یاد رفتگاں : بیاد مظفر رزمی مرحوم بقلم احمد علی برقی اعظمی
تاریخ پیدائش : یکم اگست 1936
تاریخ وفات : 19 ستمبر 2012
ایک معروف قلمکار مظفر رزمی
شاعر فکر گہر بار مظفر رزمی
ہے زمانے پہ عیاں ان کے قلم کا جوہر
جس سے تھے سرخی اخبار مظفر رزمی
ہوئے انیس ستمبر کو جہاں سے رخصت
داد و توصیف کے حقدار مظفر رزمی
“چند لمحوں کی خطا” بن گئی ” صدیوں کی سزا”
تھے جو اس سوچ کے معمار مظفر رزمی
اپنے اس شعر سے ہیں ورد زباں آج بھی وہ
جس کے تھے شاعر خود دار مظفر رزمی
موت کے سامنے کچھ چل نہ سکا بس ان کا
سب کو کرتے تھے جو بیدار مظفر رزمی
ضوفگن نور بصیرت سے تھا ان کا چہرہ
جس سے تھے مطلع انوار مظفر رزمی
بن گئے سب کی توجہ کا جہاں میں مرکز
شاعر کوچہ و بازار مظفر رزمی
اپنی غزلوں سے ہیں تاریخ ادب کی زینت
جذبہ شوق سے سرشار مظفر رزمی
انقلاب آفریں اشعار سے اپنے برقی
سرفروشوں کے تھے سردار مظفر رزمی
بشکریہ : ادب و ادب نواز ناظمِ ایک زمین کئی شاعر،ایک اور انیک اور اردو
کلاسک
ایک زمین کئئ شاعر
مظفر رزمی اور احمد علی برقی اعظمی
مظفر رزمی
اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا تری گہرائی
جاگ اے مرے ہمسائے خوابوں کے تسلسل سے
دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اُتر آئی
چلتے ہوئے بادل کے سائے کے تعاقب میں
یہ تشنہ لبی مجھ کو صحراؤں میں لے آئی
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کیا سانحہ یاد آیا رزمی کی تباہی کا
کیوں آپ کی نازک سی آنکھوں میں نمی آئی
احمد علی برقی اعظمی
وہ بھول گیا مجھ سے برسوں کی شناسائی
”لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی“
حالات کا اب میں ہوں خاموش تماشائی
بھائی سے تڑپتا ہے ملنے کے لئے بھائی
تصویرِ تصور ہی بس ایک سہارا ہے
فرقت نے بنا ڈالا اُس کی مجھے سودائی
جذبات تھے بے قابو کرتا بھی تو کیا کرتا
اس رشکِ گُلِ تر کی جب یاد مجھے آئی
یادوں کے جھروکوں سے حسرت ہے اسے دیکھوں
پہلے تھا جو آنکھوں کی میری کبھی بینائی
وہ دیکھنا مُر مُڑ کر اس کا مجھے حسرت سے
باقی نہ رہی میری جب قوتِ گویائی
جو تارِ رگِ جاں پر ہر وقت غزلخواں تھی
رس گھولتی ہے اب بھی کانوں میں وہ شہنائی
دُزدیدہ نگاہی میں کھو جا تا تھا دل جن کی
اُن جھیل سی آنکھوں کی یاد آتی ہے گہرائی
دیتا ہے کوئی دستک آ آ کے درِ دل پر
کاٹے نہیں کٹتی ہے برقیؔ شبِ تنہائی