وہ دونوں نیچے آ گئی جہاں جہانزیب ان کا ناشتے ک لئے انتظار کر رہا تھا
کشمالہ نے نیلے رنگ کی جینس کے اوپر کالے رنگ کا اورکوٹ پہن رکھا تھا گلے میں لال رنگ کا سکارف سا لے رکھا تھا لیکن اس طرح کے وہ کوٹ کا ہی حصہ لگ رہا تھا گھنے سیاہ بال کھول رکھے تھے جو کہ پشت پر بکھرے ہووے تھے وہ صرف حسین نہیں بلکے بہت حسین لگ رہی تھی
جوں جوں اس کے قدم جہانزیب کی طرف بڑھ رہے تھے جہانزیب کا دل بےقابو ہو رہا تھا جہانزیب کا دل چاہا کے وہ اٹھے اور اس حسین شہزادی کو اپنے سینے میں چھپا لے تاکہ اس کے علاوہ اسکی شہزادی کو کوئی نہ دیکھ سکے
پر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا وہ اس پر اختیار نہی رکھتا تھا
بمشکل اس نے اپنی نظریں کشمالہ سے ہٹائیں
وہ اس کے سامنے ہی اکر بیٹھ گئی تھی پر اب وہ نظر اٹھانے کی غلطی نہیں کر رہا تھا کیوں کے وہ جانتا تھا ایک دفع نذر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس کے سحر میں جکڑا جائے گا اور پھر اس قید سے نکلنا اسکے لئے مشکل تھا
اسلام وعلیکم ! صبح بخیر کشمالہ کی سریلی آواز اسکے کانوں میں آیی دل نے دعا کی کہ کاش یہ آواز وہ زندگی بھر سن سکے لبوں نے ہولے سے سلام کا جواب دیا پر آنکھوں نے اس حسین شہزادی کو دیکھنے کی گستاخی نہیں کی
آج کا کیا پلان ہے کہاں چلیں زہرا نے ناشتہ کرتے ہوے جہانزیب سے پوچھا
آج نتھیا گلی چلتے ہیں اس نے زہرا کو دیکھ کر کہا
آج پٹریاتا کی چیر لفٹ پر نا چلیں کشمالہ نے راۓ دی
ٹھیک ہے جیسے تم لوگوں کی مرضی جہانزیب نے کھانے کی طرف ہی توجہ مبذول رکھی
کشمالہ کو یہ سب عجیب لگا آخر جہانزیب اسکی طرف دیکھ کیوں نہی رہا تھا وہ اسی ک لئے تو اتنا دل لگا کر تیار ہوئی تھی وہ تو اسکی پیار بھری نظروں اور ان خوبصورت بول کی منتظر تھی جو وہ اسکی تعریف میں کہتا لیکن وہ تو اسے نگاہ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں رہا تھا
کشمالہ کا دل رونے کو چاہا پر وہ ان دونوں کے سامنے رو نہیں سکتی تھی اگر رو دیتی اور وہ لوگ وجہ پوچھتے تو کیا جواب دیتی یہ کہ جہانزیب مجھے دیکھ نہیں رہا اس لئے رو رہی ہوں یا یہ کہ میں جہانزیب کے لئے تیار ہوئی ہوں پر وہ میری تعریف نہیں کر رہا دونوں صورتوں میں اسے شرمندگی اٹھانی پڑتی اس لئے آنسوں کو ضبط کیا
اچانک زہرا کا فون بجا اسکی مما کی کال تھی اس لئے سنیں چلی گئی جہانزیب اب بھی کھانے کی طرف متوجہ رہا
کشمالہ کو اب اطمینان سے کھانا کھاتے جہانزیب پر غصہ آ رہا تھا
اس نے اپنا غصہ چمچ کو پلیٹ میں پٹخ کر نکالا
جہانزیب نے حیرت سے اسے دیکھا جہانزیب کو دیکھتا پا کر کشمالہ کے آنسو امڈ ہے
