بعض اوقات زندگی میں انا پرستی بھی دکھ دے جاتی ہے۔ایسی کیفیات سے اس وقت شعیب گذر رہا تھا۔وہ دل سے نادیہ کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی انا آڑے آئی تھی۔اس انا کی رکاوٹ بن جانا بھی ایک طرح سے اس کے لیے بہتر ہی تھا۔اس کی نگاہ حویلی اور حویلی کے معاملات پر پوری طرح تھی۔وہ جانتا تھا کہ وہاں پر کیا ہو رہا ہے ۔وہ انہی سوچوں میں گھرا ہوا بیٹھا تھا۔اسے اپنی حالت کا اس وقت اندازہ ہو ا جب اس کی امی اور فرح دونوں ڈرائینگ روم میں آئیں اور اسے حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں۔تبھی اس کی امی نے حیرت اور تجسس سے پوچھا۔
’’خیریت تو ہے پتر۔!حویلی سے ہو کر آئے ہو تو یوں بیٹھے ہو،جیسے اردگرد کا ہوش ہی نہیں۔ایسی کیا بات ہو ئی وہاں پر؟‘‘
’’میں۔۔میں ہوش و حواس میں نہیں؟میں ٹھیک ہوں۔‘‘اس نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا۔
’’خاک ٹھیک ہو،ابھی فرح تمہیں دیکھ کر گئی ہے،اس نے تومجھے جا کر تیرے بارے میں بتایا۔۔۔اب سیدھے سیدھے بات کرو،کیا ہوا ہے وہاں پر؟‘‘ امی نے ذرا سخت لہجے میں تشویش سے پوچھا تو اس نے من و عن ساری بات بتا دی۔جیسے سن کر زبیدہ بولی۔
’’اب مجھے تیری بھی تو سمجھ نہیں آتی۔اب اگر اس نے تم سے کہہ دیا تھا تو کسی مان ہی سے کہا تھا۔اس پر تمہارا انکار بنتا ہی نہیں تھا۔‘‘
’’میں نے انکار تھوڑی کیا تھا،بس میں اس کے مالی معاملات نہیں۔۔۔‘‘
’’ارے وہی تو اصل معاملات ہوتے ہیں۔‘‘ زبیدہ نے حیرت سے کہا۔
’’نہیں امی،آپ نہیں جانتی ،اس وقت وہی لوگ اس کے اردگرد ہیں جو کبھی پیر سائیں کے اردگر تھے۔ان کے دور میں وہ جو کرتے رہے ہیں وہ سب میرے علم میں ہے۔عنقریب نادیہ ان کے جال میں پھنس جانے والی ہے۔یا پھر وہ انہی کی مرضی کے مطابق چلے گی۔ایسی اگر کوئی صورت حال بنی،تب وہ کون ہو گا جو اسے ایسی صورت حال سے نکالے گا۔وہی نا۔۔۔جس پر اسے اعتماد ہو گا۔میں نہیں چاہتا اماں کہ میں کسی سازش کا شکار ہو کر اپنا اعتماد بھی کھو بیٹھوں۔‘‘
’’اگر ایسی صورت حال ہے تو پھر تمہیں وہاں کا سارا نظام اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔ایک تو وہ ابھی نا سمجھ ہے ،نا تجربہ کار ہے ۔دوسرا وہ لاکھ سمجھ دار بھی ہو۔عورت تو ہے نا۔۔ایسی عورت جو حویلی سے باہر قدم نکالتے ہوئے سو بار سوچتی ہے۔‘‘اماں نے کہا تو فرح نے منمناتے ہوئے کہا۔
’’کیا آپ کے خیال میں دیوان یہ سب کر رہا ہے ؟ یا کر سکتا ہے؟‘‘
’’ہاں۔!کیونکہ اس کے میرے پاس اب تک کئی ثبوت آ چکے ہیں۔میں نے اگر مالی معاملات اپنے ہاتھ میں لیے نہیں ،ان کا وار چل جانا ہے۔اور میں اس پوزیشن میں نہیں کہ دیوان کو الگ کر دوں۔۔۔اس وقت وہ مریدین میں اپنے ہم خیال لوگوں کا حلقہ بنا چکا ہے۔اور کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی ہی پیری مریدی شروع کر دے۔‘‘اس نے سمجھایا تو فرح نے تیزی سے کہا۔
’’اس طرح تو وہ دن بدن مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔یہی وہ حا لات ہیں،جب ہمیں حویلی میں ہونا چاہئے۔یہی وہ وقت ہے،جیسے ہم نے فرح کا ساتھ دینا ہے۔کل وہ تجربہ کار ہو گئی یا لٹ گئی ،پھر ہم اس کے کس کام آئے۔‘‘
’’فرح۔!میں سب سمجھتا ہوں اور واقف بھی ہوں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ظہیر شاہ نے بہت بڑی بے وقوفی کر کے سب کچھ تلپٹ کر دیا ہے۔اب تو وہ اپنی والدہ کو بھی اپنے پاس بلا رہا ہے کہ وہاں پر شادی کر لے۔مطلب تمہاری والدہ ،تمہارے بھائی کے پاس جا رہی ہے۔کیا انہوں نے تمہیں مشورے میں لیا؟ فرح مان جاؤ،چاہے نادیہ ہے یا پھر تمہاری والدہ۔۔وہ لوگ ہمیں اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ ہمیں کوئی بات ہی بتا دیں اور تم مالی معاملات کی بات کرتی ہو۔‘‘شعیب نے کافی حد تک تلخ لہجے میں کہا۔
