لندن کے کہر بھرے موسم سے بور ہو کر ہم ہر دوسرے سال ہندوستان ضرور آتے، جبکہ بچوں کو اور فہیم کو پیرسیا جرمنی جانے کی زیادہ خوشی ہوتی تھی مگر میرے پورے دو سال اسی انتظار میں کٹتے تھے۔ ملنا تو سب ہی عزیزوں سے ہوتا تھا، سسرال میں میں بھی وقت گزارتا ہوتا تھا مگر ٹھہرتی میں ہمیشہ ذکیہ ہی کے پاس تھی… میری اپنی پیاری ذکیہ میری دوست …سب سے اچھی ساتھی …لمبے سیاہ بالوں میں گھرا اس کا سانو لا سلو نا چہرہ، اس کی خوبصورت آنکھیں۔ ۔ بوٹا ساقد۔ ۔ ۔ ہمیشہ ایک مہر بان سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر بکھری رہتی۔ ۔ ایک عجیب سی کشتی تھی اس میں جو بھی اس سے ملتا گرویدہ ہو جاتا۔ جب بھی میں اس کے گلے لگتی ڈھیروں سکون میرے دل میں اتر جاتا۔ ۔ ۔ اور پیاری سی دمکتیہنستی لڑکی کو میں نے اپنی بھا بی بنا لیا تھا۔ اس بار بھی جب ہم اس کے گھر پہونچے وہ دروازے پر بیقراری سے مجھ سے لپٹ گئی اور دیر تک یونہی لپٹی کھڑی رہی۔ سب سے مل کر جب رات کو میں سونے کے لیے اس کے پاس لیٹی تو مل نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’ذکیہ …جب ہم ہندوستان آتی ہوں تو وقت اتنا کم کیسے ہو جاتا ہے دن اتنی جلدی جلدی کیوں گزر نے لگتے ہیں ؟؟؟ میں نے اس کی طرف کروٹ لے کر اس کا چہرہ دیکھا اور اس چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں دیکھ کر بیقرار ہو گئی۔ کیا ہوا ذکیہ؟؟؟
’’ کچھ نہیں کچھ بھی تو نہیں۔ بس ایسے ہی۔ ۔ ہاں تم صحیح کہتی ہو…‘‘اس نے میرے ماتھے سے بال ہٹائے اور میرے پیشانی چوم لی۔ ’’کوئی پریشانی ہے ذکیہ؟؟‘‘ مجھے الجھن سی تھی۔
’’نہیں کوئی بات نہیں۔ بہت تھک گئے ہیں چلو اب سو جاتے ہیں۔ کل شاپنگ پر لے چلوں گی۔ اور پھر تم کو اپنی سسرال بھی تو جانا ہے نا۔ دیکھو وہاں زیادہ مت ٹھہرنا۔ بس دو دن کافی ہیں …‘‘
اس نے اٹھ کر لائٹ بجھائی اور ہم نے جانے کب سو گئے۔ فہیم او بچے تو دوسرے ہی دن گھر چلے گئے مگر میں دو چار روز بعد آنے کا کہہ کر رک گئی۔ اپنی ساری شاپنگ میں ذکیہ کے ساتھ ہی کرتی تھی۔ الہ آباد میں میرے سسر کا پشتینی مکان تھا اس گھر میں جاتے ہوئے فہیم اور بچوں کی خوشی دیکھنے والی ہوتی، آس پاس کے سبھی رشتہ دار ہم سے مل نے وہیں پہونچتے تھے۔ اپنے پیاروں سے ملنا بھی ایک نشے کی طرح ہوتا ہے اور مجھے تو اتنی دور رہ کر کچھ زیادہ ہی تڑپ پیدا ہو جاتی تھی۔ میں ان تھوڑے سے دنوں کی چادر کو مضبوطی سے تھامے رہتی اور اپنے بہن بھائیوں اور عزیزوں سے کی ہوئی ہر چھوٹی بڑی بات ہر ہنسی ہر آنسو سب کچھ اس چادر میں جمع کر لیتی اور جب اس تہہ کر کے رکھتی تب بھی کئی مسکراتے چہرے اس میں سے جھانکتے رہتے۔ کیا ہر کسی کو اپنوں سے مل کر اتنی ہی خوشی ہوتی ہو گی؟ میں نے اپنی شاپنگ لسٹ ذکیہ کو تھما دی کیونکہ بازار تو اسی کا تھا میں تو یہاں پر دیسی تھی نا؟ ایک لمبا عرصہ دیار۔ غیر میں رہتے ہوئے ہو گیا تھا بیٹا۱۹ برس کا ہونے والا تھا اور ذکیہ کی بیٹی عنب بھی بڑی ہو رہی تھی میرا پورا ارادہ تھا کہ میں اسے مانگ لو ں گی ذکیہ مجھے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گی۔ میں نے اپنے بیٹے ارزیب کی اور عنب تو ذکیہ کی کاربن کا پی ہے بس رنگ بھیّا کی طرح بے حد گورا ہے۔ میں ہر سال کچھ نہ کچھ سبھی کے لیے لے آتی تھی مگر عنب تو میری بیٹی تھی اس لیے اس کے لیے بہت سوچ کر اسبار ایک ہلکا سا سونے کا سیٹ لیتی آئی تھی۔ جس میں انگوٹھی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ٹاپس اور ایک لاکٹ تھا۔ اس نے جب یہ سیٹ پہن کر مجھے دیکھایا تو واقعی اس پر بہت سج رہا تھا حالانکہ ذکیہ کے پاس امّاں کا دیا ہوا بہت زیور موجود تھا جو اس شادی پر اس کے بعد بھی ہر موقع پر ملتا رہا۔ اس کے میکے سے بھی کئی سیٹ زیور کے ملے تھے۔ مگر پھر بھی عنب اس ننھے سے تحفے کو پا کر بہت خوش تھی۔ امّاں نے جب ذکیہ کو میری پسند والا زیور پہنا یا تھا تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی تھی شادی کے جگمگاتے زیور اور کپڑے پہن کر جب ذکیہ اس گھر میں اتری تو گویا جنّت اتر آئی۔ مگر ہماری خوشیوں کی عمر زیادہ نہیں تھی، اچانک ایک ایکسیڈنٹ ہوا۔ اور ہمارا گھر اجڑ گیا۔ بھیّا ہمیں چھوڑ گئے۔ بھیّا نے مجھے کبھی ابّا کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی جو میری پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا سے جا چکے تھے میں بھیّا کو ہی ابّا سمجھتی تھی۔ بھیّا نے فہیم سے میری شادی بھی اس لئے کی کہ ہم کالج سے ہی ایک دو سرے کو پسند کرنے لگے تھے۔ فہیم کا بزنس اب کافی پھیل گیا تھا وہ لندن اور دوسرے کئی ملکوں سے کپڑوں کا کاروبار سنبھال رہے تھے الہ آباد میں بھی کئی فیکٹریز تھیں۔ جو ان کے بھائی دیکھتے تھے عنب کی پیدائش کی دوسرے برس ہی بھیّا چلے گئے۔ وہ گئے تو ایسا لگا جیسے کسی نے ہمارے سروں سے چادر کھینچ لی۔ میں فوراً ذکیہ کے پاس ہندوستان آ گئی تھی مگر ذکیہ تھی کہاں ؟؟؟ وہ تو بھیّا کے ساتھ ہی جیسے کہیں غائب ہو گئی تھی سپاٹ چہرہ سفید ہونٹ۔ بکھرے بال میلے کچیلے کپڑے ہنسنا تو دور کی بات وہ تو رونا بھی بھول گئی تھی۔ میں ہی اس سے لپٹ کر اتنا روئی کہ وہ ہوش میں آ گئیں۔ اور پھر اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ کئی گھنٹوں تک چیخ چیخ کر روتی رہی اور پھر میری باہوں میں بے ہوش ہو کر گر گئی۔ ان سات برسوں میں اس نے اپنے آپ کو بہت سنبھال لیا تھا اور اپنی زندگی کا مرکز عنب کو بنا کر جینے کو کوشش میں جٹ گئی تھی۔ ان دونوں کے علاوہ گھر میں ہماری پرانی ملازمہ کمّو بوا بھی رہتی تھی۔ نام تو ان کا کریمن تھا مگر پتہ نہیں کیسے وہ کمّو بوا کے نام سے ہی جانے جاتیں۔ وہ بھابی ذکیہ کو اس لیے چاہتی تھیں کہ بھیّا ان کی گود میں پلے بڑھے تھے۔ انھیں عشق تھا کمّو بوا سے۔ اپنی ہر بات ہر ضد وہ انہیں کے ذریعے امّی تک پہنچاتے تھے۔ میرے آ جانے سے ان کے جھریوں بھرے چہرے پر تازگی آ جاتی۔ وہ مجھے ایک ماں کی طرح عزیز تھیں۔ آج بھی صبح صبح جب انھوں نے آ کر کھڑ کیوں کے پردے ہٹائے اور چائے سائیڈ ٹیبل پر رکھی پھر میرے چہرے پر دعائیں پھونکیں۔ تو میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’ کمّو بوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’میں نے چائے کا گھونٹ لے کر ان کی طرف دیکھا۔ ’’ہاں بیٹا …‘‘ انھوں نے تھکا ہوا سانس لے کر میرا لحاف برابر کیا۔ ’’ایسی چائے کہیں نہیں ملتی کمّو بوا… اب کی بہت ساری چائے بنا کر میرے ساتھ کر دینا…‘‘ میں نے پیالی خالی کر کے رکھی اور باتھ روم میں گھس گئی۔ جلدی جلدی منہ دھو کر کنگھا کر کے واپس آئی تو بوا کپ ہاتھ میں پکڑے ہوئے بیٹھی تھی۔ کچھ عجیب سی کیفیت ان کے چہرے پر ہویدا تھی۔ ’’کیا ہوا…‘‘ میں نے تولیہ پھینک ان کو تھام لیا۔ ’’بیٹا …‘‘ وہ بڑی دقت سے گویا ہوئیں کب تک رہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میں ہنس پڑی۔ ’’ ارے۔ اس بات کے لیے پریشان ہو؟؟ ‘‘ ابھی تو الہ آباد بھی جانا ہے آ کر کچھ دن واپس رکوں گی۔ ۔ ۔ ابھی تو شاپنگ بھی پوری نہیں ہوئی …بوا… سب ٹھیک تو ہے نا؟ وہ کارپٹ پر سر جھکائے بیٹھی تھیں۔ اور اس پر بنے ہوئے پھولوں پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ جیسےکچھ کہنا چاہتی ہوں اور الفاظ ساتھ نہ دے رہے ہوں۔ ’’کمّو بوا؟؟ میں نے نیچے بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھام لیے۔ ’’بولیں کیا بات ہے میرا دل گھبرا رہا ہے۔ ۔ بتائیے بوا… ‘‘ ’’’بیٹا جب سے تم گھر میں آئی ہو رونق ہو گئی ہے۔ جیسے بھیّا لوٹ آئے ہوں۔ جیسے سب کچھ وہی … جو میاں اور بیگم صاحب کے زمانے میں تھا۔ مگر بیٹا۔ ‘‘وہ پھر سے چپ ہو گئیں۔ ان کی بوڑھی آواز تھرتھرا رہی تھی۔ ’’ کمّو بوا … مرا دم نکل جائے گا۔ بتائیے کیا ہوا ہے۔ ؟‘‘
’’پارسال جب تم آئیں تھیں۔ تب سے اب تک دلہن اپنا کافی زیور بیچ چکی ہیں۔ جو بھیّایہ گھر نہ بنوا جاتے تو چھت کا سہارا بھی نہ ہوتا۔ گھر کا سب قیمتی سامان جو عنب بیٹا کے لئیے رکھا تھا۔ ایک ایک کر کے ان سات برسوں میں بک چکا ہے۔ بس بیٹا۔ یہ ڈرائنگ روم کا سامان بچا ہے جو تمہارے ڈر سے نہیں نکلا کہ آ کر پوچھو گی۔ تو کیا جواب دیں گے۔ اور دلہن بچاری بھی کیا کرے ؟ اب گاؤں میں کوئی دیکھنے سننے والا نہیں۔ غلّہ بھی بہت کم آتا ہے۔ کوئی آمدنی کہیں سے نہیں رہی۔ ‘‘ انہوں نے رک کر گہری سانس لی۔ میرے اندر دھڑ دھڑ کر کے لندن کو بلند و بالا عمارتیں گرنے لگیں۔ میرے چہرے پر میری ہی فرمائشوں کے تھپّڑ پڑنے لگے۔ میں نے کبھی یہ نہیں سو چا میری پیاری بھابی کیسے گزر کر رہی ہے۔ بھیّا کے بعد کون سا سہارا ہے اس کے پاس؟ مجھے ہمیشہیہی لگا کہ جیسی رانیوں والی زندگی وہ جی رہی تھی۔ وہی اب بھی۔ مگر میں …جو اس سے محبت کا دعوہ کرتی ہوں میں نے کبھی روک کر اسے پوچھا تک نہیں۔ ؟ یہ کیسی بے حسی اوڑھ لی تھی میں نے۔ صرف فرمائشیں کرتی رہی۔ کبھی رک کر اس کے آنسو نہیں دیکھے اس کی روح میں نہیں جھانکا۔ ؟ میرا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔ تب بوا نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولیں۔ ’’بیٹا۔ جو سیٹ تم عنب بیٹا کے لیے لائی ہو۔ اس میں سونا بہت کم ہے۔ دلہن نے مجھے سنار کے پاس بھیجا تھا۔ اس نے کہا وہ اٹھارہ کیرٹ کا ہے۔ بہت کم قیمت دے رہا تھا تو میں واپس لے آئی ہوں۔ اب تو…‘‘
بس وہ چپ ہو گئیں۔ میں نے دوڑ کر کھڑکی کا پٹ تھام لیا۔ با ہر زور کی بارش ہو رہی تھی۔ میرے گرم گرم آنسوؤں نے مجھے اندر سے شرابور کر دیا تھا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...