میں جب بھی کسی پولیس آفیسر کی زبان سے یہ جملہ سنتا ہوں ”شک کرنا ہمارا کام ہے“ تو بے ساختہ جی کرتا ہے پوچھ بیٹھوں ”کیوں بھئی، یہ بیگماتی رول کب سے نبھانا شروع کر دیا؟“
مجھے لگتا ہے شک کرنا بیگمات کا خاندانی یا موروثی نہیں، نسلی بلکہ ازلی وصف ہے۔ اگر کوئی شادی شدہ عورت شکّی نہ ہو تو اسے ”جھکّی“ قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں”شک زدگی“شوہریافتہ ہونے کی دلیل ہے۔ حالانکہ میرے خیال میں اگر کسی کے شوہر کو کئی لڑکیاں پسند کرنے لگیں اور اس کے ساتھ ڈیٹنگ یا ڈائننگ کی متمنی ہوں تو اس کی بیوی کو اپنی تقدیر پر ناز کرنا چاہئے کہ اسے ایسے ہر دل عزیز مرد کی بیوی کہلانے کا اعزاز حاصل ہے مگر تنگ ذہنی اسے اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہونے دے تب نا۔بیگم کو لاکھ سمجھایا کہ یہ کیا عورتوں کی طرح ہمیشہ شوہروں کو اپنے قبضے بلکہ مٹھی میں رکھنے کی بات کرتی ہیں؟کشادہ ذہنی اور فراخ دلی کا ثبوت دیجئے، بلند خیالی کا مظاہرہ کیجئے…
”مطلب؟“ بیگم نے بڑے تیکھے اندا ز میں پوچھا۔
”مطلب یہ کہ ایک دوسرے کو جلانے کے لئے اپنے اپنے شوہروں کی تنخواہوں میں بےتحاشہ ”اضافہ“ کرنا، بچوں کے رزلٹ میں سات کو ساٹھ بتانا، گیس اسٹو کی بجائے مائکرو ویو میں کھانا گرم کرنے کی سہولت و افادیت بتاتے ہوئےپڑوسن کو بھی اس میں سینکنا بلکہ بھون ڈالنا ، اے سی نہ چلنے تک نیند نہ آنےکی اپنی کمزوری کا منہ بسور کر اظہار کرنا، آبائی گاؤں سے لوٹنے کے بعد گرگاؤں کی کہانیاں سنانا …یہ سب فرسودہ طریقے ہو چکے جس سے خواہ مخواہ پڑوسن کے دل میں تحسد اور پھرکدورت پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ نہلے پہ دہلا کی صورت میں جوابی ”حملے“ برداشت نہ ہونے پر خود اپنے شوہر کوای ایم آئی کےجنازے پر بٹھا کر قرضستان میں دفنا آنا خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔“
”تو پھر؟“بیگم ہنوز مجسم سوال بنی رہیں۔
”ارے بھئی، جلانے کے جدید طریقے اپنائیں جس سے دھواں تو اُٹھے مگر …مگر اگربتّی کے دھوئیں کی طرح…خوشبو بکھیرتا ہوا دھواں، محبت کی خوشبو…“
”اچھّا؟ وہ کیسے بھلا؟“ بیگم ہمہ تن گوش ہو گئیں۔
”اب یہ بھی میں ہی سوچوں؟“
بیگم کو تو خاموش کر دیا مگر میں خود سوچتا رہ گیا، کاش، کاش …یہ کچھ اس طرح کی باتیں کر سکتیں:
میرے شوہر اتنے ہینسم ہیں کہ اس عمر میں بھی ان کے دفتر کی نو عمر لڑکیاں ان پر مرتی ہیں۔
یہ لو، یہ کون سی خاص بات ہوئی؟ … سناہے ان کی ایک کالج گرل فرینڈ آج بھی کنواری ہے اور کلموہی میرے مرنے یا طلاق ہونے کا انتظار کر رہی ہے…
اے ہے، میری کئی سہیلیاں تو میرے ایک ہی اشارے پر میری سوتن بننے کو تیار بیٹھی ہیں …
بھئی، میرے میاں تو اتنے پر کشش ہیں کہ میں صبح ان کے دفتر جانے سےپہلے اور شام دفتر سے لوٹنے کےبعد بلا ناغہ نظر اتارتی رہتی ہوں۔ پتہ نہیں کب کہاں کون سی چڑیل ان سے چمٹ جائے …
