(Last Updated On: )
ویسے تو چاندنی رات تھی لیکن اس وقت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ڈوگو نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ سیاہ بادلوں نے چاند کو پوری طرح ڈھک لیا تھا۔ اس نے کھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا اور بڑبڑایا ’’آج رات بارش ہوگی۔ ‘‘اس نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا۔ اس کے ساتھی سُولے نے کو ئی جواب نہیں دیا۔ وہ ایک لمبا اور مضبوط جسم کا آدمی تھا۔ اس کے اور اس کے ساتھی کے چہروں سے بیوقوفی بھری جہالت ٹپک رہی تھی۔ چوری ان دونوں کا پیشہ تھا۔ اس وقت وہ تھوڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔
’’ایسا کہنا غلط ہوگا ‘‘سُولے نے تھوڑی دیر کے بعد کہا۔
اس کی انگلیاں لمبے اورخمدار خنجر کو چھو رہی تھیں جو اس کے بائیں بازوکے اوپری حصے پر بندھا ہوا تھا۔ اس کے اپنے الفاظ میں’’ وہ جب بھی ’ڈیوٹی ‘پر ہوتا ہے تو وہ خنجر اس کے بازو پر ضرور بندھا ہوتا ہے۔ ‘‘ ایسا ہی ایک خطرناک ہتھیار اس کے ساتھی کے بازو پر بھی بندھا ہوا تھا۔
’’ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘
’’میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ ‘‘ڈوگو بولا۔ اس کے لہجے میں غصہ اور جھنجھلاہٹ تھی۔ مقامی زبان میں ڈوگو کا مطلب’لمبا‘ہوتا ہے لیکن یہ شخص کوتاہ قد اور تندرست تھا۔ لمبا تو کسی صورت نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ تیزی سے بھاگتے بادلوں کی جانب اٹھاتے ہوئے کہا ’’ تمھیں بس صرف اوپر دیکھنے کی ضرورت ہے تم خود سمجھ جائو گے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت بارشیں دیکھی ہیں۔ وہ جو اوپر بادل ہیں وہ بارش والے ہی ہیں۔ ‘‘
تھوڑی دیر تک وہ خاموشی سے چلتے رہے۔ بڑے قصبے کی روشنیاں ان کے پیچھے ہلکے سرخ رنگ کی خمیدہ لکیر کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔ دو چار لوگ ہی باہر دکھائی دے رہے تھے کیوں کہ رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی۔ رات کی تاریکی میں ، تقریباً آدھے میل کی دوری پر، اگلے قصبے کی روشنیاں بے ترتیب پھیلی دکھائی دے رہی تھیں ، یہی ان کی منزل تھی۔ ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں ایک بھی اسٹریٹ لیمپ جلتا نظر نہیں آرہا تھا۔ عام لوگوں کے لیے بھلے ہی یہ پریشانی کی بات ہو لیکن ان دونوں کے پیشے کے مطابق یہ ایک اچھی بات تھی۔
’’تم اللہ نہیں ہو۔ ‘‘ آخر کار سُولے نے کہا ’’ تم اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو۔ ‘‘
سُولے ایک چھٹا ہوا مجرم تھا۔ جرم اس کی روزی روٹی تھا۔ پچھلے مقدمے کے دوران، جس میں اسے ہلکی سی سزا ہوئی تھی، اس نے جج سے یہی جملہ کہا تھا۔
اسے یاد ہے ،عدالت میں موجود لوگوں کی بھنبھناہٹ کے درمیان ،جج نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا تھا’’سماج کوتم جیسے لوگوں سے نجات دلانا چاہیے …‘‘ سولے کٹہرے میں بالکل سیدھا کھڑا تھا،اسے اپنے جملے اور لہجے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ جج کے جملے اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ پہلے بھی کئی بار یہ سب سن چکا تھا…’’تم اور تمھارے جیسے لوگ عام انسانوں کی جان و مال کے لیے خطرہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور یہ عدالت ہمیشہ اس بات کا خیال رکھے گی کہ تمھیں قانون کے مطابق بھر پور سزا ملے…اور صحیح سزا ملے۔ ‘‘
جج نے اس کی طرف نہایت سخت نگاہوں سے دیکھاتھا،جواب میں سُولے نے بھی اسے ویسی ہی نگاہوں سے دیکھا…یہ کوئی نئی بات نہ تھی ، اس سے قبل بھی وہ کئی نام نہاد ججوں کی آنکھوں میں جھانک چکا تھا۔ وہ دنیا کی کسی چیز سے اور کسی انسان سے نہیں ڈرتا تھا،… ڈرتا تھا تو صرف اللہ سے!
