(Last Updated On: )
انشا جی کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگر تھا جو 1955 میں پہلی بار شائع ہوا۔ یہ اس دور کی بات تھی جب انسان کے قدم چاند پر نہ پہنچے تھے انشا جی یہ اس زندگی کے خاکے ہیں جو میں نے اٹھائیس برس میں بسر کی ہے گرجا کا گھڑیال جو دو بجاتا ہے گاڑی کی سیٹی جو گونج اٹھتی ہے ریل کی پلیا بھی کہ مضافات میں نظر آتی ہے اور چاند۔۔۔آبادیوں اور ویرانوں کا چاند ۔۔۔یہ سب ماضی کی کھونٹیاں ہیں جن پر میں نے یادوں کے پیراہن لٹکا رکھے ہیں اب آپ میراساتھ چھو ڑ کر اس چاندنگر کی سیر کیجئے اور میں نے اسے تلابخلی دے کر کسی نئے سفر پر نکلوں گا نہ مجھے اپنا حسن کا ایلڈوریڈو ملا ہے نہ زندگی کا شہر تمنا۔۔۔ میری منزل چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادی طویل میں ہے اس سے واپسی ہوئی تو جو کچھ دامن میں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ کلیاں ،کانٹے، یا غبار، وہ پیش کروں گا۔
لیکن چاند کی پہاڑیوں سے انشا جی واپس لوٹے تو انسان کے قدم چاند پر پہنچ چکے تھے لیکن نیچے دھرتی کا احوال وہی تھا جو کچھ چاند نگر کے دیباچے میں لکھا تھا اور وہ آج بھی ہے دھرتی اور دھرتی والوں کے مسئلے وہی ہیں جنگ و امن، امارات و احتیاج، استعمار و محکومیت یہاں ملک تو آزاد ہو رہے ہیں لیکن انسان آزاد نہیں ہو رہے۔ اپنے دو سرے مجموعے ’اس بستی کے ایک کوچے میں‘، جو ۶۷ء میں طبع ہوئی، کے دیباچے میں انشا جی لکھتے ہیں ’ایک طرف اسباب دنیا کی فراوانی ہے غلے کے گودام بھرے ہیں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں دوسری طرف حبشہ اور چڈاریٹڑ کی جھلسی ہوئی ویرانی میں انسان اناج کے ایک دانے کے لئے جانوروں کاسوکھا گوبر کرید رہا ہے اور ہزاروں لاکھوں لوگ تپتے تانبے کے آسمان تلے ایڑیاں رگڑتے دم توڑ رہے ہیں۔
شاعر اور ادیب کا ضمیر عالم کی آواز کہلاتا ہے، اپنی ذات کے خول میں دم سادھے بیٹھا ہے احتجاج کی منخنی صدا بھی نہیں۔ ایسے میں ذاتی جوگ بجوگ کی دھوپ چھاؤں کا یہ مرقع پیش کرتے ہوئے ہم کیسے خوش ہو سکتے ہیں یہ ہمارے پچھلے بیس سال کا نامۂ اعمال ہے اب پڑھنے والا بھی حکم صادر کرے انشا جی کے دونوں مجموعۂ کلام کے درمیان بیس سال کا وقفہ تھا اور اب جب کہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں وہ چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادی طویل میں اتنی دور نکل گئے کہ واپسی کا امکان ہی نہیں ہے۔ ان کے کاغذات میں سے ایک بیاض بھی ملی تھی جس کا عنوان دل وحشی تھا۔ شاید انہوں نے اپنے تیسرے مجموعہ کلام کا عنوان سوچا تھاسو اب یہ مجموعہ اسی نام سے شائع کیا جا رہا ہے اس مجموعہ کلام میں جو غزلیں ،نظمیں،شائع کی جا رہی ہیں وہ انشا جی کی بیاض میں لکھی ہوئی ہیں ہو سکتا ہے ان کا ارادہ نظر ثانی کرنے کا ہو لیکن زندگی نے مہلت نہ دی ہمیں یہ جس حالت میں ملی ہیں اسی صورت میں شائع کر دی ہیں۔ بہت سی نظمیں۔ غزلیں،نامکمل ہیں ممکن ہے خام صورت میں ہوں۔ کچھ کے صرف ایک دو شعر ہی کہے گئے ہیں۔۔۔۔۔ یہ اشعار جو ہمیں ملے ہیں انشا جی نے مختلف ادوار میں کہے ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ قاری کو اس میں پہلے دور کی تازگی محسوس ہو۔ رہی درمانویت اور پرانے موسموں کی خوشبو جو چاند نگر کا خاصا ہیں اور کہیں اس پختگی کا احساس ہو جو اس بستی کے ایک کوچے میں پائی جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر آپ کو اس میں انشا جی کا تیسرا رنگ نظر آئے گا اس میں ا نہوں نے ا پنے جوگ بجوگ کی دھوپ چھاؤں کا مرقع ہی نہیں ا نسانی زندگی کی دھوپ چھاؤں کا مرقع بھی پیش کیا ہے،
اس مجموعے میں اگر آپ کو کوئی خامی یا کمزوری نظر آئے تو اسے صرف ہم سے منسوب کیجئے گا انشا جی سے نہیں کہ اگر زندگی وفا کرتی تو نہ جانے کس صورت میں آپ کے ہاتھوں میں پہنچتا۔
سردار محمود
محمود ریاض