بوہرے
شیعہ فرقہ اسمعیلیوں کی شاخ دعوت طیبی کے پیرو کار ہیں ۔ مگر عموماً یہ بوہرے کہلاتے ہیں جو کہ پیوپار کا گجراتی تلفظ ہے اور بوہرے عموماً تجارت پیشہ ہیں ۔ خیال رہے برہمنوں کی ایک گوت بوہرہ ہے اور یہ بھی تجارت پیشہ ہیں ۔ بشتر بوہرے گجرات ، بمبئی ، برہانپور ، مالوہ ، راجپوتانہ اور کراچی میں رہتے ہیں ۔ جب کہ ان کا داعی سورت میں رہتا ہے ۔
فاطمی خلیفہ مستعلی باللہ کے دو بیٹوں نزار اور آمر کے درمیان نشینی کی جنگ ہوئی جس میں نزار کو قتل ہوگیا اور مستعلی کے بعد آمر خلیفہ بنا ۔ نزار کے پیروکار کا دعویٰ ہے نزار مصر سے حسن بن سباح کے ساتھ ایران جلاگیا اور اس کے پیروکار مشرقی اسمعیلی یا نزاری کہلاتے جو کے دور حمید میں آغا خانی کہلاتے ہیں ۔
آمر کو نزاریوں نے قتل کردیا ۔ طیبوں کا دعویٰ ہے آمر کے مرنے کے اس کی ایک بیوی سے بیٹا طیب پیدا ہوا تھا ۔ جس کو ان کے پیروکاروں نے نزاریوں کے خوف سے چھپا دیا اور طیب اور اس کی اولاد پیدا ہونے والے ائمہ مستور ائمہ کہلاتے ہیں ۔ ان کی نقل و حرکت کے بارے میں چند لوگوں کے علاوہ کسی کو علم ہیں اور نہ ہی کوئی رابطہ ہے نہ کوئی اطلاع ہے ۔ مگر طیبی داعیوں کا دعوی ہیں ان امام کی انہیں تائید حاصل ہے اور بعض داعیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں امام کے خطوط ملے ۔
دوسرے شیعہ فرقوں کی طرح اسمعیلی امام کے خدائی اختیار کے قائل ہیں ۔ ان کے عقیدے کے مطابق ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور محمد صلی اللہ وعیلہ وصلم کے وصی حضرت علی تھے اور تا قیامت تک امام ان کی اولاد سے ہوں گے ۔ امام کے بعد اس کا لڑکا امام بنتا ہے اور ضروری نہیں کہ بڑا لڑکا ہو بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس پر امام نے نص کیا ہو ۔ امام کبھی ظاہر ہوتا ہے اور کبھی دشمنوں کے خوف سے مستور ہوجاتا ہے ۔ مگر دنیا امام کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتی ہے ۔ جب امام ظاہر ہوتا ہے تو وہ اپنے مذہبی احکامات داعییوں کے توسط سے اپنے پیروں کاروں سے رابطہ اور ان کی تعلیم کا بندوست کرتا ہے ۔ یہ امام کا اختیار ہے وہ کسی مذہبی احکام و فرائض میں ترمیم و تنسیخ کردے ۔ کیوں کہ اصل چیز باطن ہیں اور وہ اسے کے لیے مختلف تاویلیں کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے ان کے مذہبی فرائض وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں ۔ لیکن جس امام مستور ہوتا ہے تو اس کے پیروکار ظاہری عبادات کرتے ہیں ۔ طیب کے مستور ہونے کے بعد یہ دعوت یمن میں داعیوں نے جاری رکھی ۔ بعد میں یہ دعوت ہندوستان منتقل ہوگئی ۔
