کن بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیان دینے والے کو ارتقاء کی سائنس کی سمجھ نہیں ہے
قدیر قریشی
جولائی 02، 2018
قسط نمبر 2
ذیل میں کچھ ایسے بیانات درج ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیان دینے والے کو ارتقاء کی سائنس کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے – ایسے لوگوں سے ارتقاء کے موضوع پر بحث کرنا محض وقت کا ضیاع ہوتا ہے
6- 'آج کے بندر انسان کیوں نہیں بن رہے' یا 'اگر انسان بندر سے بنا تو ابھی تک بندر کیوں موجود ہیں'
بہتر یہ ہو گا کہ ایسے شخص کے ساتھ بحث فوراً بند کر دیں کیونکہ ایسی بحث سے کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا – ایسا بیان وہی شخص دے سکتا ہے جس کو ارتقاء کی سائنس کی ابجد سے بھی واقفیت نہ ہو – انسان کا ارتقاء موجودہ بندروں سے نہیں ہوا اور نہ ہی اس بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اب سے کروڑوں سال بعد موجودہ انسان یا موجودہ بندر کس حالت میں ہوں گے – ارتقائی تبدیلیوں کے مشاہدے کے لیے لاکھوں کروڑوں سال درکار ہوتے ہیں چنانچہ ہماری زندگی میں بندروں میں کوئی ایسی ارتقائی تبدیلی ممکن نہیں ہے جس کا ہم آسانی سے مشاہدہ کر سکیں
7- 'آپ اگر بندر کی اولاد بننا چاہتے ہیں تو بنیے – ہم تو انسان کی اولاد ہیں
اگر آپ کو کوئی شخص بندر کی اولاد ہونے کا طعنہ دے تو جان لیجیے کہ ان سے رخصت لینے کا وقت آن پہنچا ہے – ایسے اشخاص کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہوتی ہے اور نہ ہی تہذیب – اس قسم کے بیانات ad hominem یعنی شخصی تضحیک کے زمرے میں آتے ہیں جو بدترین قسم کا منطقی مغالطہ ہے – اس میں لوگ بحث کا رخ دلیلوں کے بجائے لوگوں کی تضحیک کی طرف کر دیتے ہیں – ایسی صورت میں تعمیری بحث ناممکن ہو جاتی ہے
8- ‘ارتقاء حرحرکیات کے قوانین کی خلاف ورزی ہے’
تھرموڈائنیمکس یا حرحرکیات کا دوسرا قانون یہ کہتا ہے کسی بھی بند یعنی closed سسٹم میں انٹروپی یا بے ہنگم پن مسلسل بڑھتا رہتا ہے لیکن کبھی کم نہیں ہوتا – بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس قانون کی رو سے زمین پر زندگی کا ظہور پذیر ہو جانا اصولاً ناممکن ہے کیونکہ زندگی میں ایک ترتیب پائی جاتی ہے جو اس قانون کی رو سے پیدا ہونا ناممکن ہے – لیکن حرحرکیات کا انٹروپی کے بڑھنے کا اصول صرف بند سسٹمز پر ہی لاگو ہوتا ہے جس میں نہ تو کوئی توانائی شامل ہو رہی ہو اور نہ ہی کوئی توانائی خارج ہو رہی ہو – زمین ایک کلوزڈ سسٹم نہیں ہے کیونکہ زمین پر سورج کی توانائی کثیر تعداد میں داخل ہوتی ہے – اس توانائی کے استعمال سے ہی زندگی ترتیب پاتی ہے – در حقیقت زندگی کے بنیادی تعاملات توانائی کے حصول کا ہی کام کرتے ہیں – اس توانائی سے خلیے اپنا اندرونی نظام برقرار رکھتے ہیں – اس کے علاوہ زمین کے اندر بھی حرارت کی صورت میں کثیر مقدار میں توانائی موجود ہے جو وقتاً فوقتاً زمین کی سطح پر خارج ہوتی رہتی ہے – زندگی کے آغاز کے متعلق ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ زندگی کا آغاز سمندر کی تہہ میں موجود hydrothermal vents سے ہوا جن میں توانائی سے بھرپور پانی اور ھائیڈروکاربنز خارج ہوتے ہیں – اس توانائی کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ زمین ایک کلوزڈ سسٹم نہیں ہے چنانچہ حرحرکیات کا دوسرا قانون یہاں لاگو نہیں کیا جا سکتا
