(معروف دانشور ، شاعر، ادیب ، نقاد اور مدیر اعلیٰ قرطاس جان کاشمیری)گوجرانوالہ
میں جب کبھی افسانہ پر غور کرتا ہوں تو فورا اس طرف خیال چلا جاتا ہے کہ لفظ افسانہ اور افسوس کی آپس میں بنیادی سطح پر گہری رشتہ داری ہے اس لئے افسانہ اور افسوس کے پہلے تین حرف ایک جیسے ہیں۔ یہ یکسانیت اس امر کی شہادت ہے کہ افسانے کی رگوںمیں افسوس یعنی دکھ، کرب ، تکلیف اور اسی قبیل کے دیگر رویوں کی ہمہ ہمی گردش پذیر ہوتی ہے چنانچہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح کھل کر سامنے آتی ہے کہ جب تک مذکورہ بالا رویوں میں کسی ایک یا ایک سے زیادہ پہلوؤں کی آمیزش نہ ہو ایسی تحریک کے نتیجے میں رو نما ہونے والی تحریر کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے لیکن اس کو افسانہ نہیں کہا جا سکتا ۔مجھے ان باتوں کا شدت سے احساس معروف و معتبر قلم کار محترم محمد امین جالندھری ایڈوکیٹ کے افسانوی مسوے کے بالااستیعاب مطالعہ کے دوران ہوا۔ آپ قانونی گرہ کشائیوں کے بین بین ادبی گرہ کشائیوں میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ آپ افسانے کی روح تجسس کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرتے ۔ مزید یہ کہ اس موقع پر تخلیقی لحاظ سے اتنی چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ زبان، دل اور روح تینوں اش اش کر اٹھتے ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف افسانوں کے کرداروں کے منہ میں اپنی نہیں ، کرداروں کی زبان ڈالتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں تخلیقی رم جھم کی پھوا ر پورے ماحول کو اپنی ساحرانہ گرفت میں لے لیتی ہے جو محتر م امین جالندھری کی وسعت مطالعہ ، بے کراں مشاہد ے اور علم و ادب سے بے انت محبت کا ثبوت ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...