"مسٹر بازل چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
اُسکے پیچھے گھسیٹتے ہوئے دھیمی سی آواز میں غرائی لیکن اگلے انسان پر اثر نہیں ہُوا
واش روم کے اندر آکر اُسکا ہاتھ چھوڑا اور موقعہ دیے بغیر دروازہ بند کردیا
"کرو صاف ”
حُکم دینے والے انداز میں بولا اور خود دروازہ کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا
"یہ کیا بتمیزی ہے ۔۔”
اُسکے اور اپنے درمیان فاصلے قائم کرتی ہوئی پیچھے ہوئی
"اُسی کا جواب ہے جو تین منٹ پہلے تم نے کی ہے”
آرام دہ حالت میں جواب دے کر دوبارہ اُسکے چہرے پر نظریں گھاڑ دیں
"میں نہیں کروں گی ۔۔۔اگر اپنی انا کو تحسین کرنا ہے تو کوئی اور عورت دیکھ لیں ”
صاف لفظوں میں انکار کرکے دوسری طرف منہ کرگئی
"ابھی تو ایک ہی عورت ہے میرے سامنے ۔۔۔ابھی اُسے ہی دیکھوں گا ۔۔۔۔اگر جواب نہ ہی ہے تو تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے”
آبرو آچکا کر لچکائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے زو معنی الفاظ میں کہا
مایا کو اُسکی نظریں اپنے جسم سے آر پار ہوتی محسوس ہوئیں تو ایک مرتبہ دل کی دھڑکنیں اُسکے مخلف جاکر اُس انا پرست انسان کے لیے دھڑک رہیں تھیں
"کیوں باہر کی عورتوں سے پیٹ نہیں بھرا مسٹر بازل "ٹھرکی”
آخری القاب بہت ہی دھیمی آواز میں دیا
"اگر پیٹ گھر والی بھر دے تو باہر جائے ہی کیوں انسان”
وہ تھوڑا سا آگے کی طرف جُھکا دل ایک مرتبہ بے ایمان ہورہا تھا ایک مرتبہ پھر انا تھوڑی پیچھے رہ گئی
"کمینے انسان میں تھوکتی نہیں تم پر”
اُسکا جھکاؤ اپنی طرف دیکھ کر ساری ہمت جمع کرکے چلائی اور اسکو پیچھے کی طرف دھکا دیا
"میں کہا میرے اوپر گرا جوس صاف کرو”
مقابل بھی اُتنی زور سے چلائے
"ورنہ "ایک دن اکیلے تھے ہم تم۔۔۔۔۔ تم مجھ میں اور میں تم میں گُم”…. آگے بھی بتاؤں یہ سمجھ آگئی ہے”
اب تو سیدھا دھمکیوں پر اُتر آیا تھا مایا جو اُسکی آواز میں کھوئی تھی آخری بات پر اُسکا دل خُشک پتے کی طرح لرز گیا دل تو مانوں پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تھا اور سانسیں دھیمی سے اچانک تیز ہورہیں تھیں
لرزتے ہاتھوں سے ٹاول پکڑ کر ٹوٹے ہاتھوں سے اُسکے کندھوں سے صاف کرنے لگی
"یہ دیکھو منہ پر بھی ہے اور شرٹ سے نیچے سینے پر بھی”
اُسکی دہکتی سانسیں بازل کے سینے پر گر رہیں تھی تو اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اُسکی اُنگلی سینے پر رکھی تو بازل کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے ہوئے نظریں اوپر کی طرف اٹھائیں چند سیکنڈ کے لیے دونوں کی نظریں ایک ہوئیں اور دھڑکنوں کا تسلسل ٹوٹ گیا
مایا پہلی بار اُسکی انکھوں میں کوئی اور ہی جہاں دیکھ رہی تھی