مجھے تو دعا تعویذ پر بھی پورا بھروسہ نہیں ہوتا۔ اسی لئے تو رامو کو میں الگ سے پانچ سو روپےماہانہ دیتی ہوں کہ روزانہ دفتر کھانا پہنچانے کے بعد اچھی طرح سن گن لیتا رہے۔
ذرا غور فرمائیے۔ اگر ایک پڑوسن دوسری سے ایسی گفتگو کرے تو بجائےحسد جلن کے، کیاان کے درمیان محبت نہیں بڑھے گی… ایک دوسرے کے شوہروں کے تئیں؟
کہتے ہیں شک کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس کا علاج نہیں اسے جھیلنا ہی پڑتا ہے۔
ابھی کل صبح ہی کھڑکی کے گرِل پر چھوٹا سا آئینہ لٹکائے شیو کر رہا تھا کہ اچانک پشت سے بیگم کی آواز آئی: ”آج بڑی دیر تک شیونگ ہو رہی ہے؟“
”نہیں تو؟“ میں چونک کر مڑا۔
”اتنی دیر سے کسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے؟“
”آئینے میں اور کسے گھور سکتا ہوں؟“ میں نے الٹے سوال جڑ دیا۔
”میں سامنے مکان کی کھڑکی میں بیٹھی اس لڑکی کی بات کر رہی ہوں۔“لہجہ سپاٹ مگر آواز پاٹ دار تھی۔
”کدھر، کدھر، کدھر؟“میں نے بڑے اشتیاق بھرے لہجے میں کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
”زیادہ بنئے مت۔ کیا ثبوت ہے کہ آپ اسے نہیں گھور رہے تھے؟“لہجہ ہنوز تیکھا تھا۔
”بیگم، کبھی کبھی اپنا ٹاپ فلور بھی استعمال کر لیا کریں۔اگر میں اسے گھور رہا ہوتا تو دل کا خون ہوتا نہ ہوتا، رخسار ضرور لہو لہان ہو گئے ہوتے۔ کہیں کٹ مارکس ہیں؟ خون کی کوئی چھوٹی سی بوند بھی نظر آ رہی ہے؟“میں نے اپنے دونوں گال ان کے قریب کرتے ہوئے کہا۔
بیگم لاجواب تو ہو گئیں مگر مجھے یقین تھا کہ اب ان کے دماغ سے اس کیڑے کو نکالنے کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔لہٰذایکلخت اگلے ہفتے لکھنؤ میں ہونے والی کانفرنس میں انہیں ساتھ لے جانے کا ارادہ کر لیا۔کچھ دن ساتھ ساتھ باہر گزارنے میں تھوڑا بہت پکنک کا مزہ تو آہی جائے گا۔لیکن وہاں پہنچ کر حکیم لقمان کی بے چارگی پر بڑا ترس آیا۔
ہوٹل کی ریسپ شنسٹ نے جب ایک ادا سے مسکراتے ہوئے استقبال کیا تو بیگم کی حالت قابل دید ہو گئی۔ روم میں داخل ہوتے ہی پھٹ پڑیں:
”یہ اتنی مسکرا کیوں رہی تھی آپ کو دیکھ کر؟ سچ سچ بتائیے کوئی پرانی شناسا تو نہیں؟“
”ارے بیگم، بڑے بڑے ہوٹلوں میں ان جیسے اسٹاف کو اس طرح مسکرا کر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔“
”غیر مَردوں کو پھنسانے کے لئے؟“
”نہیں، گاہک پھنسانے کے لئے۔“ میں نے بھی جھنجھلا کر جواب دیا۔
لیکن شام کو کانفرنس ہال میں داخلے کے وقت صورتِ حال اور خطرناک معلوم ہوئی۔ ہال کے مین گیٹ پر ایک نہایت خوبصورت نوجوان لڑکی ایک طشتری میں بہت سے گلاب رکھے کھڑی تھی اور ہر آنے والے مہمان کوایک ایک پھول پیش کرتی جا رہی تھی۔ میں نے یکلخت بیگم کا ہاتھ پکڑا اور سر جھکائے تیزی سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی مگر اس نے ایک گلاب میری جانب بڑھا ہی دیا۔
