اب تو سنہ ٦٥٠ ہجری ہے ، مگر اس سے ڈیڑھ سو سال پیشتر سے سیاحوں اور خاصۃً حاجیوں کے لئے وہ کچی اور اونچی نیچی سڑک نہایت ہی اندیشہ ناک اور پرخطر ہے جو بحر حزر (کیسپین سی) کے جنوبی ساحل سے شروع ہو ئی ہے اور شہر آمل میں ہو کے شاہنامے کے قدیم دیوستان یعنی ملک ماژندران اور علاقہ رودبار سے گزرتی اور کوہسار طالقان کو شمالاً و جنوباً قطع کرتی ہوئی شہر قزوان کو نکل گئی ہے۔ مدتوں سے اس سڑک کا یہ حال ہے کہ دن دہاڑے بڑے بڑے قافلے لٹ جاتے ہیں اور بے گناہوں کی لاشوں کو برف اور سردی مظلومی و قتل و غارت کی یادگار بنا کے سالہا سال تک باقی رکھتی ہے۔
ان دنوں ابتدائے سرما کا زمانہ ہے۔ سال گزشتہ کی برف پوری نہیں گھلنے پائی تھی کہ نئی تہ جمنا شروع ہو گئی۔ مگر ابھی تک جاڑا اتنے درجے کو نہیں پہنچا کہ موسمِ بہار کے نمونے اور فصلِ گل کی دلچسپیاں بالکل مٹ گئی ہوں؛ آخری موسم کے دو چار پھول باقی ہیں اور کہیں ان کے عاشق و قدردان بلبل بدخشانی بھی اپنی ہزار داستانی و نغمہ سنجی کے راگ سناتے نظر آ جاتے ہیں۔ یہ کوہستان عرب کے خشک و بے گیاہ پہاڑوں کی طرح برہنہ اور دھوپ میں جھلسے ہوئے نہیں بلکہ ہر طرف سایہ دار درختوں اور گھنی جھاڑیوں نے نیچر پرستوں اور قدرت کے صحیح قدردانوں کے لیے عمدہ عزلت کدے اور خلوت گاہیں بنا رکھی ہیں۔ اور جس جگہ درختوں کے جھنڈ نہیں وہاں آسمان کے نیلے شامیانے کے نیچے قدرت نے گھاس کا سبز اور مخملیں فرش بچھا دیا ہے جس پر بیٹھ کر کوئی شراب شیراز کا لطف اٹھانا چاہے تو یہاں نہر رکنی کے بدلے نہر ویرنجان بھی موجود ہے ، جو شائد ابھی پوری ڈیڑھ صدی بھی نہیں گزری کہ رود سفید سے کاٹ کر پہاڑوں کے اندر ہی اندر مختلف گھاٹیوں میں گھمائی اور شہر خرم آباد کے قریب بحر خزر میں گرائی گئی ہے۔
ان ہی دلچسپیوں اور قدرت کے ان ہی دلفریب منظروں نے اس کوہسار کے متعلق طرح طرح کے خیالات پیدا کر رکھے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنت انھی گھاٹیوں میں ہے اور بعض سمجھتے ہیں کہ قدیم دیوزادوں کو تو کیومرث و رستم نریمان کے زورِ بازو نے فنا کر دیا مگر ان کی یادگار میں بہت سی پریاں آج تک تنہائی کے مقامات میں سکونت پذیر ہیں۔ اور بعض سیاحوں کو تو پریوں کے بڑے بڑے ہوش رُبا غول گھاٹیوں سے ناگہاں نکل پڑتے نظر آئے۔ یہ بھی سنا جاتا ہے کہ جو کوئی ناگہاں ان پریوں کے غول میں پڑ جاتا ہے ، فوراً مر جاتا ہے۔
مگر پریوں اور قدیم دیووں سے زیادہ ظالم ملاحدہ اور باطنیہ لوگ ہیں جو اس تمام علاقے میں آباد اور پھیلے ہوئے ہیں ، اور جو پرائے اصول و عقائد کا مسلمان ان کے ہاتھ میں پڑ جاتا ہے ، کسی طرح جان بر نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً جمادی الاول، جمادی الثانی اور رجب کے مہینوں میں ان کے مظالم کی دھوم مچ جاتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ علاقہائے ترکستان، کرغیز اور استراخان کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو جہازوں پر بحر خزر سے بار کرتے ہوئے ارضِ عراق کو جاتے اور پھر وہاں سے خاک پاک حجاز کا ارادہ کرتے ہیں۔ اگرچہ یہاں کے مظالم کی ہر جگہ شہرت ہو گئی ہے اور بہت سے لوگوں نے یہ راستہ چھوڑ دیا مگر پھر بھی بعض بے پروا مسلمان اپنی خوش اعتقادی کے جوش میں آ ہی نکلتے ہیں؛ علی الخصوص آمل اور اس کے مضافات کے حاجیوں کے لیے تو اور کوئی راستہ ہی نہیں۔
یہ سڑک جس کا اوپر ذکر آیا، بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے مگر ہمارے پیش نظر صرف وہی حصہ ہے جہاں یہ سڑک نہر ویرنجان کے کنارے کنارے گزر رہی ہے۔ اس مقام سے علاقہ رودبار کے میدان ختم ہو گئے ہیں اور کوہستان کے سخت اور پیچیدہ نشیب و فراز کی ابتدا ہے۔ یہاں سے کچھ آگے بڑ ھ کے سڑک اور طرف گئی ہے اور نہر کوہ البرز کے دامنوں میں چکر کھا کے دشوار گزار اور پیچیدہ گھاٹیوں میں غائب ہو گئی ہے۔
شام کو شائد چند ہی گھڑیاں باقی ہوں گی؛ آفتاب سامنے کی برف آلود چوٹیوں کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس کی کمزور کرنوں نے جو تھوڑی بہت گرمی پیدا کی تھی، مٹ گئی اور ہوا کے سرد جھونکے جو بلند برفستان پر سے پھسلتے ہوئے آتے ہیں، انسان کے کپکپا دینے کے لیے کافی ہیں۔
اس جگہ پر ایسی حالت میں شمال کی طرف سے دو مسافر سر سے پاؤں تک کپڑوں میں لپٹے اور دو بڑی بڑی گٹھریوں کی صورت بنائے ہوئے آہستہ آہستہ آ رہے ہیں۔ دونوں دو چھوٹے چھوٹے اور تھکے ماندے گدھوں پر سوار ہیں۔ ان کی سست روی اور مجموعی حالت سے خیال ہوتا ہے کہ کسی گاؤں کے غریب ملا یا فقیر ہیں جو امارت اور سپاہیانہ دونوں وضعوں سے جدا کسی دینی غرض اور تقدس کی شان سے مذہبی سفر کو نکلے ہیں۔ مگر نہیں، وہ اور قریب آ گئے تو معلوم ہوا کہ نہ وہ ملا ہیں اور نہ مشائخ بلکہ دو نو عمر شریف زادے ہیں ، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک مرد ہے اور ایک عورت۔ ان کے لباس و وضع سے چاہے نہ ظاہر ہو مگر بشرے بتائے دیتے ہیں کہ کسی معزز خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور ممکن نہیں کہ کسی نامی اور شریف گھرانے سے نہ تعلق رکھتے ہیں، اس لیے کہ موٹے موٹے اور لمبے چوڑے کمبلوں کے نیچے جنہیں سر سے پاؤں تک لپیٹ لیا ہے ، دونوں شرفائے آمل کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔
مرد جس کی اٹھتی جوانی ہے ایک خوبصورت نوجوان ہے۔یہ ایک اونی کفتان پر بڑا پوستین کا لبادہ پہنے ہے۔ سر پر قدیم لمبی ترکی ٹوپی ہے جو بانس کی تیلیوں سے مخروطی صورت میں بنا کے بکری کی سیاہ کھال سے منڈھ دی گئی ہے۔ ٹوپی پر بڑا عمامہ ہے اور اس کے کئی پیچ سر سے نیچے اتر کے کانوں اور گلے میں بھی لپٹے ہیں۔پاؤں میں موزے اور ایک اونی پائجامہ ہے۔ کمر میں چمڑے کی پیٹی کسی ہے جس میں خنجر لگا ہے اور تلوار لٹک رہی ہے۔ اس نوجوان کے پاس کمان اور تیروں کا ترکش بھی ہے۔ مگر اس عہد قدیم کے یہ ضروری اسلحے گدھے کی زین میں بندھے ہیں۔ اور یہی ایک حربہ ہے جس کے ذریعے سے شکار کر کے یہ دلاور نوجوان اپنے اور اپنی دل ربا ہم سفر کے لیے قوت لایموت حاصل کرتا ہے۔ الغرض ایک گدھے پر تو یہ نوجوان سوار ہے اور دوسرے پر ایک اٹھارہ انیس برس کی پری جمال۔ موٹے موٹے کپڑے اور بھدی پوستین اس کے زاہد فریب حسن کو بہت کچھ چھپا رہے ہیں، مگر ایک دلربا ماہ وش کی شوخ ادائیاں کہیں چھپائے چھپی ہیں ! جس قدر چہرہ کھلا ہے ، حسن کی شعاعیں دے رہا ہے اور دیکھنے والے کی نظر کو پہلا ہی جلوہ یقیں دلا دیتا ہے کہ ایسی حسین و نازنیں پھر نظر نہ آئے گی۔ ہماری آفت روزگار مہ جبیں ایک زرد ریشمی پائجامہ پہنے ہے ، جو اوپر سے نیچے تک ڈھیلا اور پاؤں کے گٹوں پر خوشنما چنت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ گلے میں دیبائے سرخ کا کرتا ہے اور سر پر نیلے پھول دار اطلس کی خمار۔ لیکن یہ سب کپڑے ایک گرم اور پھولے پھالے پوستین کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔ جو چیز کہ اس کے عورت ہونے کو عام طور پر ظاہر کر رہی ہے وہ چھوٹی چھوٹی سینکڑوں چوٹیاں ہیں جو خمار کے نیچے سے نکل کے ایک شانے سے دوسرے شانے تک ساری پیٹھ پر بکھرتی چلی گئی ہیں اور راستے کے نشیب و فراز یا گدھے کی تیز روی سے بار بار کھل جاتی ہیں۔
اس دل ربا لڑکی کے حسن و جمال کی تصویر دکھانا مشکل ہے ، مگر غالباً یہ چند باتیں مشتاق دلوں میں ، اور آرزو مند نگاہوں کے سامنے اس کے زاہد فریب حسن کا ایک معمولی خاکہ قائم کر سکیں۔ گول آفتابی چہرہ، جیسا کہ عموماً پہاڑی قوموں میں ہوتا ہے ، ستے اور کھنچے ہوئے سرخی کی جھلک دینے والے گال، بڑی بڑی شربتی آنکھیں، لمبی نوکدار پلکیں، بلند مگر کسی قدر پھیلی ہوئی ناک، نازک اور خمدار ہونٹ، باریک اور ذرا پھیلی ہوئی باچھیں، چھوٹی سی سانچے میں ڈھلی ہوئی نوکدار ٹھڈی، شرم آگیں اور معمولاً جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ شوخ اور بے چین چشم و ابرو؛ اور اس تمام سامان حسن کے علاوہ تمام اعضاء و جوارح کا غیر معمولی تناسب ہر شخص کو بے تاب و بے قرار کر دینے کے لیے کافی ہے۔
یہ دونوں نو عمر مسافر چاروں طرف کے منظروں کو دیکھتے اور مقامی دشواریوں کی وجہ سے دل ہی دل میں ڈرتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور خاموش ہیں۔ دن کے آخر میں ہو جانے کے خیال سے ان کے نازک چہرے جنہوں نے ابھی تک تجربے کی پختگی حاصل نہیں کی، پریشان ہونے لگے ہیں، مگر اس پر بھی خموشی کا قفل نہیں کھلتا۔ ناگہاں کسی فوری جذبے سے مغلوب ہو کر نازنین لڑکی نے ٹھنڈی سانس لی اور باریک اور دلفریب آواز میں پوچھا “آج کون دن ہے“
نوجوان: (چپکے ہی چپکے کچھ حساب لگا کر) جمعرات!