جج نے اپنی تھوڑی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا’’کیا یہ سیدھی سی بات تمھاری سمجھ میں نہیں آتی کہ جرم کا راستہ تمھیںہمیشہ مصیبتوں، دکھوں اورسزا کی جانب ہی لے جائے گا،… تم ہر قسم کے کام کے لیے موزوں دکھائی دیتے ہو… توپھر ایمانداری کی روزی کمانے کا ایک تجربہ کیوں نہیں کرتے؟ … تمھیں اچھا لگے گا۔ ‘‘
سولے اپنے چوڑے کاندھوں کو اچکاتے ہوئے بولا ’’میںنے روزی کمانے کا بس ایک ہی طریقہ سیکھا ہے …بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ میں نے ایک ہی طریقہ چنا ہے۔ ‘‘
اسے سمجھا نے کی کوشش میں ناکام ہو کر جج مایوس ہو چکا تھا۔ پھر بھی اس نے ایک اور کوشش کرتے ہوئے،آگے کی طرف جھک کر اس سے کہا’’کون سا طریقہ؟…جرم کا؟‘‘
ایک بار پھر سُولے نے اپنے کاندھوں کو اچکایااور بولا ’’میں جس طریقے سے روزی کماتا ہوں ،اس سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ ‘‘
’’مطمئن؟‘‘ جج نے حیرت سے کہا اور عدالت کے کمرے میں لوگوں کی دھیمی دھیمی بھنبھناہٹ گونج اٹھی جسے جج نے اپنا ہتھوڑا بجا کر روکا۔ ’’کیا تم قانون توڑنے کا جرم کر نے کے بعد بھی مطمئن رہتے ہو؟‘‘
’’میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ‘‘ سُولے نے کہا ’’قانون ایک واہیات چیز ہے جو ہمیشہ لوگوں کے راستے میں آتا رہتا ہے۔ ‘‘
’’بار بار کی گرفتاری اور قید کی سزا…کیا جیل جانا تمھیں اچھا لگتا ہے؟‘‘جج نے اپنی پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے بڑی حیرت سے اس سے پوچھا۔
’’ہر پیشے میں کوئی نہ کوئی جوکھم تو اٹھانا ہی پڑتاہے۔ ‘‘ سُولے نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
جج نے اپنا چہرہ رومال سے پوچھتے ہوئے کہا ’’لیکن بھلے آدمی تم قانون کو توڑ نہیں سکتے …تم صرف اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو… اور اس کوشش میں تم خود ہی ٹوٹ جاتے ہو۔ ‘‘
سُولے نے اثبات میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا ’’ہاں اس سلسلے میں ایک محاورہ بھی مشہور ہے…وہ جو ایک کھمبے کو ہلانے کی کوشش کرتا ہے دراصل وہ خود ہل کر رہ جاتا ہے۔ ‘‘اس نے چیں بہ جبیں جج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’آپ کا قانون… موٹے کھمبے جیسا ہے … ہہہ۔ ‘‘
جج نے اسے تین ماہ کی سزا سنائی۔ سُولے نے اپنے کاندھوں کو اچکایا اور بولا ’’اللہ کی مرضی پوری ہو کر رہتی ہے۔ ‘‘
n