9- 'ارتقاء کے عمل کے دوران پہلا انسان کیسے بنا'
ارتقاء سے متعلق یہ مغالطہ اکثر پایا جاتا ہے کہ ارتقاء کے دوران کوئی پہلا انسان بنا جس سے انسانوں کی نسل چلی – پہلی بات تو یہ ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف انسانوں پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ تمام انواع پر لاگو ہوتا ہے لیکن یہ سوال عموماً صرف انسانوں کے بارے میں ہی کیا جاتا ہے – ہم اپنی خود پسندی میں یہ تصور کرتے ہیں کہ انسان باقی تمام جانوروں سے اس قدر مختلف ہے کہ انسان کے ارتقاء پذیر ہونے کا خیال ہی کچھ لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہوتا ہے – تاہم اگر ہم اس مسئلے کو نظر انداز کر دیں تو بھی جو لوگ ارتقاء کی سائنس کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انواع میں تبدیلی یکایک نہیں آتی بلکہ ہزاروں لاکھوں پشتوں میں تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں مجموعی طور پر انواع کی ہیئت کو تبدیل کرتی رہتی ہیں – چنانچہ ارتقاء کے عمل کے دوران ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک نوع کی کوئی مادہ کسی دوسری نوع کے بچے کو جنم دے – بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ ہر نئی نسل اپنے والدین سے کسی قدر مختلف ہوتی ہے – ایک ہی آبادی میں ایسی تبدیلیاں پوری آبادی میں پھیلتی رہتی ہیں اس لیے اس آبادی کے تمام افراد ایک ہی نوع کے ہوتے ہیں – لیکن اگر کسی وجہ سے یہ آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو جائے جن کا آپس میں رابطہ ختم ہو جائے تو دونوں آبادیوں میں تبدیلیاں مختلف انداز میں ہونے لگتی ہیں اور لاکھوں سالوں میں یہ دو آبادیاں دو مختلف سپیشیز بن جاتے ہیں – انسان کا ارتقاء بھی اسی طرح بتدریج ہوا – کوئی انسان پہلا انسان نہیں تھا
10- پہلے انسان کو پہلی عورت کیسے میسر آئی
پچھلے سوال سے بھی زیادہ مضحکہ خیز سوال یہ ہے کہ پہلے انسان کو پہلی عورت کیسے میسر آئی – یہ سوال بھی ارتقاء کے نظریہ سے یکسر ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے – ارتقاء ایک فرد میں نہیں ہوتا ایک آبادی میں ہوتا ہے اور آبادی کی دونوں جنسوں میں ارتقاء یکساں طور پر ہو رہا ہوتا ہے – اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک پشت میں جینیاتی تبدیلی معمولی سی ہوتی ہے اور یہ تبدیلی چونکہ random ہوتی ہے اس لیے لڑکوں اور لڑکیوں میں تبدیلی کا امکان ایک سا ہوتا ہے – ایسی تبدیلیاں اگر ماحول سے مطابقت کو بڑھاتی ہیں تو رفتہ رفتہ یہ تبدیلیاں پوری آبادی میں پھیل جاتی ہیں لیکن اس عمل میں نر اور مادہ ہمیشہ جنسی عمل سے نئی نسل پیدا کرنے کے قابل رہتے ہیں – چنانچہ نہ تو کوئی پہلا مرد انسان تھا اور نہ ہی کوئی پہلی عورت تھی – یہ سوال صرف ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جسے ارتقاء کے نظریے کے ابجد کا بھی علم نہ ہو
پچھلی قسط کا متن
1۔ 'زمین پر microevolution تو ممکن ہے لیکن macroevolution ممکن نہیں ہے'
