دینو نے جُھگی کا پردہ اٹھایا اور اندر داخل ہوا۔ ایک چھوٹے سے کمرے جیسی جھگی، جس کے ایک طرف دو تین میلی پلیٹیں، اسٹیل کے دو گلاس اور روٹی رکھنے والی چھابڑی پڑی ہوئی تھی تو دوسری طرف دو تین کمبل اوپر نیچے بے ترتیبی سے ایک ڈھیر کی صورت میں پڑے ہوئے تھے۔ اُسی ڈھیر کیساتھ پشت لگائے اُس کی بیوی چٹائی پر نیم دراز پڑی سر سے جوویں نکال کر مار رہی تھی۔ پانچ سالہ بیٹی شنو فرش پر بیٹھی ایک میلی پھٹی ہوئی کپڑے کی گڈی (گڑیا) کیساتھ کھیل رہی تھی، کمرے کے بیچوں بیچ ایک تانبے کی تار گزر رہی تھی جس کے عین وسط میں لٹکی لالٹین ہی اُس آشیانے میں روشنی کا واحد منبع تھی۔
"اری او شنو، اُٹھ تیرا بابا آگیا ہے، جا روٹی لے کے آ"، آُس کی بیوی اُٹھ کے بیٹھ گئی،
"نہ، میں نہ کھاؤں روٹی،"، دینو نے کندھے پر لٹکا کپڑے کا تھیلا-نما اُتار کر رکھا،
"کیوں؟ تنّے بھوک نہ لاگی؟"
وہ خاموش رہا۔ اُس نے جھُگی کے کونے میں پڑی کپڑوں کی گٹھڑی کھولی اور نسواری رنگ کی وہی گرم چادر نکالی جو کہ وہ ہر جمعرات کے دن استعمال کرتا تھا۔ چادر کو دیکھتے ہی دینو کی بیوی اُس کا ارادہ بھانپ گئی۔
"آج پھر کاہی جارہا ہے تُو؟"
"تنّے کتنی بار کہا ہے کہ ای پوچھنے کی جرُورت نہ ہے"، اُس نے اپنے دن بھر کے بنائے گئے پیسوں میں سے کچھ نوٹ اپنے پاس رکھے اور باقی کچھ مُڑے ہوئے نوٹ اپنی بیوی کو تھما دئیے، وہ گننے لگی،
"پہلے ہی چِیجیں اتنی مہنگی ہیں، اوپر سے تُنے پیسے رکھ لئے،"
دینو نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنے دھیان پھٹی قمیص اُتار کر چادر اوڑھنے لگا،
"پر دینو، تُو کدھر جاوے ہر جمعرات کو؟"
"اپنا بوجھ اُتارنے،"، دینو بے پرواہی سے بولا۔ اُس نے کَن اکھیوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو کہ پہلے ہی سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"تُو نہ سمجھے گی، دماغ پہ جیادہ بوجھ نہ ڈال، مارا انتجار نہ کرئیو، سوجائیو،"
وہ یہ کہتا ہوا جُھگی سے باہر نکل گیا،
"اماں، بابا کدھر جاوے؟"، شنو کا کھیل ایک لمحے کیلئے رُک گیا،
"مَنّے کا پتہ کہاں جاوے حرام کا جنا! مولا جانے کونسا بوجھ ہلکا کرے ہے،"
اُس کی بیوی نے بیزاری و بے پروائی کی ملی جُلی کیفیت سے ہاتھ کو جھٹکا اور پھر لیٹ گئی۔ شنو اپنے کھیل میں دوبارہ مگن ہوگئی۔ دینو کی بیوی جھگی کی چھت کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی،
"مارے تین بچے جنم ہوتے ہی مرگئے، دینو کیا اب مارے سے نپھرت کرے ہے؟ مارے بدن میں کیا اب کھُوبسورتی ناہی رہی؟ دینو اپنا بوجھ اتارنے کس کتیا کے پاس جاوے ہے؟"
وہ اپنے سانولے ہاتھوں کو دیکھنے لگی،
