(Last Updated On: )
“آپ۔۔۔۔۔ آپ دانین آپی ہیں نہ ؟’ اس کو خاموش دیکھ کر اس نے دوبارہ سوال کیا۔ فروا بھابھی خود ہکا بکا کھڑی تھیں سو ان کی طرف سے بات سنبھالنے کی امید چھوڑ کر دانین نے آنکھیں بند کر کے گہری سانس لی
“کون دانین؟ اور تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے کام میں انٹر فئیر کرنے کی ۔” اس نے آواز بدل کر سخت لہجے میں اس کی طرف دیکھا۔ اس کی شعلے اگلتی آنکھیں دیکھ کر رابیل کو اپنے جسم میں ایک سرد سی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی
“مم۔ میں تو ۔” اس کا انداز دیکھ کر الفاط رابیل کے گلے میں ہی اٹک کر رہ گئے
“شٹ اپ۔ سٹوپڈ لڑکی ۔” دانین ایک دم سے گرجی تو وہ سہم کر بے اختیار پیچھے ہٹی اور فروا بھابھی کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی
“خاموش کھڑی رہو ۔دیکھ نہیں رہی ان کا غصہ۔ ایسا نہ ہو تم بھی لپیٹ میں آجاؤ۔” فروا بھابھی نے اسے مزید ڈرایا
“پر بھابھی یہ رنگ تو دانین آپی کی ہے جو ماما نے پہنائی تھی ۔ رابیل کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی تھی ۔ اگلے ہی لمحے وہ اچھل کر رہ گئی کیوں کہ دانین نے ایک زور دار تھپڑ نیچے پڑے آدمی کو دے مارا تھا ۔ وہ اس کے تیور دیکھتے ہوئے بھاگ کر گاڑی میں جا بیٹھی ۔ اس کا دھیان ہٹنے پر دانین نے اللہ کا شکر ادا کرتے اس آدمی کو اٹھایا اور فروا بھابھی سے گن لے کر اس کی کنپٹی پر رکھی
بول! کس کے کتے ہو تم ؟”
“چل بول نہ ۔” اس کو خاموش دیکھ کر اس نے گن کا دباؤ بڑھایا
“راجہ ،راجہ نام ہے ہمارے باس کا۔” اس نے جلدی سے نام لیا ۔ نام سن کر وہ دانت پیس کر رہ گئی
“دفع ہوجاؤ ۔ تمہارے راجہ کو تو میں دیکھ ہی لوں گی مگر آج کے بعد اگر تم مجھے ایسی کوئی حرکت کرتے مل گئے تو خود پہ خود ہی فاتحہ پڑ لینا، کیوں کے کسی اور کو تو تم ملو گے نہیں کہ تم پر چار قل ہی پڑھ سکے ۔ ” اس نے اس کو جیپ کے پاس پڑے دونوں ساتھیوں کی طرف دھکا دیا ۔ ارداہ تو اس کا مزید طبعیت صاف کرنے کا تھا مگر رابیل کی مشکوک نظریں وہ ابھی بھی خود پر محسوس کر رہی تھی اس لیے منظر سے غائب ہونا ہی مناسب سمجھا۔ اس نے فروا کو بھی اشارہ کیا تو وہ ارسل اور ایان کو لے کر گاڑی کی طرف آئی
“اوئے رکو ! کہاں جا رہے ہو؟ ان کو بھی لے کر جاؤ ۔” دانین نے اس کو اٹھ کر بھاگتے دیکھ کر آواز لگائی تو وہ جلدی سے مڑا اور ان کو اٹھا کر جیپ کی طرف لے جانا چاہا مگر ایک تو وہ جسامت میں بھی اس سے تھوڑے صحت مند تھے دوسرا وہ سب تو ایک ایک ہی وار سے چیں بول گئے تھے ۔ان کے بعد وہ اکیلا ہی اس کے عتاب کا شکار بنا رہا تھا اس لیے وہ اٹھانے کی بجائےگھسیٹ کر ان کو گاڑی کی طرف لے جانے لگا ۔
“ہمت اتنی سی ہے مگر ابھی کہیں سے کوئی لڑکی نظر آ جائے تو تمہارے انگ انگ میں بجلی بھر جانی ہے ۔” دانین سر جھٹکتی اس کی طرف آئی اور اس کو ان کے پاؤں سے پکڑنے کا کہہ کر خود سر سے پکڑنے کی بجائے ان کے بالوں سے پکڑا
آرام سے ۔”اس نے بال تو نیچے پڑے آدمی کے مٹھی میں جکڑ رکھے تھے مگر سامنے والے کو اپنے جڑ سے اکھڑتے محسوس ہوئے تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا
واٹ؟” دانین نے حیرت سے اس کو دیکھا
نہیں نہیں آپ کریں ۔ معافی چاہتا ہوں ۔” اس نے جھٹ سے ایک ہاتھ کھڑا کیا
دانین نے دونوں لڑکے اس کی جیپ میں منتقل کروائے اور اپنی جیکٹ اٹھا کر ان کو جانے کا اشارہ کیا ۔ فروا بھابھی کو بھی اس نے ہاتھ سے گاڑی آگے بڑھانے کو کہا ۔ دونوں گاڑیاں ایک دوسرے کے مخالف سمت چلی گئیں۔ وہ تب تک کھڑی وہاں دیکھتی رہی جب تک دونوں گاڑیاں ہی نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی ۔ وہ گہری سانس لیتے ہوئے اپنی گاڑی تک آئی اور فون اٹھا کر افشین کو کال کرنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فروا بھابھی نے گاڑی گیراج میں روکی تو سب سے پہلے فروا باہر نکلی اور تیز تیز قدموں سے اندر کی طرف بڑھی۔اس کی جلدی کے پیچھے کا مقصد سمجھ کر وہ مسکرا دیں۔جیسے ہی وہ ہال سے گزر کر اوپر جانے لگی۔کچن سے آتی اوازیں سن کر رکی اور پلٹ کر کچن کی طرف آئی تو گرتے گرتے بچی۔سامنے ہی دانین ایپرن پہنے چولہے کے سامنے کھڑی فرائنگ پین میں چمچ ہلا رہی تھی۔پاس ہی نوشین بیگم بھی بیٹھی پیاز کاٹنے کے ساتھ ساتھ اس سے باتیں کر رہی تھیں۔ نوشین بیگم نے سر اٹھایا تو اس کو دیدے پھاڑے دروازے میں ایستادہ پایا