دونوں طرف سے جذبات بے قابو ہوئے تو بازل نے اُسکی کمر سے پکڑ کر دونوں میں حائل فاصلے کو کم کردیا مایا کے ہاتھ سے ٹوال نیچے جاگرا پلکوں کے جھلر خود با خود نیچے جُھک گے
کتنی پیاری لگ رہی تھی یوں شرماتے ہوئے اُسکے سے نظریں چراتے ہوئے یہ بازل کا دل جانتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں اس لڑکی میں ہر وقت کوئی بد روح گھسی رہتی
وہ جو اُسکی دھڑکنوں کے شور سے نڈھال ہوئی تھی اُسکی سے لمس ہر بار بے خود ضرور کرتے تھے کو آشنا سے احساس تھا اُسکے لمس سے کسی اپنے خوشبو تھی جو سمجھنے سے قصر
"بابا”
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں ایک دوسرا کا عکس دیکھنے میں مصروف تھے جب باہر سے نور کی روتی ہوئی آواز کانوں میں پڑی تو دونوں ایک جھٹکے سے دور ہوئی آنکھوں میں اجنبیت ایک بار پھر در آئی
بازل اُسے پیچھے کو کرتا اپنی شرٹ اُتارنے لگا تو مایا جلدی سے دوسری طرف منہ کرگئی
ایک سیکنڈ میں کے بعد بازل دوسری شرٹ میں ماجود تھا اور اُسے دیکھے بغیر باہر کی طرف بھاگا تو مایا نے اپنی عقل پر ماتم کیا اور تیز تیز قدم لیتی اُسکے پیچھے ہوئی
"بابا کا شیر بیٹا ۔۔۔۔۔۔”
جلدی سے نور کو اپنی باہوں میں اُٹھایا جو دو سال کی عمر میں اپنے گھر کی کسی چیز کو دوسرے بچوں کو ہاتھ لگانے سے روک رہی تھی
لیکن بچے اُسکے بڑے تھے تبی اُسکی مانے بغیر ہر چیز کا بغور مشاہدہ کرنے میں مصروف تھے جب نہ چلی تو نور میڈم نے اپنے رونے کا جوہر دیکھا کر اپنے باپ کو غلط وقت پر بلا لیا
"بابا ایچے مام پاس "(بابا مام پاس نیچے) زندگی میں پہلی بار بازل کے بازوں میں ہونے کے باوجود اپنے بازو مایا کی طرف پھیلائے ہوئے تھے اب تو تھوڑا بہت سیدھے ٹھیرے لفظ بھی ادہ کرنے لگ گی تھی
پتہ نہیں دونوں باپ بیٹی ایک جیسا کیوں چلتے تھے کبھی باپ اہمیت دینا شروع کردہتا تو تبی نور میڈم کو بھی مام کی یاد آجاتی
وہاں کھڑے لوگوں کو تو اُنکی سمجھ نہیں آرہی تھی باپ اُسے نکرانی بتا رہا تھا بیٹی مام کہہ رہی تھی
"نورِ ایماں میرے پاس آئیں”
وہاں کھڑی جوان اور حسین لڑکی نے اُسے مایا کو اہمیت دیتا دیکھ کر آگے ہوکر اُسے پکڑنا چاہا تو نور میڈم منہ ہی دوسری طرف کرگئیں
"مام ”
اب بھی مایا کو ہی بلا رہی تھی مایا کا دل کیا اُس لڑکی کو اگنور کرنے کی خوشی میں نور کو بیسٹ دیٹر آف ورلڈ کے تمغے سے نوازے
"مام کی جان ”
مایا نے بازل کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے چٹا چٹ دونوں تین پاریں اُسکے نرموں ملائم گالوں پر کر ڈالیں
تو نور کی کلکاریاں پورے گھر میں گونجنے لگی اُسے تو یاد تھا کے چند سیکنڈ پہلے بچوں سے جنگ شروع کیے ہوئے تھے
بازل کو آج اپنا گھر مکمل سا لگ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے خزاں کے موسم میں اُسکے گھر پھولوں کی بہار آگئی ہو تپتے صحراؤں میں کسی نے آب کوثر کا پیالہ اس کے منہ کو لگا دیا تھا
