سات سمندر پار امریکی فنکار موسیقار مصور اور گیت کار باب ڈائلن! جس نے 1963 کے دوران اپنے گٹار کی تاریں چھیڑتے ہوئے اور گردن کے جھٹکے سے اپنی پیشانی پر پڑے ہوئے بالوں کی لٹ ایک طرف کرتے ہوئے گایا تھا اپنا مشہور گیت Don't Think Twice, It's All Right یعنی: جو بھی ہوا ٹھیک ہوا؛ دوبارہ مت سوچو!!
ممکن ہے کہ ان گنت گیت لکھنے اور گانے والے باب ڈائلن کے بہت سارے چاہنے والے اس گیت کو باب کا بہترین گیت قرار نہ دیں لیکن اگر کوئی کہے کہ ’’باب ڈائلن کے ٹاپ ٹین گیت لکھ کر دو‘‘ تو اس لسٹ میں یہ گیت بھی ہوگا۔
اور اس گیت کے علاوہ اس لسٹ میں باب ڈائلن کا مشہور گیت "Just Like A Womann" یعنی : بالکل ایک عورت کی طرح!! والا گیت بھی ہوگا اور اس میں ہوگا "Idiot Wind" یعنی ’’احمق ہوا‘‘ جس کے آخری بول ہیں:
’’احمق ہوا ہمارے کوٹوں کے کھلے بٹنوں سے گذرتی ہے
احمق ہوا ہمارے لکھے ہوئے خطوں سے گذرتی ہے
احمق ہوا ہماری یادوں کی گرد سے گذرتی ہے
ہم بھی اس ہوا کی طرح احمق ہیں میرے محبوب!!‘‘
باب ڈائلن کا شمار مغرب کے ان آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جو صرف گلوکاری کے لیے ہی نہیں بلکہ گیت کاری میں بھی اپنے پرستاروں کا بہت بڑا حلقہ رکھتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ جب باب ڈائلن کے نام کا اعلان نوبل انعام کے لیے ہوا تو اس سے محبت کرنے والوں کی ایک بہت بڑی بھیڑ نکل آئی۔ میڈیا سے موسیقی کے اداروں سے اور سفید بالوں میں جوانی کے موسم یاد کرنے والے ریٹائرڈ جوڑوں نے جی بھر کر اس کے گیت بھر سے سنے۔ اب وہ لوگ اب سینئر سٹیزن ہیں ۔ وہ لوگ آخری سانس تک فراموش نہیں کرسکتے گذشتہ صدی کا ساتواں عشرہ!!
جی ہاں! ستر کی دہائی!! یہ تو الگ موضوع ہے اور طویل بھی۔ اس عشرے میں صرف ہپی ازم ہی نہیں بلکہ انقلابی سیاست اور آرٹسٹک بغاوت اپنے عروج پر پہنچی۔ کیا وہ دن تھے جب باب ڈائلن تنہا نہیں تھا۔ جب رولنگ اسٹونس بھی تھا۔ وہ ڈورز کا دور بھی تھا اوربیچ بوائز کا بھی مگر کون فراموش کرسکتا ہے ان عجیب نوجوانوں کو جن کے بینڈ کا نام آج بھی مغربی موسیقی سے محبت کرنے والے ہر دل پر نقش ہے۔ کون فراموش کرسکتا ہے اس گروپ کو جس کا نام تھا ’’بیٹلز‘‘ وہ جو آئے اور چھائے جیسا جادو تھے۔ وہ دور صرف بینڈز کا نہ تھا۔ اس میں تنہا سنگرز بھی تھے۔ اس دور میں ایلوس پرسلی تھا۔ اس دور میں اسٹیو ونڈر تھا۔ اس دور میں کینی راجر تھا۔ اور سب سے اہم اور سب سے معتبر اس دور میں باب مارلے بھی تھا!!