لڑکی: (حسرت آمیز لہجے میں) تو ہمیں گھر چھوڑے آج پورے آٹھ دن ہوئے۔ (ذرا تامل کر کے ) خدا جانے لوگ کیا کیا باتیں کہتے ہوں گے اور کیسی کیسی رائیں قائم کی جاتی ہوں گی۔
نوجوان: یہی کہتے ہوں گے کہ حج کے شوق نے ہم سے وطن چھڑا دیا۔
لڑکی: (پھر ایک آہ سرد بھر کے )مجھے الزام دیتے ہوں گے کہ نا محرم کے ساتھ چلی آئی۔
نوجوان: زمرد! (یہ لڑکی کا نام ہے ) اب میں نامحرم نہیں ہوں۔ دو ہی چار روز میں ہم قزوین پہنچ جائیں گے اور وہاں پہنچتے ہی ہمارا نکاح ہو جائے گا۔
زمرد: (پھر ٹھنڈی سانس لے کے )خدا جانے وہاں تک پہنچنا بھی نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔
نوجوان: کیوں ؟
زمرد: راستے کی دشواریاں مشہور نہی ہیں؛ کوئی خوش نصیب مسافر ہی ہوتا ہو گا جو پریوں کے ہاتھ سے بچ کر نکل جاتا ہو۔ اور ان سے بچ بھی جائے تو ملاحدہ (ملاحدہ یہ قرامطہ اور خاصۃً باطنیہ کا عام لقب تھا ) کیوں چھوڑنے لگے۔
زمرد میں اس وقت ایک غیر معمولی تغیر پیدا ہو گیا ہے۔ اس مقام نے اسے کوئی خاص بات یاد دلا دی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ چاروں طرف کے منظر کو ہر طرف مڑ مڑ کر کے دیکھ رہی ہے اور بار بار آہ سرد بھرتی ہے۔ نوجوان نے اس بات کا خیال بھی نہیں کیا اور معمولی لہجے میں کہنے لگا :“ملاحدہ کی طرف سے تو مجھے اطمینان ہے ، اس لیے کہ ان کے مشہور نقیب آمل ملا ہبتہ اللہ سے مجھے ایک خط مل گیا ہے ، وہ خط ہمیں ایک مجرب تعویذ کا کام دے گا اور اس کے پیش کرتے ہی ہم پر قرمطی کے دست ستم سے نجات پا جائیں گے۔“
یہ باتیں کرتے کرتے دونوں نو عمر مسافر اس مقام پر پہنچے جہاں سے سڑک تو کوہسار کی بلندی پر چڑھنا شروع ہوئی ہے اور نہر اس سے جدا ہو کے دشوار گزار گھاٹیوں اور گھنی خاردار جھاڑیوں میں گھسنے کے لیے داہنی جانب مڑ گئی ہے۔نوجوان نے اپنے گدھے کو آگے بڑھایا ہی تھا کہ زمرد باگ روک کے کھڑی ہو گئی اور کہا:“نہیں حسین!(یہ اس نوجوان کا نام ہے) ’’ادھر نہیں‘‘
حسین: (حیرت سے زمرد کی طرف دیکھ کر) پھر کدھر؟
زمرد: جدھر یہ نہر گئی ہے۔
حسین: ادھر تو راستہ نہیں۔
زمرد: ہے تم چلو تو سہی۔
حسین: آخر قزوین چلتی ہویا کہیں اور؟
زمرد: نہیں میری منزل مقصود قزوین نہیں، مجھے تو یہ دیکھنا ہے کہ یہ نہر کدھر گئی ہے۔
حسین: اس طرف تو پریوں کا نشیمن ہے۔
زمرد: ہونے دو۔
حسین: سنتا ہوں کوئی ادھر سے زندہ نہیں پھرا۔
زمرد: میں بھی چاہتی ہوں۔
حسین نے تعجب اور حیرت سے زمرد کی صورت دیکھی اور ایک متانت کی آواز سے کہا: “اور وہ حج کی نیت کیا ہوئی؟“
زمرد: ہے ، مگر پہلے اپنے بھائی موسیٰ کی قبر پر جا کے فاتحہ پڑھ لوں تو مکہ معظمہ جانے کا ارادہ کریں۔
حسین: تمہارے بھائی کی قبر؟ مگر یہ کسے خبر کہ کہاں ہے ؟
زمرد: مجھے معلوم ہے ، راستہ بھی جانتی ہوں اور اس مقام کو بھی۔
حسین: (حیرت سے )تم! تم کیا جانو؟
زمرد: خوب جانتی ہوں!