ان جھیل جیسی آنکھوں میں آنسو جہانزیب کو اپنا دل ڈبوتا محسوس ہووے
کیا ہوا ہے کشمالہ جہانزیب نے نہایت نرمی اور پیار سے کہا
میں کسی لگ رہی ہوں اس نے معصومیت سے پوچھا
جہانزیب نے بہت مشکل سے اپنے بے ساختہ امڈ انے والے قہقے کا گلا گھونٹا لیکن ہونٹوں پر انے والی بھرپور مسکراہٹ کو نہ روک سکا
ہاں ٹھیک لگ رہی ہو جہانزیب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت تھی
کیا میں پیاری نہیں لگ رہی ایک اور معصوم سا سوال
نہیں ! ایک اور دل دھکانے والا جواب
کشمالہ اب کے ضبط نہ کر سکی
دو آنسو آنکھوں کی سرحد پار کر چکے تھے کشمالہ نے سر جھکا لیا اور فورن آنسو صاف کیے
پر جہانزیب دیکھ چکا تھا اسے یہ آنسو اپنے دل پر گرتے محسوس ہووے کسی پیارے کو روتا دیکھ بہت تکلیف ہوتی ہے جہانزیب کو بھی اس وقت وہی تکلیف محسوس ہوئی
کشمالہ! جہانزیب نے پکارا
کشمالہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
جہانزیب نے اپنی ہیزل براؤن آنکھیں سے اسکے حسین چہرے کا طواف کرتے ہووے پوچھا کشمالہ تم نے کبھی حور دیکھی ہے
کشمالہ نے ناسمھجی سے سر نفی میں ہلایا
میں نے بھی آج سے پہلے نہیں دیکھی تھی پر آج اتنے قریب سے دیکھ لی
کشمالہ اپنی اس قدر تعریف پر شرما گئی پر دل چاہا کے سارے مری کو چیخ چیخ کر بتاے کے اسکے جہانزیب ملک نے اسکی تعریف کی ہے
اس وقت کشمالہ خود کو اسکول کی وہ چھوٹی سی بچی محسوس کر رہی تھی کے جس نے خوب محنت سے اور دل لگا کر ہوم ورک کیا ہو اور ٹیچر نے اسکے کیے کام کی تعریف کر دی ہو اور اب وہ بچی خوشی سے ہر ایک کو اپنی تعریف سنا رہی
ہو
پر کشمالہ نہ ہی کوئی بچی تھی اور نہ ہی اچھل اچھل کر سب کو بتا سکتی تھی اس لئے خاموشی سے بیٹھی رہی
لیکن کشمالہ میں نہیں چاہتا کے اس حور کو میرے علاوہ بھی کوئی دیکھے یہ جلوہ صرف میرے لئے ہی رہنے دو جہانزیب نے بغور اسے دیکھتے ہووے کہا
ٹھیک ہے کشمالہ نے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی میں بس تھوڑی دیر میں اتی ہوں زہرا ویسے تو اتنی جلدی آے گی نہیں پر اگر آی تو اسے بتا دی جیے گا کے میں روم میں ہوں
ویسے میں نے پہلی حور دیکھی اور وہ بھی جینس کوٹ میں جہانزیب نے اسے جاتے دیکھ کر شرارت سے کہا
اور کشمالہ ہنستے ہووے چلی گئی
زہرا واپس ای تو کشمالہ کے بارے میں پوچھا
اس کے کپڑوں پر کچھ گر گیا تھا اس لئے چینج کرنے گئی ہے جہانزیب نے کہ کر اسے مطمئن کر دیا
تھوڑی دیر کے بعد کشمالہ آ گئی اس بار اس نے کالے رنگ کے ٹروسر کے اوپر لال رنگ کی لمبی سی شرٹ پہن رکھی تھی جس کے اپر کالے ہی رنگ کی جرسی تھی بالوں کو اونچی سی پونی بنا کر باندھ رکھا تھا
