فساد نے ہماری خشکی اور ہماری تری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چوپایوں اور حشرات الارض میں سمجھوتہ ہو چکا ہے۔ انسان جو پہلے ہی اقلیت میں تھے، اپنی ہی آبادیوں میں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ جس طرح گرد کا پہاڑ ایک سمت سے اٹھتا ہے اور چاروں طرف چھا جاتا ہے، ظلم بھی اسی انداز سے چھا چکا ہے۔
آخر ظلم ہے کیا؟ ظلم کی تعریف ہی عقل مندوں نے یہ کی تھی…. وَضعُ شیِ فی غیر محلّہ—— یعنی کسی شے کا وہاں رکھ دینا جہاں اسے نہیں رکھنا چاہئے۔ وسائل جہاں خرچ ہونے چاہئیں وہاں نہیں، کہیں اور خرچ ہو رہے ہیں۔ نااہل، اہل کو کہنی مار کر پیچھے ہٹا رہا ہے۔ سعدی نے پورے اعتماد سے کہا تھا ”محال ہے کہ ہنرمند مر جائیں اور بے ہنر ان کی جگہ لے لیں“۔ لیکن گلستان اور بوستان جیسی سدابہار کتابوں کا مصنف آج قبر سے اٹھ سکتا تو سر پیٹ لیتا اور کہتا کہ زمین کا پیٹ، زمین کے سینے سے یقینا بہتر ہے۔ سمرقند اور بخارا لٹانے والا حافظ زیادہ حقیقت پسند تھا۔ سینکڑوں سال پہلے ہماری مملکت کا نقشہ کھینچ ڈالا۔
احمقوں کے لئے گلاب و قند کے شربت اور اہل دانش کے لئے خونِ جگر سے بھرے ساغر، اعلیٰ نسل کے گھوڑے پالان کی نوکوں سے زخم زخم اور گدھوں کی گردنوں میں سنہری رسیاں!
فساد نے ہماری خشکی اور ہماری تری کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔
تو پھر کیا ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں؟ کیا ہم شکست خوردہ ہو کر منزل کی طرف پیٹھ کر لیں؟ ثروت حسین نے پوچھا تھا
تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم
یونہی دن گذارے چلے جائیں گے؟
نہیں! مایوسی کفر ہے۔ ہم مایوس ہوں گے نہ ہونے دیں گے۔ مسحور کر دینے والی وادیوں کے وطن سکیسر سے اٹھنے والے شاعر احمد ندیم قاسمی نے ایک قاعدہ کلیہ بتایا تھا
اگر گھنا ہو اندھیرا اگر ہو دُور سویرا
تو یہ اصول ہے میرا کہ دل کے دیپ جلاﺅ
اور سویرا تو دور بھی نہیں ہے۔ ہم گھٹا ٹوپ اندھیروں والی رات کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ہم صبحِ کاذب کی درد بھری ہوا میں سے گزر رہے ہیں۔ دل لہو سے بھر چکے ہیں لیکن یہ لہو نہیں، یہ چراغ کا تیل ہے۔ الیس الصبح بقریب؟ آخر صبح دور ہی کتنی ہے۔ صبح اس قدر قریب ہے کہ ہم اسے دیکھ ہی نہیں، چھو بھی سکیں گے! دریچہ وا ہو چکا ہے اور منظر سامنے ہے!
آج ہم جس سفر کا آغاز کر رہے ہیں اس نے ہمیں ان منظروں کی طرف لے کر جانا ہے جن کے ہم منتظر ہیں۔ گرد سفر میں سے، وہ سامنے، فصیل نظر آ رہی ہے، روشن فصیل، اعتماد اور امید کا ثمر!
اس سفر میں ہمارا رختِ سفر صرف سچ ہے، سچ…. بغیر کسی آمیزش کے اور بغیر کسی مداہنت اور مصلحت کے۔ ہم سیاہ کو سیاہ کہیں گے اور سفید کو سفید کہیں گے۔ ہم میرٹ کی پاسداری کریں گے۔ اہلیت کو سلام کریں گے۔ اقربا پروری پر گرفت کریں گے اور دوست نوازی پر نفرین بھیجیں گے۔ ہم ان کروڑوں عوام کی ترجمانی کریں گے جو مٹھی بھر مراعات یافتہ اقلیت کی گردن بلندی کا شکار ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے یا کہتا ہے کہ ہم سخن فہم نہیں، بلکہ غالب کے طرفدار ہیں تو وہ بدگمان ہے یا قنوطی۔ ہم بدگمانی سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور بدگمانی پھیلانے والوں سے بھی۔ رہی قنوطیت، تو اس کا کوئی علاج نہیں! ایک قنوطی کو بتایا گیا کہ اس کا کتا کمال کا کتا ہے، پانی پر چل رہا تھا۔ تو اس نے ایک آہ بھری اور کہا کہ وہ پانی پر چلا ہوگا لیکن ہائے افسوس! تیر تو نہیں سکا!
