(Last Updated On: )
دل کے تئیں آتشِ ہجراں سے بچایا نہ گیا گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا دل میں رہ دل میں کہ معمار قضا سے اب تک ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا کیا تنک حوصلہ تھے دیدہ و دل اپنے آہ ایک دم راز محبت کا چھپایا نہ گیا دل جو دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا اُس ستم کشتہ سے اک زخم بھی کھایا نہ گیا شہرِ دل آہ عجب جائے تھی پر اُس کے گئے ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا آج رہتی نہیں خامے کی زباں رکھیے معاف حرف کا طول بھی جو مجھ سے گھٹایا نہ گیا