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ،میں نادیہ کی بات کر۔۔۔۔‘‘فرح نے کہنا چاہا تو وہ بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’نہیں کرو نا بات اس کی ۔کم از کم میرے لیے نہیں ۔ہاں ،تمہیں ہمدردی ہے ،تو تم حویلی میں جا سکتی ہو۔اماں بھی جا سکتی ہے۔۔‘‘
اس کے لہجے میں تلخی بتا رہی تھی کہ وہ اس موضوع پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔زبیدہ نے آنکھوں کے اشارے سے فرح کو منع کر دیا کہ وہ مزید بات نہ کرے۔چند لمحوں بعد وہ اٹھ گئی تو زبیدہ بھی چلی گئی۔شعیب ہوں تنہا رہ گیا۔وہ پھر سے اپنی کیفیات کا تجزیہ کرنے لگا کہ وہ دل سے اس کی مدد تو کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے انکار کیوں کر دیا۔کیا وہ کوئی ایسا انتقامی جذبہ لیے ہوئے ہے یا کچھ اور۔۔۔اس نے سو طرح سے سوچا، مگر کہیں بھی کچھ ایسا نہیں تھا۔مگر اس کا سکون غارت ہو گیا تھا۔
نادیہ کی پہلی کال سے لے کر آخری بار انٹرکام پر بات ہونے تک نجانے کتنی یادیں لمحوں میں آ کر گذر گئیں۔ایک عام سے لڑکی سے بی بی سائیں کے مقام تک آجانے میں اس کا سارا سفر وہ جانتا تھا۔کہیں بھی اس کی اپنی جدوجہد نہیں تھی۔حالات و واقعات ایسے ہی بنتے چلے گئے اور وہ بی بی سائیں بن گئی۔لیکن۔!جو چیز اس کے ذہن کو بار بار متوجہ کر رہی تھی،وہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی ۔بی بی سائیں کے مقام پر فائز ہوئے اسے تقریباً چارماہ ہو چلے تھے اس دوران وہ بہت بااعتماد ہو گئی تھی۔اس کے اس مقام تک پہنچ جانے میں وہ حالات و واقعات ہی کا اتفاق قرار دے دیتا۔لیکن حیرت بھری الجھن یہ تھی کہ اس کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ وہ جس کے لیے دعا کرتی ہے ،وہ پوری ہو جاتی ہے۔اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ حالات و واقعات کا اتفاق نہیں ہے،بلکہ یہ قدرت کی طرف سے کوئی عطیہ ہے،جس نے نہ صرف اسے بی بی سائیں کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے بلکہ اس کی دعائیں بھی قبول ہو رہی ہیں۔ایسا کیوں ہو گیا؟ یہ بات اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔یہ گتھی وہ کھول سکے گا یا نہیں لیکن اس کے لیے مقام حیرت ہے۔اسے سوچنا ہو گاکہ ان کا ایک نہ ہونا قدرت ہی کی منشاء تھی۔اور اس نے جو مدد چاہی تھی وہ یونہی نہیں تھی۔یہ تو ہو سکتا تھا کہ ایک عام سی لڑکی کے دل میں اس کی محبت ہو اور اب جبکہ اسے موقعہ ملا تو وہ اس کی قربت کی خواہاں ہو۔تبھی اسے کسی نہ کسی طرح قریب رکھنے کے بہانے یہ پراجیکٹ بنایا ہو۔یہ بات نہ اس کا دل قبول کر رہا تھا اور نہ ہی ذہن۔اب جو نادیہ کا مقام ہے ،اس کے ہوتے ہوئے ،اسے خود نادیہ سے دور ہو جانا چاہیے۔وہ جو محبت ان کے دلوں میں موجود ہے ۔کہیں کوئی ہلکی سے چلنے والی ہوا پھر سے سلگ جانے پر مجبور کر دے۔شاید وہ اسی لیے خوف کھا گیا تھا۔تبھی اچانک اس کے من میں یہ خیال آیا کہ کچھ بھی ہے تم دلیلیں مت گھڑو،یہ مان جاؤ کہ تم سے غلطی ہوئی۔تم نے اسے انکار کر کے اچھا نہیں کیا۔تمہارے اندر کا کوئی خوف ہے جو تمہیں ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔ممکن ہے نادیہ کے دل میں محبت کی وہ آگ سرد پڑ چکی ہو۔جس کی چنگاری تم اب بھی اپنے دل میں لیے پھرتے ہو۔
’’مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘اس نے خود سے سوال کیا۔
’’یہی کہ اب جبکہ تم نے اسے انکار کر دیا ہے تو بس کر دیا۔جب تک وہ تمہیں دوبارہ نہیں کہے گی۔تم اپنی بات پر قائم رہو۔غلطی ہوگئی تو بس ہو گئی۔‘‘
’’تو گویا میں اپنی غلطی تسلیم کر لوں‘‘
’’تو یہ ہٹ دھرمی ہو گئی،نہ کرو تسلیم ،غلطی تو پھر بھی غلطی رہے گی۔‘‘