چلو جلدی سے چلو ورنہ موسم کا کوئی بھروسہ نہیں پھر خراب ہو جائے گا زہرا نے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی
وہ تینوں ہوٹل سے باہر آ گئے کشمالہ زہرا کے ساتھ اگے اگے چل رہی تھی جہانزیب ان سے دو قدم پیچھے چل رہا تھا زہرا کو فون پر مصروف دیکھ کر کشمالہ نے نا محسوس طریقے سے اپنی رفتار آہستہ کر دی اور جہانزیب کے ساتھ چلنے لگی
شہزادے کے لئے اس سے خوشی کی کیا بات ہو سکتی تھی کے اس کی شہزادی اس کے ساتھ چلے
جہانزیب مجھے اپ سے ایک بات پوچھنی تھی کشملا نے کہا
جہانزیب نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
کیا میں دانش کو بھی بلا لوں اسے نہ بولیا تو وہ ناراض ہو جائے گا
شہزادہ اب جانتا تھا کے شہزادی صرف اسکی ہے کوئی انکے درمیان نہیں اے گا تو کیا وجہ تھی کے شہزادی اتنے پیار سے اجازت مانگتی اور اسکا شہزادہ نہ دیتا
کشمالہ نے دانش کو بھی فون کر کے بولا لیا تھا اور ساتھ ہی اس سے گزارش کی تھی کے زہرا کو پتا نہ چلے کے میں نے تمھیں بولایا ہے
وہ تینوں بہت ہی خوش گوار موڈ میں پٹریاتا پہنچے تھے جسے اب نیو مری بھی کہا جاتا ہے
تھوڑی دیر یونہی گھومنے پھرنے کے بعد جہانزیب چیر لفٹ کی ٹکٹ لینے چلا گیا
کشمالہ اب دانش کو ڈھونڈ رہی تھی تم کسی کو ڈھونڈ رہی ہو زہرا نے پوچھا
نہیں تو میں تو ویسے ہی ارد گرد دیکھ رہی تھی کتنی پیاری جگہ ہے نا کشمالہ نے ایک دفع پھر متلاشی نگاہ آس پاس گھمائی
ہاں جگہ تو واقعی بہت پیاری ہے زہرا نے چاروں طرف دیکھ کر کہا تبھی اسکی نظر کچھ فاصلے پر کھڑے دانش پر پڑی وہ بھی شائد کسی کو ڈھونڈ رہا تھا
اف یہ یہاں بھی زہرا نے غصے سے کہا
کون کشمالہ نے زہرا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تمہارا سب سے اچھا دوست اور کون زہرا نے چھڑ کر کہا
کشمالہ نے فورن زہرا کی نظروں کا تعقب کیا اور دانش کو دیکھ کر زور زور سے ہوا میں ہاتھ لہرا کر اسے موتوجہ کیا
اف کشمالہ یہ کیا کر رہی ہو اسے کیوں بولا رہی ہو زہرا تو چیخ ہی پڑی دانش تو اسے اتنی دور کھڑا بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا اور یہ کشمالہ اسے اپنے پاس بولا رہی تھی زہرا کو غصہ تو آنا ہی تھا پر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا کیوں کے وہ انکو دیکھ چکا تھا اور اب بڑے انداز سے چلتا انہی کی طرف آ رہا تھا
زہرا نے غصے سے مونھ ہی دوسری طرف کر لیا
اسلام وعلیکم ! دانش زہرا کے پاس ہی آ کر کھڑا ہو گیا وعلیکم اسلام کشمالہ نے جواب دیا زہرا مونھ پھیرے چپ ہی کھڑی رہی
