کشمالہ وہ دیکھو سامنے والی ٹیبل پر جہانزیب ملک بیٹھا ہے زہرا پورجوش لہجے میں بولی پر کشمالہ کھانے کی طرف ہی موتوجہ رہی
پتا نہیں وہ یہاں کیا کر رہا ہے زہرا پھر بولی
ہوٹل ک برتن دھونے آیا ہے, ظاہر وہ باقی سب لوگوں کی طرح یہاں کھانا کھانے آیا ہوگا کشمالہ نے غصے سے کہا وہ اب بھی کھانے کی طرف موتوجہ رہی جہانزیب کو نہیں دیکھا
پر یار اس ک ساتھ وہ لڑکی کیا کر رہی ہے زہرا موسلسل جہانزیب کو ہی گھور رہی تھی اور ساتھ ساتھ کہے جا رہی تھی
اس دفع کشمالہ نے بھی نگاہ اٹھا کر دیکھا تبھی دوسری طرف جہانزیب نے بھی کشمالہ کو دیکھ لیا اور دیکھ کر مسکرایا کشمالہ نے سر جھکا لیا اور دوبارہ کھانے کی طرف موتوجہ ہو گئی لیکن خود پر جہانزیب کی نظریں موسلسل محسوس کر رہی تھی اس نے زہرا سے چلنے کو کہا لیکن تبھی جہانزیب اس لڑکی ک ساتھ ان کی ٹیبل کی طرف آتا دکھائی دیا تو اسے خاموش ہونا پڑا
اسسلام علکیم جہانزیب نے سلام کیا
وعلیکم اسّلام زہرا نے خوب زور و شور سے جواب دیا کشمالہ بھی ہلکے سے بولی
کشمالہ کی نظریں جہانزیب ک ساتھ لڑکی پر ٹکی تھی کشمالہ کو وہ لڑکی پہلی نظر میں ہی پسند نہیں ای تھی خاصی مغرور سی لگی جہانزیب نے کشمالہ کی نظریں مہرین پر محسوس کی تو تعارف کروا دیا
یہ مہرین ہے میری کزن جہانزیب نے بتایا
اور اس کی سب سے اچھی اور قریبی دوست بھی مہرین نے ایک ادا سے کہا
زہرا نے تو یہ بات محسوس نہیں کی پر کشمالہ کو ضرور بری لگی
انکا تعارف بھی تو کراؤ جہانزیب کیا یہ تمہاری دوست ہیں
نہیں ہم ان ک بزنس پارٹنرز کی بیٹیاں ہیں میں کشمالہ سلیمان ہوں اور یہ میری دوست زہرا ہے
اپ سے مل کر خوشی ہوئی مہرین زہرا نے فورن ہاتھ ملایا نہ چاہتے ہووے اسے بھی تقلید کرنا پڑی
اب چلیں جہانزیب ہمیں دیر ہو رہی ہے ابھی جہانزیب نے کھچ کہنے ک لئے مونہ کھولا ہی تھا ک مہرین نے فورن کہا
نہ چاہتے ہووے بھی جہانزیب کو اٹھنا پڑا اپ لوگوں سے پھر مولاقات ہوگی الله حافظ
مجے یہ مہرین بلکل اچھی نہیں لگی کیسے کہ رہی تھی ک میں جہانزیب کی سب سے اچھی دوست ہوں ہونھ”
زہرا کو بھی وہ کھچ خاص پسند نہی یی تھی پر کشمالہ کو چھیڑتے ہووے بولی تمھیں وہ ویسے ہی اچھی نہیں لگی یا جہانزیب کی سب سے اچھی دوست ہونے کی وجہ سے اچھی نہیں لگی
اف زہرا میں نے تو ویسے ہی ایک بات کہی اچھا چھوڑو اٹھو اب گھر چلتے ہیں دیر ہو رہی ہے
اسے واقعی کچھ برا لگا تھا پر اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کے کیا ۔۔
زہرا پیکنگ کر لی تم نے” کشمالہ نے زہرا ک کمرے میں اتے ساتھ پوچھا
نہیں” زہرا نے لاپرواہی سے جواب دیا