حسین: کیا کبھی آئی تھیں؟
زمرد: نہیں، مگر یعقوب جو بھائی کے مرنے کے بعد خبر لایا تھا۔ اس سے پورا پتہ دریافت کر چکی ہوں۔ پہلی نشانی تو یہی ہے کہ جہاں سے نہر سڑک سے علیحدہ ہوئی ہے ، سڑک چھوڑ کے نہر کے کنارے کنارے جانا چاہیے ؛ اور بعد کی نشانیاں آگے چل کر بتاؤں گی“۔
حسین: یعقوب کو کیا معلوم؟ کون کہہ سکتا ہے کہ ان بلند اور پیچ در پیچ پہاڑوں میں کون شخص کہاں اور کیوں کر مارا گیا؟
زمرد: تم نہیں جانتے بھائی موسیٰ اور یعقوب دونوں ساتھ ساتھ تھے ؛ اس مقام پر پہنچ کے نہر کر کنارے کنارے کچھ دور گئے تھے کہ کوہ البرز سے پریوں کا غول اترا۔ ان کے ہاتھ سے بھائی تو مارے گئے مگر یعقوب غش کھا کر گر پڑا۔ اگلے دن جب اسے ہوش آیا تو بھئی کی لاش پڑی پائی۔ انھیں دفن کیا پھر قبر بنا کے اور قبر کے پاس ہی ایک چٹان پر ان کا نام کندہ کر کے واپس آیا۔
حسین: مجھے تو غپ معلوم ہوتی ہے۔ آخر اس کا سبب کہ پریوں نے یعقوب کو تو زندہ چھوڑ دیا اور تمہارے بھائی مارے گئے ؟
زمرد: اس کا یہ سبب ہوا کہ بھائی نے ایک پری کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور یعقوب بزدل تھا؛ پری زادوں کو دیکھتے ہی غش کھا کر گر پڑا۔
حسین: پھر ایسے مقام میں تو ہرگز نہ جانا چاہیے۔
زمرد: نہیں حسین، میں ضرور جاؤں گی۔
حسین: فرض کرو کہ ہم وہاں پہنچے اور ہمارے سامنے بھی پریاں اتریں تو؟
زمرد: میں تو اس سے نہیں ڈرتی؛ اگر تمہیں خوف ہے تو نہ چلو۔
حسین: تم اکیلی جاؤ اور میں نہ چلوں!میں جو تمہاری محبت میں ہر وقت جان دیتے کو تیار ہوں!
