کن بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیان دینے والے کو ارتقاء کی سائنس کی سمجھ نہیں ہے
قدیر قریشی
اگست 15، 2018
قسط نمبر4
(نوٹ: پچھلی قسطوں کا متن بھی اسی پوسٹ میں نیچے موجود ہے)
ذیل میں کچھ ایسے بیانات درج ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیان دینے والے کو ارتقاء کی سائنس کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے- ایسے لوگوں سے ارتقاء کے موضوع پر بحث کرنا محض وقت کا ضیاع ہوتا ہے
16- ارتقاء کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا
یہ دعویٰ بھی وہی لوگ کرتے ہیں جو جدید سائنس کو سٹڈی کرنے کا تکلف نہیں کرتے بلکہ عموماً صرف سنی سنائی باتوں کو دہرا رہے ہوتے ہیں- ارتقاء کے نظریے کی بنیاد اس مشاہدے پر ہے کہ ہر نئی نسل پرانی نسل سے کچھ مختلف ہوتی ہے – نسل در نسل یہ تبدیلیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں- ہزاروں لاکھوں پشتوں میں یہ تبدیلیاں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ اب یہ نسل لاکھوں پشتوں پرانی نسل سے کہیں مختلف نظر آتی ہے- گویا ارتقاء کا عمل ہزاروں لاکھوں پشتوں پر محیط ہوتا ہے- ایسے جانور جن میں بلوغت پیدائش کے چند سال بعد آتی ہے ان کی ہزاروں لاکھوں پشتوں کے مشاہدے کے لیے لاکھوں سال کا عرصہ درکار ہے چنانچہ ایک انسانی زندگی میں ہم اس عمل کا مشاہدہ اصولاً بھی نہیں کر سکتے- تاہم جن جانوروں کی بلوغت پیدائش کے چند دن بعد آ جاتی ہے (مثلاً پھلوں کی مکھیاں) ان کی ہزاروں پشتوں کا مشاہدہ اصولاً چند دہائیوں میں کیا جا سکتا ہے- اور ہم پھلوں کی مکھیوں میں ارتقاء کے عمل کا کئی بار مشاہدہ کر چکے ہیں- بیکٹیریا جو ہر چند گھنٹے بعد اپنی کاپی بناتے ہیں ان کی لاکھوں پشتوں کا مشاہدہ انسانی زندگی میں کیا جا سکتا ہے- ای کولائی بیکٹیریا ( E-Coli bacteria ) میں ارتقاء کے عمل کا مشاہدہ کئی لیبارٹریز میں آزادانہ طور پر کیا جا چکا ہے-
17- سائنس نے ارتقاء کو غلط ثابت کر دیا ہے
ارتقاء کے مخالفین کا یہ بیان مضحکہ خیز حد تک بے بنیاد ہے اور سائنس سے مکمل لاعلمی ظاہر کرتا ہے- ارتقاء کا نظریہ حیاتیات کی سائنس کا ایک بنیادی نظریہ ہے- تمام کی تمام جدید حیاتیات ارتقاء کے نظریے پر استوار ہے- ماہرین حیاتیات کی واضح اکثریت ارتقاء کو نہ صرف درست تسلیم کرتی ہے بلکہ اسے حیاتیاتی انواع کے تنوع کی بہترین توجیہہ قرار دیتی ہے- ہر سال ارتقاء کے موضوع پر ہزاروں سائنسی پیپرز شائع ہوتے ہیں جنہیں لاکھوں سائنس دان پڑھتے ہیں- لیکن حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک کسی بھی سائنسی جریدے میں ایک بھی ایسا سائنسی پیپر شائع نہیں ہوا جو واضح طور پر ارتقاء کے نظریے کو رد کرتا ہو- چنانچہ اس قسم کے بیانات صرف وہی لوگ دیتے ہیں جنہیں نہ تو خود سائنس کی کچھ سمجھ ہوتی ہے اور نہ ہی ان بیانات کو درست سمجھنے والوں کو سائنس کا کچھ علم ہوتا ہے-
18- ہزاروں سائنس دان ارتقاء کے نظریے کو غلط قرار دے چکے ہیں
