ہم مسافر مزاج کہ سال ہا سال اپنی موج میں چلتے چلے گئے ۔ دن رات ، بارش دھوپ ، آندھی طوفان ، کوئی چیز بھی ہمیں روک نہ پائی ۔ اردگرد جو کچھ آتا گیا ، بس دیکھتے گئے ، نظروں سے ہوتا ہر منظر ذہن پر نقش ہوتا گیا ۔ ہر منظر کا حساب کتاب اندر ہی اندر چلتا گیا اور فیصلہ محفوظ ہوتا گیا ۔ یوں ہی ہر لہجہ ، ہر چہرہ ، ہر لمحہ کہیں بہت اندر محفوظ ہوتا چلا گیا ۔
کبھی سفر کی صعوبتوں نے بیمار کر ڈالا ، تو کبھی بہت تھک ہار کر خود سے الجھ پڑے ، کبھی کسی موڑ پر اپنی راہگزر ہی کھو گئی تو کئی کئی دن الجھے الجھے ادھر ادھر پھرتے رہے ۔ ایسے میں بہت سے خوبصورت لمحے بھی آئے ، بہت سے خوبصورت علاقے بھی دیکھے ، بہت سی مسکراہٹیں ، بہت سا ایثار اور محبت بھی ملی ۔ پر کہیں رکے نہیں ، ہم بڑھتے چلے گئے ۔
آخر ہم اس مقام پر آ پہنچے جہاں جناب دل نے بساطِ دل پلٹ دی ۔ ہم سب کچھ ہار بیٹھے ۔ ہم یوں راہ سے بھٹکے کہ راہگزر کے نشاں بھی مٹنے لگے ۔ ہمارا سفر بھی کھو گیا اور حاصل سفر بھی گم کر بیٹھے ۔ ہمارے پھول سوکھ گئے ، لفظ مٹ گئے ، قلم ٹوٹ گئے ، لہجہ جذبات سے عاری ہوگیا ، یہاں تک کہ ذات تک مٹ گئی ۔
بساطِ دل پلٹ گئی اور ہم دیوانے محبت بانٹتے بانٹتے خود محبت کی ایک پائی تک کو ترسنے لگے ۔ ساری عمر کا گلاب لہجہ کانٹوں نے لہو لہان کردیا ۔ ہمت امید اور حوصلہ بانٹتے ہم ایسے بے آسرا ہوئے کہ اجڑے ہوئے خالی مکانوں ، بیابانوں اور جنگلوں میں جا بسے اور آنکھ بند کئے موت مانگنے لگے ۔
بس جناب دل کی مرضی تھی کہ خود تو ہارے ہی ساتھ ہمیں بھی لٹا آئے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...