کائنات کی داستان بہت طولانی ہے اور اس کا ہر مظہر اپنی جگہ ایک دفتر ہے۔ ہم نے بھی ایک کہانی چھیڑی تھی پر ابھی تک اسے سمیٹ نہیں پائے۔ بلیک ہولز سے جڑی اس کہانی کو اگر آپ پوری طرح سمجھنا چاہتے ہیں تو اس سلسلے کے دو اور مضامین کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ مضامین “کیا ہماری کائنات ایک بلیک ہول کے اندر ہے؟” اور “بلیک ہول کے راستے ماضی اور مستقبل کا سفر۔ ٹائم ٹریول ایک حقیقت” کے نام سے ہم سب پر شائع ہو چکے ہیں۔ ان مضامین میں ہم نے نظریہ اضافیت، کوانٹم فزکس، بلیک ہولز، کائناتی تشکیل، کثیرالکائناتی نظریے اور ورم ہولز کی ابتدائی بحث کا آغاز کیا تھا تاکہ ایک پس منظر کی تشکیل کی جا سکے۔ یہ پس منظر اس لیے ضروری تھا کہ مشہور ماہر طبعیات نکوڈیم پوپلوسکی کے اس نظریے کو سمجھا جا سکے جو کہتا ہے کہ فنا کے حتمی مظہر بلیک ہول کے اندر نہ صرف یہ کہ وجودیت کا امکان ہے بلکہ یہ وجود ایک مکمل کائنات کا بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بات سننے میں بڑی عجیب لگتی ہے پر یہ کائنات خود ایک کارخانہ حیرت ہے اس لیے دشت امکان کی وسعت کون ناپے۔ سائنس سے پوچھے جانے والا سب سے قدیم سوال کائنات کے آغاز سے متعلق ہے۔ یہ سوال سننے میں جتنا سادہ ہے اصل میں اتنا ہی دشوار اور پیچیدہ ہے اور خاص طور پر اس نسل سے جو تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک نظام شمسی سے آگے سفر کے ذرائع بھی پیدا نہیں کر سکی۔ ہم کائنات کے زمانی محیط میں ابھی بہت کم سن ہیں۔ ارب ہا ارب پرانی کائنات میں ہماری تحقیق کی لکیر چند ہزار سال بھی نہیں ہے۔ درحقیقت فلکیات کی اصل دنیا تو ہم نے محض چند سو سال پہلے کریدنا شروع کی ہے۔ اس صغر سنی میں اتنا بڑا سوال پوچھا تو جا سکتا ہے پر اس کا جواب ابھی بہت سے دبیز پردوں کے پیچھے چھپا ہے۔
انسانی تجسس اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان خود۔ اس تجسس نے ہزاروں یا شاید لاکھوں سال پہلے یہ سوال تراش لیا تھا کہ یہ سارا نظام کب، کیسے، کیونکر وجود میں آیا۔ ایک غیر سائنسی اور تحقیق اور علم سے نا آشنا ذہن نے پھر خود ایک آسان جواب ڈھونڈ لیا جس کے لیے نہ کسی ریاضی کے فارمولے کی ضرورت تھی، نہ پیچیدہ حساب کتاب کی اور نہ کسی طبعیاتی اصول کی۔ اس آسان جواب نے ایک یا ایک سے زیادہ ان دیکھے خالق تخلیق کر دیے۔ یہ ایک سادہ ترین اور غیر گنجلک راہ فرار تھی جس میں کسی مشاہداتی یا تجرباتی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی۔ انسانی شعور کی ایک تقریبا حیوانی سطح پر یہ جواب شافی تھا۔ اس جواب کے گرداگرد پھر پیشوائیت کا ایک طاقتور نظام تشکیل پا گیا جس کے آہستہ آہستہ مختلف مکتبہ فکر وجود میں آتے گئے۔ ان تمام مکتبہ ہائے فکر کے لیے سائنسی تشکیک زہر قاتل تھی کیونکہ اگر یہ مان لیا جاتا کہ سوالوں کے جواب ابھی نامکمل ہیں تو وہ بیانیہ جو اپنے آپ میں کاملیت کا دعوی کرتا تھا، زمین بوس ہو جاتا۔
اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یقین کے لیے مشاہداتی اور تجرباتی ثبوت کا بار اٹھانا ان میں کسی مکتب کے لیے ممکن ہی نہیں تھا۔ گلیلیو یا یعقوب الکندی جیسی امثال سے تاریخ بھری پڑی ہے جب سائنسدانوں کے انکشافات کو سانسدانوں سمیت بے رحمی سے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج آہستہ آہستہ انسانی شعور اس مقام کو پہنچ گیا ہے جہاں یہ ہتھکنڈے اب ممکن نہیں رہے اس لیے اب طرز عمل بدل دیا گیا ہے اور نئی تشریحات کا سہارا لے کر کسی نہ کسی طرح سائنس کے ساتھ قدیم فکر کو ہم آہنگ کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ تاہم آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو زمین کو چپٹا سمجھنے پر مصر ہیں۔ ایک سادہ جواب کے آگے مزاحمت کرتے کرتے سائنس کو صدیاں بیت گئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس کے پاس کوئی تقابلی حتمی جواب نہیں ہے کیونکہ سائنس کے نزدیک جواب سے زیادہ اہم جواب کا ثبوت ہے۔ یہ ضرور ہے کہ قدیم جامد جواب کے مقابل سائنس کا ارتقائی سفر روز نئے تجربات اور نئے مشاہدات میں مصروف ہے۔ ان کے نتیجے میں اہم نظریات کی تشکیل ہو رہی ہے۔ ہم کب کائنات کے رازوں پر پڑا پردہ چیر سکیں گے اس میں شاید ابھی وقت ہے پر سفر جاری ہے اور رفتار پہلے سے تیز تر ہے۔ اسی سفر میں ایک سنگ میل پوپلوسکی کا نظریہ ہے۔
پوپلوسکی اور سائنسدانوں کے مختلف گروہ پچھلے کئی عشروں سے اس نظریے کو کنگھال رہے ہیں جو کائنات کو بلیک ہول کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہے۔ بگ بینگ کے مطابق کائنات کا آغاز ایک سنگلرٹی یا ایک لامحدود مادے پر مشتمل ایک مختصر ترین نقطے سے ہوا اور یہ پھیل کر اربوں نوری سال پر محیط کائنات میں ڈھل گیا۔ افراط کے اس نظریے کے مطابق یہ بات سمجھنا گو آسان ہے کہ زمان و مکان کی ابتدا میں کیسے مادے کے ارتکاز میں موجود نسبتا حقیر تودے ستاروں اور کہکشاوں کی صورت اختیار کر گئے لیکن بگ بینگ کو مان لیا جائے تو بھی بہت سے سوال ہیں جو حل طلب ہیں۔
مثال کے طور پر بگ بینگ شروع کیسے ہوا؟ افراط اگر رکا تو کیسے رکا؟ اور یہ پراسرار تاریک توانائی کہاں سے آئی جس کی وجہ سے کائنات کے پھیلاو میں تیزی آئی؟
اگر یہ مانا جائے کہ ہماری کائنات لامحدود نہیں بلکہ ایک بلیک ہول کے اندر موجود ہے تو نہ صرف یہ کہ ان سوالوں کے بلکہ کئی اور سوالوں کے ممکنہ حد تک تسلی بخش جواب دینا ممکن ہے۔ اس سے ایک طبعیاتی طور پر قریبا ناممکن سنگلریٹی کے خیال کو بھی رد کرنا ممکن ہے۔ بلیک ہول کے اندر موجود کائنات کو طبعیات کے دو مرکزی نظریات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ان دونوں نظریات پر اس سلسلے کے پچھلے دو مضامین میں بحث کی جا چکی ہے۔
پہلا نظریہ ہمارا مقبول عام عمومی نظریہ اضافیت ہے۔ اس نظریے سے ہمیں کشش ثقل کے حقیقی تصور سے آگاہی ملی۔ عمومی نظریہ اضافیت کائنات کو ایک وسیع النظر پیمانے پر پرکھتا ہے۔ کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ زمان مکانی یا سپیس ٹائم کے کسی ایک نقطے پر ہوتا ہے۔ زمان مکانی کی سطح بڑے اجسام کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سورج جیسا بڑا جسم اپنی کثافت اور کمیت کی وجہ سے اس سطح میں نسبتا زیادہ بڑا گڑھا ڈالتا ہے۔ (اس بات کو ہم انتہائی تفصیل سے پچھلے مضمون میں سمجھ چکے ہیں) اس گڑھے کی وجہ سے سورج کے گرد گھومنے والے اجسام کے گردشی مدار تشکیل پاتے ہیں۔ اس گڑھے کی وجہ سے سورج کی طرف جانے والے یہ اجسام بظاہر سورج کی کشش ثقل کی وجہ سے ان مداروں میں سورج کے گرد چکر کاٹتے ہیں ۔