تو کب کرنی ہے تمھیں یاد ہے نا کہ کل ہمیں جانا ہے مری” کشمالہ نے یاد دلاتے ہووے کہا
ہاں مجھے یاد ہے پر میں نہیں جا رہی زہرا نے افسردگی سے کہا
لیکن کیوں” کشمالہ نے حیرانی سے پوچھا
پاپا کل کراچی جا رہے ہیں بزنس ک سلسلے میں تو ان کی غیر موجودگی میں تمہارے پاپا سارا کام سنبھالیں گے لہٰذا کوئی بڑا ہمارے ساتھ نہیں جا سکے گا اور اکیلے مجھے کوئی جانے نہیں دے گا زہرا نے ساری بات بتائی
لیکن میں ہوں نا تمہارے ساتھ کشمالہ نے کہا
میری حفاظت ک لئے ایک عدد مرد ساتھ ہونا چائیے تم ٹھری نازک کلی مجھے پتا ہے الٹا مجھے ہی تمھیں وہاں جا کر سمبھالنا پڑے گا بڑی آیی مجھے سمبھالنے والی زہرا نے اس کا مذاق اڑایا
ہاں ویسے تمھیں حفاظت کی ضرورت بھی بڑی ہے وہاں ک مرد تو اتنے عقل ک اندھے نہیں ہونگے کہ تمھیں چھیڑیں ہاں البتہ وہاں ک بندر تم جیسی خوبصورت بندری دیکھ کر عاشق ضرور ہو سکتے ہیں جن سے میں تمہاری حفاظت ہرگز نہیں کر سکتی کشمالہ نے بھی بدلہ چکایا
ٹھیک ہے تو اکیلی چلی جاؤ نا زہرا نے بغیر برا مانے مشورہ دیا
وہاں ک بندر تمہارے بغیر مجھے وہاں رہنے ہی نہیں دیں گے لہٰذا میں بھی نہیں جاؤں گی کشمالہ نے کہا
زہرا کو اس پر خوب پیار آیا کیوں ک وہ جانتی تھی کہ کشمالہ کا کتنا دل تھا مری جانے کا
لیکن کشمالہ۔۔ زہرا نے اسے سمجھانا چاہا
لیکن ویکن کھچ نہیں اب ہم اس موضح پر اور بات نہیں کریں گے” کشمالہ نے بات ختم کی
اچھا ٹھیک ہے زہرا فورن مان گئی
آج شام کو جہنزیب ہمارے گھر آ رہا ہے کشمالہ نے زہرا کو بتایا
وہ کیوں زہرا نے حیرانی سے پوچھا
میرا رشتہ لینے کشمالہ نے غصے سے کہا
کیا ! زہرا نے چیلا کر کہا
ارے پاگل پاپا کا بزنس پارٹنر ہے تو بزنس ہی کوئی بات کرنے آ رہا ہوگا نا کشمالہ نے وضاحت کی
اہ اچھا میں تو حیران ہی ہو گئی تھی
ایسا کرنا تم بھی شام کو آ جانا مل کر کھانے کا انتظام کر لیں گے کشمالہ نے کہا
اپنا کام ہو تو کیسے پیار سے خود گھر بولاتی ہو ورنہ تو مجے دھکے مار کر نکلنے پر تلی ہوتی ہو زہرا نے اسے سنائی
اچھا زیادہ باتیں سنانے کی ضرورت نہیں ہے بس میں نے کہ دیا ہے شام کو تم نے آنا ہے تو مطلب آنا ہے کشمالہ نے حکم دیا
اچھا بابا آ جاؤں گی زہرا نے ہار مانی
——————————————————-
شام کو دونوں نے مل کر کھانے کا خوب اہتمام کیا تھوڑی دیر بعد سلیمان صاھب اور جہانزیب ملک گھر آ گیے
جہانزیب بیٹا یہ میری بیٹی کشمالہ ہے سلیمان صاحب نے جہانزیب کو کشمالہ سے ملوایا
جی انکل میں ان سے پہلے بھی مولاقت ہو چکی ہے ایک شریر سی مسکراہٹ جہانزیب ک چہرے پر تھی
اور کشمالہ سمجھ چکی تھی ک وہ کس مولاقت کی بات کر رہا ہے کشمالہ کو اپنی پہلی مولاقت کو سوچ کر خوب شرمندگی ہوئی
