ہمارے ملک کے بیشتر شاعروں و ادیبوں کو اپنی خود نمائی کے سوا ملکی حالات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ فیس بک پر اپنے ساتھ ایڈ شاعروں و ادیبوں کی وال کنگال لیں ان میں سے بہت سو کی وال پر دور دور تک ان کے کلام اور کام کے سوا ملک میں موجودہ فاشزم پر ایک لفظ بھی نہیں ملے گا۔ حالانکہ ماورائے عدالت، ماورائے قانون اور غیر آئینی اقدامات پر سب سے پہلے بولنے کا فرض شاعروں وادیبوں کا ہی بنتا ہے۔ اس وقت ادبی دنیا میں سینئر کی کرسی پر براجمان فیض احمد فیض جیسے انقلابی شاعر کے شاگرد رشید افتخار عارف صاحب کی مثال لیں جو کہ فیض احمد فیض سے تعلق پر ہمیشہ فخر کرتے ہیں، وہ اکثر اپنا یہ شعر دہراتے پائیں جاتے ہیں "کہ حسین تیرے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا"۔ مگر حال یہ کہ ملک میں ریاستی ظلم پر وہ بھی خاموش رہتے ہیں کبھی انہیں لاپتا افراد کیلئے بولتے نہیں دیکھا۔ شاید یزید وقت سے انہیں ڈر لگتا ہے۔ بہرحال اور بھی کئی سینئر شاعر و ادیب آپ کو مکمل خاموش ملیں گے۔
خیر قصہ مختصر آج تین سال سے لاپتا صحافی اور شاعر مدثر ناڑو کی اہلیہ اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئیں۔ کہا جارہا ہے کہ انہیں نیند میں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ سیدھی چل بسی۔ سماجی کارکن صدف چغتائی اپنے شوہر مدثر ناڑو کی بازیابی کیلئے مسلسل جدوجہد کررہی تھی اور اس سلسلے میں بیس مئی کو یو این کے ہیومن رائٹس کمیشن کے ساتھ ان کی ملاقات بھی ہونی تھی۔ مدثر ناڑو کے بعد صدف چغتائی اکیلے ہی اپنے ساڑھے تین سالہ بیٹے سچل کی پرورش کررہی تھی، اور آج ماؤں کے عالمی دن پر سچل باپ کے بعد ماں سے بھی محروم ہوگیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ کیا ریاست مدینہ کے سینے میں کلیجہ نام کا کوئی پرزہ موجود بھی ہے؟
فاشسٹ ریاستی اداروں کم سے کم آج آپ کو انسانی ہمدردی کے تحت مدثر ناڑو کو رہا کرنا چاہیئے تھا تاکہ وہ اپنی بیوی کو کندھا دینے جاتا اور اسے الوداع کہہ کر اپنے معصوم یتیم بچے سچل کی پرورش کی زمہ داری سنبھالتا۔ مگر نہیں، آپ کے سینے میں تو انسان کا دل ہے ہی نہیں۔