بوہروں کے مذہب میں فلاسفہ یونان کی باتوں کو بھی دخل ہے جو کہ ان دعا میں عقول عشرہ کے ترجمہ سے بخوبی اندازہ ہوت ہے ۔ ترجمہ ۔ اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ۔ اے اللہ تیری ذات پاک ہے کہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ وہ کیا ہے ۔ مگر خود وہی یعنی وہ اپنے آپ اپنی ذات کو جانتا ہے ۔ اے ذات پاک کہ وہ موجود ہے ، جیسی کہ وہ تھی اور میں وسیلہ پکڑتا ہوں اے اللہ میں عقل اول کے ساتھ اور ہم جو اس کے پیچھے ہے ۔ یعنی عقل دوم کے ساتھ جملہ دوسری عقل کے کے پیچھے ہیں اور گھیرنے والی ہے ساتھ ملاحظے اپنے کے سرایت کرنے والا ہے ۔ طرف اس شخص کے جو اس علمداری میں ہے سبقت کرنے والی ہے ۔ اس کی بزرگی کو یعنی عقل اور نے تعدم کی وجہ سے جو شرف حاصل کیا وہ شرف دسویں عقل نے اپنی عنایت کی وجہ سے بزرگ ہے ۔ اور ایک اپنی مہربانیوں کی وجہ سے میں توسل کرتا ہوں اے اللہ تیری جناب میں ان روحانی قوتوں اور پاک صورتوں کے ساتھ جو ہر ایک عقل کے اندر موجود ہیں اور وسیلہ پکڑتا ہوں میں تیری جناب میں اے اللہ اس صاحب مرتبہ عالی اور برگزیدہ ترین کے ساتھ جس کا بدن بلا مادے کے پیدا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے آسمانوں اور عناصر نے عقل پائی ہے اور عقول جبرونی و ملکوتی انوار گرنے کی جگہ ہوگیا ہے ۔ اے اللہ میں توسل کرتا ہوں تیری جناب میں اون ستائیس کے ساتھ جو دسویں عقل کے کہنے کو قبول کرتے ہیں اور اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے حکم کی تعمیل میں جلدی کرنے والے ہیں اور وسیلہ کرنے والا ہوں تیری جناب میں اس شخص کے ساتھ جو بعد ان کے ایسے مقامات کا جانشین ہو جو برانگیختہ کرنے والے اور لمبی لبمی روشنی رکھنے والے ہیں ان کی مدت کے تمام ہونے اور ان کی تعداد کے پورا رکھنے تک اور اے اللہ میں توسل کرتا ہوں تیری جناب میں اس شخص کے ساتھ جس کے اوپر ان مدبروں کے دوروں کا خاتمہ انہائے زمانہ تک ۔ بوہروں کی اس دعا پر بحث کسی اور پوسٹ میں کریں گے کیوں کہ یہ اس طویل پوسٹ میں مزید طوالت کا باعث ہوگی ۔
بوہرے دوسرے شیعہ فریقوں کی طرح قران میں تحریف اور کمی بیشی کے قائل ہیں ۔ ان کے مطابق مصحف عمثانی میں دس سپارے نہیں ہیں ، جن میں اہل بیت کے بارے میں باتیں درج ہیں اور یہ دس سپارے جناب امیر پاس تھے اور انہوں اس خیال سے نہیں دیئے کے اہل بیت کے ذکر کی وجہ سے تلف کردیے جائیں گے ۔ اس کے علاوہ قران میں کئی جگہ تحریف کے قائل ہیں ۔ ان کا کہنا ہے دس پارے نہ ہونے کی صورت میں مصحف عثمانی سے کام نکالا جائے ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دس سپارے بعض خاص خاص شیعہ اکابر کے پاس ہیں ۔
داعی
پہلے ذکر ہوچکا کہ امام اپنے مذہبی امور داعی کے انجام دیتا ہے اور امام جس کو مناسب سمجھتا ہے داعی بناتا ہے ۔ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ داعیوں کی بہت سی قسمیں ہیں جس کی تفصیل میں ہم نہیں جاتے ہیں ۔ لیکن جب امام مستور ہوتا ہے تو داعی دعوت کی قیادت سمھالتا ہے ۔ اس وقت دعوت طیبی کے امام مستور ہیں اس لیے دعوت کی قیادت داعی کے ہاتھ میں ہے ۔ داعی کا جانشین ضروری نہیں ہے کہ اس کا بیٹا ہو لیکن داعی امام کے الہام سے نئے داعی کا تقرر کرتا ہے ۔ بوہرے داعی کی نسبت عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ امام الزمان کے قائم مقام ہے اور ان کی عزت کرنا گویا امام الزمان کی عزت کرنا ہے ۔ کیوں کہ امام الزمان نے انہیں مسند پر بیٹھنے کی عزت دی ہے ۔ امام الزمان اس وقت مستور ہیں اور داعی ان کے قائم مقام ہیں اور ان کی طرف سے دعوت کرتے رہیں گے ۔ ان کے عقیدہ کے مطابق جو داعی کا تصور کرتا ہے اسے امام کی زیارت ہوجاتی ہے ۔ یہ داعی خدمت میں ننگے پاؤں ڈورتے ہیں اور اس کی خدمت کے لیے دست بستہ اس کے روبرو کھڑے رہے ۔ جب تک اجازت نہیں ملے اس کے سامنے بیٹھتے نہیں ہیں ۔ جب داعی وضو کرتا ہے وہ ان کی کلی تک پانی ہاتھوں میں لے کر پی لیتے ہیں ۔ داعی جب پیادہ چلتے ہیں تو یہ ان کے قدموں کی خاک کو سرمہ کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ داعی کے علاوہ بوہروں میں اور بھی مذہبی عہدے ہوتے ہیں ۔ جس میں ، ماذون ، مکاسرہ ، مشایح ، ملا ، عامل اور میاں صاحب ہیں ۔ ان میں کئی فرقہ داؤدیہ ، سلمانیہ اور مہدی باغ والے زیادہ معروف جو کے داعیوں کے اختلاف پر بنے ہیں ۔
عامل کے علاوہ کسی کو نماز پڑھانے کی اجازت نہیں ہے ۔ البتہ عامل اپنی طرف سے کسی ملا یا شیخ کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ہنگامی حالات میں نماز پڑھا دے ۔ اس کے علاوہ کسی کو نماز پڑھانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور کی امامت میں نماز تسلیم نہیں ہوتی ہے ۔ مجلس میں جو لوگ عامل کے قریب بیٹھے ہیں وہ زیادہ معزز اور مقدس سمجھے جاتے ہیں ۔ چنانچہ عامل کے قریب کی نشت حاصل کرنے بے دریع روپیہ خرچ کردیتے ہیں ۔ کوئی بوہرہ عامل سے ملتا ہے تو پہلے ہاتھ چومتا ہے پھر اس کو ناک ، آنکھ اور پیشانی سے لگاتا ہے۔
بوہروں کا کہنا ہے کہ سال کے بارہ مہنے ہوتے ہیں ۔ جن میں چھ کامل اور چھ ناقص ہوتے ہین ۔ پس عقل کی رو سے واجب ہے کہ سال کی ابتدا اور انتہا نقصان اور کمال پر ہوئی ۔ پس سال کا پہلا مہینہ محرم سے شروع ہوتا اس لیے وہ کامل ٹہرا اور دوسرا مہنہ صفر ناقص ٹہرا ۔ اس طرح ربیع اول کامل اور ربیع لثانی ناقص ، جمادعی الاول کامل جمادی الاخر ناقص ، ماہ رجب کام اور شعبان ناقص ، ماہ رمضان کام اور شوال ناقص اور ذیقعہ کامل اور ذی الحج ناقص ۔ ہر کام ماہ تیس دن کا اور ناقص انتیس دن کا ہوتا ہے ۔ اس طرح ان کا کلینڈر ہجری کلینڈر سے فرق ہوتا ۔ جب کہ یہ کارباری حساب و کتاب ہندی ماہ اور تارٰیخوں کے کرتے ہیں ۔
ان کی نمازیں شیعوں کے برعکس اول وقت ہوتی ہیں ۔ دن میں تین دن نمازیں پڑھتے ہیں ۔ پہلی فجر ، دوسری بار ظہر کی ساڑھے بارہ کے لگ بھگ اور ظہر کی نماز پڑھ کر وہیں بیٹھے رہتے ہیں اور آدھا گھنٹہ کے بعد عصر کی پڑھ لیتے ہیں ۔ اس طرح مغرب کی نماز پڑھنے کے کچھ دیر بعد عشاء کی نماز پڑھ لیتے ہیں ۔ مسجد میں عورتوں کے لیے ایک حصہ مخصوص ہوتا ہے ۔ پیش امام بطور عامل اور قاضی کے داعی کی طرف سے ہر بستی میں مقرر ہوتے ہیں اور اس کی معرفت سالانہ نذرانہ ایک اپنے مقدر کے مطابق اور زکوۃ داعی کو بھیجتا ہے ۔
