بم دھماکے اور عام آدمی۔
ہم گاوں دیہات کے لوگ ہیں۔ پینڈو۔
بچپن میں جب آسمان سرخ ہو جاتا تھا تو ابو اور گاوں کے بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہیں قتل ہوا ہے۔
بچپن تو بچپن ہے۔ گزر گیا اور ہم بڑے شہروں میں آن پہنچے۔ وطن عزیر میں دہشتگردی اور بم دھماکے عرصہ دراز سے جاری و ساری ہیں ۔ کسی بھی دوسرے صوبے یا شہر میں بم پھٹے تو دل کٹ سا جاتا۔ لیکن منافقت کہیں یا زندہ رہنے کی مجبوری۔ معمولات زندگی ویسے کے ویسے ہی چلتے رہتے۔ بہت سال پہلے جب لاہور کی مون مارکیٹ میں بم دھماکہ ہوا تو میں اسی علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ میں نے مون مارکیٹ جانا چھوڑ دیا۔
روز اسی روڈ سے گزرنا ہوتا تو جن جن مقامات پر تین بار دھماکے ہوئے وہاں جانے سے کتراتا۔
ایک دھماکہ تو سگنل پر ہی ہوا تھا۔ اس لئے جب جب سگنل بند ملتا دم گھٹنے سا لگتا۔
میں نے کسی عید ، بکر عید پر بیگمات کے ساتھ جا کر شاپنگ نہیں کی۔ ہر بار ان کو پیسے دے دیتا کہ جو لینا ہے لے لو۔
زندگی میں کئی بار تنہا ہوا کئی بار شادی شدہ زندگی گزاری پھر سے تنہا ہوں۔
دوسرے شہروں میں دھماکے ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔ شدید ہوتا ہے۔
لیکن اپنے شہر میں دھماکہ ہو تو دکھ کے ساتھ ساتھ خوف بھی طاری ہو جاتا ہے۔
مال روڈ پر دھماکہ ہوا۔ پھر ڈیفینس میں۔ تب سے کچھ لکھ نہیں پا رہا۔
عجیب سی بیزاری، خوف اور بے یقینی طاری ہے۔
آج حسب معمول رات کو آفس سے فلیٹ کے لئے نکلا۔
پھر سے وہی مون مارکیٹ کا سگنل۔ خوف، بے چینی، گھبراہٹ، جلدی سے سگنل کھلے تو زندگی کی گارنٹی ملے۔
لیکن امتحان ابھی باقی ہیں۔
آگے جا کر ایک مشہور ٹیوشن سنٹر کا ہیڈ آفس پڑتا ہے۔
ہزاروں طلباء و طالبات چھٹی ہونے کی وجہ سے روڑ پر آجاتے ہیں،
انکو لینے کےلئے آنے والی گاڑیاں، رکشے، ویگینیں اور موٹر سائیکلز روڈ جام کر کے رکھ دیتے ہیں۔
جیسے ہی اس بھیڑ کے قریب پہنچا۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔
میرے بالکل پیچھے ایک پک اپ۔ جس میں علاقہ غیر طرز کے کپڑے پہنے ایک شخص براجمان (اگرچہ میں قومیت کی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن کیا کروں ہر دھماکہ ایسے ہی کسی قبائلی کی وجہ سے ہوتا ہے) ۔ ایسا لگے جیسے یہ پک اپ ابھی زوردار دھماکے سے اڑ جائے گی۔ مجھ سمیت سینکڑوں جسم بارود سے کٹے پھٹ چیتھڑوں کی صورت میں ہوا میں محلق ہونگے۔
کسی کی آنکھ پر میرا ناک ہوگا۔ کسی کے ماتھے پر میری انتڑیاں۔
جی کر تو ہم قوم کی مانند ایک ہو نہ سکے۔ مر کر سب ایک ہو جائیں گے۔ صرف جلا ہوا گوشت۔
مجھ سے آگے ایک موٹر سائیکل پر سوار شخص جس نے دودھ کی ڈرمیاں رکھی ہوئی ہیں۔
پھر خوف طاری ہوا۔ کہیں ڈرمیوں میں بم تو نہیں؟
