گہوارے میں سورہے طفل شیر خوار کے گرد ماں باپ کے رشتہ داروں نے گھیرا ڈالا تھا جیسے جیس سمجھ کے دائرے میں داخل ہوئے تو ان لوگوں کا گھیرا اس کے گرد تنگ ہوتا گیا۔ جب اُنسیت بڑھی تو رشتوں کی تقسیم عمل میں آئی ۔ باپ رشتے میں چچا اور پھوپھا کے چہرے نظر آئے اور ماں کے رشتے میں ماموں اور خالو کی تصویریں ابھر کر سامنے آئیں۔ باپ کے رشتوں نے کوئی خاص کمال نہیں دکھایا، پھوپھا عنقا ہوگئے اور چچا بلدہ یعنی حیدرآباد میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے: "کیا چچا" نے ہمارے صوبہ کی سرحد پر آکر پپڑاؤ ڈال دیا ۔ ادھر ماں کے رشتوں میں خالو بھی بھولے بھٹکے عید پر نظر آتے البتہ ماموں ں نے دونوں ٹیموں میں بازی مارلی ۔ ہمارے ماموں اصول پسند ہیں، بھٹکے ہوئے مرغ پر کبھی ان کی نیت خراب نہیں ہوئی، وہ تو غلط انداز نظروں سے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ گیلا کپڑا ڈال کر مرغ کا شکار کرنا اور ساتھ ہی تین دفعہ یہ اعلان کرنا کچھ اس طرح کہ "یہ مرغا" بانگ دہل اونچی آواز میں "کس کا ہے" دھیمے سُروں میں تین دفعہ کہنے سے مرغ حلال رزق کے زمرے میں آجاتا ہے اور اس کا احتجاج ککڑوں تک محدود رہتا۔ ماموں فورا ًجھپٹ کر دبا دیتے اور وہ ککڑوں کے بعد "کوں" بھی بول نہ پاتا اور آنگن کا راز ہمیشہ پوشیدہ رہ جاتا ۔ اس خون ناحق میں ماموں کا بڑا کردار ہے ۔ یہی ماموں ہیں جن کا مرغ بول میرے ماموں کے بول میں ماں اکثر استعمال کرتی ہے اور آج ملک کے گوشے گوشے میں اسی طرز کے ماموں بکثرت پائے جانے لگے۔ لوگ ایک دوسرے کو ماموں بناکر خوش ہوتے
اور تو اور ایوان بالا بھی عوام کو ماموں بنانے میں سرگرم ہے، کسی شاعر نے اس سلگتے مسئلہ پر کیا خوب کہا ؎
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری
اس تمہید کا ماحصل یہ ہے کہ اس دو طرفہ رشتہ داری میں صرف ماں کی طرف کے رشتہ سے جس نے ماں کا منہ دیکھ کر ہمیں آغوش میں لیا وہ کوئی اور نہیں "ماموں" تھے۔ انہی کی زیر ترتیب ہم نے بچپن سے لڑکپن کی دہلیز پار کی۔ کبھی کبھی ماں ہمیں قدموں پر بیٹھا کر زمین سے آسمان کی جانب "بول میرے ماموں کے مرغے" کہتے ہوئے اچکاتی تو ہم ماں کے عطا کردہ مرغے کے خطاب پر پھولے نہ سماتے، پھر استاد محترم نے مکتب میں مرغا بناکر اس خطاب پر سرکاری مہر لگادی۔ بارہا یہ خیال دل میں آیا کہ صد ہا حیوانات میں مرغ ہی کا انتخاب مکتب کی سزا میں کیوں شامل ہے، چونکہ مکتب کا جہاں اور ہے اور اس کے دوسرے پہلو پر بھی ہم نے غور کیا کہ شاید استاد محترم مرغ خرید نے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس لئے معصوم ، بے گناہ شاگردوں کو مرغا بناکر اپنی تسکین کا سسامان کرلیتے۔ وقت نے کروٹ بدلی، عرصہ دراز سے جاری روایتی سزائے مرغ کی رسم ختم ہوئی ، عدلیہ نے معصوم طالب علموں کو سزائے مرغ سے مستثنٰی قرار دیا ۔ سزا کے خلاف اس دلیل کو پختہ قرار دیا گیا کہ معصوم غلط فہمی کا شکار ہوکر اس عمل کو رفع حاجت تصور کرتے ۔ اس لئے مکتب سے سزائے مرغ منسوخ کی جاتی ہے اور انتظامیہ کو تاکید کی کہ اب کوئی معصوم مرغا نہیں بنےگا۔ اسی کے ساتھ وہ بھیانک استحصالی تصویر شہید مرغوں کے عریاں اجسام شہر کے چوراہوں پر لٹکتے نظر آئی۔ اب ان حالات میں بے چارہ مرغ کیا بولے گا جو سن بلوغت سے قبل ہی مرتبئہ شہادت کو پہنچایا دیا گیا ۔ وہ بھی کیا پردہ داری تھی جب حویلیوں اور محلات کی چہاردیواریوں میں مرغن غذا کبھی تندوری مرغ تو کبھی مرغ مسلم کی شکل میں دستر خوان کی زینت بنتے ۔ یہ نہ تھی ہماری قسمت، پتہ نہیں کس قصور کی اتنی سنگین سزا ملی کہ آج شہر کے ہر نکڑ پر بے لباس نظر آنے لگے ۔ یہ کسی بین الاقوامی سازش کا نتیجہ ہے ، پڑوسی ملک نے اپنی غذائیت میں مرغ کو شامل کرکے اسے سر بازار رسوا کردیا ۔ اس طرح "بول میرے ماموں کے مرغے" کہنے کا رواج کم ہوگیا ۔ اب بھی یہ دیہی علاقوں میں کہیں کہیں بولا جاتا ہے ۔ سائنٹفک طریقہ سے اگر دیکھا جائے تو پیروں پر بیٹھا کر اچھالنے کے اس عمل سے تنکہ کا سہارا مل جاتا اور کچھ دیر کے لئے دکھتے پیروں پر معصوم کے وزن سے کچھ راحت مل جاتی ۔ غذائی ضروریات کی تکمیل کے لئے بڑی تعداد میں ان کی بازیابی سے لوگ فکر مند تھے کہ اچانک نومولود زرعی مرغ کے چوزوں نے سیلابی شکل اختیار کرلی ۔ مرغوں کی کاشت جنگی پیمانے پر کی جانے لگی ، لوگوں نے مرغوں کی افزائش نسل کے فارم کھول دئیے جہاں ہمہ اقسام کے مرغ اچھل کود کرتے رہتے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں مرغ بانی کی صنعت نے زرمبادلہ کی شکل میں ریکارڈ قائم کیا ۔ زرعی مرغوں نے چائنیز ذائقوں سے ہمیں متعارف کیا ۔ ایک ٹانگ کا مرغ اور دو ٹانگ کا مرغا کہنا معیوب سمجھا جانے لگا ۔ اسس کے لئے چکن کی اصطلاح عام ہوئی ۔ امیر غریب ، چکن سکسٹی فائیو ، چکن لالی پاپ اور جلی بھنی چکن کنٹکی کھاکر ذائقہ کی لذت حاصل کرلیتے ۔ بے چارہ انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتاککہ مدرسوں کی سزا ہی اچھی تھی اب مرغ کو کسانوں کی خودکشی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایوان بالا نے لحم ثور پر بندش کیا لگادی ہزاروں کی تعداد میں شہید کر دعوت طعام کو سرخروئی عطا کررہے ہیں ۔ کبھی کبھی تو زرعی مرغ کو دیسی مرغوں پر رشک آتا کہ وہ اپنی مستورات کے ساتھ چہل بازی کرتے ہوئے داد عیش دے رہے ہیں اور کس خوشنما انداز میں کٹ کٹ کرکے انھیں اپنی طرف متوجہ کررہے ہیں ۔ زمانہ آج بھی اس واقعہ کو فراموش نہ کرسکا تھا جب بیرونی نسل کے مرغ کے سفید لباس کو دیسی مرغ نے سرخ کردیا تھا اور اس کامیابی پر دیسی ہرغ کے حرم میں جشن فتح منایا گیا تھا ۔ کامران مرغ کی فولادی آریوں میں کتنی جوان پٹھوڑیوں کے دل جھولنے لگے تھے ، اس کامیابی پر اس نے کس شان بے نیازی سے اپنی کلغی کو جھٹک کر گھورے پر طائرانہ نظر دوڑائی تھی اور ایک ہہم ہیں متاع کو چے و بازار کی طرح ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ حسرت ان غنچوں
کے مصداق ان نا گفتہ حالات میں ہم کیا بول سکیں گے آخری خواہش پر ۔ بقول ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی ؎
مرغ کہنے لگا مرغی سے بصد رنج و ملال
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی قابوں میں ملیں
قورمہ میرا بنے زینت بریانی ہو تو
اے خدا ہم نہ کبھی ایسے عذابوں میں ملیں
