::: " بیانیہ شاعری کیا ہے؟ اور اس کی اقسام کیا ہیں؟" :::
بیانیہ شاعری بنیادی طور پر قصہ گوئی کی ہیت میں ہوتی ہے۔ اس کا پلاٹ نغماتی، ڈرامائی اور سادہ ہوتا ہے۔ جس میں کرداروں کی مدد سے ڈرامائی مکالموں اور آوازوں سے شاعرانہ آہنگ اور مخصوص "تمثیلی نمونون " { PATTERNS}کے ساتھ لکھی جاتی ہے . اس میں رومانیت کا تناسب حاوی ہوتا ہے۔ بیانیہ شاعری مختصر اور طویل پیرائے میں بھی لکھی جاتی ہے۔ جو زبانی داستان گوئی کی صورت اختیار کرکےایک "اظہاری فن" بھی بن جاتا ہے۔ جس طرح اردو میں داستان گوئی کی ایک توانا روایت موجود ہے۔ اس میں کوشش کی جاتی ہے کہ اس میں پیچیدگی ، زو معنویت اور ابہام پیدا نہ ہو۔ اس کی معروضی رسائی مثالی ہوتی ہے۔ اس میں مرکذی کردار {ہیرو}کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور بیانہ شاعری کی کہانی اس کے گرد اور دیگر کرداروں کے تانے بانوں سے بنی جاتی ہے۔ جس طرح دیا شنکر نسیم کی مثنوی" گل بکاولی" میں شہزادہ تاج الملوک کے گرد بیانیہ گردش کرتا ہے۔ ۔ اس میں رومانس، اساطیریت،، دوستی، قید کی ازیتین اور طلسمی واقعات بھرے پڑے ہیں۔ مثنوی کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ شہزادہ تاج الملوک اپنے باپ کے اندھے پن کا علاج کرنے کے لیے پریوں کی شہزادی بکاولی کے باغ سے پھول چرالیتا ہے۔ بکاولی اپنے پھول کی تلاش میں نکلتی ہے لیکن شہزادے کو دیکھ کرپہلی ہی نظر میں اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ بکاولی کی ماں اپنی بیٹی کو ایک آدم زاد کے ساتھ پاکر آگ بگولا ہو جاتی ہے اور شہزادے کو زیرِ زمین قید کر دیتی ہے۔ لیکن شہزادی کی وفادارسہیلی دلبر کی وجہ سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اورآخر میں تاج الملوک اور بکاولی کی شادی ہو جاتی ہے۔۔اسی طرح مرزا شوق لکھنوی کی مثنوی " زہر عشق ہے۔ بقول عبد الباری قاسمی کےزہر عشق نواب مرزاشوقؔ لکھنوی کی معرکۃ الاراء مثنوی ہے ،یہ مثنوی اختصار،شدت جذبات،زبان و بحان کی سادگی،محاورات کی برجستگی،مکالمہ نگاری،خوبصورت موسیقیت اور بہترین تہذیبی عکاسی کی وجہ سے ادب میں بہت اہم مقام رکھتی ہے اور اس کا شمار اردو کی اہم ترین مثنویوں میں ہوتا ہے،زہر عشق گرچہ ایک مختصر عشقیہ داستان ہے ،اس میں نہ بہت سے مناظر ہیں اور نہ ہی کرداروں کی بھر مار ،نہ مافوق الفطرت عناصر ہیں اور نہ ہی بادشاہ و ساحر ،اس کے باوجود مرزا شوقؔ نے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ان کی مہارت پر اچھے اچھے ادیب و شاعر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں ،انہوں نے لکھنئو کی بیگماتی زبان ،ضرب الامثال اور محاورات کو فنکارانہ انداز سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنئو کی معاشرتی جھلکیوںں کو جس لطیف پیرایہ میں سمویا ہے قابل دید ہے ویسے نمونے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں ،زہر عشق کا واقعہ گرچہ روایتی ہی ہے؛مگر جذبات نگاری اس قدر اتم درجہ ہے کہ قاری اسے اپنا رنج و غم سمجھنے لگتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ایک