صبیحہ خورشید(کامپٹی،مہاراشٹر)
ماہیا دراصل ایک لوک گیت ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ پنجاب کی عوام کے دل کی دھڑکنوں میں بستا ہو اآرہا ہے۔ انگریزی دورِ حکومت میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کے زمانے میں انگریزوں نے ہندوستانی زبانوں میں دلچسپی لینی شروع کی تب ہی لوک گیتوں کو جمع کرنے کا بھی آغاز ہوا۔ لہٰذا دوسرے ہندوستانی لوک گیتوں کی طرح ماہیے بھی جمع کیے گئے۔ ماہیے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آرہے تھے اب تحریری صورت میں نظر آنے لگے۔ ابتدأ میں جو ماہئے تحریری کئے جاتے تھے وہ ایک ہی سطر میں ہوتے تھے۔ اسکے بعد ماہیا ڈیڑھ سطر میں لکھا جانے لگا۔بعد میں اسکی لے کے اتار چڑھاؤ کی تین محتلف کیفیتوں کے احساس سے ماہیا لاشعوری پر سہ مصرعی فارم میں ہی لکھا جانے لگا۔ اب اردو اور پنجابی میں سہ مصرعی فارم ہی ماہئے کی مقبول اور مروج صورت ہے۔
ماہئے کی ابتدائی یک سطری تحریر :
کوٹھے اتوں اڈکانواں، سد پٹواری نوں،چند ماہئے دے نالاتوں۔
ڈیڑھ سطری صورت ْ؍ ہئیت:
کوٹھے اتوں اڈکانواں
سد پٹواری نوں چند ماہئے دے ناں لانواں
سہ مصرعی شکل :
کوٹھے اتوں اڈکانواں
سد پٹواری نوں
چند ماہئے دے ناں لانواں
ماہئے کی تحریر ہیئت میں جو اختلاف ہے وہ صرف اور صرف اسے تحریری صورت میں پیش کرنے کی وجہ سے ہی ہے۔ ورنہ تینوں صورتوں میں ماہئے کا وزن ایک ہی ہوگا۔
مذکورہ بالا تینوں تحریروں میں ماہئے کاجو وزن ہے وہ اس طرح سے ہے۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
پنجابی زبان میں صدیوں سے ماہیا لکھنے کا کوئی رواج نہ تھا۔ اسکی کوئی تحریری ہیئت نہ تھی۔جب ماہیوں کو جمع کرنے کا آ غاز ہوا۔ تب اسے تینوں ہئیتوں میں لکھنا شروع کیا گیا۔ ایک سطر، دیڑھ سطر، تین سطر میں جبکہ ان تینوں ہئیتوں میں کوئی بھی پنجاب کی دیہاتی عوام کی ایجاد نہیں ہے کیونکہ وہ صرف ماہئے گاتے تھے۔ لکھتے نہیں تھے۔حیدر قریشی ایک سطر میں تینوں مصرعوں کولکھنے کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جب ماہیا جمع کرنے کا کام شروع ہوا تو جمع کرنے والوں نے شاید کاغذ کے بچت کے خیال سے ایک سطر میں لکھنا شروع کیا گیا لیکن پھر جب ماہئے کی تین الگ الگ مصرعوں کی پہچان ہوئی تو اسے سہ مصرعی صورت میں لکھا جانے لگا‘‘۔
ماہئے کی تحریری ہئیت کے سلسلے میں تنویر بخاری نے ماہئے کی دو ہئتیں بطور نمونہ پیش کی ہے۔ وہ یہ ہیں۔
(۱) کوٹھے تے راہ کوئی نہیں
ملاں قاضی مسئلہ کیتا پاری لاونا گناہ کوئی نہیں
(۲) دو پتراناراں نے ساڈے بنے آ بیٹھے کلبوتر یاراں نے
پنجابی اور اردو کے مشہور شاعر امین خیال نے اپنے مضمون ’’پنجابی ماہیا‘‘ میں ماہیا کو بطور نمونہ اس طرح ایک ہی سطر میں پیش کیا ہے۔
تھالی وچ کھنڈ ماہیا کنڈوے کے لنگھنا ایں تیری کنڈدی وی ٹھنڈماہیا۔
(بحوالہ گلبن احمد آباد ماہیا نمبر ۔ صفحہ ۲۴)
ماہئے کو جب تحریری شکل دی گئی تب اس پر طرح طرح کے اعتراضات کئے گئے۔ کسی نے اسے ایک مصرعی لکھا کسی نے ڈیڑھ مصرعی اور کسی نے سہ مصرعی ۔ چند لوگوں نے اسکی ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر اصرار کیا۔ جس کے جواب میں ماہیا شناسوں نے اپنے اپنے موقف کا اس طرح سے اظہار کیا۔