باب ڈائلن جس کو ادب کا نوبل انعام دے کر نوبل انعام کے ختم ہوجانے والے امیج کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیوں کہ ایک عرصے سے نوبل انعام سیاسی مصلحت کی سولی پر لٹکا ہوا ہے۔ یہ انعام ہمیشہ مغربی سیاست کے مفادات کا تعین کرتا رہتا ہے اور کبھی کبھی یہ انعام دیا جاتا ہے ایسے ادیبوں؛ شاعروں اور ناول نگاروں کو جن کے باعث نوبل انعام کی ختم ہوتی حیثیت بحال ہوتی ہے۔
اس باراس انعام کے لیے ایک آرٹسٹ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ اتنا اچھا اور بالکل درست خیال سوچنے میں نوبل انعام دینے والی کمیٹی میں اس قدر دیر کیوں کردی؟ اس انعام پر جتنا حق شاعروں کا ہے اتنا ہی ان گلوکاروں کا بھی ہے جو شاعروں کے گیتوں کو اپنی آواز میں سما کر امر کردیتے ہیں۔ ادب کا انعام فن کے لیے بھی ہونا چاہئیے اور اگر نوبل کمیٹی ادب اور آرٹ کو الگ سمجھتی ہے تو پھر اسے ایک انعام کا اضافہ کرنا چاہئیے۔ کیوں کہ جس قدر معاشرے پر مغنی اثرانداز ہوتے ہیں اس قدر کوئی ناول نگار نہیں ہوتا۔ جس قدر لوگوں کے جذبات پر گلوکارانداز ہوتے ہیں شاعر نہیں! موسیقی ایک بہت بڑی طاقت ہے مگر نوبل انعام والوں نے اس کی اہمیت کو اس سے قبل کبھی محسوس نہیں کیا اور اس بار بھی انہوں نے مجبور ہوکر باب ڈائلن کو نوبل انعام دیا ہے ۔ کیوں کہ نثر اور نظم والی ادبی دنیا مسلسل زوال کا شکار ہے۔ مگر مجبوری میں ہی سہی اس کمیٹی نے ایک زبردست فیصلہ کیا ہے۔ اس نے اس باب ڈائلن کو نوبل انعام دیا ہے جو باب ڈائلن فوک؛ بلوز؛ راک ؛ کنٹری ۔۔۔!! کیا نہیں گایا؟ مگر اس نے صرف گایا ہی نہیں بلکہ اس نے اپنے گیت خود لکھے اور وہ گیت ایسے نہیں جو سازوں کے سہاروں کے سوا گر جائیں۔ گانے کے لیے لکھے جانے والے گیتوں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہوتا ہے کہ انہیں پڑھتے وقت بہت مایوسی ہوتی ہے۔ ان گیتوں میں وہ طاقت نہیں ہوتی کہ موسیقی کے بغیر دلوں میں جگہ بنا سکیں۔ ایسے گیت بہت ہیں۔ ان گیتوں کو پڑھتے وقت حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ وہی گیت جن کو سن کر جذبات مچل اٹھے تھے۔ اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ موسیقی کا جادو تھا۔ مگر باب مارلے کی طرح باب ڈائلن کے گیت ایسے نہیں کہ انہیں صرف سازوں کے ساتھ سنا جائے۔ ان گیتوں کو پڑھ پر بھی ایک کیفیت دل کو جکڑ لیتی ہے۔ وہ بہت پیارے گیت ہیں اور بیحد طویل بھی!! اس لیے تو جیسیکا ٹیلر نے باب ڈائلن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ کہانیاں سناتا ہے اور ان کہانیوں پر اعتبار آجاتا ہے‘‘
یہ آرٹ کا جادو ہے۔ یہ باب ڈائلن کا جادو ہے۔ یہ اس کے گٹار کا جادو ہے۔ مگر اس کے سر تنہا نہیں۔ وہ صرف ایک گلوکار نہیں۔ وہ ایک مصور بھی ہے اور ایک دانشور بھی اور ایک رائٹر بھی!!
اور اچھی بات ہے کہ وہ وہاں ہے جہاں موسیقی کے قدرداں ہیں۔ جہاںآرٹسٹ بھوکے نہیں مرتے۔ جہاں حکمراں کھڑے ہوکر آرٹسٹ کا استقبال کرتے ہیں۔ جہاں آرٹسٹوں کو عمر کے آخری حصے میں علاج کے لیے اپیلیں نہیں کرنا پڑتیں۔ جہاں آرٹسٹوں کو بوجھ نہیں بلکہ اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ایک آرٹسٹ پر محبتیں نچھاور ہوتی ہیں۔ جہاں وہ ایک خاص حیثیت کا مالک ہوتا ہے۔
باب ڈائلن وہاں ہے جہاں کا معاشرہ فنکار کے لیے فردوس سے کم نہیں۔ مگر ہمارے فنکار جہنم جیسے معاشرے میں جلتے رہتے ہیں۔۔وہ گاتے گاتے بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ ان کی بینائی محدود ہوجاتی ہے۔ ان کی سماعت کم ہوجاتی ہے۔ ان کے بچے بڑے ہوجاتے ہیں۔ اور وہ اپنے فنکار والد پر فخر کرنے کے بجائے سوچتے ہیں کہ’’کاش! بابا سر سمیٹنے کے بجائے سونا سمیٹے اور موسیقی پر دھیان دینے کے بجائے مال و دولت جمع کرنے کی کوشش کرتے!!
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