آسمان پر بجلی کا ایک کوندا لپکا۔ سُولے نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولا ’’بہت ممکن ہے کہ بارش ہو… لیکن تم پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ بارش ہوگی… تم صرف ایک فانی انسان ہو… تمھیں صرف اتنا کہنا چاہیے… اگر اللہ کی مرضی ہوئی تو بارش ہوگی۔ ‘‘ سُولے ایک انتہائی مذہبی انسان تھا۔ اس کا مذہب اسے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی بات یقین کے ساتھ کہنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس کے دل میں خوف الٰہی تھا جو بالکل اصلی تھا … اس میں کوئی بناوٹ نہیں تھی…روزی حاصل کر نے کے بارے میں اس کاعقیدہ بڑا عجیب تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رزق کے حصول کا طریقہ اللہ نے ہر انسان کی اپنی مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔ اللہ نے بعض لوگوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ دولت دی ہے اور وہ لوگ جن کے پاس کم ہے وہ ان سے اپنا حصہ لے سکتے ہیں۔ بے شک اللہ یہ نہیں چاہے گا کہ کچھ پیٹ خالی رہیں اور کچھ ضرورت سے زیادہ بھرے ہوں۔
ڈوگو غرایا۔ وہ ملک کے تقریباً سبھی شہروں کی جیلوں میں قیدرہ چکا تھا۔ جیل اس کے لیے دوسرے گھر کی طرح تھا۔ اپنے ساتھی سُولے کی طرح وہ بھی دنیا کے کسی آدمی سے نہیں ڈرتا تھا لیکن اس کے بالکل برخلاف اس کا کوئی مذہب نہیں تھا… اگر اس کی نظر میں کچھ تھا تو وہ بس اپنی حفاظت کا جذبہ تھا۔
’’تم اور تمھارا مذہب…‘‘ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا’’تمھیں اس نے بہت فائدہ پہنچا یا ہے…۔ ‘‘
سُولے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ڈوگو جانتا تھا کہ سُولے مذہب کے معاملے میں بہت حساس ہے اور اس سلسلے میںغصہ آنے پر اس کا پہلا جواب سر پر پڑنے والے زبردست گھونسے کی صورت میں ہوتا ہے۔
وہ دونوں یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے درمیان پیار یا دوستی کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ دونوں جب بھی جیل سے باہر ہوتے ،ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے … صرف اس لیے کہ اس طرح دونوں کو بہت آسانی ہوتی تھی۔ ایک ایسی پارٹنر شپ جس میں ہر پارٹنر کو صرف اپنے فائدے سے غرض تھی… کوئی بھی کسی اصول کا پابند نہیں تھا۔
’’کیا تم اس عورت سے آج ملے تھے؟‘‘ ڈوگو نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا، اس لیے نہیں کہ وہ سُولے کی ناراضگی سے ڈرتا تھا بلکہ اس کے جھینگر جیسے دماغ نے اچانک ایک نئی سمت میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔
’’ہوں۔۔۔۔‘‘ سُولے نے ہنکارا بھرا۔
’’کیا ہوا؟ ‘‘ ڈوگو نے سُولے کو خاموش دیکھ کر پوچھا۔
’’کمبخت!‘‘ سولے نے جذبات سے عاری لہجے میں کہا۔
’’کون؟۔۔۔۔۔ میں؟‘‘ ڈوگو نے پوچھا۔
’’ہم لوگ اس عورت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ‘‘ سُولے نے جواب دیا۔
وہ ایک چھوٹے سے چشمے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ سولے رک کر اپنے ہاتھ، پیراور منڈے ہوئے سر کو دھونے لگا۔ ڈوگو چشمے کے کنارے بیٹھ گیا اور ایک پتھر پر اپنے خنجر کی دھار تیز کرنے لگا۔
