اگر بلیک ہول میں چھلانگ لگائیں گے تو کیا ہو گا؟ اس سوال کا ایک جواب شاید آپ نے پڑھا ہو کہ اس کی ٹائیڈل فورس اتنی زیادہ ہو گی کہ مسلز، ہڈیوں اور ٹشو کے لیول پر سویاں بن جائیں گی۔ زندگی کا خوشگوار اختتام نہیں ہو گا۔ یہ عام ستاروں کے کولپیس سے بننے والے بلیک ہول کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن اگر بلیک ہول کا سائز سورج سے ایک ہزار گنا سے زیادہ ہو جائے؟ اب معاملہ دلچسپ ہو جاتا ہے۔
اتنے بڑے بلیک ہول میں گریویٹی تو مضبوط ہے لیکن کھینچ دینے والی قوت نہیں۔ (اس کی وجہ ان کی ڈینسیٹی کم ہونا ہے)۔ اس میں جاتے وقت جی تو متلائے لیکن کائنات کے بڑے بلیک ہول میں گر کے آپ اصولی طور پر زندہ بچ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کیا جا سکتا ہے؟
یہ ایک عجیب تجربہ ہو گا۔ دور سے دیکھنے والے کو لگے گا کہ آپ ریڈ شفٹ ہو گئے ہیں، گرنے کی رفتار سست پڑتی جائے گی اور کبھی ایونٹ ہورائزن تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ جو لوگ آپ کو دیکھنے آئے ہیں، ان کو لگے گا کہ جیسے آہستہ ہوتے ہوتے رک گئے ہیں اور کبھی ایونٹ ہورائزن میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایونٹ ہورائزن پر وقت کی رفتار لامحدود سست ہو چکی ہو گی، وقت تھم گیا ہو گا۔ آپ کو دیکھنے والے بور ہو کر گھر چلے جائیں گے۔ لیکن آپ کے اپنے لئے؟ سب کچھ نارمل چل رہا ہو گا۔ سیدھے راستہ پر جا رہے ہوں گے۔ ایونٹ ہورائزن میں داخل ہو جائیں گے اور نامعلوم قسمت کا شکار ہو جائیں گے۔
کتنا اچھا ہو کہ اگر اسے ٹیسٹ کیا جا سکے؟ ایک مسئلہ یہ ہے کہ آپ اندر پہنچ کر باہر کی دنیا کو اپنے تجربے کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا سکیں گے۔ نہ کوئی دیکھ سکے گا اور نہ ہی اندر کی خبر باہر پہنچانے کا کسی بھی قسم کا کوئی بھی طریقہ اصولی طور پر بھی موجود ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے، مستقبل بعید میں، کسی ایسی ٹیکنالوجی سے لیس کوئی مخلوق، یا ہماری ہی دور دراز کی اگلی نسلیں، وہ طریقہ نکال سکتی ہیں کہ ہزاروں نوری سال کا سفر کر لیں (اس کا جلد ہونے کا کوئی امکان نہیں) تو یہ تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ ابھی کے لئے سوچ کا تجربہ سہی۔
آپ نے یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سب نے مر تو جانا ہی ہے تو کیوں نہ بلیک ہول کے ہاتھوں؟ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ہمراہ بلیک ہول کے گرد مدار میں محفوظ فاصلے پر ایک بڑی الوداعی پارٹی کرتے ہیں۔ بہترین کپڑے پہن کر، سج سنور کر ایک شیشے کے گنبد والے ایک خلائی جہاز میں سوار ہو کر ایونٹ ہورائزن کا رخ کرتے ہیں۔ سب لوگ آپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اپنا ہاتھ الوداعی انداز میں بلند کر کے اپنے عزیز و اقارب کی طرف کر کے لہرایا۔ اس کی ٹائمنگ ٹھیک رکھنا پڑے گی کیونکہ دیکھنے والوں کے لئے یہ پوز ہمیشہ ایسا ہی رہ جائے گا۔ آپ سست رفتار ہوتے جائیں گے، یہاں تک کہ دیکھنے والوں کے لئے سب تھم جائے گا۔ آپ کو بلیک ہول کی طرف روانہ کرنے والے دوست آپ کو دیکھتے رہیں گے۔ اس الوداعی تقریب میں گپ شپ ہوتی رہے گی۔ پارٹی کے بعد گرما گرم چائے کے گرد آپ کی زندگی کی باتیں کی جاتی رہیں۔ آپ ان کو سامنے نظر آ رہے ہیں جیسے وقت میں ٹھہری ایک تصویر ہو۔ اور پھر سب واپس گھروں کو چلے جائیں گے۔