حیدر قریشی ماہیا جگت کا ایک معتبر نام ہے ان کے بقول:
’’ اگر پنجابی لوک گیتوں کی تحریری ہیئت واقعتاًڈیڑھ مصرعی ہے تو اور اس کے سوا کچھ نہیں تو ہمیں یقیناً ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر اصرار کرنا چاہئے۔ لیکن اگرایسا نہیں ہے تو پھر منفی رویے کوترک کردینا چاہئے اور اصل سچائی کو مان لینا چاہئے‘‘۔ (کتاب اردو ماہیے کی تحریک از حیدر قریشی ص ۱۵۸)
پروفیسر شارب جوکہ پنجابی زبان کے اسکالر ہیں اپنے مضمون ’’کچھ ماہئے بارے میں‘‘ماہئے کی تحریری ہیت کے بارے میں فرماتے ہیں۔
’’نہ تو ان لوک گیتوں کو جمع کرنے کا کام کیا گیا اور نہ ہی یہاں کے عالموں نے ان کے بارے میں کوئی تحریری نوعیت کا کام کیا ۔‘‘ (پنجابی سے ترجمہ)
آگے پروفیسر شارب اسی مضمون میں پنجابی دیہاتیوں کی ماہئے کی لے کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔
’’ان سیدھے سادے اپنے کام سے غرض رکھنے والے دیہاتیوں کے مد نظر تو یہ ہے کہ ماہیا سرُ اور لے میں ہو تو سب ٹھیک ہے۔ سُر(لے) کو گاتے وقت وہ خود ہی ٹھیک رکھتے ہیں۔ کیوں کہ وہ نسل در نسل اسے سنتے آئے ہیں اور ان سے زیادہ سُر کی روایت کو کون جان سکتا ہے۔‘‘ ( پنجابی سے ترجمہ) اور اس سے تھوڑا آگے چل کرپروفیسر شارب لکھتے ہیں کہ یہ عوامی ماہئے ’’کسی کتاب کی بجائے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچتے ہیں۔‘‘(مضمون ’کچھ ماہئے کے بارے میں‘)۔
پروفیسر شارب کی تحریری روایت سے تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ماہیا کاغذ قلم کے ذریعے نہیں بلکہ سینہ بہ سینہ عوام تک پہنچا ہے۔ اسکے لکھنے کا چلن کافی بعد میں ہوا۔دیہاتیوں کے نزدیک اسکی لَے ہی اسکی پہچان تھی۔ لہٰذا ہم ماہئے کی ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا حکم نہیں صادر کرسکتے ہیں۔
درج بالا تحریر کے علاوہ ماہئے کی تحریری ہیئت کے بارے میں جو روایات درج ہیں حیدر قریشی صاحب کی تحقیق کی روشنی میں دیکھتے چلیں۔
۱۔ ڈاکٹر روشن لال اہوجا :
’’ایہدیاں ( ماہئے دیاں) تن تکاں ہو ندیاں نیں‘‘
(لہندے دے لوک گیت‘‘ مطبوعہ ماہنامہ ’’کوتا‘‘ امرتسر جون ۱۹۹۵ء)
ڈاکٹر روشن لال اہوجا نے اپنے اسی مضمون میں مندرجہ ذیل ماہیا بطورنمونہ پیش کیا ہے۔
کوٹھے تے وان پیا
نکیاں نکیاں کنیاں
ڈھولا چادر تان پیا
۲۔ علامہ غلام یعقوب انور :
تنویربخاری نے اپنی کتاب ’’ماہیا فن نے بتر کے صفحہ نمبر ۲۸پر یہ روایت درج کی ہے کہ ’’ ۱۹۶۵ء سے بھی پہلے کی بات ہے میں نے ایک بار اپنے دوست اور بزرگ حضرت علامہ غلام یعقوب انور (ایڈوکیٹ) کے ساتھ ماہئے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اسے ڈیڑھ مصرعے کا کہتے ہیں جبکہ یہ پورے تین مصرعوں کا ہے وہ میرے ساتھ بالکل متفق تھے۔‘‘ (پنجابی سے ترجمہ)
۳۔ فارغ بخاری :
فارغ بخاری نے اپنی کتاب ’’سرحد کے لوک گیت‘‘ میں جو ماہئے درج کیے ہیں وہ سہ مصرعی ہیئت میں ہیں۔
۴۔ پروفیسر شارب :
پروفیسر شارب نے اگرچہ اپنے جمع کردہ ماہئے دیڑھ مصرعی ہیئت میں شائع کئے ہیں۔ لیکن انہوں نے دوسرے مصرعے کو دو الگ الگ یونٹ بناکر پیش کیا ہے اور یہ اقرار بھی کیا ہے کہ ماہئے کے تین یونٹ ہوتے ہیں۔