یہ عموماً رمضان سے ایک یا دون دن پہلے ان کے روضہ شروع ہوجاتے ہیں اور عید بھی ان کی پہلے ہوتی ہے ۔ اس طرح یہ عشرہ محرم کے مراسم اور حج بھی چند دن پہلے کرلیتے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ اس خاموشی سے حج کرلیتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ہے ۔
بوہرے علماء بات چیت اور اور خط و کتابت کے لیے عربی کو ترجیع دیتے ہیں لیکن عام پیروکار اردو اور گجراتی استعمال کرتے ہیں ۔ بوہرے مذہبی بحث سے بچتے ہیں اور اپنے مذہب کی کتابیں کسی غیر مذہب کو نہیں دیکھاتے ہیں ۔ پہلے یہ ڈارھی رکھتے تھے مگر اب کچھ رکھتے اور کچھ منڈاتے ہیں ۔ یہ نہ مسکرات یعنی تمباکو پینا یا کھانا یا سونگھنے اور سگریٹ سے پرہیز کرتے ہیں ۔یہ دوسرے مذہبوں سے الگ کسی ایک جگہ رہاہش اختیار کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگ اس علاقہ میں نہیں رہیں ۔ ان کی مسجد اور قبرستان علحیدہ ہوتے ہیں ۔ اس طرح یہ اپنی سماجی تقریب شادی بیاہ ، غمی وغیرہ میں غیر بوہروں کو شریک نہیں کرتے ہیں ۔ ناچ وغیرہ تو نہیں البتہ بینڈ بجواتے ہیں ۔ اس طرح دوسرے مسلمانوں میں شادی بیاہ نہیں کرتے ہیں ۔ عاشورہ کے دن کسی ہل سنت کو اپنی مجلس میں شریک نہیں کرتے ہیں اور اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ ہاں دوسرے دنوں میں شریک ہونے دیتے ہیں ۔
بوہرے مردے کو دفن کرتے ہیں تو قبر میں تختہ نہیں دیتے ہیں تھوڑی سی مٹی صاف کرکے اس پہلے میت کے اوپر ڈالتے ہیں اور اسے ہاتھوں سے خوب دباتے ہیں ۔ بعد اس کے دوسرے لوگ مٹی دیتے ہیں اور دستور یہ ہے کہ جو قبر ہوتی ہے اسی کی مٹی دالی جاتی ہے ۔ دوسری جگہ کی مٹی کو ڈالنا گناہ سمجھتے ہیں ۔ قبر میں مٹی بھر کر اس کو ہموار کرتے ہیں اور پانی کا چھڑکاؤ کرکے اس پر پھول ڈالتے ہیں ۔ اس کے بعد تمام شرکاء قبر کو درمیان سے بوسہ دیتے ہیں ۔ اس کے بعد میت کے وارث سے سب بغل گیر ہوتے ہیں اور کسی قسم کی تعزیت نہیں کرتے ہیں ۔ عامل میت کے ساتھ نہیں جاتا ہے ۔ بلکہ پہلے کسی سواری کے ذریعہ قبرستان پہنچ جاتا ہے ۔ یہ غسل و کفن کے بعد مردے کے ہاتھ ایک صحیفہ رکھتے ہیں ۔ جس میں میت کی عقائد کی عامل کی طرف تصدیق ، سیدنا و مولانا کے بعد داعی کا نام اور ماذونہ سیدی کے بعد مکاسر کا نام درج ہوتا ہے ۔
بوہرے ہندوّں سخت پرہیز کرتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کچھ باتیں ہندوؤں کی باقی ہیں ۔ مثلاً ان کی عورتیں پردہ نہیں کرتی ہیں ۔ یہ سود لیتے اور دیتے ہیں ۔ دیوالی میں ہندوؤں سے زیادہ خوشی اور روشنی سے زیادہ سامان کرتے ہیں ۔ اسی رات میں کھاتہ کی پرانی کتاب کو بند کردیتے ہیں اور نئی کھاتے کی کتاب شروع کرتے ہیں ۔ ان کا عامل ہر دوکان پر جاکر کھاتے کی نئی کتاب پر بسم اللہ لکھتا ہے اور دوکاندار کچھ اس کی نذر کرتا ہے ۔ اس لیے بہت سے انگریزوں کا خیال ہے کہ بوہرے ہندوؤں کے رسم و عقیدے پر اب تک چلتے ہیں ۔ مگر عجیب بات ہے یہ کہ ہندوؤں کے یہاں کھانے اور پانی تک پینے سے بچتے ہیں ۔ ان کے ایک داعی ملا لقمان جی نے ان کی چالیس سکھاؤں میں یوں نصیحت کی ہے ۔
