سورج سر اٹھاتا ہے تو مشرقی کناروں سے رنگ پھوٹنے لگتے ہیں اور دن چڑھتا ہے، ہر سو روشنی ہو جاتی ہے.. صبح اچھی خبر کا استعارہ ہے..
مگر اسی صبح کی ایک خرابی ہے کہ سب کھُلنے لگتا ہے، روشنی میں ہر شے دکھائی دینے لگتی ہے.. من کے کعبـے میں رکھے سینکڑوں بُت رفتہ رفتہ ٹوٹنے لگتے ہیں… فلک کو چیرتے عقیدت کے مینار گرنے لگتے ہیں… ماتھے پہ لگیں سجدوں کی مہریں، کلنک کا ٹیکا بن جاتی ہیں…کائنات کی تخلیق جو ہمارے لیے کی گئی تھی، ایک سازش لگتی ہے.. خونیں سازش..
ہمارے آگے کائنات کو کیسا پراسرار بنا کے رکھا گیا، ہم انگلیاں دانتوں میں دبا کے رہ گئے… جب روشنی ملی سب کھُلنے لگا تو وہی عقیدوں کی انگلیاں اپنے ہی دانتوں سے چبا ڈالیں..
وہ جو امن و محبت کے سبق ساتویں آسمان سے اترے صحیفوں میں لکھے گئے، سب دھوکہ نکلے… انھیں صحیفوں سے نفرت کے وہ طوفان اٹھے کہ زمین جو کبھی نیلی تھی، خون رنگ ہو گئی… انھیں صحیفوں نے کالی سیاہی سے لہو رنگ سرخ سیاہی تک کا سفر دنوں میں طے کیا…
صبح سے شام تک کا سفر اپنی ذات کا سفر ٹھہرا… جو رات کے دھوکے ہمیں گھٹی میں پلائے گئے، دن کی روشنی میں قے کرنا پڑے… جو اندھیرے ہمارے ذہنوں پہ چھائے رہے ، دن کی روشنی نے انہیں گرد و غبار جانا… اسی گرد و غبار کی رات سے جب دن چڑھتا ہے تو سوچ کے کناروں سے رنگ پھوٹنے لگتے ہیں… دن بھر کی روشنی گونگے بہرے عقیدوں اور اندھی عقیدت کے پَر جلانے لگتی ہے…
چڑھے دن کی روشنی نے خدا کے جسم پہ چڑھا خوش رنگ لبادہ کھینچا تو اندر سے خدا بونا نکلا