کشمالہ مجھے لگتا ہے تمہاری دوست بہری ہے یا ایسا تو نہیں کے یہ اونچا سنتی ہے کشمالہ کو ہنسی آ رہی تھی زہرا کا چہرہ سردی سے کم اور غصے سے زیادہ لال ہو رہا تھا
چلو ایک دفع پھر کوشش کرتا ہوں اسلام و علیکم ! اس دفع اس نے ایسے چیخ کر کہا جس طرح کلاس میں بچے اپنے استاد کو چیخ چیخ کر سلام کرتے ہیں
بہت سے لوگوں نے مڑ کر اسے دیکھا زہرا شرمندہ ہو گئی اور ہلکے سے سلام کا جواب دیا
اپ نے کچھ کہا مجے سنائی نہیں دیا دانش نے پھر اسے چھیڑا
کشمالہ لگتا ہے تمہارے یہ دوست بہرے ہیں یا ایسا تو نہیں کہ یہ اونچا سنتے ہیں زہرا نے دانش کی بات اسی کو لوٹائی کشمالہ کی پھر ہنسی چوٹ گئی دانش کا قہقہ بھی مری کی فضا میں گونج اٹھا
اسّلام و علیکم ! کیا حال ہے دانش جہانزیب نے اتے ساتھ ہی اسے سلام کیا
وعلیکم اسّلام میں بلکل ٹھیک اپ سنائیں
میں بھی۔ اچھا اب جلدی کرو چیر لفٹ ابھی پانچ منٹ تک چل جائے گی جہانزیب نے کہا اور انہیں ساتھ لیتا ہوا لفٹ کے پاس آ گیا
یہ کیوں ہمارے ساتھ آ گیا ہے اس نے تو ٹکٹ بھی نہیں لی زہرا کو دانش کے ساتھ انے پر اعترض ہوا اس لئے کشمالہ سے کہا
جہانزیب کو معلوم تھا کے دانش نے آنا ہے اس لئے وہ اسکی بھی ٹکٹ لے آیا تھا پر کشمالہ زہرا کو یہ نہیں بتا سکتی تھی ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ زہرا کو کیا جواب دے کے دانش خود ہی بول پڑا
محترمہ میں اپنی ٹکٹ پہلے ہی لے چکا تھا اپ اتنی پریشان کیوں ہوں رہی ہیں فکر نہ کریں میں اپ ہی کے ساتھ بیٹھوں گا
ہنہ! ناممکن میں آپکے ساتھ کبھی نہیں بیٹھوں گی میں کشمالہ کے ساتھ ہی بیٹھوں گی
جہانزیب جو کے ابھی تک بڑے مزے سے انکی نوک جھونک سن رہا تھا زہرا کی آخری بات پر اسکا مونھ لٹک گیا
کچھ ہی دیر میں چیر لفٹ انے والی تھی
کشمالہ اگر تم اجازت دو تو کیا میں تمہاری دوست کے ساتھ چیر لفٹ پر بیٹھ سکتا ہوں دانش کشمالہ کے قریب آیا اور سرگوشانہ انداز میں کہا
کشمالہ نے پہلے تو اسے گھورا لیکن پھر ہنس کر اجازت دے دی
وہ دانش کو اچھے سے جانتی تھی وہ فلرٹ نہیں تھا نہ ہی لڑکیوں سے فری ہونا پسند کرتا تھا کشمالہ سے اس کی دوستی بھی صرف پڑھائی کی وجہ سے ہوئی تھی پر وہ ہمیشہ حد میں رہا تھا کشمالہ کو اس پر اعتماد تھا
دانش کی بجاے کسی اور نے اگر آ کر اس سے یہی سوال پوچھا ہوتا تو وہ ابھی تک اسکی اچھے سے پٹائی کر کے کسی بھی کھائی میں پھنک چکی ہوتی
لفٹ اب قریب آ چکی تھی پر دانش نے زہرا کو اپنی باتوں میں لگا رکھا تھا زہرا بڑے آرام سے اس سے لڑنے میں مصروف تھی اسے پتا ہی نہ چلا کے کب لفٹ ائی اور کب کشمالہ کے ساتھ جہانزیب بیٹھ کر چلا گیا
