مذکورہ مضمون کا عنوان اہل علم میں اضطراری کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فتووں سے نوازا جائے۔ لیکن یہ میرے لئے اعزاز ہو گا ۔ بزدلی، بے فہمی اور لا شعوری نے معاشرے کو تنزلی کے اس گہرے کنویں میں پھینک دیا ہے جہاں روشنی کی کرن یا کوئی امید باقی دکھائی نہیں پڑتی۔ یہ معاشرہ شکست خوردہ لوگوں کا معاشرہ ہے۔ یہ سماج بہرے، اندھوں اور گونگوں کا سماج ہے۔ یہ اخلاقی، تمدنی و تہزیبی سطحوں پر روندے ہوئے باقی ماندوں کا معاشرہ ہے ،یہ معاشرہ بدکردار اور ان کے معاونین کا معاشرہ ہے ، یہ معاشرہ جاہلیت کے سمندروں کی گہرائی میں پل رہا ہے جہاں ظلمات کا دیوتا شیطان ابلیس اپنا تخت بچھاتا ہے اور اس کے غلام اس کے ناز اٹھاتے ہیں۔ مجھے جہاں مظلوموں کی زبوں حالی پر رنج ہے وہیں مجھے ان کی نااہلی پر تف بھی ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ معاشرتی اقدار معنوی و منطقی اعتبار سے کس عظیم علم کا نام ہے۔ حال ہی میں لاہور کے قریب گوجر خان موٹروے پر رات گئے ایک نہتی تنہا عورت کو ڈکیتی اور جبری زنا کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایسے واقعات میں زینب قتل کیس اور شازیہ قتل کیس مجرموں کو سزا ہونے کے باوجود کمی آنے کی بجائے آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف لاہور کے میو ہسپتال میں مارچ 2020 سے ابتک کم و بیش 78 کیسز اجتماعی زیادتی کے ریکارڈ میں درج ہیں۔ اس کے علاوہ تھانوں اور پنچاب بھر کی گنتی کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ اور ہماری اخلاقی پسماندگی یہ ہے کہ ہر درجے پر ہم ایسے گناہوں کو بیچ کر کھاتے ہیں۔ سیاستدان اپنی سیاست چمکانے نکل پڑتے ہیں، این جی اوز والوں کو نیا منصوبہ مل جاتا ہے، پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روزگار کھل جاتا ہے، میڈیا کو ٹی آرپی بڑھانے کا اور وڈیروں، مہروں، چوہدریوں، خانوں، محلے داروں اور رشتے داروں کو اپنا غصہ نکالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایک عورت جو کسی کی ماں، کسی کی بیٹی، کسی کی بیوی، کسی کی بہن جس کو ایسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے کو عبرت بنا دیا جاتا ہے کہ اگر کسی اور کے ساتھ خدانخواستہ ایسا سانحہ ہو جائے تو وہ اپنی حق رسی کیلئے آواز اٹھانے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ محلے دار اور رشتے دار اسے عجیب نظروں سے دیکھیں گے، اس کے شوہر، بھائی، بیٹے اور باپ کو دیکھ کر باتیں کریں گے کہ فلاں عورت جس کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی تھی اس کی فلاں لگتی ہے، تھانے والے تفتیش کریں گے تو اس سے گلیمر میگزین میں لکھے افسانوں کے طرح ایک ایک نقطے پر دباؤ ڈال کر سوال کریں گے، اور پھر تفتیش کی لکھت تفتیشی افسر کے خوش ہونے یا ہونے کی بنیاد پر قرار پائے گی۔ میڈیا اینکر اور نمائندے ایسے ایسے سوال اٹھائیں گے کہ مظلومہ جواب دینے کی بجائے پانی پانی ہو رہی ہوگی، یعنی کیا عزت صرف عورت کے جسم تک ہی ہے؟ اس کی روح کا کوئی عمل دخل نہیں جسے باتوں، سوالوں اور طعنوں سے یوں تار تار کیا جا رہا ہوتا ہے جیسے کوئی مخمل کی چادر کو خاردار جھاڑی پر پھینک کر پورا زور لگا کر بےدردی سے کھینچ دیا گیا ہو۔ تحقیق اور محنت گئی تیل لینے پہلے مصالحہ لگا کر بیچو اور پیٹ بھر کر کھاؤ۔ جائے واردات پر واقعہ ہونے کے بعد 250 پولیس اہلکاروں کی نفری تعینات کر دی گئی ہے، ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں ہیں اور تحقیقات جاری ہیں، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موٹروے پولیس اہلکار جب آدھی رات کو یہ کہہ کر عورت کی مدد کرنے سے مکر رہے تھے کہ یہ ہمارا علاوہ نہیں ہے تو وہ اب وہاں کیا کر رہے ہیں؟ اور پیٹرولنگ پر موجود عملہ اتنی دیر کہاں رہا؟ اس کے علاوہ یہاں عورت کے معاملے میں بھی کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ چاہے وہ فرانس میں مقیم ہو کو کیا ضرورت تھی اتنی رات گئے اکیلی بچوں کے ساتھ سفر کرتی؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ اس کے شوہر نے اسے کہا کہ ایسے سفر کرکے یہاں فلاں جگہ چلی آؤ مگر اتنی رات گئے کس امر کی ایمرجنسی تھی؟ شک تو یہ بھی پڑتا ہے کہ وہ عورت خاندان کے ساتھ جھگڑ کر رات گئے نکلی ہو، اور اس نے جلدی میں پیٹرول وغیرہ بھی نہ دیکھا ہو۔ یہاں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں تفتیش گوجر خان کے اس علاقے کی ہو رہی ہے وہیں عورت کے خاندان کے افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جانا چاہئے، کیونکہ کہیں نہ کہیں وہ بھی اس حادثے کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے کہ وہ ڈکیت اور ظالم۔خیر اچھی بات یہ ہے کہ اس واقع کا مرکزی ملزم گرفت میں آچکا ہے، اور دوسرا ملزم بھی پکڑا جائے گا۔ لیکن فیصل واوڈا صاحب سے گزارش ہے کہ نامرد کرنے کی بجائے شرعی سزا کی طرف رجوع کریں۔ تمام اداروں، اور عوام الناس کو چاہئے کے ایسے معاملات میں پردہ پوشی اور رازداری کا مظاہرہ کریں، حکومت کو چاہئے کہ ایسے حادثات کی میڈیا کوریج پر روک لگائے۔کیونکہ عام پاکستانیوں میں جہاں اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہیں پاکستان کی اور پاکستان کی بیٹی کی عزت بھی نیلام ہوجاتی ہے۔ عورت کی بجائے ان مجرموں کو اس طرح میڈیا پر اچھالا جائے کہ ایسے عناصر ملک و ملت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مگن ہیں، اور انہیں سرعام سزا دی جائے، یعنی سنگسار کر دیا جائے، تاکہ اس سے باقی لوگ بھی عبرت حاصل کر کے ایسے جرائم کے ارتکاب سے دور رہیں۔ ابھی تک تو میں نے جو ہمارے حاضر حال معاشرتی اقدار کا مظاہرہ کیا ہے اس سے اسی نتیجے پر پہنچ پایا ہوں کہ ہم بونے لوگ ہیں، یہ بونوں کا معاشرہ ہے، یہ بونوں کا پاکستان ہے، یہ بونا پاکستان ہے۔