آج سے تیس سال بعد کی دنیا کیسی ہو گی؟ روبوٹ اور اڑنے والی گاڑیاں؟ مرضی سے بنائے گئے اعضاء؟ ہائیڈروجن کی توانائی پر چلنے والی معیشت؟ سائنس فکشن جاننے والا کوئی بھی شخص یہ بتا دے گا کہ حقیقت میں ہونے والی تبدیلیاں انسانی تخیل کے مقابلے میں بہت سست رفتار ہوتی ہیں۔ کسی بھی پرانے سائنس فکشن ناول یا فلم کا مستقبل کی گئی پیشگوئی جیسا نہیں ہوتا۔
ہم نے کوارک تلاش کر لئے اور انسان کو خلا میں پہنچا دیا لیکن ہمارا انحصار انٹرنل کمبسشن انجن پر ہے۔ ہم نے ڈی این اے کو ڈی کوڈ کر دیا، چوہے کی کمر پر انسانی کان اگا لیا لیکن کینسر ابھی بھی جان لیوا مرض ہے۔ ہم نے جیلی فش کی جین سے سبز چمکدار مویشی پیدا کر لئے لیکن سمندر سے جنگلی مچھلیاں پکڑتے ہیں اور مٹی اور پانی میں غذا اگاتے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں ہماری توقع تھا کہ نیوکلئیر پاور توانائی کا مستقل حل ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم سامان کی نقل و حمل کے لئے کشتیاں، ٹرک اور ٹرین ہی استعمال کرتے ہیں۔ اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں منڈیوں اور معیشتوں کے بنیادی اصول دو سو سال پہلے ایڈم سمتھ کے وقتوں سے زیادہ تبدیل نہیں ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کئی لحاظ سے دنیا میں بہت بڑی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ ایک کسان جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں سے ٹماٹر اگاتا ہے۔ اس کے علاقے میں نصف صدی میں آبادی تین گنا ہو چکی۔ چینی کسان اٹلی میں ٹماٹر بیچتا ہے۔ خریدنے والا اسے میکسیکو سے آنے والے لوبیا کے ساتھ ملا کر برطانوی سپرسٹور میں فروخت کئے جانے کے لئے کین تیار کر رہا ہے۔
ایک نسل پہلے کے کسان کے لئے ایسا سوچنا بھی ممکن نہ ہوتا لیکن معیشت کے یہ عالمی زنجیر ہمارے لئے عام بات ہے۔ اور ہم اس پر زیادہ غور نہیں کرتے کیونکہ ہونے والی یہ تبدیلیاں ہماری نظروں کے سامنے، لیکن بہت چکے سے، حالیہ دہائیوں میں رونما ہوئی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ بہت بڑی، تیزرفتار اور بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ہیں۔ یہ خاموشی سے دنیا بدل رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر دنیا 2050 میں کیسی ہو گی؟ کونسے ملک آگے ہوں گے؟ نیچرل دنیا کس حال میں ہو گی؟ آبادی اور طاقت کی تقسیم کیسی ہو گی؟ آپ خود اس وقت کہاں ہوں گے؟
ہم یہ تو جانتے ہیں (لیکن تسلیم کرنا مشکل ہے) کہ آج کی دنیا سے حالات بہت مختلف ہوں گے۔ لیکن اس بارے میں سائنس فکشن یا محض کسی ایک جہت کو دیکھنا ہماری راہنمائی نہیں کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقبل کیسا ہو گا؟ یہ سوال ہمارے تجسس کو ابھارتا کیوں ہے؟ جب ہم طویل مدت کے لئے سوچنے پر ذہن کو آمادہ کرتے ہیں تو ہم ان عوامل کو شناخت کر سکتے ہیں جو ہمارے مستقبل کو بنانے میں اہمیت رکھتے ہیں۔ اور “اچھا مستقبل” ایک ایسا مقصد ہے جو مطلوب ہونے پر ہم اتفاق کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یقینی طور پر ایسا نہیں سمجھتا کہ مستقبل پہلے سے طے شدہ ہے۔ ہماری دنیا اس سے زیادہ دلچسپ ہے۔ اور میرا یقین یہ بھی ہے کہ ہم ذمہ دار فری وِل رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے اس دنیا میں ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم کیا کریں گے اور کیا نہیں؟ اس کے نتائج ہوں گے اور یہ طے کرے گا کہ اگلی نسل کو یہ دنیا کس شکل میں ملتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقبل کے منظرنامے ہمیں دانشمنداننہ فیصلے لینے میں مدد کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ مستقبل کے بارے میں کوئی دانائی کی بات کی جا سکے، ہمارے لئے ماضی کو سمجھنا ضروری ہے۔ اور ہم اس کی مدد سے پانچ عوامل کی نشاندہی کر سکتے ہیں جو آئندہ آنے والی دہائیوں اور صدیوں کو شکل دیں گے۔
یہ اس کتاب سے لیا گیا ہے
The World in 2050: Laurence Smith