’’ٹھیک،مجھے اب انتظار کرنا ہو گا۔وقت اور حالات مجھے یہ موقع دیں گے تو میں کر لوں گا۔‘‘
’’اب ہوئی نا بات۔۔۔‘‘
اس کے اندر سے آواز آئی تو وہ پر سکون ہو گیا۔
اصل میں ہوتا یہی ہے کہ جب ہمارے ذہن یا دل میں کوئی منفی جذبہ ،یا سوچ پروان چڑھنے لگے تو وہ بد بو کی مانند ہو تا ہے۔اور بد بو کبھی بھی سکون نہیں لینے دیتی۔وہ بے چین رکھتی ہے۔جیسے ہی اس جذبے یا سوچ کوہم نکال باہر پھنکتے ہیں تو پر سکون ہو جاتے ہیں ۔شعیب بھی اسی حالت میں تھا۔
***
دن ایک کے بعد ایک کر کے گذرتے چلے گئے۔ایک موسم گذر گیا تو دو سر ا آگیا۔اس کے ساتھ ہی حویلی کا سناٹا مزید بڑھتا چلا گیا۔بہت پہلے زہرہ بی لندن چلی گئی تھی۔کچھ دنوں بعد یہ خبر آ گئی کہ ظہیر شاہ نے ایک پاکستانی نژاد برطانوی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔جو اس کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہی تھی۔پھر پلٹ کر کوئی خبر نہیں آئی۔یہاں تک کہ اس نے اپنی جائیداد کے حصول کے لیے بھی کبھی کوئی بات نہیں کی۔نہ ہی اس نے اپنی جاگیر سے ہونے والی آمدنی میں سے کبھی کوئی مطالبہ کیا تھا۔بی بی سائیں کے کہنے پر دیوان نے ظہیر شاہ سے رابطہ کیا تھا۔تب اس نے دیوان سے یہی کہا تھا کہ جب تک وہ عورت اس حویلی میں ہے۔میں پلٹ کر نہیں آؤں گا۔رہی جائیداد اور آمدنی کی بات تو وہ کسی بھی وقت آ کر لے لے گا۔تب سے ہی دیوان کو کہہ دیا تھا کہ اس کی آمدنی کا حساب کتاب درست طریقے سے رکھا جائے اور وہ جب بھی مطالبہ کرے اسے فوراً ادا کر دیا جائے۔دیوان پوری پابندی کے ساتھ اس حکم کو نبھا رہا تھا۔
اب حویلی میں دادی اماں ہوتی یا پھر بی بی سائیں۔چند ملازم عورتوں کے ساتھ حویلی میں رونقیں تو کیا ہونی تھیں۔سناٹے مزید بڑھ گئے۔دن رات کے کچھ حصے میں وہ دونوں مل پائیں ۔چند عام سی باتوں کے بعد وہ اپنی تنہا دنیا میں لوٹ جاتیں۔اماں بی اب اپنے آپ میں سمٹ گئی تھیں۔جبکہ بی بی سائیں کا وقت مریدین کے ساتھ گذر جاتا۔جب سے شعیب نے انکار کیا تھا اس نے پلٹ کر دوبارہ اسے نہیں کہا۔بلکہ اپنے چند مریدین کے ذمے لگایا کہ وہ ایک شاندار ادارہ بنائیں ۔اس کی بنیاد ڈال دی گئی تھی۔اوروہ زور شور سے تعمیرہو رہا تھا۔وہ دن میں ایک بار اس ادارہ میں ہونے والے کام کے متعلق بات کرتی،کبھی کبھی زبیدہ پھوپھو آ جاتی تو حویلی میں ذرا سی ہلچل ہوتی،پہلے پہلے فرح بھی آ جاتی تھی۔لیکن اب وہ اس حال میں تھی کہ ایک دو دن ہی میں اس کے ہاں مہمان کی آمد تھی۔اماں بی کو اس کی بڑی فکر تھی۔اس دن بھی جب وہ مل بیٹھیں تودادی اماں نے ذکر چھیڑ دیا۔
’’آج کل میں کوئی خبر آنے والی ہے ۔پتہ نہیں فرح بے چاری کس حال میں ہوگی۔بس اتنی ڈھارس ہے کہ زبیدہ اس کے پاس ہے۔سنبھال لے گی۔مگر دل تو پھر بھی مطمئن نہیں ہوتا نا۔۔‘‘
’’اماں بی۔!آپ ایسا کیوں نہیں کرتیں،اسے یہاں لے آئیں۔یا پھر آپ چلی جائیں اس کے پاس۔‘‘نادیہ نے اس قدر خلوص سے کہا کہدادی اماں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔چند لمحوں تک وہ اس کے لہجے میں کسی دوسرے جذبے کو تلاش کرتی رہی لیکن نہ کر سکیں۔بلکہ اس کے لہجے میں دردمندی کے ساتھ اپنوں کے لیے تڑپ بھی چھلک پڑی تھی۔
’’میں تمہیں اکیلی چھوڑ کر کہاں جاؤں۔بس ایک شعیب ہی تو ہے جو نہیں مانتا ۔ورنہ اس حویلی میں بھی زندگی سانس لینے لگے۔‘‘ذرا سی ٹیس لگی تودادی اماں کا پرانا زخم پھر سے تازہ ہو گیا۔
’’اماں بی۔!اب میں اس پر تو کچھ نہیں کہہ پاؤں گی۔آپ کم از کم فون کر کے ہی اس کے بارے میں معلومات لیتی رہیں۔انہیں احساس تو ہو کہ ہم ان کے لیے فکر مند ہیں۔‘‘
’’چند دن پہلے فون کیا تھا،آج پھر کرتی ہوں۔بلکہ میں کوشش کرتی ہوں کہ زبیدہ کو منا لوں کہ وہ فرح کو لے کر یہاں آ جائے۔شعیب نہ بھی مانا تو میں خود اسے لینے چلی جاؤں گی۔‘‘اماں نے شدت جذب سے کہا۔ان کا لہجہ بھیگا ہوا تھا۔جیسے درد مندی میں ابھی رو دیں گی۔