”اوہ، نو تھینکس، میں شادی شدہ ہوں۔“ میں نے بے ساختہ کہا اور آگے بڑھ گیا۔اس کی کھنکتی ہنسی شام تک بیگم کا پیچھا کرتی رہی۔ میں نے من ہی من میں دو رکعت شکرانے کے پڑھ لئے کہ اسٹیج پر پروگرام کی نظامت خلافِ روایت کسی عورت کی بجائے مرد کے ذمے تھی۔ورنہ جن الفاظ میں اس نے مجھے مائیک پر دعوت دی تھی، اگر عورت ہوتی تو بیگم پیچھے ہی پڑ جاتیں: ”آخر وہ آپ کے بارے میں اتنا کچھ کیسے جانتی ہے؟“
شام کو چائے کے وقفے میں ایک بے تکلف خاتون کلیگ نے مجھےاکیلے میں پکڑہی لیا:
”تمہاری بیوی تو بڑی شکّی معلوم پڑتی ہے؟“
”شکّی بیوی ہے اسی لئے تو پکّی بیوی ہے۔“میرا جواب سن کر اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔
”آہستہ بولو …آہستہ … مرواؤ گی کیا ۔“میں نے اس کی طرف جھک کر تیز سرگوشی کی۔
”اوکے، اوکے، اوکے۔“اس نے سنبھلتےہوئے چاروں طرف دیکھا ”ایک ہم ہیں۔ ایک دوسرے پر اتنا اعتماد کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کے موبائل اور فیس بک اکاؤنٹ کے پاس ورڈز کا علم ہوتا ہے …“
میں نے ایک فلک شگاف قہقہے کا گلا گھونٹتے ہوئے کہا: ”یہ اعتماد نہیں، شک کی دلیل ہے۔اعتماد ہونے پر پاس ورڈز جاننے کی خواہش ہی نہیں ہوتی۔“
ایک مشاہدے کے مطابق، شوہروں کی بہ نسبت بیویاں زیادہ شکّی مزاج کی ہوتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بیویاں فطرتاً (مَردوں کی فطرت سے واقفیت کے سبب) شکّی ہوتی ہیں جب کہ شوہر مجبوراً شک کرتا ہے، اگر بیوی کم سن ہوئی،کیوں کہ وہ شوہر کم چوکیدار زیادہ ہوتا ہے۔
کچھ شوہروں کی ڈرامائی انداز میں اظہارِ محبت کی عادت ہوتی ہے۔ وہ کچن یا بیڈ روم میں چپکے سےداخل ہو کر پیچھےسے اچانک اپنی بیگم کو باہوں میں جکڑ لیتے ہیں۔مجھے سمجھ میں نہیں آتا میں ایسی بیگمات کی معصومیت پر سر پیٹوں یا ان کی بد احتیاطی پر، جب یہ ہر قسم کے خدشات و خطرات سے بے پرواہ اپنی پرانی ساڑیاں یا شلوار جمپر اپنی جوان کام والی بوا کو نیکی کے مقصد سے دے دیتی ہیں اور اس کا ”اجر“ حادثاتی طور پر ان کے شوہروں کو مل جاتا ہے۔ میری بیگم اپنے پرانے کپڑے یاتو یتیم خانے میں بھیجوا دیتی ہیں یا پھر پرانے کپڑوں کے بدلے برتن بارٹر کرنے والوں کو دے دیتی ہیں۔ایک بار میں نے اس کارِ خیر کا مشورہ دیا تو بڑے سرد لہجے میں جواب دیا:
”مجھے رِسک نہیں لینا۔“
”کیوں؟ مجھ پر اعتماد نہیں؟“ میں بگڑ گیا۔
”بھرپور اعتماد ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ احتیاط کو بالائےطاق رکھ دوں؟“ بیگم نے بڑے فلسفیانہ انداز میں مجھے قائل کرنے کی کوشش کی۔
”اعتماد کا مطلب آپ کیا جانیں۔ شوہر پر اعتماد سیکھنا ہو تو گرلس کالج کے مرد پروفیسروں کی بیگمات سے سبق لیں، ان فلم اداکاروں کی بیویوں کے مطمئن چہروں کو دیکھیں …“ میں نے سنیما ہال میں ایک ہٹ رومانٹک فلم دیکھتے ہوئے بیگم کی طرف جھک کر کہا۔
”اور ہائٹ آف فیتھ دیکھنا ہو تو مجھے دیکھیں۔“ پیچھے سے کسی محترمہ نے آگے جھک کر سرگوشی میں کہا۔
”کیا مطلب؟“ ہم دونوں چونک کر مڑے۔
”میرے ڈاکٹر ہسبنڈ ماہرِ امراضِ نسواں و زچگی ہیں!!“