آج – ٢٠ ؍ جون ؍ ١٩٧٨
' سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے' کے خالق، مجاہدِ آزادی اور معروف شاعر” بسملؔ عظیم آبادی صاحب “ کا یومِ وفات…
بسملؔ عظیم آبادی کا اصلی نام سید شاہ محمد حسن تھاعرفیت شاہ چھبو تھی۔ وہ1900ء یا 1901ء میں پٹنہ سے 300 کلو میٹر دور ہرداس بگها گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن اپنے والد سید شاہ آل حسن کی موت کے بعد وہ دو سال کے تھے کہ اپنے نانا سید شاہ مبارک حسین کے گھر پٹنہ سٹی آ گئے، جسے لوگ اس وقت عظیم آباد کے نام سے جانتے تھے۔ جب انہوں نے شاعری شروع کی تو اپنا نام بسملؔ عظیم آبادی رکھ لیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی وفات ٢٠؍جون؍١٩٧٨ء کو وفات پائی۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر بسملؔ عظیم آبادی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت..
جب کبھی نام محمدؐ لب پہ میرے آئے ہے
لب سے لب ملتے ہیں جیسے دل سے دل مل جائے ہے
—
آزادی نے بازو بھی سلامت نہیں رکھے
اے طاقت پرواز تجھے لائیں کہاں سے
—
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
—
بیابانِ جنوں میں شامِ غربت جب ستایا کی
مجھے رہ رہ کر اے صبحِ وطن تو یاد آیا کی
—
چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے
چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے
—
دیکھا نہ تم نے آنکھ اٹھا کر بھی ایک بار
گزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم
—
غیروں نے غیر جان کے ہم کو اٹھا دیا
بیٹھے جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھ کر
—
جرأتِ شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن
پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو
—
کہاں قرار ہے کہنے کو دل قرار میں ہے
جو تھی خزاں میں وہی کیفیت بہار میں ہے
—
خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے
چمن والوں کو نیند آتی نہیں ہے
—
مجبوریوں کو اپنی کہیں کیا کسی سے ہم
لائے گئے ہیں، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم
—
نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے
خدا کے واسطے دیکھو نہ مسکرا کے مجھے
—
سودا وہ کیا کرے گا خریدار دیکھ کر
گھبرا گیا جو گرمئ بازار دیکھ کر
—
یہ کہہ کے دیتی جاتی ہے تسکیں شبِ فراق
وہ کون سی ہے رات کہ جس کی سحر نہ ہو
—
اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ
صرف مٹ جانے کی اک حسرت دلِ بسملؔ میں ہے
بسملؔ عظیم آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