یوں بھی کسی شے کے وقوع ہونے سے پہلے رائے قائم کرنا حاطب اللیل لوگوں کا وتیرہ ہے، رات کو لکڑیاں چننے والوں کا! بھلا رات کے اندھیرے میں کیسے معلوم ہوگا کہ کون سی لکڑی گیلی ہے اور کون سی خشک!
ہمیں معلوم ہے ہمارا سفر آسان نہیں، پرُتعب ہے! ہمارے سامنے شیروں کی کچھاریں ہیں اور بھڑوں کے چھتے، اس ارض مقدس کو جن لوگوں نے اس حال کو پہنچایا ہے وہ عام لوگ نہیں، ان کی دولت لامحدود ہے اور طاقت حیران کن۔ ان کا تکبر ایسا ہے جیسے وہ چلتے ہوئے زمین کو پھاڑ ہی تو دیں گے لیکن جدوجہد ہمیشہ ایسے ہی طبقات کے خلاف کی جاتی ہے!ہمیں معلوم ہے ہماری جدوجہد آسان نہیں ہوگی! مشرق میں واقع ہمارے پڑوسی ملک نے تقسیم کے چار سال بعد زرعی اصلاحات برپا کر ڈالیں۔ ہم نہ کر سکے اور منتخب اداروں میں براجمان خاندانوں کا تسلسل بھگت رہے ہیں۔ ہم تریسٹھ سالوں میں وزیرستان کو یونیورسٹی دے سکے نہ کارخانہ، ہم بلوچستان کے عام پاکستانی کو ان سرداروں سے آزاد نہ کرا سکے جو اپنے ہی قبیلوں کے ارکان کو چیونٹیوں بھری غاروں میں بند کر دیتے ہیں اور بند کرنے سے پہلے برہنہ جسموں پر شہد ملتے ہیں۔ ہم جعلی ڈگری والوں کو ان کی اوقات میں نہ رکھ سکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اصلی ڈگریوں والے غیر ملکی سفارت خانوں کے سامنے قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے ہمارا راستہ کٹھن ہے۔ لیکن ہم اس مقدس سرزمین کی خاطر اس راستے پر ضرور چلیں گے۔ مسلک ہو یا مشرب، زبان ہو یا علاقہ، نسل ہو یا عقیدہ، ہم ان میں سے کسی کو نفرت کی بنیاد نہیں بننے دیں گے۔ ہم چراغ بدست چلتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ وہ جو اندھیرے مکانوں میں ہمارے منتظر ہیں، کھڑکیوں سے ہمارا چراغ دیکھ کر پکار اٹھیں گے کہ اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی پھیل گئی!
آج سے ساڑھے آٹھ سو سال پہلے جادو کا قلم رکھنے والے نظامی گنجوی نے اپنی مشہور کتاب مخزنِ اسرار تصنیف کی تو اس کا آغاز اس شعر سے کیا
ہست کلیدِ درِ گنجِ حکیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سو سال گزر گئے۔ ہندوستان کی خاک سے وہ ستارہ اُبھرا جسے دنیا امیر خسرو کے نام سے جانتی ہے۔ خسرو نے نظامی کے خمسہ کے جواب میں اپنا خمسہ لکھا اور مخزنِ اسرار کے جواب میں مثنوی مطلعِ انوار تحریر کی۔ اس کا پہلا شعر یوں کہا
خطبئہ قُدس است بملکِ قدیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ڈیڑھ سو سال بعد خراسان سے صوفیوں کا صوفی عبدالرحمن جامی اٹھا۔ اس نے دونوں بزرگوں کے تسلسل میں
تحفئہ احرار لکھی۔ اس کا پہلا شعر یوں تھا
ہست صلائی سرِ خوانِ کریم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم اپنے بزرگوں کی پیروی میں اپنے سفر کا آغاز بسم اللہ سے کرتے ہیں۔