اسے ہوش تب آیا جب انکی لفٹ میں بیٹھنے کی باری آ چکی تھی اب دانش لفٹ میں بیٹھا اسے بیٹھنے کو کہ رہا تھا جلدی بیٹھیں محترمہ ورنہ یہاں اکیلی رہ جایئں گی زہرا کچھ نہ سمجتے ہووے بیٹھ گئی اسے یقین نہیں آیا کے کشمالہ اسے اس بندر کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ہے
اسے کشمالہ پر خوب غصہ آ رہا تھا پر اب وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی اسے سوچ کر ہی کوفت محسوس ہو رہی تھی کہ اسے تقریباً گھنٹہ یہاں اس سے کے ساتھ بیٹھنا تھا
نیچے کا منظر بہت خوبصورت تھا کتنا اچھا ہوتا اگر یہاں یہ سب ہوتا پر میرے ساتھ یہ دانش نہ بیٹھا ہوتا زہرا نے سوچا دانش ابھی تک حیرت انگیز طور پر چپ بیٹھا تھا
سنو اگر یہاں سے کوئی حادثاتی طور پر گر جائے تو مر جاتا ہے یا بچ بچا جاتا ہے زہرا نے پوچھا اسے اتنی اونچائی سے ڈر بھی لگ رہا تھا
ویسے تو مر ہی جاتا ہے پر اگر بچ جائے تو جنگلی جانور کھا جاتے ہیں دانش کو پتا چل گیا تھا کے وہ ڈر رہی ہے اس لئے مزید ڈرایا
ڈر سے زہرا کی تو مانو جان ہی نکل گئی ہو اس نے ہینڈل کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور خود پر ایت الکرسی پڑھ کر پھونکنے لگی دانش اسکی اس حرکت پر مسکرا دیا
مجھ پر بھی کچھ پھونک دو میری بھی جان قیمتی ہے اس نے پھر چھیڑا
تمھیں ایت الکرسی نہیں اتی زہرا نے سنجیدگی سے سوال کیا
دانش ذرا گڑبڑا گیا” آتی ہے مجھے”
شاباش ! تو خود پر پڑھ کر جتنی دفع مرضی پھونک لو زہرا نے کہا اور مونھ دوسری طرف کر لیا دانش مسکرا دیا
———————————————————-
کشمالہ تمھیں پتا ہے یہ میری زندگی کا سب سے حسین سفر ہے جہانزیب نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہووے کہا تھا
پر کشمالہ نے کوئی جواب نہ دیا وہ بس نیچے کے منظر ہی دیکھتی رہی جہاں لمبے لمبے سبز درخت برف سے ڈھکے ہووے نظر آ رہے تھے ایسا لگتا تھا جیسے ان درختوں نے اپنے سروں پر سفید ٹوپیاں پہن رکھی ہوں
شہزادی لفظوں میں نہیں بتا سکتی تھی کے اسے اپنے شہزادے کے سنگ یوں مری کی وادی پر اڑنا کیسا لگ رہا تھا
ہر انسان کی خوائش ہوتی ہے کے وہ آسمان کی بولندیوں پر اڑے شہزادی کی بھی خواھش تھی قدرت نے اسکی یہ خواھش پوری کر دی شہزادی اس وقت بنا پروں کے اڑ رہی تھی پر قدرت نے ایک اضافی تحفہ یہ دیا تھا کے وہ اپنے شہزادے کے سنگ اڑ رہی تھی
کشمالہ تم اتنی چپ کیوں ہو کیا تمھیں بولندی سے ڈر لگ رہا ہے جہانزیب نے فکر مندی سے پوچھا
نہیں مجھے ڈر نہی لگ رہا اس نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر کہا اور پھر چہرہ جھکا لیا تا کہ جہانزیب اس کا جھوٹ نہ پکڑ لے