ایسے حضرات بیالوجی سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں اور سائنس کی کچھ سمجھ رکھتے ہیں – ارتقاء کے ثبوت اتنے زیادہ ہیں کہ ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے ارتقاء کو مکمل طور پر مسترد کرنا ناممکن ہو جاتا ہے – لیکن یہ حضرات یہ بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ انسان کا ارتقاء باقی جانوروں کی طرح لاکھوں کروڑوں سالوں میں ہوا ہے – چنانچہ ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ خوردبینی اجسام مثلاً بیکٹیریا اور وائرسز میں تو ارتقاء ہوتا ہے لیکن ارتقاء سے نئے انواع ظہور پذیر نہیں ہو سکتے – تاہم فطری قوانین میں مائیکرو یا میکرو کی کوئی تخصیص نہیں ہے – چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لاکھوں کروڑوں سال میں جمع ہوتی رہتی ہے اور ان کا مجموعی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انواع میں بہت زیادہ تبدیلیاں آ چکی ہوتی ہیں – ان تبدیلیوں کو ہم اپنی آسانی کے لیے میکرو کہہ دیتے ہیں
2۔ 'اگر ارتقاء درست ہے تو کائنات کیسے وجود میں آئی'
ارتقاء کا نظریہ زمین پر حیات کے ارتقاء کے بارے میں بات کرتا ہے اور صرف زمین پر پائی جانے والی حیاتیاتی انواع پر لاگو ہوتا ہے – ارتقاء کا نظریہ کائنات کے آغاز کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیتا – اگر آپ کو کائنات کے آغاز کے بارے میں سائنسی نظریات کو سمجھنا ہے تو بگ بینگ کاسمولوجی کا مطالعہ کیجیے
3- 'نظریہ ارتقاء غلط ہے کیونکہ یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو پایا کہ زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا'
اگر کوئی شخص زندگی کے آغاز پر سوال اٹھائے تو وہ نظریہِ ارتقاء پر بحث نہیں کر رہا بلکہ abiogenesis پر بحث کر رہا ہے – نظریہ ارتقاء صرف اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا میں رنگارنگ انواع کیسے وجود میں آئیں
4- 'ارتقاء اب رک کیوں گیا ہے'
اگر کوئی شخص یہ سوال کرے تو جان لیجیے کہ اس شخص کا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے – ارتقاء کا عمل ایک مسلسل عمل ہے جو ماضی میں بھی جاری تھا، آج بھی جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گا – یہ عمل اتنا سست رفتار ہوتا ہے کہ ہم ایک انسانی زندگی میں کثیر خلوی جانوروں کا ارتقاء نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ارتقاء کے عمل میں لاکھوں پشتوں کے بعد اتنی نمایاں تبدیلیاں ہوتی ہیں جنہیں انسان واضح طور پر محسوس کر سکے – البتہ یک خلوی جانوروں میں لاکھوں پشتیں چند سالوں میں ہی پیدا ہو جاتی ہیں اس لیے یک خلوی جانوروں میں ارتقاء کا مشاہدہ نسبتاً آسان ہوتا ہے اور لیبارٹری اور فیلڈ دونوں میں کئی یک خلوی جانداروں کا ارتقاء مشاہدہ کیا گیا ہے
5- 'ارتقاء کا مقصد اور منتہا انسان تھا'
اگر کوئی شخص ایسا بیان دے تو سمجھ لیجیے کہ اس شخص سے بحث سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک تو اسے ارتقاء کی سائنس کا علم نہیں ہے اور دوسرے وہ پہلے سے ہی یہ رائے بنا چکا ہے کہ انسان ارتقاء کا مقصد تھا اور انسان تمام جانوروں میں بہترین ہے – ارتقاء کا کوئی مقصد یا کوئی منزل نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس عمل سے وہ جانور کامیاب نکلتے ہیں جن میں رینڈم میوٹیشنز سے ماحول سے مطابقت میں اضافہ ہوتا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