اہ یہ تو اچھی بات ہے سلیمان صاھب نے کہا
اچھا تو اب آفس کب سے اؤ گے کھچ کاروباری باتیں کرنے ک بعد سلیمان صاھب نے پوچھا
جی انکل بس اگلے ہفتے سے اس ہفتے تو میں مری جاؤں گا اتنے عرصے بعد پاکستان واپس آیا ہوں تو سوچا پہلے کھچ گھوم پھر لوں
یہ تو بوہت اچھا سوچا کشمالہ اور زہرا بھی کل مری جا رہی ہیں تم انہی ک ساتھ چلے جانا کوئی ساتھ ہوگا تو ہمیں بھی اطمینان رہے گا
سلیمان صاھب سیدھا آفس سے گھر ہے تھے تو انہیں ابھی کشمالہ نے مری نہ جانے ک بارے میں نہیں بتایا تھا
جی انکل یہ ٹھیک رہے گا کشمالہ کے کھچ بولنے سے پہلے زہرا فورن بولی کیوں ک وہ جانتی تھی ک کشمالہ منع کر دے گی
ٹھیک ہے پھر ہم رات ١٠ بجے یہاں سے نکلیں گے جہانزیب نے فورن حامی بھری
زہرا کیا ضرورت تھی تمھیں جہانزیب ک ساتھ چلنے پر حامی بھرنے کی کشمالہ نے اسے ڈانٹتے ہووے کہا
کیوں کہ میں نہیں چاہتی تھی ک میں زیادہ تر لڑکیوں کی طرح اس بات کا انتظار کروں کہ میرے’ وہ ‘ مجھے اپنے ساتھ مری گھمانے لے جایئں گے میں تمہارے ساتھ مری دیکھنا چاہتی ہوں زہرا نے بھی اپنا نظریہ بیان کیا ویسے تمھیں جہانزیب سے کوئی مسلہ ہے کیا ؟ زہرا نے پوچھا
نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں
تو پھر تم اس سے سہی سے بات کیوں نہیں کرتی زہرا نے پھر پوچھا
صل میں مجھے جہانزیب سے شرم اتی ہے جب بھی وہ میرے سامنے اتا ہے مجھے اس ک قدموں میں گرنا یاد آ جاتا ہے مجھے لگتا ہے وہ مجھ پر طنز کرے گا اس لئے میں بات ہی نہیں کرتی کشمالہ نے اپنے خیالات واضحہ کیے
وہ دونوں اس وقت کشمالہ ک کمرے میں بیٹھی جہانزیب ک انے کا انتظار کر رہی تھی
چلو بیٹا جہانزیب آ گیا ہے لینے دادی نے کمرے میں آ کر اطلاح دی
دادی کی آنکھوں میں آنسو تھے جو کہ کشمالہ نے دیکھ لئے تھے
دادی اپ رو کیوں رہی ہیں کشمالہ نے فورن دادی سے پوچھا
بیٹا تم پہلی بار اتنا دور جا رہی ہو میں اتنے دن تمہارے بغیر کیسے رہوں گی تم ہی تو گھر کی رونق ہو بیٹا
دادی اگر اپ ایسے پریشان ہونگی تو میں نہیں جاؤں گی کشمالہ دادی ک گلے لگ کر رونے لگی
اف اپ لوگوں نے تو رخصتی والے جذبات جگا دیے اتنا اموشنل تو میرے مما پاپا بھی نہیں ہووے جتنا اپ ہو رہی ہیں دادی زہرا نے ان دونوں کو الگ کیا
ہٹ شریر تجھے بڑی جلدی ہے رخصت ہونے کی دادی نے زہرا کے کان کھنچے دادی دیر ہو رہی ہے چلیں نہ زہرا نے اپنا کان چھوڑوایا
چلو! وہ تینوں نیچے آ گییں جہاں سلیمان صاھب اور جہانزیب باتوں میں مصروف تھے جہانزیب انہیں دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا
بیٹا ان دونوں کا بہت خیال رکھنا سلیمان صاھب نے جہانزیب سے کہا
جی انکل میں انکا خیال رکھوں گا
بیٹا زہرا تو سمجھدار ہے پر یہ کشمالہ تھوڑی جلدباز ہے اسے اکیلے کہیں نہ جانے دینا بیٹا تمھیں پتا تو ہے وہاں طرح طرح ک لوگ اے ہوتے ہیں بچیاں ہیں ذرا کھال رکھنا بیٹا دادی نے ہدایت کرنا ضروری سمھجا
تمھیں ابھی بھی رخصتی والی فیلنگ نہیں آ رہی زہرا اسکے کان میں بولی کشمالہ نے اسے گھورا
دیکھو نا یار دادی بلکل جہانزیب کو اسے ہی ہدایت کر رہی ہیں جیسے وہ تمھیں یہاں سے رخصت کر ک لے جا رہا ہو اور دادی سمھجا رہی ہوں ک بیٹا میری لاڈو پلی بیٹی کا خیال رکھنا اس کو کوئی نقصان نہ پونچھے وغیرہ وغیرہ زہرا موسلسل اس ک کان کھا رہی تھی
جلدی کریں دیر ہو رہی ہے جہانزیب انکے پیچھے ہی آ رہا تھا اگے بڑھ کر انکے لئے گاڑی کا دروازہ کھولا
کشمالہ اور زہرا دادی اور سلیمان صاھب سے مل کر گاڑی میں بیٹھ گئی
کہیں اس نے سن تو نہی لیا کشمالہ کو فکر ہوئی
اگر سن بھی لیا ہے توکوئی بات نہی زہرا نے لاپروائی ظاہر کی
جہانزیب سامان رکھ کر اب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا
تو چلیں گرلز جہانزیب نے دونوں کو موخاطب کیا ریئر ویو مرر سے نظریں کشمالہ پر جمائیں
جی چلیں نا ہم تو جانے کب سے تیار بیٹھے ہیں زہرا نے کہا کشمالہ خاموش ہی رہی
گرلز میں اپسے دوستی کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ ٹریپ کا مزہ جو دوستوں ک ساتھ ہے وہ اور کسی ک ساتھ نہیں جہانزیب نے گاڑی چلاتے ہووے کہا
اگر کشمالہ برا نہ مانے تو میں تو اپ سے دوستی کرنے ک لئے تیار ہوں زہرا نے کشمالہ کو دیکھتے ہووے کہا
کشمالہ کیا آپکو میری اور زہرا کی دوستی قبول ہے جہانزیب نے ایک دفع پھر کشمالہ پر نظریں جمائی
جی زہرا اگر چاہتی ہے تو مجھے بھی قبول ہے کشمالہ نے بھی اسے دیکھ کر کہا
اور کیا زہرا کی دوست کو بھی مجھ سے دوستی قبول ہے جہانزیب نے پھر پوچھا
کشمالہ اب اپنی شرمندگی ختم کرنا چاہتی تھی اور یہ سفر اچھے سے گزارنا چاہتی تھی لہٰذا کہ دیا جی قبول ہے
بس بس اب تیسری دفع مت کہنازہرا نے فورن موداخلت کی
کشمالہ اور جہانزیب دونوں کو بات سمجھ میں آ گئی کشمالہ نے شرم ک مارے سر جھکا لیا اور جہانزیب کا قہقہ گاڑی میں گونج گیا
تھوڑا اگے جا کر پھر زہرا بولی جہانزیب پلیز کوئی گانا ہی لگا دو میں بور ہو رہی ہوں جہانزیب نے اپنا پسنددیدہ گانا لگا دیا
لاہور کی اس قدرے ویران روڈ پر میرے رشق قمر کی آواز گونجنے لگی