ہندو نے ہاتھ سرنکھا جو مومن تھی نے کافر نتھا جو
یعنی ہندو کے ہاتھ کی مٹھائی مت کھائیوں ۔ مومن ہوکر کافر مت بنیو ۔ اگر ہندو دھوبی کپڑا لاتا ہے تو اسے پہلے پاک کرتے ہیں ۔ دوسرے شیعوں کی طرح صرف پر والی مچھلی وہ بھی زندہ لاکر اس کو ذبح کر کھاتے ہیں اس کے لیے ملا جی کی نسیحت ہے
مردار مچھے نکھاؤ منا چھے مردار کھانا ڈہیرا نبا چھے
یعنی مردار مچھلی نہیں کھاؤ اس کا کھانا منع ہے ۔ کیوں کہ مردار مچھلی کھانے آدمی بھینگا ہوجاتا ہے ۔
بوہروں میں دستور ہے کہ پہلے عورتوں اور بچوں کو کھانا کھلا کر رخصت کردیتے ہیں اور اس کے بعد مردوں کھاتے ہیں ۔ سب سے پہلے کھانے کا تھال عامل کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔ اس ساتھ معزز فرد شریک ہوتا ہے اور عامل کے ساتھ کھانا عزت کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے بعدعام افراد کھانا کھاتے ۔ بوہرے ہر تقریب خواہ غم یا خوشی ہو اس میں مرثیہ خوانی ضرور کراتے ہیں ۔
بوہروں میں طلاق اور عورتوں میں نکاح ثانی کا دستور بھی ہے ۔ گجرات کی بعض تاریخی کتب کے مطابق طلاق کے لیے شوہر خاموشی سے بیوی کے دوپٹے میں پانچ روپیے باندھ دیتا ہے ۔ عورت جب روپیے دیکھتی ہے تو سمجھ جاتی ہے کہ شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر جلی جاتا ہے ۔ یہ آپس میں کتنا ہی اختلاف کریں مگر دوسروں کے مقابلے یکجا ہوجاتے ہیں ۔
بوہروں میں لڑکی کا بھی خطنہ ہوتا ہے اور ایک بوڑھی عورت کرتی ہے جو مکہ ، مدینہ اور کربلا معلی ہوکر آئی ہو اور حضرت فاطمہ مزار کو بوسہ دے چکی ہو ۔ اس خطنہ کی تقریب میں مرد شریک نہیں ہوتے ہیں ۔ یہ خطنہ پانچ سے نو سال کی عمر میں کیا جاتا ہے ، ایک چھوٹے سے نشتر سے گہیوں کے دانے کے برابر شگاف لگایا جاتا ہے ۔
بوہروں نماز کے کپڑے علحید رکھتے ہیں ۔ مگر جب کپڑے دستیاب نہ ہوں تو پہنے ہوئے کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے ہیں ۔ سفید رنگ خاص بوہروں کا ہے اور یہ رنگ انہوں نے عباسیوں کی ضد میں جن کا رنگ سیاہ تھا اختیار کیا تھا ۔ بوہرے اپنی مذہبی کتابیں غیر طیبیوں نہیں دیکھاتے ہیں اور نہ ہی غیر مذہب والوں کے سامنے اپنے مذہب کے متعلق باتیں کرتے ہیں ۔ اس طرح یہ بحث و مباحثہ بھی نہیں کرتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جو کوئی اس کے خلاف عمل کرے گا وہ امام الزماں کی زیارت سے محروم رہے گا ۔ انہیں اپنی مذہبی باتیں چھپانے اور دوسروں کے ساتھ مذہبی تعلق نہ رکھنے کا حکم ہے ۔ اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کہ جب اپنے مذہب کی باتیں دوسرے لوگوں پر ظاہر کریں گے تو اعتراض کریں گے ۔ ان اعتراض نے ان میں شبہ ہوجائے گا ۔ یہاں تک کہ ان کے لوگ ان کے خلاف ہوجائیں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