ہاں اسے ڈر لگ رہا تھا پر بولندی سے نہیں, اپنی خوشیوں سے۔۔۔
ہوتا ہے نہ ایسا کے جب انسان کو بہت سی خوشیاں مل جایئں تو اس کے اندر انہیں کھونے کا خوف بھی پیدا ہو جاتا ہے کشمالہ کو بھی اپنی خوشیوں کے کھونے کا ڈر تھا
بیشک جہانزیب نے اس سے اظہار نہیں کیا تھا پر وہ جانتی تھی کے جہانزیب کے لئے وہ خاص ہے
اسکے دل نے چپکے سے دعا کی تھی’ یا میرے رب میری خوشیوں کو قائم رکھنا ‘
بیشک کوئی دعا رد نہیں ہوتی پر ضروری تو نہیں کے ہر دعا قبول بھی ہو
کوئی بھی شخص یہ نہیں کہ سکتا کے میری زندگی میں ہمیشہ خوشیاں ہی آیی میں نے کبھی دکھ نہیں دیکھا ہر شخص کا دکھوں سے پالا پڑتا ہے چاہے کوئی پیغمبر ہو یا چاہے عام انسان کوئی امیر ہو یا چاہے غریب دکھ ہر کسی کو ملتا ہے کوئی اس دکھ پر صبر کرتا ہے اور کوئی آہو فریاد کوئی روتا ہے تو کوئی ضبط کرتا ہے یہی زندگی ہے
کشمالہ کی زندگی میں بھی ایک ایسی ہی کالی گھٹا آہستہ آہستہ آ رہی تھی جو کہ اسکے خوشیوں کے سورج پر آ کر چھا جانے والی تھی اور پھر اس کالی گھٹا سے ہونی تھی دکھوں کی برسات ۔۔۔۔
ان چاروں نے تقریباً گھنٹہ مری کے اوپر گزرنے کے بعد اب زمین مری پر قدم رکھا تھا باقی سب تو خوش ہی تھے صرف ایک فرد تھا جس کا غصے سے برا حال تھا جی وہی محترمہ زہرا
وہ تینوں زہرا کا خراب موڈ دیکھ رہے تھے اس لئے جہانزیب اور دانش تو اسے موخاطب ہی نہیں کر رہے تھے مکھیوں کے بھڑ میں ہاتھ بھلا کون ڈالتا
پر ہاے رے دوستی کشمالہ کو ایسا کرنا تھا ایک دوست کا موڈ خراب ہو تو دوسرا دوست بھلا مزے کیسے کر سکتا ہے
جہانزیب اور دانش نے ان دونوں کو تنہائی فراہم کر دی تاکہ جلدی سے صلح کر لیں اور وہ لوگ کیبل کار کی ٹکٹ لینے چلے گیے
کشمالہ اور زہرا ایک بینچ پر آ کر بیٹھ گئیں لیکن زہرا نے کوئی بات نہ کی اور منہ دوسری طرف کر کے بیٹھی رہی یہ اسکی مخصوص عادت تھی غصے یا ناراضگی میں وہ منھ پھیر لیتی تھی
ناراض ہو؟ معصوم سی دوست کا معصوم سا سوال
اپ کون! میں تو آپکو نہیں جانتی وہی ظالمانہ جواب جو ہر معصوم دوست کو سنے کو ملتا ہے
میں وہی ہوں جو پچھلے پانچ سال سے آپکے ساتھ ایک آسیب کی طرح چپکی ہوئی ہوں ارے وہی جس کے ساتھ اپ نے گلی موحلے کے عاشقوں کی طرح ساتھ جئیں گے ساتھ مریں گے کی قسمیں کھائی ہیں
او اچھا ! اس بار زہرا نے منھ اسکی طرف کر کے کہا اپ وہی ہیں نا جس نے کہا تھا ہم ساتھ مری گھومیں گے پر نہیں اپ اپنی دوست کو ایک خالص بندر ٹائپ آدمی کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر خود چلی گیئں