بانگ سے نابلد زرعی مرغ تو صرف غذائی ضروریات کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔ یہ اعزاز و احترام تو صرف دیسی مرغوں کو حاصل ہے کو صبح کاذب نغمہ مرغ سے بیدار کرنے کے فریضہ کو آج بھی بخوبی انجام دیتے ۔ اور تو اور حویلیوں اور شاہی محلات میں مرغ بازی کے خونی مشغلوں سے بادشاہوں اور نوابوں کو دلی تسکین کا سبب بننے میں بھی انھیں دیسی مرغوں کا زیادہ حصہ ہے ۔ اسی شوق کے لئے انھیں مقوی غذائیں کھلائی جاتی اور لڑائی کے لئے ان کی آریوں کو تیز کیا جاتا تاکہ دشمن مرغ کو زمین چٹا سکیں ۔ دلّی اور لکھنئو کے اکھاڑوں میں وہ جو ہر دکھائے کہ لوگ آج بھی اس دور کو یاد کرتے ہیں ۔ شکست خوردہ مرغ کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی کا قول ہے کہ ہارا ہوا مرغ کھانے سے آدمی اتنا بودا ہوجاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات اسے درست معلوم ہوتی ہے اور یہی ہوا کہ لحم ثور و لحم بقر پر سخت پابندی نے حکام وقت سے بے وفائی نہ کرنے کی قسم کھائی ۔ اس معاہدہ کے نتائج نے ہماری نسل کو لقمئہ تر بنا ڈالا ۔ ویسی ببھی اصیل مرغ استشنائیت زدہ ہونے میں اور خوشی خوشی زیر خنجر اپنی گردن جھکا دیتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے نزدیک گھورے کی موت کو چکمہ دے کر شکم انسان مدفون ہونا زیادہ پسند کرتے ۔ اس پر بھی حضرت انسان کو کو یہ گلہ ہے کہ مرغ کے قلیہ میں وہ لذت نہیں آتی جو برسہا برس لحم کے قلیہ کھانے میں آتی ہے ۔ اب تو یہ قصئہ پارینہ ہوگیا ۔ مورخ وقت جب دسترخوان کی تاریخ لکھے گا تو اس میں قلیہ لحم کو مرغ کے قلیہ پر فوقیت دے گا ۔ چونکہ اس کے اجداد نے نان قلیہ سے اپنی زندگی کے ذائقہ دار شروعات کی تھی اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے نئے ابواب میں چوری چھپے لحم نان قلیہ کی دعوت میں سیندھ لگاتا ہے ۔
بقول راجہ غضنفر علی ؎
ہو نان قلیہ تو بس منہ میں بڑبڑاتے ہیں
اگر ہو مرغ تو خوش ہوکے پھڑپھڑاتے ہیں
دبا کے کھانے میں استاد یہ پرانے ہیں
سبھی کے پیٹ میں دو دو ہزار خانے ہیں
اکثر دیکھا یہ جاتا ہے وہ معہ متعلقین شب خون بھی ماررہا ہوتا ہے ، قلیہ کی خاطر لحم ثور سے پہلے وہ مرغ کی شہادت کی گواہی بھی ددے گا ۔ کسی شاعر نے لحم ثور کے تعلق سے کیا خوب کہا ہے ؎
اپنے وجود پر اتنا تو یقین ہے مجھ کو
کوئی چھوڑ تو سکتا ہے مجھے بھلا نہیں سکتا
درد و الم کی کہانی چائنیز و تندوری ، کنٹکی وہ سکسٹی فائیو کی حدود میں کیا کم تھی کہ ہمیں اپنے سے بڑے اور بہت بڑے (کبیر) کا جاننشین بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ ہماری قربانی کی راہیں محدود تھیں، اب ہمیں لامحدود کردیا گیا اور وسیع و عریض ، عام و خاص کے لئے قلیہ کا ہمسر بن کر قربان ہونا پڑ رہا ہے ۔ کا م و دہن اور لذت آفرینی کے گر تو حضرت انسان ہی جانے پھر بھی ان کی تسکین قلب و نظر اور مداوائے شکم سیری کی راہ میں ہر آن ہماری خدمات حاضر ہیں ۔ فیصلہ آپ کا ہے ۔ ہم کس قدر کام آئے اور کیا ہماری قربانیاں رنگ لائی ؟؟؟
دل جو مل جائیں یہیں پر تو یہ بہتر ہے بہت
کہیں ایسا نہ ہو کل ہم بھی کبابوں میں ملیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...