کیا یہ موت ہو گی یا ایک لازوال زندگی؟ بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن پر آپ کا الوداع رہ جائے گا۔ آپ پر خود کیا بیتی؟ یہ کیسا تجربہ رہا؟ آپ نے کیا محسوس کیا؟ یہ صرف آپ کو پتا ہو گا۔ اور آپ کسی کو بھی نہیں بتا سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیک ہولز کو اکثر موت کے اجسام کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن ہر چیز کی طرح ان کو دیکھنے کا بھی ایک اور طریقہ ہے۔ یہ شاندار لمبی زندگی کے آبجیکٹ ہیں۔ آج سے ایک ٹریلین سال بعد ستارے بجھ چکے ہوں گے، کائنات تاریک ہو چکی ہو گی۔ ستاروں کے بننے کا عمل ختم ہو چکا ہو گا۔ ستاروں کی باقیات سفید بونے ستاروں، نیوٹرون ستاروں کی صورت میں بکھری ہوں گی۔ نئے ستاروں کے لئے گیس ختم ہو چکی ہو گی۔ سب سے چھوٹے ستاروں کی موت سرخ بونوں کے طور پر آخر میں ہو گی۔ صرف ہماری ہی نہیں۔ ہر کہکشاں میں اندھیرا ہو گا۔ سیاراتی نظام ڈیکے ہو جائیں گے۔ سیارے آوارہ ہو کر خلا میں بھٹکنے لگیں گے۔ کہکشائیں تبخیر کا شکار ہوں گی۔ ستاروں کی باقیات بھی گہری خلا کا رخ کریں گی۔ انٹروپی جیت جائے گی۔ کائنات ایک انتہائی پتلی یخنی جیسی ہو گی۔
اس تاریک کائنات کیلئے اداس نہ ہوں۔ اس تاریک کائنات کے تاریک ترین اجسام زندگی اور توانائی کے انجن ہوں گے۔ بلیک ہول استثنا ہوں گے۔ یہ کائنات کے آخری کنکریٹ آبجیکٹ ہوں گے۔ توانائی کے لئے ہمیں ستاروں کی چمک کی ضرورت نہیں۔ آسمان کے فیوژن ری ایکٹر کا ہونا اس کے لئے شرط نہیں۔ اس کے اور بھی طریقہ ہیں۔ بلیک ہول، اس وقت کی کسی جدید تہذیب کے لئے توانائی کا ذریعہ ہوں گے۔ ان کی مدد سے یہ اپنی تہذیبی ضروریات بہت لمبے عرصے تک پوری کرتی رہے گیں۔
ایک ٹریلین سال سے لے کر 10^50 سال تک (اور یہ بہت ہی بڑے اعداد اور بہت ہی لمبا عرصہ ہے) یہ توانائی پروب گرا کر اور ان کے حاصل کردہ اینگولر مومنٹم کے ذریعے آسان رہے گا۔ یہ بلیک ہول کی رویٹیشنل انرجی سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ ہے (اس کا طریقہ نیچے دئے گئے لنک سے)۔ اس وقت کی تہذیبیں بلیک ہولز کے گرد جمع ہوں گی۔ جس سے اپنا وائرلیس انٹرنیٹ اور نہ جانے کیا کچھ چلا رہی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کا آخری باب آ گیا ہے۔ یہ اس کے بعد سے لے کر 10^100 برس کا وقت ہے۔
زندگی کو درجہ حرارت کا فرق چاہیے۔ زمین پر یہ گرم سورج اور ٹھنڈے آسمان کا فرق ہے۔ لیکن بلیک ہولز کے مستقبل میں مائیکروویز والے آسمان میں ہاکنگ ریڈی ایشن سے آنے والا درجہ حرارت تھوڑا ہو گا۔ ان کو اس کمزور توانائی کو کشید کرنے کے لئے بلیک ہول کے گرد ڈائیسن سفئیر بنانا پڑے گا۔ (اس کی تفصیل نیچے لنک سے)۔ بچ جانے والے آخری بلیک ہول دیوہیکل بلیک ہول ہوں گے۔ ان کی تبخیر ایک گوگل (ایک کے بعد سو صفر) سال بعد ہو جائے گی۔
یہ اس طویل کائناتی موسیقی کے ساز کا آخری نوٹ ہو گا۔ سُپر ایڈوانسڈ تہٰذیب مستقبل میں دور کہیں اس آخری بلیک ہول کے گرد جمع ہو گی۔ اس سے آنے والی توانائی کی آخری رمق سے اپنے ہاتھ تاپ رہی ہو گی۔ توانائی تو زیادہ خارج نہیں کر رہا ہو گا لیکن ان کو اس توانائی کے آخری قطرے کو بھی استعمال کرنا آتا ہو گا۔
کائنات کی موت کی آخری ہچکی کے وقت۔ یہ آخری نفوس ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے، مسکرائیں گے اور کہیں گے۔ ایک گوگل سال ۔۔۔ کیا ہی زبردست کہانی رہی۔ کیا ہی شاندار ساز تھا۔ پرسرار اور پرلطف۔ الوداع کائنات۔
اور بس یوں ۔۔۔ وہ جو کبھی عظیم الشان سیاہ جسم تھا، اس کی آخری تبخیر کے ساتھ، اس کائناتی کتاب کا آخری صفحہ پلٹ جائے گا۔ ایک پرسرار جادوئی کہانی کی طرح اپنے طرح طرح کے پُر پیچ راستوں سے گزار کر اس کے آخر میں بھی وہی لکھا ہو گا جو ہر کہانی کے آخر میں ہے۔
ختم شُد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو پڑھنے کے لئے یہ کتاب
Einstein’s Monsters: The Life and Times of Black Holes by Chris Impey
بلیک ہول سے توانائی حاصل کرنے کا طریقہ
ڈائیسن سفئیر
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...