اچھا بابا مان لیا مجھ سے غلطی ہو گئی اب معاف کر دو نا کشمالہ نے بڑے پیار سے کہا
نہیں زہرا نے پھر مونھ پھیر لیا
کچھ دوست ایسے ہی ہوتے ہیں جتنا مناؤ اتنا پیھلتے ہیں
کشمالہ نے اب آخری طریقہ آزمایا
روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں بولو نا بولو نا
گانے کے ساتھ ساتھ اسکا کندھا بھی ہلایا زہرا ہنس دی
بدتمیز! یہ گانا مت گایا کرو بہت برا گاتی ہو ساتھ ہی زہرا نے اس کے کھاندے پر ہاتھ مارا کشمالہ ہنس دی
شہزادی نہیں جانتی تھی کہ اسکے شہزادے نے بھی اسکا گیت سن لیا ہے
شہزادے نے کیسے کیسے سریلے گیت سن رکھے تھے پر اسکو اپنی شہزادی سے پیاری آواز کسی کی نہ لگی شہزادے نے بےساختہ دعا کی کہ کاش جب کبھی وہ اپنی شہزادی سے ناراض ہو تو اسکی شہزادی اسے بھی ایسے ہی پیار سے گا کر منا لے
پر کاش وہ یہ بھی مانگ لیتا کے اے میرے رب میری اس خوائش کو میرے اچھے وقت میں پورا کرنا
کشمالہ اور زہرا کی ناراضگی ختم ہو چکی تھی لہٰذا ان دونوں نے کیبل کار پر مل کر خوب مزہ کیا دانش اور جہانزیب انہیں دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہے
لنچ بھی انہوں نے وہیں سے کیا تھا
کشمالہ اور زہرا اب مل کر تصویریں لینے میں مصروف تھیں دو تین تصویریں دانش اور جہانزیب نے بھی لیں پر وہ لڑکیوں کا موقآبلہ نہیں کر سکتے تھے
شام تک وہ لوگ یونہی گھومتے رہے ایک اور خوبصورت دن کا اختتام ہونے والا تھا اب ان لوگوں نے ہوٹل واپسی کا پلان بنایا کیوں کے سب بہت تھک چکے تھے
سنو ایک آخری تصویر لیتے ہیں پھر چلتے ہیں زہرا نے کہا کشمالہ تو فوراً راضی ہو گئی
وہ سب تصویر لینے کے لئے گرل کے پاس آ گیے نیچے کھائی تھی اور پیچھے پہاڑیاں پیچھے سے گزرتی چیر لفٹ نے اس منظر کو اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا وہ سب تصویر لینے کے لئے اپنی اپنی جگہ سنبھالنے لگے
ارے تم کیوں آ رہے ہو تم یہاں کھڑے ہو گے تو تصویر کون لے گا زہرا نے دانش کو قدرے جتلا کر کہا
ارے محترمہ اپ فکر ہی نہ کریں تصویر بھی بن جائے گی بلکے میری اور آپکی ساتھ ہی بنے گی دانش نے کہا اور کمیرہ سامنے سے گزرتے ایک آدمی کو پکڑا دیا اور تصویر لینے کی گزارش کی دانش خود جا کر زہرا کے پاس کھڑا ہو گیا
اب کھڑے کچھ یوں تھے کے کسشمالہ اور زہرا بیچ میں تھیں جبکے جہانزیب کشمالہ کے ساتھ اور دانش زہرا کے ساتھ کھڑا تھا
جوں ہی اس آدمی نے ریڈی کہا دانش نے زہرا کے سر پر اپنی دو انگلیوں سے سینگ بنا دیے زہرا کو پتا بھی نہ چلا اور کیمرے نے یہ خوبصورت منظر ہمیشہ کے لئے خود میں قید کر لیا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...