فرضی قصہ کو شوقؔ اصل اور حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو غلط نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے نقادان فن نے اس کی ادبی حیثیت و اہمیت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس کے واقعہ کو بھی سچا قرار دینے پر مجبور ہوئے ہیں اور مرزا شوقؔ کے پہلے تذکرہ نگار عطاء اللہ پالوی نے تو اسے خود شوق کاذاتی واقعہ قرار دیا ہے ،اس میں ۴۵۵ اشعار ہیں بیان کا انداز بھی عام مثنویوں کی طرح ہی ہے؛مگر شوقؔ نے اپنے فن کو بروئے کار لاکر اسے منفردمقام پر کھڑا کر دیا ہے ورنہ اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں اس کے باوجود انہوں نے جذبات نگاری اور سوزوگداز کے ذریعہ ان خامیوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور قاری پرایسا گہرااثر ہوتا ہے کہ وہ فنی خامیوں پر توجہ نہیں دے پاتا اس مقالہ میں میں نے زہر عشق کا مختلف حیثیتوں سے جائزہ لیں گے جس سے جہاں اس کی ادبی مسلہ حیثیت واضح ہو جائے گی وہیں مرزا شوق کا ادبی مقام بھی نمایاں نظر آنے لگے گا "۔
اس قسم کی شاعری ہمیں ٹینسن کی نظم ، Idylls of the King ولیم ورتھ ورس کی نظم " مائیکل " ، اور والٹر اسکاٹ کی نظم LAY OF THE LAST میں دکھائی دیتا ہے۔ مغرب میں لکھی ہوئی چند بیانہ شاعری کے نمونے یہ ہیں۔
The Prelude by William Wordsworth،۔۔۔۔The Rime of the Ancient Mariner by Samuel ، ۔۔۔،Lamia by John Keats،۔۔۔۔Out, Out- by Robert Frost
Taylor Coleridge
بیانیہ شاعری کی چار/4 اقسام ہوتی ہیں:
1۔ گیت / نظم نگاری {BALLAD}: یہ روایتی کہانیوں سے اخذ کی جاتی ہے۔ اس میں اساطیری واقعات کو نغموں یا گیتوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک شاعرانہ گیت ہوتا ہے جس کو CUATRUINS کا نام دیا گیا ہے۔ جو ایک قطعہ یا رباعی کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے اس کا آہنگ ABCB سے ترتیب پاتاہے۔انیسوی صدی میں اس قسم کی بیانیہ شاعری کو " آہستگی کا رومانوی گیت" بھی کہا گیا۔ 60 اور 70 کہ
دہائی میں مقبول رہا۔
2۔ "لے" {LAY}۔۔۔ اس کو انگریزی میں " لائی "بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے ڈانڈے فرانسیسی بیانیہ شاعری سے ملتے ہیں۔ یہ انگریزی شاعری میں " برٹن رے" کی شکل میں سامنے آئی۔ جس میں ماورائی تصورات کی بھرمار ہوتی تھی۔
3۔ رزمیہ{ EPIC} : یہ شاعرانہ بیانیہ ہے۔ جس میں ایک ہیرو کے بہادری اور کارناموں کو پرجوش طریقے سے قلم بند کیا جاتا ہے۔ جیسے اوڈیسی، بن حر، سپرمین، رابن ہڈ، اما م حسین {رض} ،عمرو مختار ، مہدی سوڈانی وغیرہ۔
4۔ دہقانی گیت یا قصیدہ ۔ { DYLL} : اس قسم کی بیانہ نظموں میں ہیرو کو استعاروں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ جو عینی نوعیت کا بھی ہوتا ہے جس طرح ماتھر لوتھر کنگ، گاندھی جی، دلا بھٹی، خوشحال خان خٹک ، ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، بخت خان بھگت سنگھ، پھولن دیوی پر لکھی گئی بیانیہ شاعری ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