۵۔ اسلم جدون :
اسلم جدون کے تمام ماہئے سہ مصرعی ہیئت میں ہیں۔ مجھے ان ماہیوں کے معیار پر اعتراض ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ ایک الگ موضوع ہے۔جہاں تک ہیئت کا تعلق ہے۔ اسلم جدون کی کتاب ’’ماہئے‘‘ سہ مصرعی ہیئت کا اثبات کرتی ہے۔
۶۔ ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری :
ممتاز پنجابی دانشور ڈاکٹر جمال ہوشیارپوری نے ماہئے پرجتنی محنت کی ہے اس کی سہ مصرعی ہیئت کو مدنظر رکھ کر کی ہے۔ انہوں نے دیڑھ مصرعی ہیئت کو سرے سے اہمیت ہی نہیں دی۔
۷۔ شفقت تنویر مرزا :
پروفیسر شارب کی کتاب ’’ماہیا‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے شفقت تنویر مرزا نے روزنامہ ’’ڈان‘‘لاہور کی ۱۹؍اپریل ۱۹۹۵ء کی اشاعت می سہ مصرعی ماہیوں کی دو مثالیں پیش کی ہیں اور انہیں قابل اعتراض نہیں گردانا۔
۸۔ تنویر بخاری :
افضل پرویز، عبدالغفور قریشی، مقصود، ناصر چودھری، کرم حیدری اور محمد بشیر احمد نظامی کے ڈیڑھ مصرعی ہیئت کے ماہئے کے بیانات درج کرنے کے بعد تنویر بخاری کہتے ہیں’’مرتب(تنویر بخاری) اوپر درج کئے گئے کسی بیان سے بھی متفق نہیں۔ یہ سارے بزرگ لائق احترام ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی گہرائی میں جانے کی زحمت نہیں کی۔ ان سب کے بیانات میں مشابہت ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ان سب نے کسی کتابی بیان کی نقل کی ہے اور اپنے طور پر کچھ غور نہیں کیا۔‘‘ (پنجابی سے ترجمہ)
تنویر بخاری سہ مصرعی ہیئت کے قائل ہیں ان کی کتاب ’’ماہیا۔فن تے بنتر‘‘ ۱۹۸۸ء میں شائع ہوئی تھی اور اس میں شامل کیا گیا سارا انتخاب سہ مصرعی ہیئت میں تھا۔
۹۔ امین خیال :
اردو اور پنجابی کے معروف شاعر امین خیال اپنے مضمون ’’پنجابی ماہیا‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’ماہیا اپنی ہیئت کے اعتبار سے تین حصوں ، تین ٹکڑوں ، تین کلیوں، تین مکھڑوں، تین پتیوں پر ہی مشتمل ہے۔ کیوں کہ لمبے یا بڑے مصرعے کاوسرام اسے دو حصوں میں بانٹ دیتا ہے اور گاتے وقت بھی یہ تینوں برگ واضح ہوجاتے ہیں‘‘ ( دوماہی گلبن احمد آباد۔ ماہیا نمبر۔جنوری۱۹۹۸ء) (ماخوذ از اردو ماہئے کی تحریک صفحہ ۶۲۔۱۶۱)
خلاصۂ کلام یہ کہ اردو اور پنجابی کے مستند شاعر، دانشوروں اور مفکروں کے موقف کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ماہئے کی تحریری ہیئت میں سہ مصرعی فارم ہی صحیح فارم ہے اور ماہیا سہ مصرعوں میں ہی لکھا جائے گا۔
ماہئے کی درست اور رائج ہیئت :
کوٹھے اتوں اڈکانواں
سد پٹواری نوں
جند ماہئے دے نالاں نوں
علاوہ ازیں کلیم شہزاد نے ماہیے کی ظاہری ہئیت میں دو طرح کے تجربات کیے ہیں۔پہلا تجربہ ماہیے کی گائیکی کو ذہن میں رکھتے ہوئے پہلے مصرعہ کو تیسرے مصرعہ کے بعد دوبارہ پھر دہرایا۔اس ضمن میں حیدر قریشی فرماتے ہیں:
’’بات صرف دوسرے مصرعے کو دہرانے کی حد تک ہوتی تو اسے کلیم شہزاد کی منفرد دِکھنے کی کاوش سمجھاجاسکتاتھا۔لیکن معا ملہ صرف اتنا نہیں ہے۔حقیقت یہی ہے کہ کلیم شہزاد کے پہلے مصرعے کا چوتھی لائن میں دہرایا جانا معنوی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے کسی داخلی حوالے تک بھی لے جاتا ہے۔ان کے یہ ماہیے دیکھیں اور ان کے مصرعوں کے ربط باہم سے پیدا ہونے والے معنوی تسلسل پر غور کریں:۔
سب کچھ تھا اشاروں پر تتلی پر پہرے تھی
جیون پیاسا تھا زنگ آلود ہوئی
دریا کے کناروں پر جو رنگ سنہرے تھی
سب کچھ تھا اشاروں پر تتلی پر پہرے تھے ۴
ماہیے کی ظاہری ہئیت میں کلیم شہزاد نے دوسرا تجربہ پنجابی لوج گیت کے ایک خطابیہ ’’میریا وے ماہیا‘‘ کا ترجمہ ’’میرے اے ماہی!‘‘ کی اضافی سطر کے ساتھ کیا۔
میرے اے ماہی! میرے اے ماہی !
فصلیں پک گئی ہیں اک جنگل بیلہ ہے
کب تو آ ئے گا گھر کو واپس آ
اب آنکھیں تھک گئی ہیں اب شام کا ’’ویلا‘‘ ہے
ماہیے میں اس طرح کے تجربا ت اردو ماہیے کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کریں گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ پنجابی لوک گیت۔ ماہئے کی تحریری ہیئت
مطبوعہ : ماہنامہ ’’سخنور‘‘ کراچی شمارہ اپریلک ۱۹۹۹ء
۲۔ اردو ماہئے کی تحریک۔ ار حیدر قریشی صفحہ نمبر ۱۵۹
۳۔ وہ چاند گواہ میرا ۔۔۔پیش لفظ از حیدر قریشی صفحہ نمبر ۱۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہیے کا وزن
ماہیا ایک غنائی صنفِ شاعری ہے۔ جس کا تعلق گائیکی سے ہے ماہیا کبھی بھی کاغذ قلم کا محتاج نہیں رہا بلکہ صدیوں سے سینہ بہ سینہ عوام کے ذریعہ سفر کرتا رہا چنانچہ یہ گائے جانے والی شاعری پہلے ہے اور اسکے لکھنے کا چلن بہت بعد کی بات ہے۔ اس گائیکی سے تعلق رکھنے والی شاعری کی اپنی ایک مخصوص لے اور دھن ہوتی ہے اسے گانے کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے۔چنانچہ ہم ماہئے کو سب سے پہلے اس کی دھن پر آزما کر چیک کریں گے اور اسی ماہئے کو حقیقی معنوں میں ماہیا کہیں گے۔جو سہولت اور روانی کے ساتھ گایا اور گنگنایا جاسکتا ہو۔
ماہیا سہ مصرعی صنفِ شاعری جس کے وزن اور دھن کے سلسلے میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی لکھتے ہیں۔
’’کسی بھی گانے کی دھن میں پہلا مصرعہ ماہئے کااٹھاتے وقت جو لےَ ہوتی ہے اسی لےَ میں تیسرے مصرعہ کو بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔لیکن دوسرے مصرعہ کو پہلے مصرعہ کے انداز میں اٹھانا چاہیں تو لےَ ٹوٹ جاتی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ماہئے کے پہلے اور آخری دونوں مصرعہ یکساں وزن کے ہیں ۔ لیکن دوسرا مصرعہ اس وزن میں نہیں۔۔۔۔‘‘ ۱
لہٰذا دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم والا وزن ہی ایسا ہے جسے ہم سہولت اور روانی کے ساتھ گا اور گنگنا سکتے ہیں۔علاوہ ازیں تین مساوی الوزن مصرعوں میں اور دوسرے مصرعے میں ایک سبب زائد والے مصرعے میں ہمیں جھٹکا لگنے اور اٹکنے کا احساس ہوتا ہے۔اس موقف کو ہم تجربے کے ساتھ بھی دیکھ سکتے ہیں ۔
تین مساوی الوزن مصرعہ
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
دوسرے مصرعہ میں ایک سبب زائد والا وزن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم والا وزن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