’’تمھارا کیا خیال ہے؟… کہاں چلنا ہے؟ … ‘‘سُولے نے سر اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’یونڈر گائوں… مجھے پتاہے، وہاں تمھاری ایک محبوبہ رہتی ہے۔ ‘‘ ڈوگو نے جواب دیا۔
’’میں کسی عورت کے پاس نہیں جا رہا ہوں… ‘‘ سُولے نے کہا ’’میں کچھ بے کار پڑی چیزیں حاصل کر نے جارہا ہوں… اگر اللہ نے چاہا۔ ‘‘
’’تمھارا مطلب ہے… چوری کرنے۔ ‘‘ ڈوگو نے تصحیح کی۔
’’ہاں… ‘‘ سُولے نے اعتراف کیا۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور اپنے سیاہ فام بازو کو ڈوگو کی طرف اٹھاتے ہوئے بولا ’’ تم بھی تو ایک چور ہو لیکن ساتھ ہی بہت بڑے کمینے بھی۔ ‘‘
ڈوگو نے خنجر کی نوک کو اپنے بازوپر ہلکے سے آزماتے ہوئے سر ہلایا ’’کیا یہ تمھارے مذہب میں شامل ہے… آدھی رات کو چشمے پر ہاتھ منھ دھونا۔ ‘‘
سولے نے کوئی جواب نہیں دیا جب تک وہ کنارے پر چڑھ نہ گیا ’’جب کوئی چشمہ ملے تو ضرور دھو لینا چاہیے… کیوں کہ اگلا چشمہ تمھیں کب ملے گا یہ صرف اور صرف ا للہ کی مرضی پر منحصر ہے‘‘وہ لنگڑاتا ہوا چل پڑا۔ ڈوگو بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔
’’تم نے اسے کمبخت کیوں کہا تھا؟‘‘ ڈوگو نے پوچھا۔
’’کیوں کہ وہ وہی ہے۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس نے مجھ سے کہا کہ اس نے وہ کوٹ اور وہ سیاہ بیگ صرف پندر شیلنگ میں فروخت کیے ہیں۔ ‘‘ اس نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور بولا ’’میرا خیال ہے کہ مجھ سے پہلے تم اس کے پاس گئے تھے اور اسے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اسے کیا کہنا ہے۔۔۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’میں نے ایک ہفتے سے اسے دیکھا تک نہیں ہے‘‘ ڈوگو نے احتجاج کیا ’’کوٹ کافی پرانا تھا۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ پندرہ شیلنگ ٹھیک ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بالکل صحیح کام کیا تھا‘‘
’’بے شک‘‘ سولے نے کہا۔ اسے ڈوگو کی بات پر بالکل یقین نہیں تھا ’’میں بھی ایسا ہی کہتا اگر میں نے بھی اس کے ساتھ حصے داری کی ہوتی۔۔۔۔۔‘‘
ڈوگو نے کچھ نہیں کہا۔ سُولے ہمیشہ اس کی جانب سے مشکوک رہتا تھا اور اسی لیے ایسی باتیں اس کی زبان پر آجاتی تھیں۔ کبھی کبھی ان کا ایک دوسرے پر شک بالکل بے بنیاد ہوتا تھا اور کبھی کبھی ٹھیک بھی۔
ڈوگو نے اپنے کاندھے اچکائے ’’میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے ،تم یہ کیا باتیں کر رہے ہو‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ تم سمجھوگے بھی نہیں۔ ‘‘ سولے انتہائی خشک لہجے میں بولا۔
’’مجھے صرف اپنے حصے سے مطلب ہوتا ہے‘‘ ڈوگو بولا۔
’’تمہارا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا دوسرا حصہ؟‘‘ سُولے نے کہا ’’ تم دونوں اس میں حصہ لگائوگے۔۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بن باپ کے ،دھوکے باز بیٹے۔۔۔۔ اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ چڑیل عورت۔ ‘‘ وہ ایک لمحے کو رکا ، پھر بولا ’’اس کتیا نے میری ران پر چاقو مارا تھا۔۔۔۔‘‘
