٹھی تھی. اور اس کے دل نے عجیب خواہش کی تھی کہ ایک پل کو تو وہ جی جان سے لرز ہی گئی تھی.
؎ کیا سہل جی سے ہاتھ اٹھا بیٹھتے ہیں ہائے.
یہ عشقِ پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...