اور اسے بات کی وجہ سے اُسکے چہرے پر ایک زندگی سے بھرپور مسکراہٹ آئی جس سے وہاں بیٹھا کوئی بھی نقوش بے خبر تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
"کتنی لڑکیوں کے ریپ کر چُکے ہو ”
روسیوں سے بندھا ہوا وجود جس کے چہرے پر تشدد کے نشان واضح تھے
"کسی کا بھی نہیں بس میری ہے گرل فرینڈ ہے اور ہم لیونگ ریلیشن شپ میں ہیں ”
انتہائی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا تو سامنے بلیک ماسک کے پیچھے چھپے ہوئے چہرے کے نقوش تنے چہرے پر پہلے سے کئی گنا زیادہ سختی در آئی
"لگتا ہے تمہاری یاداشت چلی گئی ہے”
کہتے ہیں اُبلتا ہُوا پانی اُسکے چہرے پر ڈال دیے جس سے اُسے چیخیں پوری بلڈنگ کو ہلا کر رکھ گیں
"کیوں اب کیوں چلا رہے ہو تم لوگوں نے غریب کی بیٹی کو تماشا بنایا ۔۔۔۔تمہارے سامنے کتنے باپ اپنے ہاتھوں سے ہی موت کو منہ لگا گے تب کیوں تمہاری روح نہیں ٹرپی ۔۔۔۔۔۔۔۔جن لڑکیوں کو اپنی راتوں کی زینت بناتے رہے جبکہ اُنکی زندگیاں جہنم ہوئیں تب کیوں تمہارے اندر رحم نہ آیا ”
اُسکے ہاتھوں پر بلیڈ رکھتے ہوئے بولا
"نہیں نہیں ایسے مت کرو”
حنان مغل کسی کی منتیں کر رہا تھا
"دیکھوں میرا بھائی تمھیں دُنیا کی ہر چیز دے دے گا ایسا مت کرنا”
منتیں کرتے ہوئے لہجہ بھیگ رہا تھا
"اگر تمہارا بھائی اُن لڑکیوں کی زندگیاں واپس لا سکتا ہے تو سوچا جا سکتا ہے ورنہ تم کیا سمجھ رہے ہو میں تمہارے بس ہاتھ کاٹوں گا نہیں حنان صاحب میں تمہارے جسم کا ایک ایک حصہ الگ کروں ہے سب سے اینڈ پر تمہاری گردن”
لفظوں میں بے پناہ درد تھا
"پتہ ہے تمہاری موت آج سے دس سال پہلے اسی دن مانگی تھی میں اور اسی طرح مانگی تھی کے تم میرے سامنے رحم کی بھیک مانگوں اور میں رحم نہ کروں ”
اُسکی چیخوں کی پرواہ کیے بغیر اُسکا دائیں ہاتھ بازو سے الگ کر چکا تھا
"تمھیں پتہ ہے جب انسان گناہ کرتا ہے تو پہلی بار اُسے اِس لیے چھوٹ مل جاتی ہے کے اللہ اُسے معاف کرنے کا ارادہ رہتا ہے اور پھر جب تین بار ایک ہی گناہ بغیر کسی ضمیر کے کھچاؤ سے کیا جاتا ہے تو اللہ اُسکی ڈور کھلی چھوڑ دیتا ہے اور یہی چاہتا ہے کے بندہ اب نیکی یہ معافی کی طرف راغب نہ ہو ورنہ خدا تو بے انتہا محبت کرتا ہے انسان سے پھر معاف کردیتا ہے ۔۔۔۔لیکن شیطان غالب آجاتا ہے اور گناہ میں پہلے سے زیادہ لذت آجاتی ہے انسان گناہ کے پیچھے ایسے بھاگتا ہے جیسے شیر شکار کے پیچھے ۔۔۔۔لیکن بھول جاتا ہے خُدا کی لاٹھی بے آواز ہے جب پکڑ ہوتی ہے تو پھر معافی نہیں ہوتی”
وہ مسلسل اُسکی آنکھوں میں دیکھے بول رہا تھا یہاں تک کہ سامنے بیٹھا وجود اب بازوں سے محروم ہو چُکا تھا چیخیں ساری بلڈنگ میں گونج رہی تھیں فرش پر ہر طرف خون ہی خون تھا لیکن پرواہ کسی تھی
دولت زندگی بچانے میں ناکام ہوچکی تھی
•°•°•°•°•°°••°°•°••°°••°°•°
