مکار شیوا جی کو اورنگ زیب عالم گیر ’’پہاڑی چوہا‘‘ کہا کرتا تھا۔ مشہور مسلمان جرنیل افضل خان نے پے در پے شکستیں دے کر شیوا جی کو پرتاب گڑھ کے قلعے میں محصور ہونے پر مجبور کردیا۔ شیوا جی نے پیغام بھیجا کہ وہ ہتھیار ڈالنا چاہتا ہے بشرطیکہ افضل خان خود آئے۔ یہ نومبر 1659ء کا واقعہ ہے۔ شیوا جی نے قلعے کے ساتھ والی پہاڑی کے دامن میں خوبصورت استقبالیہ خیمہ نصب کرایا۔ جنگل کا ایک حصہ کاٹا اور اپنی فوج چھپا دی۔ طے ہوا تھا کہ دونوں ایک ایک باڈی گارڈ کے ساتھ آئیں گے۔ افضل خان کھرا آدمی تھا۔ ململ کے کُرتے میں آیا۔ شیوا جی نے پگڑی کے نیچے فولادی ٹوپی اور عبا کے نیچے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ دائیں آستین میں خنجر تھا اور بائیں مٹھی میں رسوائے زمانہ مرہٹہ فولادی پنجہ۔ شیوا جی جھکتا کورنش بجا لاتا آیا۔ افضل خان گلے ملا تو شیوا جی نے پہلے فولادی پنجہ اور پھر خنجر پیٹ میں گھونپا۔ ضمیر جعفری نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے ؎
سچ کہتا تھا افضل خان
تری پورہ تا راجستان
مر گیا ہندو میں انسان!
شیوا جی ہندوئوں کا ہیرو بن گیا اور مسلمانوں کا ولن۔ محمد بن قاسم اور محمد غوری مسلمانوں کے ہیرو تھے اور ہندوئوں کے ولن۔ یہ تھا وہ مرکزی نکتہ جس پر اختلاف تھا۔ باقی سارے اختلافات اسی نکتہ سے پھوٹ رہے تھے۔ آخر وہ دو گروہ اکٹھے کیسے رہ سکتے تھے جن میں سے ایک کے ہیرو دوسرے کے ولن ہوں اور ایک کے ولن دوسرے کے ہیرو ہوں!
آپ غور کیجیے‘ کیا یہی وہ صورتِ حال نہیں جس سے ہم پاکستانی آج خود دوچار ہیں۔ فکری انتشار اس عروج پر ہے کہ آدھی قوم کے لیے حکیم اللہ محسود ہیرواور باقی آدھی کے لیے ولن ہے۔ سید منور حسن نے مصرع پیش کیا کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے۔ الطاف حسین نے اس پر گرہ لگائی کہ وہ سینکڑوں معصوم پاکستانیوں کا قاتل ہے۔ منور حسن نے جواب آں غزل کے طور پر الطاف حسین کو قرآن پاک کے مطالعہ کی نصیحت کی۔ اسمبلی میں خورشید شاہ نے شہید کہنے پر احتجاج کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے فتویٰ دیا کہ امریکی جسے ماریں گے شہید کہلائے گا۔ ساتھ ہی کتا لپیٹ میں آ گیا۔ یہی ’’اتفاق‘‘ نیٹو سپلائی روکنے کے لیے دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی ایک طرف ہیں اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی خم ٹھونکے دوسری طرف کھڑی ہیں۔
تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ ایک ہی قوم کے ہیرو اور ولن الگ الگ ہو جائیں۔ آپ کسی مسجد میں چلے جائیے‘ مولوی صاحب جمعہ کے خطبہ میں ملا عمر کو امیر المومنین کہیں گے۔ کئی کالم نگار اسامہ بن لادن کو احتراماً ’’شیخ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو اپنی مجلسوں اور بحثوں میں ان حضرات کو دہشت گرد اور گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی قوم بحران سے نکل سکتی ہے؟
ہم چھیاسٹھ برسوں سے بھارت کے مقابلے میں کیوں ڈٹے ہوئے ہیں؟ اس لیے نہیں کہ ہم مسلح ہیں بلکہ اس لیے کہ ہم یکسو ہیں، پوری قوم متحد ہے۔ ایک قلیل، ازحد قلیل اقلیت کو چھوڑ کر ہر پاکستانی بھارت کے مقابلے میں یکساں جذ بات رکھتا ہے۔ پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ‘ پتلون پہنتا ہے یا پگڑی‘ تاجر ہے یا افسر‘ لشکری ہے یا سیاستدان‘ اس ضمن میں دو آراء نہیں کہ ہمیں بھارت کے مقابلے میں چوکس رہنا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا موازنہ ایٹمی ہتھیاروں سے کرنا ہے۔ سیاچین سے لے کر سندھ کے صحرائوں تک اُس کا مقابلہ کرنا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہو نہ ہو‘ مطالبہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ فرض کیجیے‘ آج خدانخواستہ صورتِ حال ایسی ہو جائے کہ آدھی قوم بھارتی حکومت کو دوست اور خیرخواہ سمجھنے لگ جائے تو کیا باقی آدھی قوم بھارت کا مقابلہ کر سکے گی؟