’’اوہو! میں سوچ رہا تھا کہ تم لنگڑا کیوں رہے ہو؟‘‘ ڈوگو نے کہا ’’اس نے تمہاری ران میں چاقو اتار دیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ سچ میں؟۔۔۔۔۔ عجیب بات ہے نا؟‘‘‘
’’اس میں عجیب کیا ہے؟‘‘ سُولے اس کی طرف چبھتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اس نے تمہیں چاقو مار دیا ۔۔۔۔۔۔ صرف اس لیے کہ تم نے اس سے رقم کے لیے درخواست کی تھی؟‘‘
’’ کوئی بے وقوف ہی اس بات پر اعتبار کرے گا کہ وہ کوٹ اور بیگ صرف پندرہ شیلنگ مالیت کے تھے۔ ‘‘سولے نے کہا۔
’’اور ظاہر ہے کہ تم بیوقوف نہیں ہو ۔۔۔۔ کیوں؟‘‘ ڈوگو چٹخارہ لے کر بولا۔ ’’ تو تم نے کیا کیا؟‘‘
’’میں نے اسے بری طرح پیٹ ڈالا‘‘ سولے دانت پیس کر بولا۔
’’چلو ٹھیک ہے‘‘ ڈوگو بولا ’’لیکن افسوس یہ ہے کہ تم نے اسے جتنی چوٹ پہونچائی ، اس نے تمہیں اس سے کہیں زیادہ واپس کر دیا۔ ‘‘ اس نے پھر چٹخارہ لیا۔
’’ایک خون اگلتا زخم مذاق نہیں ہوتا‘‘ سُولے نے زہریلے لہجے میں کہا۔
’’تو مذاق کون کر رہا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی چاقو کے زخم لگ چکے ہیں۔۔۔۔۔ اگرتم رات میں چاقو لے کر نکلتے ہو توتمہیں خود بھی چاقو کا زخم کھانے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں ایسی باتوں کو اپنا پیشہ ورانہ خطرہ سمجھنا چاہیے۔ ‘‘
’’بے شک‘‘ سولے نے کہا ’’لیکن ایسا سوچ لینے سے زخم اچھا تو نہیں ہو جاتا؟‘‘
’’ نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے ہسپتال موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ڈوگو نے کہا۔
’’مجھے پتا ہے ۔۔۔۔۔لیکن ہسپتال میں علاج سے پہلے زخم لگنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے‘‘۔
تھوڑی ہی دیر بعدوہ لوگ گائوں میں داخل ہو رہے تھے۔ ان کے سامنے چوڑا راستہ کئی پتلی پتلی گلیوں میں تقسیم ہو کر گھروں کی طرف جارہا تھا۔ سُولے ایک لمحے کو رکا ،پھر ایک راستے پر چل پڑا۔ دونوںاپنے ارد گرد محتاط نگاہیں ڈالتے، خاموش قدموں سے چلے جا رہے تھے۔ مٹی کے ان گنت مکانوں میں سے کسی میںبھی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ تمام کھڑکیاں اور سوراخ بند تھے…شاید طوفان کی آمد کے ڈر سے۔ مشرق کی جانب سے بجلی کی گرج بار بار سنائی دے رہی تھی۔ گائوں کے راستوں پر ان کے سوا اگر کوئی تھا تو وہ چند بھیڑیں اور بکریاں تھیں جو ان کی آہٹ پرچونک کر اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ ہر تھوڑی دیر بعد سُولے کسی مکان کے پاس رکتا، دونوں آس پاس ایک بھر پور نگاہ ڈالتے،وہ اپنے ساتھی کی طرف سوالیہ نظروںسے دیکھتا، وہ اپنا سر نفی میں ہلاتا اور پھر دونوں آگے بڑھ جاتے۔