ارے ! تم لوگ آگئے؟”
“آپی آپ؟” اس نے نوشین بیگم کی بات جا جواب دینے کی بجائے دانین کو مخاطب کیا
“ہاں میں.” دانین نے اس کے چہرے پر ثبت حیرانگی اور بےیقینی پر لبوں پر امڈتی مسکراہٹ کو بمشکل روکا
اپ کب آئیں؟”
“کہاں ؟دنیا میں یا اس گھر میں؟” دانین نے الٹا سوال کیا
“باہر سے ۔”اس نے لفظ باہر پر خاصا زور دیا
“باہر سے؟ میں تو اج باہر گئی ہی نہیں۔ کچھ میری طبعیت بھی ٹھیک نہیں تھی اور پھر آنٹی نے کہا ملازمہ چھٹی پر ہے تو ان کی کچن میں ہیلپ کروا دوں ۔”اس نے مڑ کر چولہے کی آنچ ہلکی کرتے ہوئے جواب دیا
رئیلی آپی۔”
“ہاں بیٹا وہ تو صبح سے میرے ساتھ ہی ہے ۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” نوشین بیگم نے پوچھا
“اپ کی رنگ اور گھڑی کہاں ہے؟” رابیل اس کی موجودگی سے بھی مطمئن نہیں ہو پا رہی تھی
“کمرے میں ہے ۔” وہ قورمہ دم پر رکھ کر اس کی طرف آئی
“رابی کیا بات ہے ؟ کیوں اتنے سوالات کر رہی ہو؟”نوشین بیگم نے اس کو گھورا
“آپ کو پتہ ہے ماما آج کچھ لڑکوں نے ہمارا راستہ روکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اس نے دو منٹ میں ہی ساری تفصیل ان کے گوش گزار دی ۔
“پتہ نہیں کیوں ہر ایسے موقعے پر میں اس کے ساتھ کیوں نہیں ہوتی۔” دانین کے میک اپ میں چولے کے پاس کھڑی افشین بڑبڑائی
“آپ نے کچھ کہا کیا۔”رابیل نے اس کی بڑبڑاہٹ سن کر پوچھا
“نہیں۔اور تمہیں ایسے ہی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔میں اور مار دھاڑ۔بالکل بھی نہیں۔میری تو چھپکلی دیکھ کر ہی جان نکل جاتی ہے۔” اس نے دل ہی دل میں دانین کو ڈھیروں گالیوں سے نوازتے ہوئے کہا ۔اسے تقریبا آدھے گھنٹے پہلے ہی دانین کی کال آئی تھی کہ اس کی چھوٹی سے تکرار ہوئی ہے جس ہر وہاں موجود رابیل کو اس پر شک ہوگیا ہے اس لیے ان کے آنے سے پہلے اسے وہاں موجود ہونا چاہییے
“لو بتاو بھلا ۔جیسا تم بتا رہی ہو کہ بہت بے دردی سے مارا ہے ۔اپنی دانین خیر سے ایسا کچھ نہیں کر سکتی ۔اس کی صحت دیکھو اور تمہارا بتایا ہوا نقشہ سوچو تو سوچ کر ہی ہنسی آتی ہے ۔یہ دھان پان سے لڑکی ان تین غنڈوں کا کیا مقابلہ کرے گی اور ویسے بھی یہ صبح سے ہی میرے ساتھ ہے ۔”
” ویسے ہی تمہیں لگا ہوگا ۔اب جاؤ جا کر ریسٹ کرو۔ کچھ دیر سو جاؤ تاکہ تم ریلیکس ہو سکو۔”نوشین بیگم نے اس کو سمجھاتے ہوئے منظر سے ہٹانا چاہا۔
“جی ماما۔” وہ کچھ مشکوک سی افشین کی پشت دیکھتی کچن سے نکل گئی
“توبہ ہے آنٹی ۔اپ کی بیٹی میں جاسوس بننے کے سارے گن ہیں۔ مجھ سے لکھوا لیں یہ ابھی بھی مطمئن نہیں ہوئی ہے۔ سو بی کئیر فل ” افشین ایپرن اتار کر سلیب پر رکھتی نوشین بیگم کے پاس آ بیٹھی۔ انہوں نے بھی اس کی تائید میں سر ہلا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بات سنو تم میری۔” افشین نے چائے کا کپ تقریباً اس کے سامنے پٹخا۔
“ہاں جی سناؤ۔” وہ ہمہ تن گوش ہوئی۔
“تم اپنا کوٹہ پورا کر چکی ہو اب یہ ہمارا ہے۔” افشین نے تہہ خانے کی طرف اشارہ کیا۔
“تم سے کس نے کہا؟” دانین نے اطمینان سے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔
” تمہاری ہونے والی نند پوری تفصیل بتا چکی ہے ۔” افشین نے اپنے تئیں مزید گوہر افشانی کی مگر دوسری جانب بلا کا اطمینان تھا۔
“اچھا۔” دانین نے صرف ایک لفظی جواب دیا۔
“کیا اچھا، دیکھو میں پھر تمھیں کہہ رہی ہوں کہ تم اب نیچے نہیں جاؤ گی۔” افشین نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔ اس کی کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی تھی۔ اشعر نے بھی سر ہلا کر افشین کی تائید کی۔
“اوہ آئی سی۔” اس نے اشعر کی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیزی سے لب سکیڑے تو وہ کھسیا کر رہ گیا۔ افشین جو ان دونوں کو حیرت سے اشارے بازی کرتے دیکھ رہی تھی چند لمحوں کے لیے سمجھنے کی کوشش کرنے لگی مگر جب ان کے اشارے بازی اس کی سمجھ سے باہر ہوئی تو وہ جھنجھلا اٹھی۔
” اگر تم لوگوں نے اشاروں میں ہی باتیں کرنی ہیں تو پھر یہاں میرا کیا کام۔ میں جا رہی ہوں یہاں سے۔” وہ نروٹھے پن سے کہتے ہوئے وہاں سے اٹھی اور اپنے قدم بیسمینٹ کی جانب بڑھائے۔
” مجھے وہ زندہ چاہیے۔” اس کو دروازے سے نکلتا دیکھ کر دانین نے آواز لگائی۔