شہر میں ہر طرف روشنیاں پھیل چکیں تھیں لوگ واپس اپنے گھروں کی طرف گامزن تھے ہاتھ میں ایک شوپر پکڑے طالش بھی اپنی منزل کی طرف گامزن تھا اور کچھ نہیں تو زندگی آسان ضرور ہوگی تھی دیب اب پہلے سے کئی فیصد ٹھیک ہوچکی تھی اور اِس بات پر بھی متفق تھی کے اُسکا بچا اُسکی کوکھ میں ماجود ہے اور اُسکا شوہر ایک اچھا محافظ ہے
"کیسا گزرا دن”
ہینڈ کاری کچن میں رکھتے ہوئے دیب کی طرف آیا جو بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی اُسے پیچھے سے باہوں میں لیتے ہوئے کہا
"بور”
نچلا ہونٹ باہر نکال کر شکوہ کنا انکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا
صبح سے گیا ہوا تالش رات آٹھ بجے گھر آتا ایک وقت میں دو دو نوکریاں کر رہا تھا دونوں سے اتنی تنخواہ ہوجاتی کے زندگی خوش گوار گزر رہی تھی
” میرا چھوٹا نمونہ اتنا نکما ہے کے اپنی ماں کو مصروف نہیں رکھ سکتا”
نئے وجود کو محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیب کے کانوں میں کہا
"کیوں تنگ کر رہے ہیں۔۔۔۔تالش۔۔۔ مجھے بھوک لگی ہے”
اُسکی باتوں اور نظروں سے کنفیوز ہوتے ہوئے کہا اجکل کھانا اُسکے ہاتھ سے ہی کھاتی تھی اور بھوک بھی پہلے سے کئی گناہ زیادہ لگتی تھی
"مجھے کھا لو ”
اپنی گال آگے کرتے ہوئے مخلصانہ مشورہ دیا
"تالش ”
رونے والی آواز نکالی تو تالش اور تنگ کرنے کا ارادہ متلوی کرتا کچن سے کھانا نکالنے چلا گیا
کچن کا سارا کام اُسے ہی کرنا پڑتا تھا کیوں کے دیب کو کھانے یا مصلوں کی خوشبو سے ومٹینگ شروع ہوجاتی تھی
"تالش مجھے خواب اچھے نہیں آتے ”
کھانے کا نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے بولی تو تالش نے اپنے موبائل سے سرچ کرنے لگ گیا ساتھ ساتھ اُسکے منہ میں نوالہ بھی رکھ رہا تھا
آج کل وہ اُسکی سہیلی ،ماں ،بہن اور شوہر ہونے کے سارے کردار ادہ کر رہا تھا کیوں کہ اُسکی طرح دیب بھی ہر رشتے سے محروم تھی
"میرا بچہ اِس کنڈیشن میں اکثر آتے ہیں خواب یہ پریشاں کن بات نہیں”
موبائل واپس رہتے ہوئے اُسے پیار سے سمجھایا
"لیکن تالش مجھے خواب سے ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔آپ میرا بیٹا مجھ سے دور جارہے ہوتے ہیں”
وہ پوری اُمید باندھے ہوئے تھی کے بیٹا ہی ہوگا
"تم میری بیٹی سے نہ انصافی کر رہی ہو بیگم ۔۔۔۔خبر دار جو اپنے بیٹے کو میرے اور میری بیٹی کے درمیان لایا تو”
تالش نے آنکھیں دیکھیں تو دیب کھلکھلا سے ہنس دی
ہر بار ایسا ہی ہوتا تھا کسی بات سے دھیان ہٹانے کے لیے ایک آدھ ایسی بات کرنی پڑتی تھی
"آپ بھی میرے بیٹے سے دور رہیں ۔۔۔کبھی کبھی تو مجھے آپ سے ڈر لگتا اپنے بیٹے کے لیے”
مصنوعی غُصہ دکھاتے ہوئے تھوڑا پیچھے ہوئی
تو دونوں کے قہقوں سے پورا گھر روشن ہوا
•°•°•°•°•°•°°•°•°•°•°•°•°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...