زمرد: حسین، سنو! میں تمہارے ساتھ نہ آتی۔ یہ مانتی ہوں کہ تم شریف ہو، اور اسی زمانے سے جب کہ ہم دونوں مکتب میں ساتھ پڑھتے تھے ،مجھے تم سے محبت ہے ، مگر یہ نہ سمجھو کہ ایک شریف لڑکی کو تم فقرہ دے کے گھر سے نکال لائے ہو؛ میں خود اپنے شوق سے آئی ہوں فقط اتنی امید پر کہ بھائی کی قبر پر کھڑی ہو کر دو آنسو بہاؤں گی؛ جب یہ مقصد پورا ہولے گا تو حج کو چلوں گی۔
حسین: زمرد! اپنی جوانی اور اس کم سنی پر ترس کھاؤ اور اس ارادے سے باز آ جاؤ۔
زمرد: نہیں، یہ نہیں ہو سکتا؛ اسی آرزو کے لیے بے عزتی گوارا کی ہے۔
حسین: (مایوسی کی آواز سے ) خداوندا۔ اگر جان ہی جاتی ہے تو پہلے میں مارا جاؤں تیری مصیبت ان آنکھوں سے دیکھی نہ جائے گی۔
زمرد: (مسکرا کے )گھبراؤ نہیں، ہم دونوں کی کشش ایک دوسرے کو کھینچ لے گی۔ مارے گئے تو دونوں مارے جائیں گے۔
یہ کہہ کر زمرد نے اپنے گدھے کو نہر ویرنجان کی طرف موڑا؛ دو ہی قدم چلی ہو گی کہ حسین نے پھر روک کے کہا “زمرد ذرا صبر کرو، چلنا ہے تو کل چلنا؛ اب شام ہوا چاہتی ہے پہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی۔“
زمرد: بس اب چلے ہی چلو؛ کہیں آبادی کے ملنے کی تو امید نہیں؛ اور جب جنگل ہی میں ٹھہرنا ہے تو یہاں وہاں دونوں جگہ برابر ہے۔
حسین سے کسی طرح انکار کرتے نہ بنی؛ چل کھڑا ہوا؛ اور دل میں پس و پیش کرتا ہوا زمرد کے ساتھ کوہ البرز کی تیرہ و تاریک گھاٹی میں جا گھسا۔ اب دونوں آہستہ آہستہ چلے جاتے ہیں اور اس سنسان مقام کا رعب دلوں پر اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ بالکل خاموش ہیں۔ جوں جوں آگے بڑھتے ہیں جنگل گھنا ہوتا جاتا ہے سردی ساعت بہ ساعت بڑھ رہی ہے۔ سناٹے نے نہر بہنے کی آواز تیز کر دی ہے جس سے اس مقام کے وحشت ناک منظر میں ایک ہیبت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ اب راستہ ایسا دشوار ہے کہ گدھوں سے اترنا پڑا۔ دونوں آگے پیچھے چلتے اپنے گدھے کے دہانے ہاتھ میں پکڑے چٹانوں سے بچتے اور جھاڑیوں میں گھستے چلے جاتے ہیں۔ آخر دیر کے سکوت کے بعد حسین نے مرعوب ہو کے کہا:“بے شک دیو و پری ایسے ہی سناٹے کے مقام میں رہتے ہیں۔ انسان کیا معنی یہاں تو جانور کا بھی پتا نہیں۔“
زمرد: ہاں! اور سنتی ہوں اس نہر میں اکثر جگہ پریاں نہاتی اور بال کھولے ہوئے آپس میں کھیلتی اور چھینٹیں اڑاتی بھی نظر آ جایا کرتی ہیں۔
حسین: (چونک کر)ایں! سنسنانے کی آواز کیسی تھی جیسے کوئی چیز سن سے کانوں کے پاس آ کر نکل گئی ؟
زمرد: یہ تو مشہور ہے پریوں کے تخت چاہے اڑتے نظر نہ آئیں مگر ان کے سن سے نکل جانے کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔
حسین: یہ بھی ممکن ہے ، مگر میں سمجھتا ہوں کہ کوئی جانور تھا۔
زمرد: جانور ہوتا تو دکھائی نا دیتا!
حسین: اگرچہ ابھی آفتاب نہیں غروب ہوا، مگر یہاں تم دیکھ رہی ہو کہ شام سے بھی زیادہ اندھیرا ہے۔ ایسے دھندلکے میں بعض اوقات الو یا بڑے بڑے چمگادڑ اس طرح سناٹے کی آواز سے اڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔
زمرد: لیکن اصل میں یہ بھی پری زاد ہیں جو مختلف جانوروں کی صورت میں رات کو نکلتے ہیں۔
حسین: ہو گا!(انتا کہہ کر اس نے گرد کے سین کو دہشت اور بزدلی کی نگاہوں سے دیکھا اور نہایت ہی پریشانی کی آواز میں کہا) شام ہوا ہی چاہتی ہے اور تمہارے بھائی کی قبر کا کہیں پتا نہیں۔
زمرد: مگر میں تو بھائی کی قبر تک پہنچے بغیر دم نہ لوں گی۔
یہ کہتے ہی ایک نہایت ہی تاریک گھاٹی نظر آئی جس میں نہر تو گئی ہے مگر دونوں جانب ایسی چکنی اور کھڑی چٹانیں ہیں کہ انسان کا گزرنا بہت ہی دشوار ہے۔ اس گھاٹی کی صورت دیکھتے ہی زمرد ایک شوق اور بے خودی کی آواز میں چلا اٹھی: “ہاں دیکھو، یہ دوسری علامت ہے۔ اسی میں سے ہوکے راستہ گیا ہے۔“
حسین: مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ ادھر سے ہم جائیں گے کیونکر؟
زمرد: جس طرح بنے ،جاؤں گی ضرور!