’’اماں بی۔!آپ ان کا بہت خیال رکھیں۔۔‘‘بی بی سائیں نے کہا تودادی اماں نے اس کی طرف چونک کر دیکھا۔اس کے لہجے میں ہمدردی کے چراغ روشن تھے۔اماں بی نے فون منگوایا اور فرح کے نمبر پش کر دیئے۔کافی دیر تک بیل بجتی رہی لیکن فون کسی نے نہیں اٹھایا۔وہ پریشان ہو گئی کہ وہ فون کیوں نہیں اٹھا رہی۔اس نے چند لمحوں بعد کرنے کا سوچ کر بی بی سائیں سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
’’وہ فون ہی نہیں اٹھارہی۔۔اللہ خیرکرے۔۔‘‘لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے فون آ گیا۔اماں بی نے فون ریسو کرتے ہوئے پوچھا۔
’’فرح بیٹی ،کیسی ہو۔۔۔؟‘‘
’’میں فرح نہیں۔زبیدہ بات کر رہی ہوں۔آپ دعا کریں۔ابھی کچھ دیر پہلے ہم اسے لے کر یہاں ہسپتال میں آئے ہیں۔‘‘وہ گہرے غم زدہ لہجے میں بولی۔
’’کیا ہوا اسے۔۔۔؟‘‘دادی اماں نے حیرت سے پوچھا۔
’’طبعیت خاصی بگڑ گئی ہے۔ڈاکٹروں نے یہی تجویزکیا ہے کہ اسے آپریشن کے مرحلے سے گذرنا پڑے گا۔اب آپ دعا کریں ۔۔۔‘‘
’’کیا اسے آپریشن کے لیے لے کر چلے گئے ہیں۔۔۔‘‘اماں بی نے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ آپریشن ضروری ہے لیکن فرح کی حالت ایسی نہیں ہے۔بہت عجیب صورت حال کا سامنا ہے۔۔اسے بہت زیادہ بلڈ پریشر ہو رہا ہے۔‘‘
’’اللہ خیر کرے۔۔‘‘اماں بی کے منہ سے نکلا پھر پوچھا۔’’فرح سے بات تو کراؤ۔۔‘‘
’’اماں،اس کی حالت ایسی نہیں کہ بات کر سکے۔اگر ٹھیک ہو گئی تو کر لے گی۔‘‘آخری لفظ کہتے ہوئے زبیدہ کا لہجہ بھرا گیا اور پھر وہ کچھ نہ کہہ سکی اور فون بند کر دیا۔
بی بی سائیں کے چہرے پر تشویش ابھرآئی۔صورت حال تو خاصی مخدوش تھی۔ اسے خود پر افسوس ہونے لگا کہ وہ رابطہ کیوں نہ کر رکھ سکی۔یہ رابطہ ہی کی کوتاہی تھی کہ اسے فرح کی طبیعت بارے معلوم ہی نہ ہو سکا۔اسے خود پر افسوس ہونے گا۔پھر کچھ دیر سوچ کربولی۔
’’اماں بی۔!آپ جائیں ہسپتال۔۔اسے دیکھیں اور حوصلہ دیں۔۔تاجاں مائی آپ کے ساتھ جاتی ہے۔وہ مجھے صورت حال سے آگاہ کرتی رہے گی۔‘‘بی بی سائیں نے کہااور اٹھ گئی۔اماں بی تو جیسے اسی انتظارمیں تھی۔فوراً ہی تیار ہو گئی۔کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ وہ ہسپتال پہنچ گئی ہے۔
وہ جائے نماز پر بیٹھی فرح کے بارے میں سوچ رہی تھی۔کچھ دیر پہلے جو اس کے بارے میں معلوم ہوا تو کتنا دکھ ہوا تھا اسے۔ایک طرح سے وہ بھی اب اس جیسی ہوگئی ہوئی تھی،نہ باپ تھا اور نہ ماں۔۔۔
’’لیکن اس کا ایک شوہر ہے اور محبت کرنے والی ماں کے جیسی ساس بھی ۔۔۔لیکن ۔تیرے پاس نہیں ہے۔تم اسے اپنے ساتھ مت جوڑو۔۔بلکہ رشک کرو اس کی قسمت پر اس کے چاہنے والے اس کے سر پر ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں۔!یہ اس کی قسمت ہے اور جو میری قسمت ہے ۔۔وہ مجھے مل گئی ہے۔۔۔اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘‘
’’اگر اسے کچھ ہو گیا تو۔۔۔!‘‘
’’یہ بھی تو اللہ کی مرضی ہے نا۔۔‘‘
’’اس کا بچہ کیا کرے گا ۔۔کون سنبھالے گا۔۔‘‘
اس سوچ کے آتے ہی ایک ایسی سوچ اس کے دماغ میں سرسرائی کہ وہ بے چین ہو گئی۔
’’کیا یہ قدرت کی طرف سے ایسے حالات بن رہے ہیں کہ فرح درمیان میں نہ رہے اور ۔۔میں۔۔۔‘‘یہ سوچتے ہی وہ لرز گئی۔
’’نہیں۔!کسی کی زندگی۔۔اور میری خوشی کے شادیانے۔۔نہیں میرے مولا میں ایسا نہیں چاہتی ۔۔مجھے کس امتحان میں نہ ڈال میرے مولا۔۔۔‘‘یہ سوچتے ہوئے وہ زاروقطار رونے لگی۔پتہ نہیں کتنی دیر یونہی گذر گئی ۔تبھی تاجاں مائی کا فون آ گیا۔
’’ہاں تاجاں ۔۔بتاؤ ۔۔کیسی ہے فرح۔۔‘‘
’’اس کا تو پتہ نہیں۔۔لیکن آپریشن کے بعد اللہ نے اسے بہت پیارا سا بیٹا دیا ہے۔۔‘‘