سائنس کے کسی بھی نظریے کو دو طریقوں سے چیلنج کیا جا سکتا ہے- پہلا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس نظریے کو اچھی طرح سے سمجھ لیں، اس پر ہونے والی ریسرچ کا تفصیلی جائزہ لیں، اس سے متعلق سائنسی ماڈلز کو سمجھیں اور پھر اس ماڈل میں سقم تلاش کر کے اس پر پیپرز لکھیں- اس صورت میں اس بات سے ذرہ برابر فرق نہیں پڑے گا کہ سائنس دانوں میں کتنے اس نظریے کو درست تسلیم کرتے ہیں اور کتنے غلط- دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس نظریے کو سمجھے بغیر صرف سنی سنائی باتوں کو دہراتے رہیں، کسی سائنسی نظریے کی صرف اس وجہ سے مخالفت کریں کہ آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظریہ غلط ہے یا وہ نظریہ آپ کے عقائد کے منافی ہے، اور اس نظریے کو رد کرنے میں منطقی مغالطوں سے کام لیں- مندرجہ بالا بیان دوسرے طریقے کے زمرے میں آتا ہے- یہ کہنا کہ لوگ یا کوئی صاحبِ علم کسی نظریے کے خلاف ہے ایک منطقی مغالطہ ہے جسے appeal to authority کہا جاتا ہے- سائنس میں صرف شواہد کی بالادستی ہوتی ہے، کسی مقتدر ہستی کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی
خاص طور پر جب ارتقاء کے خلاف یہ دعویٰ پیش کیا جاتا ہے کہ ہزاروں سائنس دان ارتقاء کے خلاف ہیں تو اس بیان میں علمی بد دیانتی بھی شامل ہوتی ہے- اگر آپ کسی ایسی لسٹ کا بغور جائزہ لیں جن میں ان سائنسدانوں کے نام درج ہوتے ہیں جو ارتقاء کے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثریت کا حیاتیات کی سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- حیاتیات کی سائنس کے علاوہ کسی اور سائنس کے ماہر کا ارتقاء کے بارے میں کوئی بھی بیان محض ایک عام شہری کا بیان تصور ہوتا ہے- اس کے علاوہ سائنس دان اپنی ریسرچ سائنسی جریدوں میں شائع کرتے ہیں انہیں انٹرنیٹ بلاگز میں شائع نہیں کرتے- اس کے علاوہ اکثر اوقات سائنس دانوں کے بیانات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اسے غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے- مثال کے طور پر اگر کسی سائنس دان نے جینیات کے حوالے سے کوئی نیا مفروضہ پیش کیا اور کسی دوسرے سائنس دان نے اس نئے مفروضے کو غلط قرار دیا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوسرا سائنس دان ارتقاء کو غلط قرار دے رہا ہے بلکہ وہ صرف اس نئے مفروضے پر محدود انداز میں ہی تنقید کر رہا ہوتا ہے- ماہرینِ حیاتیات کی غالب اکثریت ارتقاء کو درست تسلیم کرتی ہے- اس قسم کی محدود تنقید صرف حیاتیات میں ہی نہیں بلکہ سائنس کے ہر شعبے میں ہوتی ہے اور اسی طریقے سے سائنس میں نئی دریافتوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے-
19- انسان دوسرے جانوروں سے زیادہ ارتقاء یافتہ ہے
جو لوگ سائنس سے واقف نہیں ہوتے ان میں سے اکثر کے ذہن میں ارتقاء کے نظریے کا تصور یہ ہوتا ہے کہ ارتقاء کے پراسیس کا مقصد انسان کو پیدا کرنا ہے یا یہ کہ انسان باقی جانوروں سے زیادہ ارتقاء یافتہ ہے- حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء کا پراسیس صرف ایک کام کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انواع میں ماحول کی مطابقت کو بہتر بناتا ہے- یہ عمل باقی جانوروں پر بھی اتنا ہی لاگو ہوتا ہے جتنا انسانوں پر- زمین پر زندگی کا آغاز چار ارب سال پہلے ہوا اور اس وقت سے زمین پر زندگی مسلسل ارتقاء کے عمل سے گزر رہہ ہے- چنانچہ انسان اور تمام دوسری موجودہ انواع سب ارتقا کے عمل سے گزر رہے ہیں اور سب کے سب اتنے ہی ارتقاء یافتہ ہیں جتنا کہ انسان- چونکہ سب جانوروں کا ماحول مختلف ہوتا ہے اس لیے ان کی خصوصیات بھی مختلف ہوتی ہیں لیکن کوئی ایک جانور کسی دوسرے جانور سے کم یا زیادہ ارتقاء یافتہ نہیں ہے-
20- سائنس دان ارتقاء پر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں
ایسا دعویٰ عموماً وہ لوگ کرتے ہیں جو ارتقاء کی سائنس کی مخالفت اپنے عقائد کی وجہ سے کرتے ہیں- سائنس کا کسی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی سائنس کے کسی نظریے کو بغیر شواہد کے درست تسلیم کیا جاتا ہے- چنانچہ سائنس کا کوئی بھی نظریہ اس وجہ سے درست تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کے حق میں بہت سے شواہد موجود ہوتے ہیں اور اس کے خلاف ایک بھی ایسا مشاہدہ میسر نہیں ہوتا جو واضح طور پر اس نظریے کو رد کرتا ہو- ارتقاء کا نظریہ بھی سائنس کا ہی ایک نظریہ ہے جو مضبوط شواہد کی وجہ سے قائم ہے- لہٰذا یہ دعویٰ انتہائی بے بنیاد ہے کہ سائنس دان ارتقاء پر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں- ارتقاء کے نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لیے اس کے مخالفین کو کم از کم ایک ایسا مشاہدہ پیش کرنا ہو گا جو ارتقاء کے نظریے کو واضح طور پر رد کرتا ہو- مثال کے طور پر ارتقاء کا نظریہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسان اس دنیا میں کروڑوں سالوں سے نہیں ہے بلکہ محض چند لاکھ سال پہلے ارتقاء پذیر ہوا ہے- اسی طرح شیر کی نوع تقریباً چالیس لاکھ سال پہلے ارتقاء پذیر ہوئی- چنانچہ اگر انسان کا کوئی ایسا فاسل مل جائے جو دو کروڑ سال پرانا ہو یا شیر کا ایسا فاسل مل جائے جو ایک ارب سال پرانا ہو تو اس سے ارتقاء کا نظریہ واضح طور پر غلط ثابت ہو جائے گا- لیکن جب تک ایسے شواہد پیش نہیں کیے جاتے جو ارتقاء کے نظریے کو واضح طور پر رد کرتے ہوں تب تک ارتقاء کا نظریہ درست تصور کیا جائے گا-
پچھلی قسطوں کا متن:
1۔ 'زمین پر microevolution تو ممکن ہے لیکن macroevolution ممکن نہیں ہے'
ایسے حضرات بیالوجی سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں اور سائنس کی کچھ سمجھ رکھتے ہیں – ارتقاء کے ثبوت اتنے زیادہ ہیں کہ ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے ارتقاء کو مکمل طور پر مسترد کرنا ناممکن ہو جاتا ہے – لیکن یہ حضرات یہ بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ انسان کا ارتقاء باقی جانوروں کی طرح لاکھوں کروڑوں سالوں میں ہوا ہے – چنانچہ ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ خوردبینی اجسام مثلاً بیکٹیریا اور وائرسز میں تو ارتقاء ہوتا ہے لیکن ارتقاء سے نئے انواع ظہور پذیر نہیں ہو سکتے – تاہم فطری قوانین میں مائیکرو یا میکرو کی کوئی تخصیص نہیں ہے – چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لاکھوں کروڑوں سال میں جمع ہوتی رہتی ہے اور ان کا مجموعی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انواع میں بہت زیادہ تبدیلیاں آ چکی ہوتی ہیں – ان تبدیلیوں کو ہم اپنی آسانی کے لیے میکرو کہہ دیتے ہیں
2۔ 'اگر ارتقاء درست ہے تو کائنات کیسے وجود میں آئی'
ارتقاء کا نظریہ زمین پر حیات کے ارتقاء کے بارے میں بات کرتا ہے اور صرف زمین پر پائی جانے والی حیاتیاتی انواع پر لاگو ہوتا ہے – ارتقاء کا نظریہ کائنات کے آغاز کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیتا – اگر آپ کو کائنات کے آغاز کے بارے میں سائنسی نظریات کو سمجھنا ہے تو بگ بینگ کاسمولوجی کا مطالعہ کیجیے
3- 'نظریہ ارتقاء غلط ہے کیونکہ یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو پایا کہ زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا'