تونے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزہ آ گیا کشمالہ اور جہانزیب دونوں نے بیک وقت نظریں اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھا آنکھ انکی لڑی یوں میری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا کشمالہ نے فورن نظریں جھکا
لی اُس نے شرما کے میرے سوالات پہ، ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا کشمالہ کی گردن مزید جھک گئی اور جہانزیب ک لبوں پر ایک جاندار مسکراہٹ آ گئی یوں لاہور کی اس ویران سڑک نے دو دلوں میں ہلکا سا شور مچا
ایسے ہی ہلکی پھلکی باتیں کرتے اور باہر کہ مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہووے وہ لوگ بھلوال اور بھیرہ سے ہوتے ہووے ٣ گھنٹوں میں کلرکہار پہنچے کشمالہ اور زہرا اب تھک گئی تھیں
گرلز کیا خیال ہے یہاں تھوڑا آرام نا کیا جائے
ہاں پلیز جہانزیب اب کہیں روک دو گاڑی ہم بہت تھک گئی ہیں کشمالہ نے کہا
جہانزیب نے ایک ریسٹورانٹ ک سامنے گاڑی روک دی رات ک ١ بجے تھے لیکن یہاں ابھی بھی خاصا رش تھا
شائد کسی کالج کا ٹریپ بھی مری جا رہا ہے جہانزیب نے اندازہ لگایا اور انہیں لے کر اندر آ گیا
گرلز اپ لوگ جا کر فریش ہو جایئں وہاں بائیں طرف واشروم ہے میں یہیں بیٹھا ہوں جہانزیب نے کہا
وہ دونوں واشروم میں داخل ہوئی تو اندر کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئی باہر سے زیادہ رش یہاں اندر تھا ان دونوں نے پہلے اتنا رش کبھی کسی واشروم میں نہیں دیکھا تھا
واشروم ک شیشوں ک اگے لڑکیاں دڑھا داڑھ میکپ ٹھیک کرنے میں مصروف تھی تو کچھ کونوں میں سلفیاں لینے میں مصروف تھی کشمالہ اور زہرا تو ایک دوسرے کا مونھ دیکھ کر رہ گئی
آخر زہرا نے ایک لڑکی سے پوچھ ہی لیا جو اپنے بالوں کو کنگھی کر رہی تھی
سنیں یہاں اتنا رش کیوں لگا رکھا ہے
جی ہمارے کالج کا ٹریپ مری جا رہا ہے یہاں صرف ادھے گھنٹے کا سٹے ہے اس لئے ہم سب ذرا جلدی میں ہیں لڑکی نے بھی ذرا جلدی میں جواب دیا
کشمالہ وہ دیکھ اس لڑکی کو
ابھی تھوڑی دیر پہلے ان دونوں نے اس لڑکی کو شلوار قمیض اور بڑے سے دوپٹے میں لپٹے ہووے اندر جاتے دیکھا تھا لیکن یہ کیا باہر تو کوئی اور ہی نکلی تھی جینس ک اوپر شرٹ پہنے گلے میں سکارف ڈالے بال کھولے یہ وہ تو نہیں تھی جو اندر گئی تھی ہاں شکل اس جیسی ضرور تھی کشمالہ اور زہرا نے یہ منظر خوب انجوئی کیا اور جلدی سے مونھ ہاتھ دھو کر باہر آ گییں
اتنی دیر لگا دی اپ دونوں نے انے میں میں کب سے اپ دونوں کا انتظار کر رہا تھا اب جلدی سے یہ کافی پی لیں تاکے جلدی نکلیں یہاں سے باہر ہلکی ہلکی بارش شروح ہو گئی ہے جہانزیب نے کہا دونوں نے کوئی جواب نہی دیا اور کافی پینے لگی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...