وہ دونوں پندرہ منٹ تک چلتے رہے۔ اچانک بجلی کی ایک انتہائی تیز کوندے نے جیسے ان کی آنکھیں اچک لیں۔
’’ہمیں جلدی کرنی چاہیے۔ ‘‘ ڈوگو نے سرگوشی کی ’’طوفان قریب آچکا ہے۔ ‘‘
سُولے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان سے چند گز کے فاصلے پر ایک بوسیدہ سامکان تھا۔ وہ اس کے قریب گئے۔ مکان کی حالت سے انھیں کوئی مطلب نہیں تھا۔ ان کا یہ برسوں پرانا تجربہ تھا کہ مکان کی ظاہری حالت کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ،کہ اس میں کتنا مال ملے گا۔ کئی بار بوسیدہ جھونپڑیوں میں انھیں کافی دولت مل چکی تھی۔ ڈوگو نے سُولے کی جانب دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔ ’’تم باہرٹھہرو … اور… جاگتے رہنا‘‘سُولے نے کہا۔ اس نے ایک بند کھڑکی، کی جانب اشارہ کیا ’’تم وہاں کھڑے رہ سکتے ہو۔ ‘‘
ڈوگو اپنی جگہ پر چلا گیا۔ سُولے لکڑی کے ایک بوسیدہ دروازے پر قسمت آزمائی کرنے لگا۔ ڈوگو کے آزمودہ کار کانوں نے بھی کسی قسم کی کوئی آواز نہیں سنی اور اسے پتا بھی نہ چلا کہ کب سُولے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ حالاں کہ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے وہاں کھڑے صدیاں بیت گئی ہوں۔ اچانک اس نے دیکھا کہ اس کے قریب موجود کھڑکی نہایت آہستگی کے ساتھ کھل رہی ہے۔ وہ دیوار سے چپک گیا۔ مگر یہ سُولے کے موٹے ہاتھ تھے جو کھڑکی سے باہر آئے تھے۔ ان میں ایک بڑا سا تونبا (کھوکھلا کیا ہوا کدو جس میں سامان رکھتے ہیں) تھا۔ ڈوگو نے تونبا تھام لیا۔ اس کے وزن سے اسے حیرت ہوئی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ یہاں کے لوگ تونبوں پر بینک سے زیادہ بھروسا کرتے تھے اور اپنا سارا مال انھی میں رکھتے تھے۔
’’چشمے کے کنارے…‘‘ سولے نے کھلی ہوئی کھڑکی سے سر گوشی کی۔
ڈوگو سمجھ گیا۔ تونبے کو اپنے سر پر اٹھائے وہ بڑی تیز رفتاری سے چشمے کی جانب چل پڑا۔ سولے مکان سے نکل کر اس کے پاس آجائے گا۔
چشمے کے پاس پہنچ کراس نے تونبے کو احتیاط سے زمین پر رکھ دیا۔ اس نے اس کے اوپر لگے ہوئے ڈھکن کو ہٹایا۔ اگر اس کے اندر کوئی قیمتی چیز ہے تو پھر اسے اور سُولے کو اس کے دو برابر حصے کر نے کی ضرورت نہیں۔ اس نے سوچا۔ اگر وہ اس میں سے کچھ نکال لے گا تو سولے کو پتا کیسے چلے گا۔ اس نے یہ تونباکھڑکی سے اس کے حوالے کرنے سے قبل اس میں موجود اشیا کو دیکھا ہی کب ہوگا۔ اس نے اپنا ہاتھ تونبے کے اندر ڈالا۔ اچانک اسے اپنی کلائی پرتیز ٹیس کا احساس ہوا۔ اس کے منھ سے ایک حیرت زدہ چیخ نکلی اور اس نے اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے باہر کھینچ لیا۔ اس نے اپنی کلائی کا قریب سے معائنہ کیا اور پھر بڑی تیز رفتاری وہ کوسنے اور گالیاں بکنے لگا۔ وہ دنیا کی ہر چیز کو دو زبانوں میں ،جنھیں وہ جانتا تھا، بے تحاشہ گالیاں بک رہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ کو پکڑے ہوئے زمین پر بیٹھ گیا اور ہلکی آواز میں گالیاں بکنے لگا۔ اس نے سولے کے قدموں کی آہٹ سنی اور خاموش ہو گیا۔ اس نے تونبے کا ڈھکن بند کردیااور انتظار کر نے لگا۔