اگر کوئی شخص زندگی کے آغاز پر سوال اٹھائے تو وہ نظریہِ ارتقاء پر بحث نہیں کر رہا بلکہ abiogenesis پر بحث کر رہا ہے – نظریہ ارتقاء صرف اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا میں رنگارنگ انواع کیسے وجود میں آئیں
4- 'ارتقاء اب رک کیوں گیا ہے'
اگر کوئی شخص یہ سوال کرے تو جان لیجیے کہ اس شخص کا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے – ارتقاء کا عمل ایک مسلسل عمل ہے جو ماضی میں بھی جاری تھا، آج بھی جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گا – یہ عمل اتنا سست رفتار ہوتا ہے کہ ہم ایک انسانی زندگی میں کثیر خلوی جانوروں کا ارتقاء نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ارتقاء کے عمل میں لاکھوں پشتوں کے بعد اتنی نمایاں تبدیلیاں ہوتی ہیں جنہیں انسان واضح طور پر محسوس کر سکے – البتہ یک خلوی جانوروں میں لاکھوں پشتیں چند سالوں میں ہی پیدا ہو جاتی ہیں اس لیے یک خلوی جانوروں میں ارتقاء کا مشاہدہ نسبتاً آسان ہوتا ہے اور لیبارٹری اور فیلڈ دونوں میں کئی یک خلوی جانداروں کا ارتقاء مشاہدہ کیا گیا ہے
5- 'ارتقاء کا مقصد اور منتہا انسان تھا'
اگر کوئی شخص ایسا بیان دے تو سمجھ لیجیے کہ اس شخص سے بحث سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک تو اسے ارتقاء کی سائنس کا علم نہیں ہے اور دوسرے وہ پہلے سے ہی یہ رائے بنا چکا ہے کہ انسان ارتقاء کا مقصد تھا اور انسان تمام جانوروں میں بہترین ہے – ارتقاء کا کوئی مقصد یا کوئی منزل نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس عمل سے وہ جانور کامیاب نکلتے ہیں جن میں رینڈم میوٹیشنز سے ماحول سے مطابقت میں اضافہ ہوتا ہے
6- 'آج کے بندر انسان کیوں نہیں بن رہے' یا 'اگر انسان بندر سے بنا تو ابھی تک بندر کیوں موجود ہیں'
بہتر یہ ہو گا کہ ایسے شخص کے ساتھ بحث فوراً بند کر دیں کیونکہ ایسی بحث سے کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا – ایسا بیان وہی شخص دے سکتا ہے جس کو ارتقاء کی سائنس کی ابجد سے بھی واقفیت نہ ہو – انسان کا ارتقاء موجودہ بندروں سے نہیں ہوا اور نہ ہی اس بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اب سے کروڑوں سال بعد موجودہ انسان یا موجودہ بندر کس حالت میں ہوں گے – ارتقائی تبدیلیوں کے مشاہدے کے لیے لاکھوں کروڑوں سال درکار ہوتے ہیں چنانچہ ہماری زندگی میں بندروں میں کوئی ایسی ارتقائی تبدیلی ممکن نہیں ہے جس کا ہم آسانی سے مشاہدہ کر سکیں
7- 'آپ اگر بندر کی اولاد بننا چاہتے ہیں تو بنیے – ہم تو انسان کی اولاد ہیں
اگر آپ کو کوئی شخص بندر کی اولاد ہونے کا طعنہ دے تو جان لیجیے کہ ان سے رخصت لینے کا وقت آن پہنچا ہے – ایسے اشخاص کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہوتی ہے اور نہ ہی تہذیب – اس قسم کے بیانات ad hominem یعنی شخصی تضحیک کے زمرے میں آتے ہیں جو بدترین قسم کا منطقی مغالطہ ہے – اس میں لوگ بحث کا رخ دلیلوں کے بجائے لوگوں کی تضحیک کی طرف کر دیتے ہیں – ایسی صورت میں تعمیری بحث ناممکن ہو جاتی ہے
8- ‘ارتقاء حرحرکیات کے قوانین کی خلاف ورزی ہے’