“مل جائے گا۔” اس نے رکے بغیر جواب دیا۔ اشعر بھی اٹھ کر اس کے پیچھے ہی چلا گیا۔ افشین نے تہہ خانے میں جانے سے قبل گیسٹ روم میں موجود اس بچی کو بھی ساتھ لے لیا جسے اس نے اشعر کو بھیج کر بلوایا تھا۔ وہ تینوں تہہ خانے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہ سامنے ہی بدحال سا دیوار کے ساتھ بندھا ہوا تھا اور اس کی گردن بھی ایک جانب کو ڈھلکی ہوئی تھی۔ اشعر جب اسماء کو لینے گیا تھا تو اس نے صاف منع کر دیا تھا کہ وہ نہیں جائے گی۔ اس نے اس کو اپنے تینوں کی وہاں موجودگی کا یقین دلا کر بہت ہی مشکل سے اسے اپنے ساتھ لے جانے پر راضی کیا تھا۔ اشعر نے اسماء کو خوف زدہ دیکھ کر اس بدحال وجود کے دونوں ہاتھ دیوار میں لگے کنڈوں کے ساتھ اور دونوں پاؤں بھی ایک ساتھ اس طرح سے باندھ دیے تھے کہ وہ اپنے آپ کو ذرا سا بھی ہلا جلا نہیں سکتا تھا۔
” تمہارا مجرم تمہارے سامنے ہے، اس کے ساتھ جو بھی سلوک کرنا چاہو تم کر سکتی ہو۔ یہاں تمھیں کوئی نہیں روکے گا۔” افشین نے اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھ کر اس کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
” یہ کچھ ہی دیر میں ہوش میں آجائے گا۔” اشعر بے ہوشی ختم کرنے کا انجیکشن لگاتے ہوئے پیچھے ہٹا
“لو یہ پکڑو اور شروع ہوجاؤ۔ جب تک یہ ٹوٹے نہیں تم رکو گی نہیں۔” افشین نے اپنا بیلٹ اتار کر اسے تھمایا
” اب جاؤ اور گھبرانا نہیں۔” اس نے اس کی جانب اشارہ کیا۔
” جاؤ شاباش ، ہم یہیں ہیں۔ پریشان نہ ہو وہ جس طرح سے بندھا ہوا ہے ہم میں سے کسی کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔” افشین اسے ہولے ہولے کانپتا دیکھ کر اس کی پیٹھ تھپتھپا کر حوصلہ بڑھایا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے نزدیک آ کر رکی۔ اس کے جسم میں ہوتی ہلکی سی جنبش اس کے ہوش میں آنے کا پتہ دے رہی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی اسماء کی آنکھوں کے سامنے ایک بار پھر وہی تکلیف دہ مناظر لہرائے۔ نفرت اور غصہ بیک وقت اس کی آنکھوں میں ابھرے اور اگلے ہی لمحے اس نے پوری قوت سے بیلٹ اس کے منہ پر دے ماری۔ چہرے پر بیلٹ کی زوردار ضرب لگنے سے وہ چیختا ہوا مکمل ہوش میں آگیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر ارد گرد دیکھتے ہوئے پہچاننے کی کوشش کی مگر اجنبی چہروں میں اسے بس اسماء کا چہرہ ہی شناسا لگا۔ اپنے گھومتے و چکراتے سر اور گال پر ہوتی تکلیف کی جب اس نے وجہ معلوم کرنی چاہی تو اسماء کے ہاتھ میں بیلٹ دیکھ کر چونکا۔
“تت۔۔تم؟ تم یہ۔۔۔یہاں کیا کر رہی ہو؟ اور یہ کک۔۔۔کون سی جگہ ہے؟” اسماء کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر اس نے تکلیف سے دوہرے ہوتے لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھا۔
” میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ اور مجھے یہاں کون لایا ہے؟” اس کو ایک طرف سے بیلٹ ہاتھ پر لپیٹتے دیکھ کر وہ غصہ اور تکلیف کی شدت سے زور سے چیخا اور خود کو چھڑوانے کی ناکام سی سعی کی مگر سوائے کسمسانے کے وہ کچھ نہ کر سکا۔
“دد۔۔۔دیکھو ! مم۔۔۔میرے قریب مت آنا و۔۔۔ورنہ اس بار می۔۔۔میں تمہاری جان لے لوں گا۔” اس کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر اس نے اس کو دھمکانا چاہا ، وہ الگ بات تھی کہ اس کی دھمکی کا کھوکھلا پن اس کے لہجے سے صاف عیاں ہو رہا تھا۔ اشعر اور افشین کے سرد و سپاٹ تاثرات سے اتنا تو وہ اندازہ لگا ہی چکا تھا کہ وہ غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ اسماء بنا کچھ بولے کچھ پل تک اس کے سامنے رکی رہی اور پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ اس نے اس پر بیلٹ سے پہ در پہ وار برسانا شروع کر دیے۔ ہال نما وہ کمرہ اس کی چیخوں سے گونج اٹھا تھا۔
” اشعر ! یہ اب مجھے اریٹیٹ کر رہا ہے۔” افشین نے اس کی چیخوں پر برا سا منہ بناتے ہوئے ایک ادا سے کہا۔ اس کے کہتے ہی اشعر نے فوراً اٹھ کر الماری سے ایک رومال نکالا اور اس کی چیخ و پکار کے باوجود اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ کپڑا منہ میں ہونے کے باوجود بھی اس کے منہ سے دبی دبی چیخیں نکل رہی تھیں۔ اس کے گال بری طرح سے پھٹ چکے تھے اور منہ اور سر سے خون رسنے لگا تھا۔ کچھ دیر تک مار کھانے کے بعد وہ دوبارہ سے بے ہوش ہوچکا تھا۔ اسماء بیلٹ پھینک کر ہانپتی کانپتی ایک کونے میں جا کھڑی ہوئی۔ افشین نے اس کو ہانپتے دیکھ کر فوراً پانی کی بوتل تھمائی جو اس نے ایک ہی سانس میں پی کر آدھی کردی اور اس بوتل کو وہیں پھینک کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بیسمینٹ سے باہر نکل گئی۔ دانین جو اوپر لاونج مین بیٹھی کسی میگزین کے مطالعے میں غرق تھی اس کے پکارنے پر ہوش میں آئی۔