’’کوئی مشکل تو نہیں پیش آئی۔ ‘‘
’’نہیں…ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ‘‘ سُولے نے جواب دیا۔
وہ دونوں تونبے پر جھک گئے۔ ڈوگو نے اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں کلائی کو دبارکھا تھالیکن سُولے نے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
’’تم نے اسے کھولا تھا؟‘‘ سُولے نے پوچھا۔
’’کون؟ میں نے؟… ارے نہیں! ‘‘ڈوگو نے جواب دیا۔
سُولے کو اس پر اعتبار نہیں آیا اور یہ ڈوگو کو بھی پتا تھا۔
’’اس میں اتنا بھاری کیا ہے۔ ‘‘ ڈوگو کے لہجے میں تجسس تھا۔
’’دیکھتے ہیں…‘‘ سولے نے کہا۔
اس نے ڈھکن ہٹایا اور اپنا ہاتھ تونبے کے کھلے منھ کے اندر داخل کیا۔ اسے اپنی کلائی پر تیز ٹیس کا احساس ہوا۔ اس نے فوراًاپنا ہاتھ تونبے سے باہر کھینچ لیا۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ ڈوگو بھی کھڑا ہو گیا۔ پہلی بار سُولے نے دیکھا کہ ڈوگو اپنی کلائی کو دوسرے ہاتھ سے تھامے ہوئے ہے۔ کافی دیر تک دونوں ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے خاموش کھڑے رہے۔
’’جیسا کہ تم ہر بار یہ ضد کیا کرتے ہو کہ ہمیں ہر چیز میں برابر کا حصہ دار ہونا چاہیے۔ ‘‘ ڈوگو نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
بڑی ہی دھیمی آواز میں سُولے نے بولناشروع کیا…وہ ڈوگو کو ہروہ گالی دے رہا تھا جو اسے یاد تھی۔ جواب میں ڈوگو بھی اسے ویسی ہی گالیاں دے رہا تھا۔ دونوں اس وقت خاموش ہوئے جب ان کے پاس گالیوں کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔
’’میں گھر جا رہا ہوں۔ ‘‘ ڈوگو نے کہا۔
’’رکو…‘‘ سُولے نے کہا۔ اپنے دوسرے ہاتھ کو جیب میں ڈال کر اس نے ماچس نکالی۔ بڑی دقتوں سے اس نے ماچس جلائی اور تونبے کے منھ کے پاس لے جاکر اس کے اندر جھانکا۔
’’گھر جانا ضروری نہیںہے۔ ‘‘اس نے ڈوگو سے کہا۔
’’کیوں…؟‘‘ ڈوگو نے پوچھا۔
’’اس کے اندر ایک غصے میں بھرا کوبرا سانپ موجود ہے‘‘ سُولے بولا۔
ڈوگو کو اچانک اپنا ہاتھ بہت بھاری ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ درد بہت تیز تھا۔ وہ زمین پربیٹھ گیا۔
’’میں ابھی بھی نہیں سمجھا کہ میں گھر کیوں نہیں جا سکتا؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’کیا تم نے کبھی وہ کہاوت نہیں سنی ،کہ جسے کوبرا کاٹ لیتا ہے، وہ کوبرے کے قدموں ہی میںدم توڑتا ہے؟…اس کا زہر نہایت سریع الاثر ہوتا ہے… تم جیسے سور کی اولاد کے لیے بالکل مناسب… تم گھر تک پہنچ ہی نہیں پائوگے…بہتر ہے کہ بیٹھ جائو اور یہیں مرو۔ ‘‘