تھرموڈائنیمکس یا حرحرکیات کا دوسرا قانون یہ کہتا ہے کسی بھی بند یعنی closed سسٹم میں انٹروپی یا بے ہنگم پن مسلسل بڑھتا رہتا ہے لیکن کبھی کم نہیں ہوتا – بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس قانون کی رو سے زمین پر زندگی کا ظہور پذیر ہو جانا اصولاً ناممکن ہے کیونکہ زندگی میں ایک ترتیب پائی جاتی ہے جو اس قانون کی رو سے پیدا ہونا ناممکن ہے – لیکن حرحرکیات کا انٹروپی کے بڑھنے کا اصول صرف بند سسٹمز پر ہی لاگو ہوتا ہے جس میں نہ تو کوئی توانائی شامل ہو رہی ہو اور نہ ہی کوئی توانائی خارج ہو رہی ہو – زمین ایک کلوزڈ سسٹم نہیں ہے کیونکہ زمین پر سورج کی توانائی کثیر تعداد میں داخل ہوتی ہے – اس توانائی کے استعمال سے ہی زندگی ترتیب پاتی ہے – در حقیقت زندگی کے بنیادی تعاملات توانائی کے حصول کا ہی کام کرتے ہیں – اس توانائی سے خلیے اپنا اندرونی نظام برقرار رکھتے ہیں – اس کے علاوہ زمین کے اندر بھی حرارت کی صورت میں کثیر مقدار میں توانائی موجود ہے جو وقتاً فوقتاً زمین کی سطح پر خارج ہوتی رہتی ہے – زندگی کے آغاز کے متعلق ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ زندگی کا آغاز سمندر کی تہہ میں موجود hydrothermal vents سے ہوا جن میں توانائی سے بھرپور پانی اور ھائیڈروکاربنز خارج ہوتے ہیں – اس توانائی کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ زمین ایک کلوزڈ سسٹم نہیں ہے چنانچہ حرحرکیات کا دوسرا قانون یہاں لاگو نہیں کیا جا سکتا
9- 'ارتقاء کے عمل کے دوران پہلا انسان کیسے بنا'
ارتقاء سے متعلق یہ مغالطہ اکثر پایا جاتا ہے کہ ارتقاء کے دوران کوئی پہلا انسان بنا جس سے انسانوں کی نسل چلی – پہلی بات تو یہ ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف انسانوں پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ تمام انواع پر لاگو ہوتا ہے لیکن یہ سوال عموماً صرف انسانوں کے بارے میں ہی کیا جاتا ہے – ہم اپنی خود پسندی میں یہ تصور کرتے ہیں کہ انسان باقی تمام جانوروں سے اس قدر مختلف ہے کہ انسان کے ارتقاء پذیر ہونے کا خیال ہی کچھ لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہوتا ہے – تاہم اگر ہم اس مسئلے کو نظر انداز کر دیں تو بھی جو لوگ ارتقاء کی سائنس کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انواع میں تبدیلی یکایک نہیں آتی بلکہ ہزاروں لاکھوں پشتوں میں تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں مجموعی طور پر انواع کی ہیئت کو تبدیل کرتی رہتی ہیں – چنانچہ ارتقاء کے عمل کے دوران ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک نوع کی کوئی مادہ کسی دوسری نوع کے بچے کو جنم دے – بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ ہر نئی نسل اپنے والدین سے کسی قدر مختلف ہوتی ہے – ایک ہی آبادی میں ایسی تبدیلیاں پوری آبادی میں پھیلتی رہتی ہیں اس لیے اس آبادی کے تمام افراد ایک ہی نوع کے ہوتے ہیں – لیکن اگر کسی وجہ سے یہ آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو جائے جن کا آپس میں رابطہ ختم ہو جائے تو دونوں آبادیوں میں تبدیلیاں مختلف انداز میں ہونے لگتی ہیں اور لاکھوں سالوں میں یہ دو آبادیاں دو مختلف سپیشیز بن جاتے ہیں – انسان کا ارتقاء بھی اسی طرح بتدریج ہوا – کوئی انسان پہلا انسان نہیں تھا
10- پہلے انسان کو پہلی عورت کیسے میسر آئی