“ہاں چندا ! کیا ہوا خیریت؟”
“مجھے گھر جانا ہے۔” اس نے اپنے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
” کیوں نہیں آؤ میں تمہیں چھوڑ دیتی ہوں۔” دانین میز پر سے چابی اٹھاتے ہوئی اٹھی ۔
” تم ذرا جا کر گاڑی میں بیٹھو میں بس ابھی آتی ہوں۔”
اس کے جانے کے بعد وہ نیچے تہہ خانے میں آئی اور زرا سا دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ اشعر اسے ہوش دلانے کے لیے اس کے منہ پر پانی پھینک رہا تھا جب کہ افشین بھی پاس ہی کھڑی تھی۔
” اس کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر کے کسی کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا اور ہاں میڈیا کو کال کر کے ضرور بتا دینا تاکہ اس جیسے درندوں کو اپنے انجام کی خبر ہوسکے۔” اس نے تحکمانہ لہجے میں دونوں کو کہا۔ ان تینوں کی ٹیم کو لیڈ وہی کرتی تھی اور یہ بھی ان تینوں کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ وہ چونکہ دوست تھے تو بہت کم ہی ایسا موقع آتا تھا کہ وہ انہیں حکم دیتی تھی۔ ان دونوں کے سر ہلا کر تائید کرنے پر وہ وہاں سے نکل کر اوپر گیراج کی طرف بڑھ گئی.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسما کو چھوڑ کر گھر کی جانب جا رہی تھی کہ کچھ سوچ کر اس نے گاڑی کا رخ شہر سے باہر کی جانب موڑا۔ ایک گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد اس نے ایک نسبتا کم آباد علاقے کے باہر گاڑی روکی۔ رومال سے منہ کو ڈھانپ کر وہ گن اپنی جیکٹ کی اندورنی جیب میں رکھ کر باہر نکلی ۔تھوڑا سا چلنے کے بعد وہ ایک عمارت کے باہر آ کر رکی۔ باہر سے ٹوٹی پھوٹی یہ فیکٹری نما عمارت راجہ کا مین اڈا تھا جہاں پر ان کی سمگلنگ اور منشیات کا لین دین ہوتا تھا چونکہ وہ ان کے بارے میں اچھے سے جانتی تھی اس لیے سیدھی یہاں آئی تھی ۔وہ گیٹ کی چھوٹی کھڑکی کھول کر اندر داخل ہوئی ۔ گیٹ کے اندرونی طرف چند غنڈے نما آدمی پہرہ دے رہے تھے ۔انہوں نے اسے روکنے پراس نے اپنا تعارف کروایا تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ وہ چلتی ہوئی ایک ہال نما کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے ہی کرسی پر ایک اٹھائیس انتیس سالہ آدمی بیٹھا تھا اس کے پیچھے اس کے تین چار گارڈ کھڑے تھے اور دائیں جانب ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔دانین کو اس لڑکی کا چہرہ کچھ جانا پہچانا لگا ۔وہ جو کرسی پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھا تھا اس کو سامنے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
“زہے نصیب آج تو بڑے لوگ تشریف لائے ہیں۔” وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا جھک کر سلام کرتے ہوئے بولا۔ اس لڑکی نے حیرت سے اس کا یہ انداز دیکھا۔ جو کچھ دیر پہلے تک غرور و تکبر کی جیتی جاگتی مثال پیش کر رہا تھا اب یوں ایک لڑکی کے سامنے جھک رہا تھا
“کام تھا۔”وہ اس کے کہنے کا انتظار کیے بغیر خود ہی سامنے رکھی کرسی پر بیٹھی۔ وہ بھی واپس اپنی جگہ پر بیٹھا
“تو مجھے بلا لیتی یا کال کر لیتی ۔یہاں آنے کی تکلیف کیوں اٹھائی۔”
“کام ہی ایسا تھا اگر یہاں نہ آتی تو تم میرے ہاتھوں سیدھا اوپر جا چکے ہوتے ۔ دانین نے اس لڑکی کو غور سے دیکھتے ہوئے سکون سے جواب دیا ۔اسے رہ رہ کر اس کا چہرہ دماغ میں آ رہا تھا مگر یاد نہیں آرہا تھا کہ کہاں دیکھا تھا۔ وہ سر جھٹک کر اس کی جانب متوجہ ہوئی
“خیریت۔”
“تمہارے آدمی میرے ہی منہ کو آنے لگے ہیں۔ ان کو قابو میں رکھو۔” اب کی بار اس نے کافی سخت لہجے میں کہا
“کیا؟ کیا کہہ رہی ہو؟” اس نے تعجب سے اسے دیکھا
“آج صبح ہی کچھ لڑکیوں سے بدتمیزی کر رہے تھے میری مداخلت پر مجھے ہی اغوا کرنے کی کوشش کی ۔” دانین نے اس کو آنکھیں دکھائیں۔ اس کے حلق سے ایک زوردار قہقہ نکلا ۔ اس نے ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلایا
“پھر؟” اس نے دلچسپی سے پوچھا
“ابھی تک ہوسپیٹل سے واپس نہیں آئے؟”