۱۔ مذکورہ بالا ماہیوں کے اوزان کو باری باری ماہئے کی کسی دھن پر گنگنائیے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم والا وزن ہی ایسا ہے جو ہم سہولت اور روانی کے ساتھ گنگناسکتے ہیں۔ جس میں کہیں جھٹکا لگنے یا اٹکنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اسطرح یہ موقف صد فی صد صحیح ثابت ہوتا ہے کہ ماہئے کے تینوں مصرعہ مساوی نہیں ہوتے بلکہ پہلا اور تیسرا مصرعہ ہم وزن ہوتا ہے اور دوسرا مصرعہ میں ایک سبب یا دو حرف کم ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ماہیا جب پنجابی سے اردو میں آیا تو اسکی تحریری صورت میں اختلاف پیدا ہوگیا بعض ادباء اسکے دوسرے مصرعہ کے نازک فرق کو نہیں سمجھ سکے اور لاشعوری اورلاعلمی کے نتیجے میں ہم وزن مصرعوں کے ماہئے تحریر کرتے رہے۔ مثالیں :
کیا روگ لگا بیٹھے
دل ہم کو لٹا بیٹھے
ہم دل کو لٹا بیٹھے
(اختر شیرانی)
اک جام پلا جاؤ
لمحات بلاتے ہیں
مدہوشی بنا جاؤ
(بشیر منذر)
سمٹی ہوئی چاہیں ہیں
پھیلی ہوئی راہوں پر
مایوس نگاہیں ہیں
(عبدالمجید بھٹی)
دو نین تھے چھاگل سے
کچھ اور نہ تم پوچھو
ہم لوگ ہیں پاگل سے
(علی محمدفرشی)
سنتا ہے نہ کہتا ہے
گم اپنے خیالوں میں
پاگل کوئی رہتا ہے
(نصیر احمد ناصر)
چاندکی کٹوری ہے
بیوی میرے بھائی کی
کہتے ہیں چٹوری ہے
(سیدہ حنا)
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ماہیا پنجابی لوک گیت ہے اور اس کی مخصوص لے ہے۔ اس بنیاد پر اگر ہم مذکورہ بالا مساوی الوزن مصرعوں والے ماہیوں کو پنجابی لوک لے ماہیا کی طرز پر گانااور گنگنانا چاہیں تو ہم نہیں گنگنا پاتے۔لہٰذا یہ ماہیا نہ ہوکر ثلاثی کی طرح کوئی اور صنف ہوئی۔
ماہیا کے بنیادی وزن کے سلسلے میں مختلف آرأ ہیں۔
غلام یعقوب انور کے مطابق ماہئے کا وزن فعلات مفاعلین ہے جبکہ پروفیسر شارب اور تنویر بخاری ماہئے کا وزن مفعول مفاعلین بیان کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری نے فعلن فعلن فعلن کا وزن پیش کیا ہے۔پروفیسرشارب اپنے مضمون ’’کچھ ماہییے بارے میں‘‘ میں فرماتے ہیں
’’سرٹھیک لگدی ہووے تاں سب ٹھیک اے۔ ۔۔ماہیا سُر میں ہو تو سب ٹھیک ہے۔ ُسر کو گاتے وقت دیہاتی لوگ خود ہی ٹھیک رکھتے ہیں کیوں کہ وہ نسل در نسل اسے سنتے آئے ہیں اور ان سے زیادہ سُر کی روایت کو کون جان سکتا ہے ( پنجابی سے ترجمہ) ۲
اپنی کتاب’’ اردو میں ماہیا نگاری ‘‘میں حیدر قریشی ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری اور تنویر بخاری کی آرأ پر بحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ
’’وزن کی بحث پر دونوں پنجابی اسکالر کا اختلاف واضح طور پر سامنے آیا ہے۔ جہاں تک ماہئے کے پہلے اور تیسرے مصرعے کا تعلق ہے مفعول ۔مفاعلین بھی ہوسکتا ہے اور فعلن فعلن فعلن بھی ہوسکتا ہے۔ غور کیا جائے تو ڈاکٹر جمال ہوشیارپوری کا موقف زیادہ جاندار ہے کیوں کہ مفعول مفاعلین بھی عملی طور پر حقیقتاً فعلن فعلن فعلن کا روپ دھار لیتا ہے۔ مفعول مفاعلین۔۔۔