فکری انتشار کے جس عروج کا ہم سامنا کر رہے ہیں، اُس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں، نہیں بند ہونے چاہئیں، مذاکرات کرنے ہیں، نہیں لاحاصل ہوگا۔ امریکہ ڈرون حملوں سے ہماری مدد کر رہا ہے، نہیں ہماری خودمختاری متاثر ہو رہی ہے۔ اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ہے کہ ٹیلی ویژن چینل پر ایک ہی ادارے سے تعلق رکھنے والوں میں سے ایک یقین دلا رہا تھا کہ طالبان ہمارے دشمن نہیں‘ دوسرا اُس سے پوچھے جا رہا تھا کہ کیا طالبان نے بم دھماکوں کی اور ا تنے مسلمانوں کی موت کی ذمہ داری قبول نہیں کی؟
آدھی قوم اِدھر… آدھی اُدھر۔ اللہ کے بندو! غور کرو‘ یہ تقسیم‘ یہ بٹوارا راتوں رات وجود میں نہیں آیا‘ یہ درخت جو کڑوا پھل لایا ہے‘ جڑیں رکھتا ہے۔ اسے ہم خودپانی دیتے رہے ہیں۔ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے قوم کو دو مختلف‘ متضاد اور متحارب حصوں میں بانٹ دیا ،دو متوازی لکیریں کھینچیں جو آپس میں مل نہیں سکتیں۔ ہم نے کچھ لاکھ‘ کچھ کروڑ بچوں کو سکولوں کالجوں میں ڈالا، پھر ہم نے کچھ لاکھ‘ کچھ کروڑ بچوں کو مدرسوں میں بھیجا۔ دونوں کے نہ صرف نصاب ہائے تعلیم الگ ہیں بلکہ لباس‘ خورونوش‘ رہن سہن‘ تفریح‘ کھیلیں سب الگ الگ ہیں۔ اساتذہ کے نکتہ ہائے نظر‘ انداز ہائے فکر الگ ہیں۔ اخبارات و رسائل اور جرائد اپنے اپنے ہیں۔ یہاں تک کہ رشتے ناتے الگ الگ ہیں۔ اس قصے کو تو چھوڑ دیجئے کہ مجموعی طور پر بریلوی‘ دیوبندی‘ شیعہ، سنی‘ اہلِ حدیث ایک دوسرے کے ہاں رشتے کرنے سے کتراتے ہیں، اس بات پر غور کیجئے کہ مدارس والے خاندان کالج یونیورسٹی والے خاندانوں سے عائلی حوالے سے دور ہیں۔ تبلیغی خاندان اپنے رشتے تبلیغی خاندانوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ جو بچے مدرسے سے یا دارالعلوم سے فارغ التحصیل
ہیں‘ اُسے اُس خاندان کی لڑکی راس نہیں آتی جس کے مرد تھری پیس سوٹ پہن کر صبح صبح یونیورسٹیوں‘ بینکوں یا دفتروں میں جا رہے ہوتے ہیں۔ جس بچے نے مقابلے کا امتحان پاس کیا ہے یا باہر سے ایم بی اے کر کے آیا ہے‘ وہ رشتے کے لیے اُس ثقافتی مناسبت کی تلاش میں ہے جو اُس کے لیے اجنبی نہ ہو۔ یہ دو الگ دنیائیں ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے مکمل مختلف۔ اس میں ایک رمق بھی مبالغہ آرائی نہیں کہ مدارس سے پڑھے ہوئوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل حضرات میں باہمی دوستیاں ہی مفقود ہیں۔ مستثنیات کی بات اور ہے۔ قاعدہ کلیہ عمومی صورتِ حال سے بنتا ہے۔ اب اس پس منظر میں قائداعظم کی اُس تقریر کا اقتباس دیکھیے جو انہوں نے 22 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کی:
"The … and … belong to two different religious philosophies, social customs, literature. They neither intermarry nor interdine together and indeed they belong to two different civilizations which are based mainly on conflicting ideas and conceptions".
آدھی قوم حکیم اللہ محسود کو شہید کہتی ہے باقی آدھی محمد علی جناح کو قائداعظم نہیں کہتی۔ دونوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے۔ طالبان اور ڈرون کا مسئلہ حل ہو بھی گیا تو یہ تفریق بُعدالمشرقین پیدا کرتی ہی رہے گی جب تک کہ اس کا مستقل حل نہ تلاش کر لیا جائے۔