ڈوگو یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا لیکن بڑھتے ہوئے درد نے اسے وہیں بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔
وہ لوگ کئی منٹوں تک خاموش بیٹھے رہے…ان کے ارد گرد بجلیاں کوندتی رہیں۔
آخر ڈوگو نے کہا’’کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ تمھاری آخری لُوٹ ایک سپیرے کا تونبا تھا۔ ‘‘
’’ میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز، بات یہ ہے کہ اس میں کوئی اور سانپ نہیں، بلکہ کوبرا تھا… تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘ سُولے نے کہا۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ ساری مضحکہ خیز باتیں اس رات کے بیتنے سے قبل ہی انجام پا جائیں گی۔ ‘‘ڈوگو بولا۔ وہ درد سے برے برے منھ بنا رہا تھا۔
’’ہاں…مثال کے طور پر دو بے ضرر سی موتیں…‘‘سُولے بولا۔
’’ہمیںاس کمبخت سانپ کو بھی مارڈالنا چاہیے‘‘ ڈوگونے مشورہ دیا۔
اس نے اٹھ کر چشمے کے کنارے سے ایک پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہیں سکا۔ ’’آہ… ٹھیک ہے‘‘ وہ زمین پر لیٹتا ہوا بولا، ’’کوئی فرق نہیں پڑتا…۔ ‘‘
بارش شروع ہو گئی۔
’’لیکن بارش میں کیوں مریں؟‘‘ ڈوگوغصے سے بولا۔
’’ بارش میں بھیگ کرمرو تو تمھارے لیے بہتر ہے کیوں کہ یہاں سے تمھیںسیدھے جہنم میں جانا ہے۔ ‘‘سُولے نے کہا۔ اپنے دانتوں کو بھینچے ہوئے وہ خود کو گھسیٹتے ہوئے تونبے تک پہنچا۔ وہ اپنے غیر زخمی ہاتھ میں خنجر تھامے ہوئے تھا۔ اپنی آنکھیں بھینچ کر اس نے خنجر اور اپنا ہاتھ تونبے کے اند داخل کیااور سانپ کے بل کھاتے جسم پر خنجر کے ان گنت وار کیے۔ اس دوران وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ چند منٹ کے بعدجب وہ رینگتا ہوا وہاں سے ہٹ کر زمین پر لیٹا تو اس کی سانسیں اس کی ناک سے سیٹیوں کی طرح نکل رہی تھیں… اس کا بازو سانپ کے دانتوں کے نشانات سے بھرا پڑا تھا… لیکن …سانپ مر چکا تھا۔
کئی منٹ خاموشی سے گزر گئے۔ زہر نے انھیں اپنے خونی پنجے میں بری طرح جکڑ لیا تھا…خاص طور پر سُولے کو… جو اپنی کراہوں کو روک نہیں پارہا تھا۔ اب صرف چند لمحوں کی دیر تھی۔
’’اس طرح اپنے انجام کو پہنچنا کتنا درد ناک ہے۔ ‘‘ڈوگوبدبدایا۔
’’جو بھی ہو… تمھارے لیے یہ اتنا برا بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔خبیث کہیں کے۔ ‘‘ سُولے نے بڑی مشکل سے کہا’’یہ تمھاری زندگی کا اختتام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن تمھیں پتا ہونا چاہیے کہ تم جیسوں کی زندگی کا ایک نہ ایک دن ایساہی اختتام ہوتا ہے…تم سڑے ہوئے کتے۔ ‘‘اس نے ایک بڑی گہری سانس لی۔ ’’آہ…!‘‘ اس نے آخری سانس لیتے ہوئے کہا’’اللہ کی مرضی پوری ہوکر رہتی ہے۔ ‘‘
بارش تیزی سے ہو رہی تھی۔
Original Story : Will Of Allah
By : David Owoyele (Nigeria)