حسین: اور یہ گدھے ؟
زمرد: ان کو یہیں چھوڑ دو واپس آ کے لے لینا۔
حسین سے اس مستقل مزاجی اور دھن پر زمرد کو تعجب کی نگاہ سے دیکھا، پھر گدھے درختوں سے باندھے اور دونوں چٹانوں سے چمٹتے اور ہاتھوں سے پتھروں کے سروں اور خمروں کو پکڑتے آگے روانہ ہوئے۔کوئی دو گھڑی یہ محنت کا سفر کیا ہو گا کہ گھاٹی ختم ہو گئی جس سے نکلتے ہی دونوں نے دیکھا کہ نہر ویرنجان اس گھاٹی سے گزر کے یکایک ایک نہایت ہی فرح بخش مرغ زار میں بہنے لگی ہے۔ یہ عجیب لطف کا مقام تھا۔ قدرت نے خود ہی چمن بندی کر دی تھی۔شگفتہ اور خوش رنگ پھولوں کے تختے دور دور تک پھیلتے چلے گئے تھے۔ نغمہ سنج طیور بھی یہاں کثرت سے نظر آئے جو ہر طرف شاہدان چمن کے حسن و جمال پر صدقے ہوتے پھرتے تھے۔شام ہو رہی تھی اور یہ جوش میں بھرے ہوئے عاشقانِ شاہد گل اپنے معشوقوں کو الوداع کہہ رہے تھے۔ یہ سماں دیکھتے ہی زمرد نے خوش ہو کے کہا: “اب ہم اپنی منزل مقصود کو پہنچ گئے ہیں۔ اسی وادی میں بھائی موسیٰ مارے گئے اور کہیں یہیں ان کی قبر بھی ہو گی۔“
یہ کہہ کے زمرد ایک نازک بدن اور چست چالاک ہرنی کی طرح چاروں طرف دوڑی اور ایک بڑے سے پتھر کے پاس ٹھہر کے چلائی: “آہ!یہی میرے بھائی کی قبر ہے۔“
اس آواز کے سنتے ہی حسین بھی ادھر دوڑا گیا اور دیکھا کہ ایک چٹان پر موسیٰ کا نام کھدا ہوا ہے اور اس کے قریب ہی چند پتھروں کو برابر کر کے ایک قبر کی صورت بنا دی گئی ہے۔
دونوں نے یہاں کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کی مگر زمرد کے دل پر حسرت و اندوہ کا اس قدر غلبہ ہوتا جاتا تھا کہ فاتحے کر ختم ہونے سے پہلے ہی وہ گر پڑی اور قبر سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی۔ حسین نے بہت کچھ تسلی دی، نہر سے پانی لا کے منہ دھلایا اور رات کے اندھیرے میں اپنی حور وش محبوبہ کو گود میں لے کے بیٹھا اور سمجھانے لگا۔
زمرد: (ہچکیاں لے لے کے ) حسین مجھے اپنی زندگی کی امید نہیں؛ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہیں مروں گی۔ ہاتھ پاؤں سنسنا رہے ہیں، کلیجے میں میٹھا میٹھا سا درد ہے اور دل بیٹھا جا رہا ہے۔ مگر مرنے سے پہلے تم سے ایک وصیت ہے۔ مر جاؤں تو میری لاش کو بھی انھیں پتھروں کے نیچے دبا دینا جن کے نیچے بھائی موسیٰ کی ہڈیاں ہیں۔
حسین: (نہایت مستقل مزاجی سے آنکھوں ہی آنکھوں میں آنسو پی کر) یہ وصیت اگر پوری ہونے والی ہو گی تو کسی اور کے ہاتھوں سے پوری ہو گی۔ میں تمہارے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور جس کسی کے ہاتھ سے یہ وصیت پوری ہو گی وہ تمہارے ساتھ میری ہڈیوں کو بھی ان ہی پتھروں کے نیچے دبائے گا۔