"وہ لال روغن لگاووں گی جو مارے ہاتھوں میں سادی کے دن لاگا تھا۔ اپنے ہونٹوں پر بھی سُرخی لگاووں گی۔ میں اب دینو کا کاہی جانے نہ دیووں گی۔"
اُس نے ایک نظر شنو پڑ ڈالی، وہ اپنی گڈی کیساتھ ہی مست تھی۔ پھر اُس نے اپنے قمیص کے گلے کو، جو کہ خاصا کشادہ تھا، نیچے کھینچ کر اندر نگاہ ڈالی ۔ اُسے اپنے سانولے سانولے پستان نظر آرہے تھے۔
"دینو اب کاہی نہ جاوے گا۔ میں کل رات شنو کو دُلاری (بہن) کے پاس بھیج دیووں گی اور پھر میں اپنا سب کچھ دینو کو دے دیووں گی۔"
وہ یہ سوچتے ہوئے بھول گئی کہ ویسے بھی دینو کی کئی راتیں اُس کے جسم کیساتھ ہی گزرتی تھیں، لیکن اُس کے ذہن پر اُس وقت دینو کے بوجھ کا ہی بھوت سوار تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح وہ اپنا بوجھ اُتارنے کسی عورت کے پاس نہ جائے۔
—-
درمیانہ سا قد، بڑھی ہوئی داڑھی، گہرے سانولے رنگ کا وجود رکھنے والا دینو چادر لپیٹے فُٹ پاتھ کے کنارے چلتا جارہا تھا۔ چادر نے اُس کے پورے وجود کو ڈھانپ رکھا تھا، حتیٰ کہ اُس نے سر کے اوپر بھی چادر اِس طرح اوڑھ رکھی تھی کہ اُس کا چہرہ بمشکل دکھائی دے رہا تھا۔ یہ وہ چادر تھی جو اُسے پیر بابا کے مزار سے خیرات کے طور پر عطا ہوئی تھی۔ وہ آہستگی سے لیکن مسلسل چلتا جا رہا تھا، گویا اُس کا یقین محکم تھا کہ ہر دفعہ کی طرح آج بھی وہ اپنے وجود کا بوجھ اُتار پائے گا۔ وہ بوجھ، جو روز اُس کی ذات میں شامل ہوجاتا تھا، اُسے کسی ناگ کی طرح ڈستا تھا، وہ بوجھ، جس میں ہر گزرتے دن کیساتھ اضافہ ہوتا رہتا۔ کچھ بوجھ شاید انسان کیلئے پیٹ کی بھوک سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں۔ وہ چلتا ہوا منظور چوک پہنچا، جہاں کھڑا ہوکر وہ دن کے دو پہروں میں بھیک مانگتا تھا۔ اُس وقت ٹریفک کا کوئی خاص رش نہ تھا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ سب مناظر تیرنے لگے جب وہ لوگوں سے مانگتا تھا اور اُسے زیادہ تر لوگوں سے "معاف کرو" سُننے کو ملتا۔ زیادہ تر لوگ اُسے دھتکارتے، گاڑی کے شیشے بند کرلیتے، گالیاں بکتے، یا باتیں سناتے۔
"جا معاف کر"، "ارے کہہ دیا ناں ابھی کھلا نہیں ہے۔"، "ہٹ میری گاڑی کا شیشہ نہ گندا کر"، "حرامزادے، میری نئی گاڑی پر نشان نہ ڈال"،
یہ سب اُس کی ذات کی تضحیک کے بوجھ میں ہر گزرتے لمحے کیساتھ اضافہ کرتا۔
منظور چوک پر تھوڑی دیر کھڑے رہنے کے بعد وہ آگے بڑھا۔ تھوڑی دُور اُسے ایک گداگر دکھائی دیا- وہ اُس کے قریب گیا۔ گداگر نے اُسے اپنے قریب آتے دیکھا تو اپنے پاس پڑا کاسہ ایک ہاتھ سے اٹھا کر دوسرے ہاتھ سے شہادت کی انگلی بلند کرکے مانگنے لگا، دینو اُس کے پاس جاکر پھر اُسی منظر میں چلا گیا جب وہ خود لوگوں سے مانگنے کیلئے اپنا کاسہ بلند کرتا اور اُسے آگے سے "معاف کرو" سُننے کو ملتا۔ وہ اُس گداگر کے سامنے کھڑا ہوگیا اور گہری خاموشی سے اُسے دیکھنے لگا۔
