(Last Updated On: )
بہت رویا تھا، دھاڑیں مار کر رویا تھا
کل شب آسماں
اور آج بستی کی منڈیروں پر
صفیں باندھے کھڑی ہے دھوپ،
کہتے ہیں کہ وہ شوریدہ سر
پھولوں کی بکل مار کر گزرے گا ان چپ چاپ
سڑکوں سے
وہی جو سونت کر شمشیر آواز برہنہ کی
اندھیرے سے لڑا چالیس برسوں تک
وہی سچ کا صدا بردار جس نے زندگی کی لہر پر سینہ سپر ہو کر
گواہی دی
ربود آب پر مامور پہرے کے مقابل میں
وہی شوریدہ سر
اس آج کی تاریخ، وسط موسمِ گل میں
ہری چادر بدن پر اوڑھ کر
گزرے گا، کہتے ہیں
کہ قبر شام پر انبوہ کے انبوہ لوگوں کے
دعا مانگیں گے
اس کے لوٹ کر دو بارہ آنے کی
***