“اوہ ! تو وہ تم سے خدمت کروا کر ائے تھے۔ ” جاؤ زرا ان دونوں کو بلا کر لاؤ۔” اس نے پہلے دانین سے اور پھر پیچھے کھڑے ایک گارڈ کو کہا ۔ دو تین منٹ بعد ہی وہی دو آدمی اندر ائے ۔
“یہی ہے باس ۔ یہی ہے وہ لڑکی ۔” ان میں سے ایک تو اندر داخل ہوتے ہی اس کو دیکھ کر چیخ پڑا۔تیسرا ان کے ساتھ نہیں تھا ۔وہ شاید زیادہ ہی زخمی ہوا تھا
“ابے الو کے پٹھو ! تم سے کس نے کہا تھا ان سے الجھو؟ ابھی تو شکر کرو سلامت ہی واپسی ہو گئی ورنہ اب تک اوپر پہنچ چکے ہوتے ” اس نے ان دونوں کو گھورا تو وہ خاموش ہو گئے
“میں چلتی ہوں ۔ پھر آجاؤں گی۔” اس لڑکی کا خود کو نظر انداز کیا جانا کھلا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔وہ جو دانین کی آمد کے بعد سے اس کو یکسر فراموش کر چکا تھا چونک کر اثبات میں سر ہلا گیا۔ اس کے اٹھنے کے بعد اس نے گارڈز کو بھی جانے کا اشارہ کیا۔ ان کے باہر نکلنے پر اس نے اٹھ کر دیوار میں لگے سوئچ پینل سے بٹن دبایا اور واپس آ بیٹھا۔
“اب بتاؤ کیسے آنا ہوا؟”
“کچھ خاص نہیں ایک تو کافی عرصہ ہوگیا تھا تم سے ملے دوسرا اپنے لوگوں کو سمجھاؤ ۔یہ روڈ پر آتی جاتی لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں۔” اس نے نقاب اتار کر میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا
“ہممم ٹھیک ہے میں سختی کروں گا ۔آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔”
“تم بتاؤ کیا چل رہا ہے آج کل ؟تمہارا مشن کہاں تک پہنچا۔”
“بس سمجھو کامیابی کے بہت قریب ہوں ۔” وہ زیرلب مسکرایا
“پلان کیا ہے؟”
” اسی ہفتے باس آرہا ہے ۔ جیسے ہی وہ ائیرپورٹ سے نکلے گا گارڈز اور ڈرائیور ہمارے ہی لوگ ہوں گے تو اس کے بعد وہ کہاں گیا کسی کو نہیں پتہ ہوگا۔”
“تم خفیہ ایجنسیوں والے بھی بہت تیز ہوتے ہو ۔پچھلے ایک سال سے تم راجہ کہ جگہ پر بیٹھے ہو مگر کسی کو خبر تک نہیں ہوئی کہ ان کا راجہ اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے۔” دانین نے اس کو داد دیتی نظروں سے دیکھا
“کہاں تیز ہوتے ہیں ؟ ایک لڑکی تو اب تک ایمپریس کر نہیں سکا۔” اس نے منہ بنایا
“اس لڑکی کی کچھ دن پہلے ارجنٹ منگنی ہوگئی ہے۔” دانین نے ہنستے ہوئے اطلاع دی
“ہائے دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔اس نے مصنوعی آہ بھری
“اور سناؤ کیا چل رہا ہے آج کل؟” اس کو ہنستے دیکھ کر اس نے پوچھا
“کل صبح ٹی وی پر جو پہلی خبر چلے گی ۔اس کا کریڈٹ سراسر ہمیں جائے گا اس لیے سمجھ جانا کہ وہی کچھ چل رہا ہے۔” وہ اٹھتے ہوئے بولی اور اپنا منہ ڈھانپ کر باہر نکلتی چلی گئی ۔راجہ بھی اٹھ کر اس کو گیٹ تک چھوڑنے آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ وہاں سے نکلی تو سورج مکمل غروب ہوچکا تھا اور ہلکا ہلکا سا اندھیرا چھا رہا تھا۔ کہیں کہیں سے مغرب کی اذان کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ چونکہ وہ علاقہ شہر سے کافی دور تھا توسڑک پر اکا دکا لوگ ہی آ جا رہے تھے۔ آسمان پر پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب رواں دواں تھے اور کچھ سڑک کے اطراف اپنے گھونسلوں میں موجود اپنی اپنی بولی بول رہے تھے ۔ سرسبز فصلوں اور اس پر مکمل خاموشی کے ساتھ کہیں کہیں پرندوں کی آوازیں اور پھر آذان کی اواز۔ یہ سب مل کر ایک انوکھا اور خوشگوار سا منظر پیش کر رہا تھا ۔وہ ارد گرد کے مناظر سے لطف اندوز ہوتی جا رہی تھی کہ اس کا دھیان ارتضی کی طرف چلا گیا۔ دونوں کا اکھٹا گھومنا پھرنا، شاپنگ کرنا اس کا دل جل کر خاک ہوا
“ان کا بھی کچھ کرنا پڑے گا ۔” وہ سٹئیرنگ گھماتے ہوئے بڑبڑائی۔ارتضی سے ہٹ کر وہ اس لڑکی کو سوچنے لگی اور اگلے ہی لمحے بے اختیار اس کا پیر بریک پر گیا۔ ایک زور دار آواز سے گاڑی سڑک کے عین وسط میں رکی
“مائی گاڈ۔” اس نے اپنی یاداشت کو کوسا۔ کچھ دیر تک سوچنے کے بعد اس نے گاڑی ریورس کی اور دوبارہ سے راجہ کے اڈے کی طرف چل دی ۔ انتہائی تیز رفتار ڈرائیونگ کر کے وہ اسی عمارت میں پہنچی اور تقریباً بھاگتے ہوئے اندر آئی۔ راجہ اس کو واپس اتا دیکھ کر حیرت زدہ ہوا
“خیریت ؟”
“مجھے تم سے اکیلے میں بات کرنی ہے ۔” دانین نے کہا تو اس نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا
“کیا ہوا؟” ان کے جانے کے بعد اس نے پوچھا
یہ لڑکی کون تھی؟”
“کون؟”
”وہی جو میرے انے سے پہلے یہاں بیٹھی تھی۔”
“اچھا وہ۔ وہ بھی اسی کام میں ملوث ہے۔”
“زرا تفصیل بتاؤ مجھے۔”
“مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے ۔ پیسے کمانے کے لیے شارٹ کٹ ڈھونڈا اور راجہ کے لیے کام کرنے لگی ۔ چھوٹے پیمانے پر دوسرے شہروں میں منشیات اور دیگر سمگلنگ کا مال پہنچاتی ہے۔ مختلف لڑکوں کے سہارے یہ کام کرتی ہے ۔ائی مین کہ اس نے کافی لڑکے دوست بنا رکھے ہیں اور ان کی لاعلمی میں یہ ان کی گاڑیاں وغیرہ استعمال کرتی ہے تاکہ خود نہ پکڑی جا سکے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی چیکینگ کے دوران ایک لڑکا پکڑا گیا۔ یہ تو صاف بچ گئی مگر اس بےچارے کو پولیس لے گئی۔ وہ تو شکر ہے عدالت تک جانے سے پہلے ہی مجھے پتہ چل گیا اور میں نے باس سے بات کر کے اس کو سرخرو کرایا ورنہ بہت برا پھنسا تھا بیچارہ۔” اس نے اسے مکمل تفصیل سے آگاہ کیا
“تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” اس کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر اس نے پوچھا
“یہ آج کل ارتضی کے ساتھ پائی جا رہی ہے۔” دانین نے جواب دیا
“تو؟” اس نے تشویش سے پوچھا۔ دانین کی نظر ایک کونے نیں لگے سی سی ٹی وی کیمرے پر پڑی تو اس نے سر ہلایا
“یہ مال یہی سے ہی اٹھاتی ہے نہ؟”
ہاں
“تو مجھے اس کی کچھ تصویریں دو۔” دانین نے کہا۔ وہ ساتھ والے ایک چھوٹے سے کمرے میں چلا گیا۔دانین وہیں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ بیس منٹ بعد ہی وہ واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ اس نے لا کر اسے تھمایا ۔
”تھینک یو۔ “تصویریں نکال کر دیکھتے ہوئے وہ مسکرائی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے چھ بج رہے تھے۔ احمد صاحب اور ارتضی لوگ جاگنگ پر گئے ہوئے تھے۔ فروا بھابھی اور نوشین بیگم کچن میں سب کے لیے ناشتہ بنا رہی تھیں۔دانین لاؤنج میں بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی کہ اسے اشعر کا ڈن کا میسج ملا ۔اس نے اٹھ کر میز پر رکھا ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا اور نیوز چینل لگایا۔ جہاں نیوز اینکر ایک ہی سانس میں ساری خبر پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ فروا بھابھی اور نوشین بیگم کے ساتھ ساتھ رابیل اور ملازمہ بھی ٹی وی کے سامنے آ کھڑی ہوئیں
“توبہ توبہ کیا حال کر دیا ہے۔ ایسے درندوں کا ایسا ہی انجام ہونا چاہیے تھا۔”ملازمہ خبر اور سکرین پر چلنے والی فوٹیج دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی
اتنے میں احمد صاحب لاؤنج میں داخل ہوتے دکھائی دئیے۔ ان کے سختی سے بھینچے لب اور تیزی سے اٹھتے قدموں سے دانین نے ان کے صورتحال سے کسی حد تک آگاہ ہونے کا اندازہ لگایا۔
وہ ان کے پاس آ کر کھڑے ہوئے۔ان کے پیچھے ہی ارتضی اور ارسل بھی آئے۔
“آپ لوگوں کو کس نے بتایا ہے؟” دانین نے ارسل کی جانب جھکتے ہوئے پوچھا
“پارک میں کچھ لوگ بات کر رہے تھے۔ بابا نے سنا تو پتہ نہیں اچانک سے کیا ہوا کہ جلدی سے گھر کی طرف دوڑے ۔”
“کتنی بری طرح سے مارا ہے نہ؟” دانین نے سکرین کی جانب دیکھتے ہوئے افسوس زدہ لہجے میں کہا۔ وہ راجہ سے مل کر سیدھی گھر ہی آ گئی تھی اس لیے عدیل کا حشر وہ بھی سکرین پر چلتی وڈیو سے ہی دیکھ رہی تھی ۔اشعر اور افشین نے اس کو بری طرح سے پیٹا تھا۔اس کی شرٹ غائب تھی اور پیٹ اور کمر پر جگہ جگہ زخموں کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔
“ائی سوئیر میں نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔” احمد صاحب کو کڑی نگاہوں سے خود کو دیکھتا پا کر اس نے آہستگی سے کہا
“مجھے سٹڈی روم میں ملو۔” وہ کہتے ہوئے اوپر چلے گئے۔دانین نے نوشین بیگم کو اشارہ کیا تو انہوں نے سر ہلا کر اس کو جانے کا اشارہ کیا۔ وہ اوپر آئی تو کرسی پر بیٹھے تھے۔ وہ بھی ان کے سامنے خاموشی سے جا بیٹھی
“میں نے تمہیں ہاتھ ہلکا رکھنے کو بولا تھا مگر تم نے ہمیشہ کی طرح اپنی ہی من مانی کی ہے ۔ تمہاری نظروں میں میری کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟” احمد صاحب نے اسے کڑے تیوروں اور غصیلی نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا۔
“اف! اب آپ ایموشنل ہو رہے ہیں اور خواہ مخواہ مجھے بھی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ آپ اچھے سے جانتے ہیں کہ آپ جتنی بھی چاہے کوشش کر لیں میں ایموشنل نہیں ہوتی۔” اس نے ان کی بات کو مذاق میں اڑانا چاہا۔