"بابو دے دو کچھ، پیر بابا کے نام کا" اُس بھکاری کی فریاد جاری تھی۔ دینو اُس کی طرف تھوڑا سا جھُکا اور ہلکی آواز میں کہا
"معاف کرو"
اس جملے نے اُس کو ایک عجیب سا اطمینان دیا، جیسے ایک بھوکا انسان روٹی کا ایک لقمہ حلق میں ڈالتا ہے۔ اُس بھکاری کے پاس سے پلٹتے ہوئے اُس کے چہرے پر ایک پرسکون سی خاموشی تھی۔
وہ آگے چل دیا۔ اُس کی منزل حُسین پارک تھی جہاں اُسے اپنا اصل بوجھ ہلکا کرنا تھا۔ اُسے راستے میں چار پانچ مزید گداگر ملے۔ اُس نے دانستہ طور پر وہی راستہ چُنا جہاں اُس کا سامنا گداگروں سے ہو۔ ہر مانگنے والے کے سامنے اُسی طرح ہلکا سا جھُک کر وہ مدھم سی آواز میں کہتا، "معاف کرو"۔ ہر مرتبہ اُس اپنا آپ بہت لطیف سا محسوس ہوتا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس کے اندر موجود ایک جھکے ہوئے ترازو میں سے ایک ایک کرکے پلڑا اٹھایا جارہا ہو۔ ہر مانگنے والا جوابا اُس کی طرف دیکھتا کہ یوں جھُک کر مدھم سی آواز میں "معاف کرو" کہنے کا کیا مطلب ہے، اگر کچھ دینا نہیں تو اُن کی طرف متوجہ ہی نہ ہوتا، لیکن وہ ہر ایک کو یہی جواب دے رہا تھا۔ چونکہ اُس کا چہرا چادر میں گُم تھا لہذا کوئی بھی گداگر اُسے پہچان نہ پایا، ورنہ تقریبا سبھی مانگنے والے ایک دوسرے سے واقف ہی ہوا کرتے ہیں۔
یونہی چلتے ہوئے وہ حُسین پارک تک پہنچ گیا۔ وہ پارک کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوا اور سیدھا مشرقی کونے کا رُخ کِیا جہاں اُسے دُور بنچ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا ایک باولا سا لڑکا نظر آیا۔ وہ لڑکا ہری قمیص پہنے ہوئے تھا جس پر پانچ چھ چھوٹے بڑے پیوند لگے ہوئے تھے، گلے میں تین کالی اور ایک خاکی رنگ کی مالائیں لٹکی ہوئی تھیں، جبکہ ایلومینیم کا کٹورا پاس پڑا ہوا تھا۔ دینو کو اپنی طرف آتا دیکھ وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوا اور دیوانہ وار دھمّال ڈالنے لگا۔ وہ دینو کو پہچانتا تھا، کیونکہ ہر جمعرات کو وہ اُسے اسی مقام پر مِلتا تھا۔
"اللہ کے نام پہ بابُو صاحب، بابُو صاحب، بابُو صاحب، اللہ کے نام پہ بابُو صاحب، بابُو صاحب، بابُو صاحب،"