پچھلے سوال سے بھی زیادہ مضحکہ خیز سوال یہ ہے کہ پہلے انسان کو پہلی عورت کیسے میسر آئی – یہ سوال بھی ارتقاء کے نظریہ سے یکسر ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے – ارتقاء ایک فرد میں نہیں ہوتا ایک آبادی میں ہوتا ہے اور آبادی کی دونوں جنسوں میں ارتقاء یکساں طور پر ہو رہا ہوتا ہے – اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک پشت میں جینیاتی تبدیلی معمولی سی ہوتی ہے اور یہ تبدیلی چونکہ random ہوتی ہے اس لیے لڑکوں اور لڑکیوں میں تبدیلی کا امکان ایک سا ہوتا ہے – ایسی تبدیلیاں اگر ماحول سے مطابقت کو بڑھاتی ہیں تو رفتہ رفتہ یہ تبدیلیاں پوری آبادی میں پھیل جاتی ہیں لیکن اس عمل میں نر اور مادہ ہمیشہ جنسی عمل سے نئی نسل پیدا کرنے کے قابل رہتے ہیں – چنانچہ نہ تو کوئی پہلا مرد انسان تھا اور نہ ہی کوئی پہلی عورت تھی – یہ سوال صرف ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جسے ارتقاء کے نظریے کے ابجد کا بھی علم نہ ہو
11 – 'پرانے سپیشیز نئے سپیشیز میں تبدیل نہیں ہو سکتے'
سپیشیز کے تصور کو سمجھنا ان لوگوں کے لیے بھی خاصہ مشکل ہوتا ہے جو عمومی طور پر ارتقاء کے نظریے کو تھوڑا بہت سمجھتے ہیں – اگرچہ جب ہم عام طور پر کسی کتے، بلی، کبوتر یا چوہے وغیرہ کو دیکھتے ہیں تو یہ جاننا مشکل نہیں ہوتا کہ یہ تمام مختلف سپیشیز یا انواع ہیں – لیکن نوع کی سائنسی ڈیفینیشن خاصی پیچیدہ اور مبہم ہے – اس وجہ سے یہ امر باعث حیرت نہیں ہے کہ جو لوگ ارتقاء کی سائنس سے ناواقف ہیں وہ سپیشیز کے تصور کو بھی نہیں سمجھتے – جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، سپیشیز دوسرے سپیشیز میں تبدیل نہیں ہوتے بلکہ ایک سپیشیز کی اگر دو آبادیاں اس طرح الگ ہو جائیں کہ ان کے درمیاں کوئی رابطہ نہ رہے اور ان کے افراد آپس میں جنسی اختلاط نہ کر پائیں تو آہستہ آہستہ ہزاروں لاکھوں سالوں میں ان آبادیوں میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیاں مجموعی طور پر ان آبادیوں کے افراد کو اتنا مختلف کر دیتی ہیں کہ وہ اگر آپس میں مل بھی جائیں تو جنسی اختلاط سے بچے پیدا نہیں کر پاتے – ایسی دو آبادیوں کو دو سپیشیز قرار دیا جاتا ہے – گویا درست بیان یہ ہے کہ ایک سپیشیز کی آبادی اگر دو آبادیوں میں تقسیم ہو جائے تو رفتہ رفتہ وہ دو مختلف سپیشیز بن جاتے ہیں یعنی ایک سپیشیز سے دو نئے سپیشیز بن گئے ہیں اور دونوں اوریجنل سپیشیز سے مختلف سپیشیز ہیں – مثال کے طور پر چمپنزی اور بونوبو دو مختلف سپیشیز ہیں جو اب سے بیس لاکھ سال پہلے ایک ہی سپیشیز تھے لیکن دریائے کانگو نے راستہ تبدیل کر کے اس آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا – بیس لاکھ سال الگ رہنے سے یہ دو سپیشیز میں تقسیم ہو گئے
12- ارتقاء ایک رینڈم پراسیس ہے جس سے انواع میں بہتری نہیں آ سکتی
اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ ارتقاء ایک رینڈم پراسیس ہے جس سے انواع میں بہتری نہیں آ سکتی تو جان لیجیے کہ اس شخص کو ارتقاء کی سائنس کا علم نہیں ہے – یہ درست ہے کہ ارتقاء کا بنیادی محرک افراد میں جینیاتی میوٹیشنز ہیں اور یہ میوٹیشنز رینڈم ہوتی ہیں – ان میوٹیشنز کی وجہ سے افراد میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں یعنی اگلی نسل اپنے ماں باپ سے کچھ مختلف ہوتی ہے – ان میں سے کچھ تبدیلیاں ماحول سے مطابقت کو کم کرتی ہیں اور کچھ ماحول سے مطابقت کو بڑھا دیتی ہیں جبکہ باقی نیوٹرل ہوتی ہیں یعنی ان سے ماحول سے مطابقت متاثر نہیں ہوتی – اگر کسی میوٹیشن سے ماحول میں مطابقت بڑھتی ہے تو اس کے حامل افراد کامیاب رہیں گے اور اگر اس سے ماحول سے مطابقت کم ہو جاتی ہے تو اس کے حامل افراد کامیاب نہیں رہیں گے – اس عمل کو فطری چناؤ کہا جاتا ہے جو بالکل رینڈم نہیں ہے بلکہ صرف ماحول سے مطابقت بڑھانے والے جینز ہی اس چناؤ کے عمل میں بچ رہتے ہیں – گویا ارتقاء کے کچھ محرکات (مثلاً جینیاتی میوٹیشنز) تو رینڈم ہیں لیکن فطری چناؤ رینڈم نہیں ہے – جو لوگ اس فرق کو سمجھ نہیں پاتے ان کے لیے ارتقاء کے تصور کو سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے
13- نظریہِ ارتقاء غیر حیاتیاتی اشیاء مثلاً کائنات پر بھی لاگو ہوتا ہے
بعض اوقات لوگ نظریہ ارتقاء کو کائنات پر لاگو کرتے نظر آتے ہیں – مثلاً بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر ارتقاء درست ہے تو کرسی ارتقاء کر کے میز کیوں نہیں بن گئی یا قلم ارتقاء کر کے لیزر پوائنٹر کیوں نہیں بن گیا – اسی طرح بعض اوقات لوگ بگ بینگ اور نظریہ ارتقاء کو خلط ملط کرتے نظر آتے ہیں – ان سب کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان حضرات نے خود سے ارتقاء کے ںظریے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہوتی کہ بلکہ محض سنی سنائی باتیں دہرا رہے ہوتے ہیں – نظریہ ارتقاء صرف زمین پر پائی جانے والی حیاتیاتی انواع میں تنوع کی توجیہہ کرتا ہے – زمین بگ بینگ کے تقریباً نو ارب سال بعد تشکیل پائی اس لیے زمین پر حیات کی موجودگی کا بگ بینگ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے
14- ارتقاء اور نظریہِ ارتقاء میں فرق
بعض اوقات اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور سائنس کو سمجھنے والے لوگ بھی ارتقاء اور نظریہِ ارتقاء کے فرق کو نہیں سمجھ پاتے – اس وجہ سے وہ سائنس دانوں کے اس بیان کو بھی نہیں سمجھ پاتے کہ ارتقاء ایک حقیقت بھی ہے اور ایک نظریہ بھی ہے – اسے سمجھنے کے لیے پہلے آپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ سائنس میں حقیقت کسے کہا جاتا ہے اور نظریہ کی کیا تعریف ہوتی ہے – سائنس دان کسی مظہر کا مشاہدہ کر کے جو ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں اسے حقائق کہا جاتا ہے – مثال کے طور پر کششِ ثقل ایک حقیقت ہے – سائنس دانوں نے بہت سے تجربات سے ڈیٹا اکٹھا کیا ہے جس میں مختلف اشیا کو مختلف بلندی سے زمین پر گرایا گیا اور ان کے گرنے کے وقت کی پیمائش کی – یہ مشاہدات حقائق ہیں – ہم عام زندگی میں بھی یہی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اشیا زمین کی طرف گرتی ہیں لیکن زمین پر پڑی اشیا اچانک اوپر کی طرف نہیں جانے لگتیں – یہ کششِ ثقل کے حقائق ہیں – آئن سٹائن کا نظریہِ اضافت ایک نظریہ ہے جو کششِ ثقل سے متعلق تمام حقائق کی ایک مربوط توجیہہ فراہم کرتا ہے، نئے مظاہر کی پیش گوئی کرتا ہے اور کششِ ثقل کی مقدار کیلکولیٹ کرنے کے لیے ریاضیاتی ماڈل فراہم کرتا ہے – اس میں اہم بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ کششِ ثقل سے متعلق اب تک کے دریافت شدہ لاکھوں حقائق کی درست توجیہہ اور پیش گوئی کرتا ہے اور ابھی تک ایک بھی مشاہدہ موجود نہیں ہے جو واضح طور پر اس نظریے کی نفی کرتا ہو اس لیے اس نظریے کو سائنس دان درست تسلیم کرتے ہیں
اسی طرح ارتقاء مشاہداتی حقائق کا مجموعی نام ہے – ہمیں ڈارون سے پہلے بھی یہ معلوم تھا کہ موجودہ جانور معدوم شدہ جانوروں سے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں – معدوم شدہ انواع کے فاسلز ہمارے پاس ہزاروں سالوں سے موجود ہیں – مختلف انواع کی جسمانی خصوصیات کا تقابلی جائزہ سینکڑوں سالوں سے کیا جا رہا ہے – یہ تمام ارتقاء کے حقائق ہیں – تاہم ڈارون سے پہلے ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ موجودہ انواع ان معدوم