دوسرا نظریہ کوانٹم آلانیات یا کوانٹم مکینکس کا ہے۔ یہ کائنات کو وسیع النظر پیمانے پر نہیں بلکہ انتہائی چھوٹے جوہری پیمانے پر پرکھتا ہے۔ عمومی نظریہ اضافیت اور کوانٹم مکینکس برسوں سے ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے ہیں پر اب سائنسدان ان دونوں نظریات کو اکٹھا کر کے کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ اس سے جو نیا نظریہ تشکیل پائے گا اسے ہم کوانٹم گریویٹی یا کوانٹم کشش ثقل کہہ لیتے ہیں۔ یہ نیا نظریہ بلیک ہول کو جوہری سطح پر سمجھنے میں معاون ہو گا۔
ایسی پہلی کوشش 1960 میں ہوئی جب کوانٹم میکنکس اور عمومی نظریہ اضافیت کو ساتھ رکھ کر دیکھا گیا۔ اس کوشش کو اس سے جڑے سائنسدانوں کی نسبت سے آئن سٹائن۔کارٹن۔سیاما۔کبل نظریہ کشش ثقل کہا جاتا ہے ۔ اس نظریے سے کوانٹم گریویٹی کے ساتھ ساتھ کائنات کی ایک متبادل تصویر کشی کی طرف پہلا قدم بڑھایا گیا۔ عمومی نظریہ اضافیت میں کوانٹم مکینکس کے ایک مقبول نظریے گھماو یا اسپن spin کا تڑکا لگایا گیا۔ ایٹم اور الیکٹران جیسے چھوٹے ذرات ہمہ وقت گھماو کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے برف پر ایک آئس اسکیٹر کو تیزرفتاری سے اپنے ایکٹ کے اختتام پر گھومتے دیکھا ہو تو یہ تقریبا ایسا ہی منظر ہوتا ہے۔ اس گھماو کے باعث ان ذرات میں ایک مستقل اندرونی مومینٹم موجود رہتا ہے۔
اب ایک طرف زمان مکانی ہے جس میں ہر جسم حتی کہ ہر ذرہ بھی اپنی کمیت اور کثافت کے لحاظ سے خم ڈال رہا ہے اور دوسرا یہ اجسام ایسے ذرات پر مشتمل ہیں جو اپنے اندر ایک گھماو کی کیفیت رکھتے ہیں۔ ان دو خصوصیات کے تعامل سے ایک تیسری خاصیت پیدا ہو گی جسے ہم torsion یا مروڑ کہیں گے۔ جب ایک دھلے ہوئے کپڑے کو نچوڑنے کی غرض سے اسے مروڑ کر ایک بل دار شکل دی جاتی ہے تو تقریبا ایسی ہی صورت اس خاصیت کی ہے۔ اگر آپ اسے کائناتی تناظر میں سمجھنا چاہیں تو پہلے اپنے زمان مکانی کو ایک دو جہتی سطح کے بجائے یک جہتی لچکدار پلاسٹی سین سمجھ لیجیے جس سے بچے کھیلتے ہیں۔ اب پلاسٹی سین کو ایک پنسل نما شکل دے دیں۔ جب آپ اسے موڑیں گے تو یہ گویا زمان مکانی کا خم ہو گا اور جب آپ کناروں سے اسے گھما کر اس میں بل ڈال دیں گے تو یہ زمان مکانی کا مروڑ یا بل کہلائے گا۔ ایک انتہائی باریک پنسل کے خم کا مشاہدہ آسان ہے لیکن ذرا بھی دور سے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس میں بل ہیں یا نہیں۔ فرض کر لیجیے آپ کی کائنات بھی ایک باریک پنسل کی مانند ہے۔
اس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ زمان مکانی کے بل یا مروڑ کا حقیقی مشاہدہ صرف ایک ابتدائی کائنات یا اختتامی کائنات میں ممکن ہے۔ ابتدائی کائنات کب کی بیت چکی لیکن اختتامی کائنات ایک فنا کا مظہر ہے اور بلیک ہول بالکل ایسی کیفیت میں موجود ہے ۔ ابتدائی یا اختتامی کائنات کی شدید ترین کیفیت میں جب مادے کی افراط و تفریط اپنے عروج پر ہو ایسے وقت زمان مکانی کا بل اور زمان مکانی کا خم ایک دوسرے کے متضاد عمل کریں گے۔ عمومی نظریہ اضافیت کے تحت عظیم الجثہ ستارے اپنے ہی اندر سکڑ کر ایسے بلیک ہولز میں بدل جائیں گے جن سے روشنی کا فرار بھی ناممکن ہو گا