“دانین ابراہیم! میں آپ کا باس ہوں اور غالباً آپ یہ بات بھول گئی ہیں۔” انہوں نے چبا چبا کر کہا۔
“اوکے فائن! اب بتائیں کیا ہوا ہے جو آپ اتنا بھڑک رہے ہیں۔” اس نے ہار مانتے ہوئے ہاتھ کھڑے کیے۔ ویسے بھی وہ اپنا مطلوبہ کام سر انجام دے چکی تھی ، اب وہ جو بھی کہتے اس کی بلا سے۔
“میں بھڑک رہا ہوں؟ میں؟ حال دیکھا ہے اس کا؟ کیا کر کے آئی ہو اس بات کا کچھ اندازہ ہے تمہیں؟ ” وہ اس کے لاپرواہ انداز پر آگ کے شعلوں کی مانند بھڑک اٹھے تھے۔ دانین نے بے زاری سے منہ بگاڑا۔ اس کو سنجیدہ نہ ہوتا دیکھ کر وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے۔ شاید اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
“جو تم کر کے آئی ہو اس کا نتیجہ جانتی ہو؟ اس کے باپ کے پاس اندھی دولت ہے جو وہ اپنے بیٹے کی خاطر پانی کی طرح بہائے گا اور جب تک وہ اس کا حشر بگاڑنے والے کا پتہ نہیں چلا لے گا ۔سکون سے نہیں بیٹھے گا اور اس کے بعد پتہ ہے کیا ہوگا؟” انہوں نے رک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو کرسی پر ٹیک لگائے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے لبوں پر خوبصورت سی مسکان سجائے بیٹھی تھی۔ اس کے سر انجام دیے گئے کارنامے سے زیادہ اس کا پرسکون انداز انھیں جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہا تھا۔نوشین بیگم بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔
“کیا ہوگا؟” اس نے یوں پوچھا گویا جانتی ہی نہ ہو۔
“تمہیں نہیں پتہ؟” انہوں نے استہزایہ نگاہوں سے اس سے استفسار کیا۔
“دیکھو دانین! وہ ایک ریپسٹ تھا اور ایسے لوگوں کے لیے پولیس عدالت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“بالکل ٹھیک کہا آپ نے، وہ ایک ریپسٹ تھا۔” اس نے آگے ہو کو کر ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارا۔
“وہ ایک ریپسٹ تھا، اس نے ایک چودہ سال کی اسکول جاتی بچی کو اغوا کر کے اس کا ریپ کیا تھا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد وہ دندناتا ہوا اس کے گھر پہنچ گیا اور اس لڑکی کے باپ کو دھمکی دے کر آیا کہ اس کے خلاف پولیس میں درج کرائی گئی ایف آئی آر واپس لی جائے ورنہ اس بار بیٹی کی لاش بھی نہیں ملے گی ۔اس سب کے دوران آپ کی پولیس بھی یہیں تھی اور عدالت بھی مگر کسی نے بھی اس کا حال نہیں پوچھا۔” دانین نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔ اس کی بات پر وہ ڈھیلے پڑتے ہوئے کرسی پر جا بیٹھے۔
“میں جب اس لڑکی سے ملنے گئی تھی تو میرا قطعی ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ گویا ہوئی ۔
“سوچا تھا پولیس پر دباؤ ڈال کر ان کو انصاف دلاؤں گی مگر جانتے ہیں جب میں وہاں پہنچی تو اس لڑکی کی حالت اور اس کے ماں باپ کی بے بسی دیکھ کر مجھ میں اتنی ہمت بھی نہ رہی کہ میں ان کو دلاسے کے دو بول ہی بول دوں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں پندرہ منٹ تک محض الفاظ ہی ترتیب دیتی رہی کہ ایسا کیا کہوں کہ ان کا دکھ کچھ کم ہو سکے۔ پندرہ منٹ بعد جب میں نے اس کے گود میں رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر یہ کہا کہ تم پریشان مت ہو سب ٹھیک ہوجائے گا تو وہ کچھ نہیں بولی بس اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا جو بہتا ہوا اس کی ٹھوڑی تک آیا اور میری ہاتھ کی پشت پر گرا ۔اس کا وہ ایک چھوٹا سا آنسو میری جان نکال کر لے گیا کرنل صاحب! مجھے لگا جیسے موت کے فرشتے نے ایک ہی بار میں میری جان نکال لی ہو۔ کتنے ہی لمحے تو میں کچھ بولنے کے قابل ہی نہ رہی۔ بات بدلنے کی خاطر جب میں نے اس سے پوچھا کہ پولیس کیا کہتی ہے؟ تو آپ کو پتہ ہے اس نے کیا کہا؟” دانین اپنی نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے ان کی جانب جھکی۔ احمد صاحب ششدر زدہ سے اس کی حالت دیکھ رہے تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ اس کو مضبوط دیکھا تھا۔غصے میں بھی وہ تحمل کا مظاہرہ کرتی تھی مگر جو حال وہ عدیل افتخار کا کر کے آئی تھی وہ اس کے سخت اشتعال میں ہونے کی گواہی دے رہا تھا ۔وہ بہت کم جذباتی ہوتی تھی لیکن آج وہ اس کم سن بچی کے ساتھ ہوئے ظلم پر رو پڑی تھی۔ اس کو یوں دیکھ کر احمد صاحب کے غصے کا گراف کافی حد تک نیچے آ چکا تھا ۔نوشین بیگم کو وہ سب کچھ ہی بتا چکی تھی اس لیے وہ نارمل بیٹھی اسے سن رہی تھیں۔