شدہ انواع سے کس طرح related ہیں، انواع میں تبدیلیاں کیونکر ہوتی ہیں اور نئی انواع کیسے وجود میں آتی ہیں – ڈارون کے پیش کردہ نظریے نے ان تمام حقائق کی ایک مربوط توجیہہ فراہم کی – اس وجہ سے ڈارون کا نظریہِ ارتقاء سائنس دانوں میں بہت مقبول ہوا – ڈارون کے بعد بہت سے سائنس دانوں نے اس نظریے میں ترامیم کیں اور نئے ڈیٹا یعنی نئے حقائق کی روشنی میں اسے مزید بہتر بنایا – چنانچہ جدید نظریہ ارتقاء حیاتیات سے متعلق لاکھوں معلوم شدہ حقائق کی بہترین توجیہہ فراہم کرتا ہے اور ایک بھی ایسا مشاہدہ نہیں ہے جو نظریہ ارتقاء کو واضح طور پر غلط ثابت کرتا ہو – اس وجہ سے سائنس دان اس نظریے کو درست تسلیم کرتے ہیں
15- زرافہ کی گردن اس لیے لمبی ہو گئی کہ وہ درختوں کی چوٹی سے پتے کھانا چاہتے تھے
یہ غلطی نہ صرف ارتقاء کی سائنس سے ناواقف لوگ کرتے ہیں بلکہ بہت سے ایسے لوگ بھی یہ غلطی کرتے ہیں جو ارتقاء کی سائنس سے واقف ہیں اور ارتقاء کو درست تسلیم کرتے ہیں – ارتقاء اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ کوئی جانور ارتقاء کرنا چاہتا ہے یا اپنے جسم کے کسی عضو کو زیادہ استعمال کرتا ہے – چنانچہ زرافے کی گردن کے لمبا ہونے میں زرافے کی اپنی خواہش یا ضرورت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے – یہ البتہ ممکن ہے کہ زرافوں کے اجداد پر ایسا سیلیکشن پریشر تھا جس میں لمبی گردن والے افراد زیادہ فائدے میں رہے – یہ سیلیکشن پریشر کیا تھا؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے موجود نہیں ہے – یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ سیلیکشن پریشر صرف غذا کی فراہمی کے حوالے سے ہی ہو – یہ بھی ممکن ہے کہ زرافے کی مادائیں لمبی گردن والے نر کو زیادہ پسند کرتی ہوں – نر زرافے courtship سے پہلے مادہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے آپس میں لڑتے ہیں جس میں گردن اور کھوپڑی سے ایک دوسرے کو ضربیں لگاتے ہیں – یہ دیکھا گیا ہے کہ نہ صرف ان لڑائیوں میں عموماً وہ زرافے کامیاب رہتے ہیں جن کی گردن لمبی ہوں بلکہ مادہ بھی لمبی گردن والے نر کو ہی پسند کرتی ہے – اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ لمبی گردن والا نر عموماً زیادہ صحت مند بھی ہوتا ہے یعنی بہتر جینز کا حامل ہوتا ہے – چنانچہ ارتقاء کے عمل میں مادہ کا دماغ اس طرح سے ترتیب پایا ہے کہ زرافے کی مادہ لمبی گردن والے نر کو ہی پسند کرتی ہے – اس قسم کی سیلیکشن کو جنسی چناؤ یعنی sexual selection کہا جاتا ہے اور بہت سے ایسے characteristics جو نر جانوروں کو زیادہ بھڑکیلے بناتے ہیں دراصل مادہ کی ان خصوصیات کو پسند کرنے کی وجہ سے ہی موجود ہوتے ہیں – اس کی بہترین مثال مور کی دم ہے جو اگرچہ نر کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہے کیونکہ اس دم کے وجہ سے مور کے لیے اڑنا مشکل ہوتا ہے اور نر مور عموماً لمبی دم کی وجہ سے خونخوار جانوروں کا لقمہ بن جاتے ہیں – اس کے باوجود نر مور کی دم بہت لمبی ہوتی ہے کیونکہ تجربات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مورنی ایسے نر کی تلاش میں رہتی ہے جس کی دم زیادہ لمبی ہو ـ چنانچہ مور کی دم لمبی ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس دم سے اسے خوراک تلاش کرنے میں کوئی فائدہ ہوتا تھا بلکہ محض اس لیے ہے کہ مورنی کو لمبی دم پسند ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