زمرد: (خوشامد کے لہجے میں) نہیں حسین ایسا نہ کرنا۔ تم کو ابھی نہیں معلوم کہ مجھے کیا چیز یہاں کھینچ لائی ہے۔ نہ یہ کہہ سکتی ہوں کہ بھائی کی محبت ہے نہ یہ کہہ سکتی ہوں کے یعقوب کے بیان میں کوئی جادو تھا، مگر جس روز اس نے بھائی موسیٰ کی حسرت نصیب داستان سنائی اس کے دوسرے ہی دن میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے بھائی اس وادی میں کھڑے ہیں۔ خواب ہی میں انھوں نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا اور تاکید کر کے کہا کہ میرے قبر پر آ کے فاتحہ پڑھ۔مرحوم بھائی نے کچھ ایسی مؤثر وضع سے بلایا تھا کہ ان کی اُس وقت کی صورت اِس وقت تک میری آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ میں یہاں بھائی کی بلائی ہوئی آئی ہوں۔
حسین: (وفورِ گریا سے بے اختیار ہو کر اور ایک بے انتہا جوش کے ساتھ)خیر تمھیں تو انھوں نے خواب میں فقط بلایا تھا اور مجھے تم خود ساتھ لائی ہو۔
زمرد:ہاں میں تم کو ساتھ لائی اور اسی سبب سے کہ اس دنیا میں مجھے تم سے زیادہ کوئی عزیز نہیں۔ میری تمنا تھی اور ہے کہ تمہارے پہلو میں اور تمہاری آنکھوں کے سامنے جان دوں؛ اور اس کے بعد تم گھر جاؤ اور وہاں عزیزوں اور شہر کے دیگر شرفاء کی نظر میں جو کچھ بے عزتی ہوئی ہے اس کو دور کرو اور میری خبر مرگ کے ساتھ سب کو جا کے بتا دو کہ میں نے کیوں اور کہاں جان دی۔ اور مرتے وقت تک کیسی پاک دامن تھی۔ (گلے میں بانہیں ڈال کے ) حسین! میری آرزو ہے کہ تم زندہ رہو اور میرے دامن سے بدنامی کا داغ دھوؤ۔
حسین: (ایک نالہ جانکاہ کے ساتھ) خدا نہ کرے کہ میں تمہاری خبر مرگ لے جاؤں!
زا کہاں ایک پہاڑی کی ڈھالو سطح پر کچھ روشنی نظر آئی، جس پر پہلے زمرد کی نظر پڑی اور اس نے چونک کے کہا:“یہ روشنی کیسی؟“ حسین نے بھی اس روشنی کو حیرت سے دیکھا ور کہا:“خدا جانے کیا بات ہے ، اور دیکھو ادھر ہی بڑھتی چلی آتی ہے۔ اس رات کی تاریکی میں یہاں آنے والے کون لوگ ہو سکتے ہیں؟“
دونوں عاشق و معشوق روشنی کو گھبرا کے اور ساعت بہ ساعت زیادہ متحیزہو کے دیکھ رہے تھے کہ وہ بالکل قریب آ گئی۔ بڑی بڑی پندرہ بیس مشعلیں تھیں اور ان کے نیچے حسین و پری جمال عورتوں کا ایک بڑا غول، جن کی صورت دیکھتے ہی زمرد اور حسین دونوں نے ایک چیخ ماری؛ دہشت زدگی کی آواز میں دونوں کی زبان سے نکلا “پریاں“ اور دونوں غش کھا کے بے ہوش ہو گئے۔