’’اچھا اورکیسا ہے ۔۔‘‘اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’بہت پیارا۔۔۔‘‘
’’اور فرح۔۔؟‘‘
’’ڈاکٹر اس کی زندگی سے اتنی اُمید نہیں رکھتے ۔۔اسے اب تک ہوش آ جانا چاہئے تھا۔لیکن نہیں آیا۔۔ڈاکٹر بھی پریشان ہیں۔۔۔‘‘
’’جو کچھ بھی ہونا ہے ۔۔میرے اللہ سائیں نے کرنا ہے۔۔تم پریشان نہ ہو۔۔تم وہیں رہنا ۔جب تک اسے ہوش نہ آ جائے۔۔۔اماں بی کو چاہے واپس بھیج دینا۔‘‘
’’جی۔۔!بی بی سائیں۔جیسا آپ کا حکم۔‘‘
بی بی سائیں نے فون بند کر دیا۔ایک عجیب ہلچل سی اس کے من میں پھیل گئی تھی۔وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے جا لگی۔باہر کے منظر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے۔وہاں اس کا دل نہیں لگا۔وہ پھر سے جائے نماز پر آن بیٹھی۔اور صدق دل سے دعا مانگنے لگی۔
ساری رات اسی طرح گذر گئی۔اماں بی واپس نہیں لوٹی تھی۔فرح کی حالت واقعتا کچھ زیادہ ہی تشویش ناک ہو گئی تھی۔تاجاں مائی گاہے بگاہے اسے آگاہ کرتی رہی۔اس وقت صبح نو ر ہونے والی تھی کہ تاجاں مائی کا فون ملا،فرح کی حالت خاصی بگڑ گئی تھی۔
’’بی بی سائیں ۔!فرح کا کوئی پتہ نہیں۔میرے خیال میں آپ ایک دفعہ ہسپتال کا چکر ضرور لگا جائیں۔ورنہ ساری زندگی۔۔۔‘‘
’’میں آتی ہوں۔۔‘‘اس نے کہا اور فون رکھ دیا۔وہ سمجھ چکی تھی کہ تاجاں کیا کہنا چاہتی ہے۔کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے لیے مخصوص گاڑی میں اپنی ملازمہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہسپتال کی طرف جا رہی تھی۔ڈرائیو ر اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا۔نجانے کن کن راستوں سے ہوتے ہوئے وہ کب ہسپتال جا پہنچے۔جس وقت وہ فرح کے کمرے میں گئی تو وہ نیم وا آنکھوں سے اس کی راہ تک رہی تھی۔۔ایک طرف بیڈ پردادی اماں اور دوسری طرف زبیدہ پھوپھو تھیں۔قریب ہی کارٹ میں وہ ننھا مہمان تھا۔جس کے پاس تاجاں بیٹھی ہوئی تھی۔شعیب کہیں دکھائی نہیں دیا۔وہ فرح کے قریب بیٹھ گئی اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیئے۔
’’حوصلہ کرو فرح۔۔تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔ایسا نہیں ہے۔اچھا کیا تم آ گئیں۔۔۔میری بعد میرے بیٹے کی پرورش کرنا۔یہ تمہاری ذمے داری ہے ۔۔۔اور شعیب۔۔۔‘‘
’’مایوسی کی باتیں مت کرو۔۔۔اچھا اچھا سوچو۔۔۔‘‘
’’ڈاکٹر نا امید ہو چکے ہیں۔۔چند سانسیں ۔۔ہیں۔۔۔‘‘
’’اللہ کی رحمت سے انسان کو کبھی بھی نا امید نہیں ہونا چاہیے۔۔۔‘‘بی بی سائیں نے جیسے ہی یہ لفظ کہے،انہی لمحات میں اس کا سیل فون بج اٹھا۔اجنبی نمبر تھے۔چند لوگوں کے علاوہ تو کسی کے پاس اس کا نمبر نہیں تھا۔اس نے اسکرین پر دیکھا اور پھر فون ریسو کر لیا۔
’’میں شعیب بات کر رہا ہوں۔‘‘شعیب نے آواز تو وہ لاکھوں آوازوں میں سے پہچان سکتی تھی۔
’’جی۔!‘‘اس نے انتہائی اختصار سے کہا۔
’’میں اس وقت ہسپتال ہی میں ہوں۔۔اور کاریڈور میں اس لیے کھڑا ہوں کہ تم نے آنا ہے ۔۔اب دیکھ لو اس کی حالت۔۔میں نے سنا ہے کہ تم جو بھی دعا کرتی ہو ۔۔وہ پوری ہو تی ہے۔۔میں اپنے بیٹے کو کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا۔۔دعا کرو۔۔۔میری بیوی بچ جائے۔۔۔‘‘شعیب نے کہا تو نادیہ نے اگلے ہی لمحے کہا۔
’’ایک شرط پر ۔۔!‘‘
’’بولو۔!میں تمہاری ہر شرط ماننے کو تیار ہوں۔‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں سنجیدگی سے کہا۔
’’تمہارا بیٹا حویلی میں رہے گا۔اپنی ماں کے ساتھ۔۔‘‘
’’یہ۔۔۔یہ۔۔۔کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔۔‘‘شعیب نے تڑپ کر کہا۔