تاہم تنویر بخاری کا موقف بھی یکسر غلط نہیں ہے۔ کیوں کہ بعض ماہئے کے دوسرے مصرعہ کا بنیادی وزن سے ایک سبب یعنی دو حروف کم ہوتا ہے۔ ماہئے کا پہلا اور تیسرا مصرعہ اگر مفعول مفاعلین کے وزن پر ہے تو اس کے دوسرے مصرعہ کا وزن فعل مفاعلین بنتا ہے۔ یوں پورے ماہئے کا وزن یہ ہوگا :
مفعول مفاعلین
فعل مفاعلین
مفعول مفاعلین
اگر ماہئے کا پہلا اور تیسرا مصرعہ فعلن فعلن فعلن کے وزن پر ہے تو اس کے دوسرے مصرعہ کا وزن فعلن فعلن فع بنتا ہے۔ یوں پورے ماہئے کا وزن یہ ہوگا۔۔۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
اپنی بحث کو مزیدآگے بڑھاتے ہوئے حیدر قریشی رقم طراز ہیں :
’’ڈاکٹر جمال ہوشیارپوری اور تنویر بخاری گہری نظر سے کام نہیں لے سکے شاید اسکی وجہ یہ ہو کہ دونوں صاحبان ماہئے کے پہلے مصرعہ کو بنیاد مان کر ان کے وزن کی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ماہئے کی دھن پر پورا دھیان نہ دینے کے باعث ماہئے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں کے مقابلہ میں دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی کا نازک فرق انہیں سمجھ میں نہ آسکا ہو۔‘‘
آگے وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
’’اردو زبان میں زحافات کاتعین ہے۔ جن حروف کو گرانے کی اجازت ہے ان کی وضاحت موجود ہے۔ لیکن پنجابی زبان میں ایسا کوئی ضابطہ یا اصول نہیں ہے ۔ ضرورت شعری کے مطابق اس کے حروف کو کھینچ کر لمبابھی کر لیا جاتا ہے۔ اور گراکر مختصربھی کر لیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران ملفوظی اور غیر ملفوظی حروف کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ پنجابی زبان میں اس رعایت کا فائدہ ماہئے میں بھی اٹھایا گیا ۔ جن صاحبان نے پنجابی ماہئے کو تحریری صورت میں دیکھااور پھر اسے اردو قواعد کے مطابق سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی وہ اپنی تمام تر نیک نیتی اور اخلاص کے باوجود مغالطے کا شکار ہوگئے۔‘‘ ۳
ماہئے کا وصف اس کی مخصوص دھن ہے نہ کہ اسکی تحریری ہیئت لیکن جب لوگوں نے ماہیوں کو تحریری صورت میں دیکھا تو مغالطے کا شکار ہوگئے اور غلط فہمی کے باعث شعرائے کرام نئے نئے اوزان اور من چاہی بحروں میں مشق آزمائی کرنے لگے اور اس طرح سے ماہیا بھیڑ چال کا شکار ہوگیا۔ مثالیں :
کچھ پاکر کھویا ہے
تر آنکھ ہے نرگس کی
کیا باغ بھی رویا ہے
(عنبر عشرت)
چاند ی کی ہیں پازیبیں
اس عید پہ بتلاؤ
تحفہ تمہیں کیا بھیجیں
(سیدہ حنا : اوراق ۱۹۹۸)
سچ کہنے کی جرأت دے
اے داتا مگر پہلے
سچ سننے کی ہمت دے
(دیپک قمر : توازن مالیگاؤں ۱۹۹۹)
تب ایسے حالات میں درست وزن کی طرف توجہ سب سے پہلے ممتازعارف نے دلائی۔ حیدر قریشی نے بھی اس طرف توجہ کی اور ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک ماہئے کی ہیئت وزن اور مزاج پر مختلف ادبی رسائل میں بحث شروع ہوئی۔ جس میں خصوصی طور پر افتخار احمد ، ناصر عباس نیئر، پروفیسر عرش صدیقی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، سعید شباب، ریاض احمد، خاور اعجاز، ایم اے تنویر، نثار ترابی، اور غزالہ طلعت نے بحث میں حصہ لیا نتیجتاً ماہئے کے خدو خال نمایاں ہوئے اور اس کے مزاج کے مسئلے کو خلوص کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی ڈاکٹر فہیم اعظمی، ڈاکٹر انور سدیدہ او رحمایت علی شاعر کے مختلف تاثرات نے بھی درست وزن کے ماہیوں کو تقویت بہم پہنچائی۔تب ہی حیدر قریشی نے درست وزن کی ماہیا نگاری کی تحریک چلائی اور ماہیا کی دھن کو معیار مان کر اس کے درست وزن دریافت کئے گئے جوکہ سب کے سب ماہئے کی پنجابی لے میں فطری بہاؤ کے ساتھ گنگنائے جاسکتے ہیں۔