وہ پاگلوں کی طرح یہ جملے دہرائے جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ دھمّال کے سے انداز میں ناچ رہا تھا۔ دینو کچھ دیر تک اُس کی اُچھل کُود دیکھتا رہا، پھر دس کا نوٹ جیب سے نکالا اور اُس کو دکھانے لگا۔ اُس کے دھمّال میں جوش پیدا ہوگیا۔ دینو نے بے پروائی کیساتھ وہ نوٹ اُس کی طرف ہوا میں پھینک دیا، لیکن نوٹ پھینکتے ہوئے اُس کے چہرے پر ایسے تماش بین جیسی شرارت ہرگز نہ تھی جو کہ کسی مُجرا کرتی طوائف پر نوٹوں کی بارش کر رہا ہوتا ہے، بلکہ ایک گہرا سکوت اُس کے چہرے کے نقوش پر چھایا ہوا تھا۔ مگر ایسا کرتے ہوئے اُسے عجیب سی راحت ضرور محسوس ہوئی۔ یکدم سارا بوجھ اُترتا ہوا محسوس ہوا۔ لڑکے نے ہوا سے نوٹ دبوچ لیا اور واپس مڑنے لگا،
"اے، ادھر آ"
دینو بیٹھا رہا۔ وہ لڑکا واپس مُڑا، دینو نے اُسے دس کا ایک اور نوٹ دکھایا۔ اُس نے پھر دیوانہ وال رقص کرنا شروع کر دیا۔ دینو نے پھر نوٹ ہوا میں لہرایا اور اُس نے پکڑ لیا۔ یہ کھیل تب تک جاری رہا جب تک دینو نے دس دس کے پانچ نوٹ اُس کو بھیک میں دے کر اپنے بوجھ سے خلاصی نہ پالی۔ آخر جب اُس نے پانچوں نوٹ اُس پاگل بھکاری لڑکے کو دے دئیے تو اُٹھ کھڑا ہوا اور واپس چل دیا، گویا اب وہ اگلے ہفتے کیلئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کیلئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ دُور سے ریل گاڑی چلنے کی آواز اُسے سنائی دے رہی تھی۔ اُسے اپنے حواس زندہ ہوتے محسوس ہورہے تھے۔ اُس کے خیالوں میں وہ سب بھکاری آئے جو اُسے راستے میں ملے تھے۔ اُسے ہر بھکاری کے چہرے پر وہی تکان، وہی مُردگی دکھائی دی جو اُسے اپنی جھگی سے نکلتے ہوئے اپنے وجود میں محسوس ہورہی تھی۔ اُسے لگتا تھا کہ ہر مانگنے والے کے اندر ایک ایسا بوجھ ہوتا ہے جو اُس کی رگوں سے خون نچوڑ دیتا ہے، جو اُس کی غیرت کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے، جو اُس کے چہرے پر ایسے نقوش چھوڑ دیتا ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی بھکاری دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب یہ بوجھ اُتر جاتا ہے تو زندگی اُس شخص کی نسوں میں دوڑنے لگتی ہے۔ اُسے دنیا کا ہر گداگر اپنی طرح ہی بوجھ میں ڈوبا دکھائی دیتا تھا۔ یہ سوچتا ہوا وہ صدر دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا، جبکہ وہ لڑکا دیوانہ وار اچھُلتا ہوا نوٹوں کیساتھ کھیلنے لگا۔ اچانک دینو ایک لمحے کیلئے رُکا اور واپس مُڑا،
"اے، اِدھر آ"
اُسے اپنی آواز میں ایک عجیب سی توانائی محسوس ہوئی۔ اُسے یوں لگا جیسے وہ کسی کو حکم دے رہا ہے اور اُس کے پیادے بیتابی سے اُس کے قول کی تعمیل کرنے کیلئے اُس کی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں۔ وہ لڑکا ایک اور نوٹ کی امید لیئے اُس کے پاس اُچھلتا ہوا چلا آیا۔ دینو اُس کی طرف متوجہ ہوا، تھوڑا سا جُھکا اور اونچی آواز میں کہا،
"معاف کر!"
—————————
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1716061298660570/
“