’’ابھی آپ نے کہا کہ آپ ہر شرط ماننے کو تیار ہیں اور اتنی سی بات پر تڑپ اٹھے ۔۔۔ دیکھو۔!زندگی اور موت تو اللہ سائیں نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے نا۔۔کیا کوئی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے ۔آپ نے اپنی انا پر ذرا سی ٹھیس نہیں آنے دی ۔تو کیا رب تعالیٰ اپنے نظام میں مداخلت برداشت کر سکتا ہے۔میں پورے خلوص سے دعا گوہوں ۔۔کہ اللہ تعالیٰ فرح کو صحت دے۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔۔۔میرا بیٹا حویلی میں پرورش پائے گا۔میں مان لیتا ہوں۔۔لیکن فرح کے ساتھ۔۔یہی تم نے شرط عائد کی ہے نا۔۔۔میں اپنے گھر جا رہا ہوں تم ان سب کو حویلی لے جانا۔۔چاہے جیسی بھی حالت ہو۔۔‘‘شعیب نے کہا۔
ایک بہت بڑا امتحان بی بی سائیں کے سر آ گیا تھا۔رات کے پہلے پہر جو خیال اس کے ذہن میں آیا تھا کہ اگر فرح نہ رہے تو شعیب اس کا ہو سکتا ہے ۔کس قدر خودغرضی تھی ۔ اسے اپنے آپ سے گھن آنے لگی تھی کہ اب وہ یہ سوچ سکتی ہے ۔لیکن انسان اپنی سوچ پر دسترس تو نہیں رکھ سکتا۔کوئی بھی خیال آ سکتا ہے ۔اگرچہ اس نے اس خیال کو فوراً ہی جھٹک دیا تھا۔لیکن یقین کے آئینے پر ایک خراش ضرور ڈال گیا تھا۔اگر فرح اس دنیا میں نہ رہی تو وہ کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر پائے گی کہ وہ تو چاہتی ہی فرح کی موت تھی کہ وہ ہی ان کے درمیان رکاوٹ تھی۔اس نے ایک نگاہ فرح کی طرف دیکھا جو نیم وا آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔فون کی سائیں سائیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
’’نہیں۔!آپ مت جاؤ۔۔بلکہ اللہ نے چاہا تو شام سے پہلے تندرست ہو جائے گی اگرچہ آپریشن کا زخم تو رہے گا۔ وہ تو جاتے جاتے جائے گا۔لیکن فرح بھی خطرے سے باہر آ جائے گی۔تب آپ خود ہی انہیں لے کر حویلی آ جانا۔۔میں جا رہی ہوں۔۔۔‘‘یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔پھر چند لمحے بیٹھ کر جس طرح آئی تھی اسی طرح واپس پلٹ گئی۔اس وقت سورج طلوع ہو رہا تھا ۔جب وہ حویلی میں داخل ہوئی۔
***
شعیب کو یہ احساس تو تھا کہ جیسا وہ کہے گی ،ویسا ہو جائے گا۔بی بی سائیں کی بات پر اسی رات اسے یقین ہو گیا۔شام ہونے سے پہلے ہی فرح کی طبیعیت سنبھلنے لگی تھی اور پھر رات جب لیڈی ڈاکٹر نے خصوصی طور پر آ کر اسے دیکھا تو اسے کسی بھی خطرے سے باہر قرار دیا۔اماں بی نے اسی وقت ڈاکٹر سے فرح کو ڈسچارج کردینے کے لیے کہا۔
’’اچھا ہے اگر ایک دو دن مزید یہاں رہیں ،لیکن آپ کہتے ہیں تو لے جائیں۔ڈاکٹر نے اپنی رائے دی۔
’’آپ کو دو وقت گاڑی لے آیا کرے گی،آپ ہی نے اسے دیکھنا ہے ۔‘‘زبیدہ نے کہا تو ڈاکٹر فوراً ہی مان گئی۔اسے معلوم تھا کہ یہ کس فیملی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔کچھ ہی دیر بعد وہ سب حویلی کی طرف چل دیئے تھے۔شعیب انہیں خود لے کر گیا تھا۔
فرح کے لیے جو کمرہ مختص کیا گیا تھا ۔اس میں جہاں فرح کے لیے ہر طرح کی سہولیات کا خیال تھا ،وہاں ننھے مہمان کے لیے بھی پورا اہتمام کیا گیا تھا۔ایک دن کے بچے نے کھلونوں سے کیا کھیلنا تھا لیکن وہاں پر ایک کونا پوری طرح سجا ہوا تھا۔اس کمرے پر ایک نگاہ ڈالتے ہی شعیب کو یوں لگا جیسے نادیہ کو پورا یقین ہو کہ وہ یہیں آئیں گے۔وہ کچھ دیر وہاں رہا۔پھر واپس پلٹنے کے لیے تیار ہو گیا۔
’’اب تم کہاں جاؤ گے۔یہیں رہو۔‘‘اماں بی نے حیرت سے کہا۔
نہیں،میرا بی بی سائیں سے وعدہ تھا کہ انہیں خود لے کر آؤں گا ،وہ میں لے آیا۔اب میں اپنے گھر جاتا ہوں۔روزانہ انہیں دیکھنے کے لیے آ جایا کروں گا۔‘‘