ماہیے کی عروضی بحث میں یوں تو بہت سارے لوگوں نے حصہ لیا،ایسے لوگوں نے بھی جنہیں عروض کا کچھ علم نہ تھا اور ایسے لوگوں نے بھی جنہیں عروض کا علم تو تھا لیکن ماہیے کی لوک لَے کا کچھ علم نہ تھا۔تاہم جو لوگ بھی اردو میں ماہیے کے لیے عروضی پیمانے مقرر کرنے کا جتن کر رہے تھے،ان سب کے اخلاص اور نیک نیتی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔احمد حسین مجاہد،عارف فرہاد،علامہ شارق جمال اور ناوک حمزہ پوری نے اس میدان میں بطورِ خاص دلچسپی لی۔اور مختلف و متبادل عروضی پیمانوں کے تعین میں اردوماہیے کے استحکام کے لیے کاوش کی۔ ان کے علاوہ خضر ناگپوری نے بھی نہایت خلوص کے ساتھ اس کام میں دلچسپی لی۔
خضر ناگپوری اپنی کتاب ’’راز حیات ‘‘ میں ماہیے کی بحر کا تعین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’آئیے ہم پہلے ’’ماہیا‘‘ کا زیر بحث آہنگ دیکھیں پھر اصول،بحور و ارکان تجویز کریں۔پنجابی ماہیے کا آہنگ (جیسا کہ تمام مضامین سے ظاہر ہے۔) ان دونوں اوزان پر مشتمل ہے۔
۱:۔ مفعول مفاعیلن فاع مفاعیلن مفعول مفاعیلن
۲:۔ فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع فعلن فعلن فعلن
اصول وبحر کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ’’ماہیا کے آہنگ کا تقاضہ کیا ہے،بڑے مصرعے بحر ہزج اخرب سالم میں بالکل ٹھیک ہیں ۔لیکن چھوٹے مصرعے کا تقاضہ ہے کہ اس کی شناخت کے لیے اس کی اپنی بحر ہو۔ماہیا کی بحروں کو مربع مربع ،مسدس یا مثمن لکھنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔کیوں کی ان کے ارکان کی تعداد کبھی کم زیادہ نہیں ہوتی۔اسی طرح اس میں ابتداء ، صدر،عروض،ضرب اور حشوین کی بھی گنجائیش نہیں ہے۔ایک ہی بحر میں چھوٹے بڑے مصرعے بھی نہیں کہے جاسکتے کہ یہ اردو شاعری میں قواعد عروض کی خلاف ورزی ہے۔بحر کا رکن سالم ’’مستفعلن ،زحاف طی سے مفتعلن بروزن’’فاع مفا‘‘اور زحاف سے حذد سے ’’فعلن‘‘بر وزن عیلن ہے یعنی مفتعلن فعلن ، ہے۔بر وزن’’ فاع مفاعیلن‘‘ہے۔مفعول مفاعیلنعمل تخنیق سے مفعولم فاعییلن‘‘بروزن’’مفعولن مفعولن یعنی فعلن فعلن فعلن کا ہم وزن ہے۔اس طرح مفتعلن عمل تسکین سے مفعولن بروزن’’فعلن فع‘‘ہے ۔بحر رجز ،بحرھزج کے انفکاکسے ھاصل ہویی ہے ا لیے ’’ماہیا ‘‘ میں ان دو بحروں کی جوڑی نہایت مناسب ہے،‘‘
آگے خضر ناگپوری ماہیا کا عروضی اصول بتاتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
’’ ماہیا ان تینوں مصرعوں کے تسلسل کو کہتے ہیں جو دومخصوص بحروں کے مخصو ص اوزان پر کہاجاتا ہے ۔(اس اصول سے کسی وزن میں تین مصاریع کہہ کر اسے ماہیا کا نام دینے کا جو غلط چلن کارواج پا گیا ہے ۔وہ رک جائیگا۔‘‘ بحور ماہیا:۔
۱:۔ بحر ہزج اخرب سالم مفعول مفاعیلن