“پہلے تو وہ خوب ہنسی۔ ایک پل کے لیے مجھے لگا کہ وہ پاگل ہو گئی ہے۔ جب ہنس کر تھک چکی تو کہنے لگی، آئی تھی پولیس۔ ایس ایچ او اور اس کے ساتھ ایک لیڈی کانسٹیبل بھی تھی۔ مجھ سے تفتیش بھی کی کہ کہاں سے اٹھایا؟ کیا کیا؟ کتنے لوگ تھے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ پر میڈم کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ صاف لگ رہا تھا کہ انجوائے کر رہے ہیں ، میری بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جب میں نے ان سے کہا کہ مجھے انصاف دلائیں تو ایس ایچ او کہنے لگا کہ بی بی جو ہونا تھا ہوچکا، سزا دلوانے سے تیری عزت واپس نہیں آ جائے گی مگر ہاں میں ان سے بات کر کے تمہیں دو چار لاکھ دلوا دوں گا ۔ جب میں نے کہا کہ مجھے پیسے نہیں چاہئیں تو وہ کہنے لگا ، عزت تو چلی ہی گئی ہے پیسے مت گنواؤ ۔ ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کو غصہ آجائے اور تم ان سے بھی جاؤ ۔ پیسے لو اور کسی دوسرے شہر جا کر عیش کرو ہاں بدلے میں اپنا کچھ ٹائم مجھے دے دینا۔ پاس کھڑی اس لیڈی کانسٹیبل نے بھی قہقہ لگاتے ہوئے کہا “لڑکی! صاحب کی بات مان لو فائدے میں رہو گی ۔ویسے بھی اب تمہارے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔
خدا کی قسم سر! اس وقت میں نے دل سے دعا کی تھی کہ زمین پھٹے اور میں وہیں بیٹھے بیٹھے اس میں سماں جاؤں۔ کیا ایسے ہوتے ہیں ملک کے رکھوالے؟ قانون ایسا ہوتا ہے؟ پولیس ایسی ہوتی ہے؟” دانین نے شکایت آمیز نظروں سے انہیں دیکھا جو خود سر جھکائے ساکت بیٹھے تھے۔ وہ مسلسل بولتے ہوئے خاموش ہوئی تو احمد صاحب کی کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ کمرے میں تین لوگوں کی موجودگی کے باوجود ہولناک سناٹا چھایا ہوا تھا جسے دانین کی آواز نے ہی توڑا۔
“وہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ میڈم آپ کہتی ہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مجھے بتائیں کیسے ٹھیک ہوگا؟ میری عزت واپس آ جائے گی؟ میرے ماں باپ کا جھکا سر دوبارہ سے اٹھ سکے گا؟ کچھ لوگ مجھے ترس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور کچھ نفرت آلود نظروں سے کیوں کہ ان کے نزدیک میں ناپاک ہوچکی ہوں تو کیا دوبارہ سے میں اپنے محلے ، اسکول اور خاندان میں وہ مقام پا سکوں گی؟ جائیں میڈم وقت ضائع نہ کریں یہاں جو بھی آتا ہے صرف باتیں کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ میرے لیے زمین کے منصف مرگئے ہیں اس لیے میں نے آسمان کے منصف کے پاس اپنی شکایت درج کرا دی ہے مجرموں کے خلاف بھی اور زمینی منصفوں کے خلاف بھی۔ وہ خود ہی دیکھ لے گا۔ یہ بات کرتے ہوئے اس کی آنکھوں اور چہرے پر جو حقارت اور نفرت آئی تھی اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا اور میرا ارادہ جو بس اس کمینے کو ہلکی پھلکی سزا دینے کا تھا اس کی باتوں نے بدل دیا اور اب سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔” اس نے آخر میں کندھے اچکا کر کہا۔
“تمہیں کیا لگتا ہے اس سب کے بعد وہ دوبارہ سے اس لڑکی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے؟” احمد صاحب نے اس کو دوبارہ سے نارمل ہوتے دیکھ کر پوچھا۔
“میں دیکھ لوں گی۔” اس نے اٹھتے ہوئے جواب دیا۔
“اور اگر وہ تم تک پہنچ گئے تو؟” انہوں نے اپنا اگلا خدشہ بیان کیا۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔
“ان کو پیغام بھیج دیا گیا ہے کہ اگر بیٹے کی زندگی چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ ہوئے اس حادثے کو بھول جائیں ورنہ اب کی بار لاش ہی ملے گی۔” نوشین بیگم زیرلب مسکراتے ہوئے بولیں تو دانین بھی مسکرا دی۔ احمد صاحب نے بے یقینی سے دونوں کو دیکھا
“آپ۔۔۔”
“جی جناب میں۔” انہوں نے خندہ پیشانی سے سر جھکا کر کہا۔
“آپ دونوں مجھ سے بالا ہی بالا سب کچھ کرتی پھر رہی ہیں۔ میں تو بس نام کا ہی باس رہ گیا ہوں۔ کرنی تم لوگوں نے اپنی مرضی ہی ہوتی ہے۔” وہ بھنا کر بولے۔
“یہ آپ دونوں میاں بیوی کا مسئلہ ہے، خود ہی نمٹائیں۔میں چلتی ہوں ۔” دانین نے کہا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
“میں بھی چلتی ہوں فروا کچن میں اکیلی کام کر رہی ہے ۔” نوشین بیگم بھی جلدی سے اٹھ کر اس کے پیچھے ہی نکل گئیں اور پیچھے وہ بند دروازے کو محض گھور کر رہ گئے۔