’’یہاں رہنے میں آخر تمہیں رکاوٹ کیا ہے۔۔۔کیوں نہیں ٹھہرتے تم یہاں۔۔‘‘اماں بی نے پھر پوچھا۔ان کے لہجے میں غصہ ملی حیرت جھلک رہی تھی۔تبھی اس نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’رکاوٹ۔۔۔بی بی سائیں ہیں۔۔ایک ہی چھت تلے دو نا محرم نہیں رہ سکتے۔۔‘‘شعیب نے کہا اور جانے کے لیے اٹھ گیا۔اس نے ایک نگاہ فرح پر ڈالی جو اس کی طرف بڑے پیار سے دیکھ رہی تھی۔پھر اپنے بیٹے کو پیار کیا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ایک بہت بڑا بوجھ اس کے ذہن سے اتر گیا تھا۔وہ ایک پر سکون نیند لینا چاہتا تھا۔وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ پہنچا،فریش ہو ا اور کھانا کھا کر سو گیا۔بہت دنوں بعد وہ ایسی پر سکون نیند ہویا تھا۔
***
بی بی سائیں کے لیے وہ رات کسی امتحان سے کم نہیں تھی۔اسے جب معلوم ہوا کہ شعیب چلا گیا ہے تو وہ فرح کے کمرے میں آ گئی۔جہاں دادی اماں اور زبیدہ پھوپھو موجود تھیں۔وہ کچھ دیر فرح کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔تبھی تاجاں مائی نے بچے کو اچھی طرح لپیٹ کر اس کی گود میں دے دیا۔جیسے ہی وہ اس کی گود میں آیا تو بی بی سائیں نے اندر سے کہیں ایک لہر اٹھتی ہوئی محسوس کی۔وہ لہر نجانے کیاتھی۔ اس کی اسے بھی سمجھ نہیں آئی۔لیکن بے چین کر دینے والی اس لہر نے اس کے عورت پن کو یوں چھوا کہ پوری جان سے لرزا کر رکھ دیا۔اسے بچے پر ٹوٹ کر پیار آیا۔اس کے پھول جیسے گالوں کو جب ا سنے اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوا تو اسے یوں لگا جیسے وہ زندگی کو چھورہی ہے۔ایک انجانی حرارت اس کے رگ و پے میں سرائیت کر گئی۔جس نے اسے بے حال کر کے رکھ دیا۔انہی لمحات میں دادی اماں نے کہا۔
’’شعیب نے اپنی بات پوری کی اور یہاں تک انہیں چھوڑ گیا۔کہہ گیا ہے کہ وہ روزانہ آ جایا کرے گا۔‘‘
’’اگر یہیں رہ لیتے تو زیادہ اچھا تھا۔‘‘بی بی سائیں نے ہولے سے کہا۔
’’جاتے جاتے وہ ایک بات کہہ گیا ہے۔۔۔کہ وہ کیوں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔‘‘اماں بی نے یوں کہا جیسے وہ اس سے کوئی حتمی بات کہنے جا رہی ہو۔
’’کیا بات کہہ گئے ہیں وہ۔۔کس وجہ سے وہ یہاں نہیں رہنا چاہتے۔‘‘اس نے یوں پوچھا جیسے وہ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ رہی ہو کہ چلو برف تو پگھلی،دھیرے دھیرے ٹھیک ہو جائے گا۔
’’وہ وجہ تم ہو بی بی سائیں۔۔اس نے کہا ہے کہ شریعت ایک ہی چھت تلے رہنے کی اجازت نہیں دیتی۔‘‘
یہ ایک دھماکہ تھا جو اس کے اندر ہوا۔مگر اس کا احساس نہیں ہونے دیا۔وہ کچھ نہ بولی،سمجھ گئی کہ اگر وہ اس سے پردہ کرتی ہے ،اس کے سامنے نہیں آتی تو اسے بھی ایسی بات کہنے کا پورا پورا حق ہے اور وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔
’’میرے خیال میں اس نے غلط نہیں کہا۔‘‘زبیدہ پھوپھو نے تیزی سے شعیب کی وکالت کرے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔!اس نے غلط نہیں کہا۔وہ درست ہے۔۔ہمیں یہ بات پہلے ہی سمجھ جانی چاہیے تھی۔‘‘بی بی سائیں نے اپنی پوروں سے بچے کے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔تبھیدادی اماں نے کہا۔
’’اگر تم چاہو۔!تو شعیب آزادی سے یہاں رہ سکتا ہے۔۔‘‘
اماں کے یوں کہنے پر بی بی سائیں نے تیزی سے فرح کے چہرے پر دیکھا۔اس کے خیال میں یہی تھا کہ وہاں ملال اور دکھ کی پرچھائیاں ہوں گی۔لیکن وہ مسکرا کر بڑے اشتیاق سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ فرح نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔
’’انکار مت کرنا ۔۔۔تمہارے ہاں مجھے حوصلہ دے گی اور میں اپنے شوہر کو منانے میں پورے اعتماد سے بات کر سکوں گی۔۔حویلی کی ضرورت اپنی جگہ ،لیکن نکاح سنت بھی تو ہے نا۔۔۔اسے اپنا لو۔۔‘‘
’’کیا مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے گا۔۔۔‘‘بی بی سائیں نے آہستگی سے کہا۔
’’صرف آج کی رات۔۔۔‘‘اماں بی نے یوں کہا جیسے حکم دے رہی ہو۔