بحر رجز مطوی اخذ مفتعلن فعلن
بحر ہزج خرب سالم مفعول مفاعیلن
۲:۔ بحر ہزج مختق اخرب سالم مفعول مفاعیلن
بحر رجز مسکن مطوی احذ مفعول فعلن
بحر رجز مخنق اخرب سالم مفعولن مفعولن
ماہیے کا درست اور رائج وزن:۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن ۴
جملہ عروضی مباحث کو ماہیا کی لَے کا پابند قرار دینے پر اصرار کرتے ہوئے حیدر قریشی نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا؛
’’مجموعی طور پر اب تک آٹھ متبادل اوزان سامنے آ چکے ہیں۔ کسی عروضی بکھیڑے میں پڑے بغیر میرے لئے یہ سب کے سب اس لئے قابل قبول ہیں کہ یہ ماہیے کی پنجابی لے میں فطری بہاؤ کے ساتھ گنگنائے جا سکتے ہیں۔ ابھی تک کے دریافت شدہ آٹھ اوزان یہ بنتے ہیں۔
(۱) مفعول مفاعیلن (۲) فعلن فعلن فعلن
فعل مفاعیلن فعلن فعلن فع
مفعول مفاعیلن فعلن فعلن فعلن
(۳) فعلات مفاعیلن (۴) فعلاتن فعلاتن
فعل مفاعیلن فعلاتن فعلن
فعلات مفاعیلن فعلاتن فعلاتن
(۵) مفعول مفاعیلن (۶) مفعول مفاعیلن
فعل فعولن فع فاع مفاعیلن
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
(۷) فعلن فعلن فعلن (۸) مفعولن مفعولن
مفتعلن فعلن مفعولن فعلن
فعلن فعلن فعلن مفعولن مفعولن
پنجابی سے نآشنا اردو والے دوستوں کی آسانی کیلئے فلم پھاگن میں محمد رفیع اور آشا بھوسلے کے گائے ہوئے مکالماتی ماہیوں کا حوالہ دے رہا ہوں۔ تم روٹھ کے مت جانا مجھ سے کیا شکوہ دیوانہ ہے دیوانہ۔ اس دو گانے کی دھن کو معیار بنا لیں اور پھر مذکورہ بالا آٹھوں اوزان کو اس دھن پر گنگنا کر چیک کرلیں۔ یہ سارے اوزان اس دھن پر پورے اترتے ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے شعرایا پنجابی سے آشنا اردو شعراء کو اردو میں ماہیے کہتے وقت کسی عروضی حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو ماہیے کی لے کے بہاؤ میں روانی سے ماہیے کہتے جاتے ہیں۔ یہ جو تھوڑا بہت عروضی فہیم کا سلسلہ چلا ہے تو ان دوستوں کی سہولت کے لئے جو پنجابی ماہیے سے آشنانہیں ہیں، ممکن ہے ان آٹھ اوزان کے علاوہ بھی مزید متبادل اوزان تلاش کرلئے جائیں۔ یوں ماہیے میں عروضی لحاظ سے خاصی آزادی مل جائے گی لیکن یہ ساری آزادی ماہیے کی لے کے اندر ہی میسر ہوگی۔ جن دوستوں کو اردو کے عروضی قواعد سے ہٹنا اچھا نہیں لگتا وہ آخر الذکر تین اوزان کو آسانی سے اپنا سکتے ہیں۔ ‘‘۵
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ماہیا تین مساوی الوزن مصرعوں پر مشتمل نہیں ہوتا ۔اس کے لیے دوسرے مصرعے میں ایک سبب کا کم ہونا احسن سمجھاجاتا ہے۔ کیونکہ اسی طرح ماہیا اپنی لوک لَے کے مطابق رہتا ہے۔
حواشی
۱:۔ مضمون ماہیا اور اس کے وزن کا تعین۔از شارق جمال ناگپوری(گلبن احمد آباد ۱۹۹۸ء ماہیا نمبر صفحہ ۶۰)
۲:۔ مضمون ماہیے کی کہانی ۔۔از حیدر قریشی (گلبن احمد آباد ماہیا نمبر ۱۹۹۸ء صفحہ ۲۷)
۳:۔ ماخوذ از ماہیے کا وزن کا مسئلہ (حیدر قریشی ) مطبوعہ اردو ماہیا نگاری صفحہ ۱۵۔۱۴
۴:۔ کتاب ’’راز حیات‘‘ از خضر ناگپوری صفحہ نمبر ۲۶۔۲۵
۵۔انتخاب ازخط بنام ’’ایڈیٹر ماہنامہ ’ایوان اردو‘ ازحیدر قریشی‘‘ (مطبوعہ ماہنامہ ’’ایوان اردو‘‘دہلی ستمبر ۱۹۹۸ء)