وہ چند منٹ میرے لئے کئی صدیوں پر محیط رہے۔ جیسے تیسے کر کے وہاں سے بائیک نکالی اور یونیورسٹی کی طرف گامزن ہوا۔
دل میں اک سوال اٹھا۔
مظہر۔
تم اس ملک میں کیوں رہ رہے ہو؟
یہاں پیدا ہوئے اس لئے؟
محب وطن ہو اس لئے؟
یا مجبوری ہے کہیں اور جانے کی سکت نہیں؟
دل بہت بدذات اور غدار نکلا۔
بنا لگی لپٹی جواب آیا۔ مجبوری کی وجہ سے۔
جس طرح کام چور اور کرپٹ ہماری پولیس ہے۔ اگر دھماکے کے وقت میں بالکل قریب ہوں اور میرا سر بھی دھماکے سے اڑ جائے۔ یہ لوگ مجھے بھی خود کش ڈیکلئر کر کے میرے پورے گھر والوں کو اٹھا لیں گے۔
پولیس کو اجازت ملی ہے۔ اگر روکنے پر کوئی نہ روکے تو گولی مار دی جائے۔
اگر یونہی کسی دن میں اپنے دھیان میں گزر گیا اور غور نہ کر پایا کہ اندھیرے میں کھڑا ایک پولیس والا مجھے روک رہا ہے۔ تو مجھے بھی گولی مار دی جائے گی۔
اور روزنامچے میں لکھا جائے گاکہ کہ بارودی مواد، اسلحہ، یو ایس بی، اور نقشے برآمد ہوئے۔
کسی دن کوئی تلخ تحریر لکھ دی تو فرشتے مار ڈالیں گے۔
دہشتگروں کے خلاف لکھتا رہا تو کوئی ملا منصور کا جانشین مار ڈالے گا۔
ناکہ نہ دیکھ سکا تو کوئی پولیس والا مار ڈالے گا اور اگر ڈکیتی ہوئی تو کوئی ڈاکو مار ڈالے گا۔
ہم پیدا ہی کتے کی موت مرنے کے لئے ہوتے ہیں۔
یا پھر ہمارے ملک میں پیدا ہونا ہی ایک گناہ عظیم ہے۔ اور ہر ایک شخص پر فرض ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتا رہے۔
میرے موبائلز اکثر بند رہتے ہیں۔ کال کبھی کسی کو کرنی نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں میری ماں پر کیا گزرتی ہوگئ؟ لاہور میں دھماکہ۔ بیٹے کا فون نہیں لگ رہا۔
کل بھی امی کی کال آئی کہ پتر لاہور چھوڑ کر گاوں آجا۔
کہا پورا لاہور تو نہیں چھوڑا جا سکتا نا۔ مجھے پتہ ہے میرے یہ الفاظ کتنے کھوکھلے تھے۔
ہم پہلے درندے پالنے کے پیسے لیتے ہیں اور پھر ان درندوں کو مارنے کے۔
گولی سرکاری ہو، درندوں کی ہو، نیم سرکاری ہو یا حکومت کی چھتری تلے بیٹھے قبضہ گروپوں کی۔ مرتا عام آدمی ہے۔
اس پر ستم یہ کہ جن گھروں سے ابھی جنازے بھی پورے نہیں نکلے ہوتے اس کے بالکل برابر والی مسجد میں ان دھماکوں کے سہولت کار خطبہ پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اور سول سوسائٹی میچ دیکھنے میں مصروف ہوتی ہے۔
سوچتا ہوں تو لگتا ہے اس ملک میں لوگ محب وطن نہیں۔ صرف مجبور ہیں۔
ورنہ کون خالی جھنڈوں اور ڈنڈوں کے لئے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھانے کی قسم کھاتا ہے۔
وہ بھی بنا تنخواہ اور مراعات کے۔
ایک عام آدمی روز کس کرب سے گزرتا ہے کبھی سوچیئے گا۔
ہر رکشے میں، موٹر سائیکل میں، راستے میں پڑی اینٹ میں بم کا گمان ہوتا ہے تو محب الوطنی تیل لینے نکل جاتی ہے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“