’’ٹھیک ہے۔۔‘‘ اس نے بچے کو تاجاں کی طرف بڑھایا اور خود اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی ۔۔رات بھر وہ سوچتی رہی ۔زندگی ایک بار پھر اس کے لیے خوشیاں لے کر آ گئی تھی۔اس یہ اس کے ہاتھ میں تھا کہ بڑھا کر خوشیاں سمیٹ لے یا پھر ان سے منہ موڑ لے۔۔اورشاید یہ آخر ی موقع تھا۔اور شاید زندگی پھر اسے کبھی ایسا موقعہ نہ دے۔۔ایسا کڑا امتحان جب بھی اس پر آیا۔وہ سوچتی تو تھی لیکن اپنا فیصلہ رب کے سپرد بھی کیا کرتی تھی۔رات کے پچھلے پہر جب وہ تہجد کے لیے اٹھی تو اسے فیصلے کا جواب مل چکا تھا۔یہ اس کا اپنا فیصلہ نہیں تھا ،بلکہ اس پر انہوں نے بھی صاد کر دیا تھا ،جہاں سے اسے ہر طرح کی قوت میسر تھی۔صبح جب سورج طلوع ہوا تو اس نے اپنے فیصلے سے دادی اماں کو آگاہ کر دیا۔
***
حویلی میں شعیب کے لیے ایک شاندار کمرہ مختص کر دیا گیا تھا۔جس کا دروازہ کھولتے ہوئے اس کا انگ انگ خوشی سے بھرا ہوا تھا ۔ایک طرف جہاں بہت سارے معاملات سلجھ جانے کی خوشی تھی تو دوسری جانب اس آواز کو مجسم دیکھنے کا تجسس اپنے پورے عروج پر تھا۔جس نے اس کے اندر محبت کی جوت جگائی تھی۔دوپہر کے بعد اس کا نکاح نادیہ سے ہو گیا تھا۔اور یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح مریدین میں پھیل گئی تھی۔دوپہر سے لے کر اب سے تھوڑی دی قبل تک وہ بہت مصروف رہا تھا۔کچھ دیر پہلے اسے تنہائی میسر آئی تھی۔اس تھوڑے سے وقت میں پہلی کال سے لے کر اب تک کے سارے واقعات اس کی نگاہوں میں گھوم گئے تھے۔زندگی نے اسے سب کچھ دے دیا تھا۔لیکن ایک طویل صبر کے بعد۔اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی بیڈ پر نادیہ سرخ عروسی جوڑے میں گٹھڑی ہی بیٹھی تھی۔اسے خیال آیا،فرح بی کچھ ایسے ہی بیٹھی تھی۔اسے بھی پہلے نہیں دیکھا تھا۔لیکن تب اس کے جذبات کچھ اور تھے اور یہاں کچھ اور۔۔ایک اشتیاق تھا جو اسے دھیرے دھیرے لرزائے ہوئے تھا۔وہ اس کے پاس جا بیٹھا تو نادیہ کچھ مزید سمٹ گئی۔اس نے چند لمحے اسے دیکھا اور پھر جیب میں سے کنگن نکال کر اپنے گورے ہاتھ میں پکڑ لیا۔کنگن پہناتے ہوئے اس نے واضح طور پر محسوس کیا کہ نادیہ بھی لرز رہی ہے۔پھر وہ لمحہ بھی آ گیا اس نے دھیرے سے اس کا گھونگھٹ اٹھایا تو چند لمحے کے لیے مبہوث ہو کر رہ گیا۔اس قدر خوبصورت ہے نادیہ۔۔۔؟ وہ تو اس کی سوچوں سے بھی زیادہ حسین نکلی۔۔۔وہ آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی۔اور اس کے پیوٹے ہلکے ہلکے لرز رہے تھے۔تبھی اس نے آہستگی سے کہا
’’آج آواز میرے سامنے مجسم ہو گئی۔۔بلاشبہ تم آواز سے بھی زیادہ خوبصورت ہو۔۔‘‘اس کے یوں کہنے پر نادیہ نے آنکھیں کھول دیں۔اسے بس ایک لمحہ کو دیکھا اور پھر نگاہیں جھکا لیں۔
’’آواز سے مجسم ہو جانے کا سفر بہت صبر آزما رہا۔۔۔تم کیسا محسوس کر رہی ہو۔۔؟‘‘
’’وہی جو ایک عورت محسوس کرتی ہے۔۔۔‘‘اس نے ہولے سے کہا۔
’’نادیہ۔!زندگی نے جس طرح طویل راستے طے کرنے کے بعد ہمیں آپس میں ملایا ہے ۔بلاشبہ اس مسافت نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ہم نے کھویا کچھ نہیں۔تمہارا بی بی سائیں کا اسٹیٹس ویسا ہی رہے گا۔۔میں اس میں قطعاً مداخلت نہیں کروں گا۔‘‘
’’آپ کا بہت شکریہ ۔۔آپ نے میرا اعتماد بڑھا دیا۔میری تمام تر سپردگی آ پ کے لیے ہے۔میرا بی بی سائیں ہونا اپنی جگہ ۔۔۔میںآپ کی بیوی بھی ہوں۔۔آپ کا ہر حکم ماننا میرا فرض ہے۔‘‘
’’آؤ ۔!دو رکعت نماز شکرانہ ادا کریں۔باقی زندگی تو اب ہماری دسترس میں آ ہی چکی ہے۔۔‘‘شعیب نے اس کا ہاتھ پکڑکر اٹھا یا تو نادیہ کو یوں لگا جیسے واقعتا زندگی اب اس کی دسترس میں آ چکی ہے۔اس کی چاہ میں جومسافتیں تھی ۔اب نجانے کہاں تھیں۔منزل مل جانے کا سکون وہ محسوس کر رہی تھی۔یہ محبت ہی تو تھی جس نے آخر انہیں جیت لیا۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...