تاریخ دان یووال نوح ہراری سے انکی ہم-جنس پرستی کے متعلق انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا ہم -جنس پرستی غیر فطری (unnatural) ہے؟ کیا ہم -جنس پرست فطرت کے قوانین کو توڑ رہے ہیں؟ جس پر انکا جواب تھا کہ:
سائنس نے انہیں چیزوں کو ویسے قبول کرنا سکھایا جیسی وہ ہیں، بنا کسی فسانے یا نظریے کا رنگ چڑھائے۔ یووال کہتے ہیں کہ کوئی بھی عمل، رویہ، چیز جو وجود رکھتے ہیں وہ غیر فطری ہو ہی نہیں سکتے، فطرت کے قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی طرح کام نہیں کرتے۔ انسان یا کوئی بھی جاندار فطرت کے قوانین کو نہیں توڑ سکتا، جس کی وضاحت وہ یوں مثال دے کر کرتے ہیں کہ:
“اگر ڈرائیونگ کرتے وقت آپ روڈ پر تعین کردہ رفتار سے زیادہ تیز گاڑی چلاتے ہیں تو یقیناً ٹریفک پولیس والا آپکو روک کر آپکا چالان کاٹتا ہے جسے گورنمنٹ کی طرف سے آرڈر ہوتا ہے، یہ انسانوں کے بنائے اصول ہیں جنہیں انسان توڑتے اور پاسداری کرتے ہیں ۔ لیکن اگر آپ خلا میں کوئی گاڑی چلا رہے ہیں اور آپ کی گاڑی کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہوجاتی ہے توکوئی کہکشانی (galactic ) ٹریفک پولیس والا آپ کا چالان نہیں کاٹے گا کیونکہ اگر آپ کی رفتار روشنی کی رفتار(جو کہ اس وقت سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی رفتار ہے) کو عبور کر لیتی ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ کی سمجھ اور ریسرچ میں غلطی ہوئی ہے نہ کہ فطرت کے قانون میں۔ مطلب یہی کہ روشنی کی رفتار سے بھی تیز رفتار کو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن وہ آپ کے علم میں نہیں، لیکن آپ یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ فطرت غلط ہے یا پھر ہم-جنس پرست غیرفطری حرکت میں ملوث ہیں، کیونکہ آپ کی سمجھ غلط ہوسکتی ہے، فطرت کے قوانین نہیں۔
ارتقائی بیالوجی کے مطابق فطرت میں غیر فطری کچھ بھی نہیں، ہر عضو وقت کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزرا اور گزرتے وقت کے ساتھ اسکا استعمال بدلتا گیا۔ مثال کے طور پر بیالوجسٹ کے مطابق پرَ رینگنے والے جانداروں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال ہوتے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ پرندوں نے ان پرَوں کی مدد سے اڑنا شروع کر دیا۔ انسان کی انگلیاں درخت کو چڑھنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں لیکن آج کا انسان اسے پیانو اور گٹار بجانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فطرت نے انسانوں کو منہ کھانا کھانے کے لیے فراہم کیا تھا لیکن آج ہم اسے بولنے اور اکثر دوسروں پر بلا وجہ تنقید اور نفرت آمیز جملے کسنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ٹھیک یونہی سیکس فطرت نے افزائش نسل (procreation)کے لیے ڈیزائن کیا تھا لیکن آج انسان اسے رشتے بنانےاور پلیژر کے لیے استعمال کرتے ہیں، یوں ہم-جنس پرستوں کا ایک دوسرے سے محبت کرنا غیر فطری نہیں ہے۔ کئی دوسرے جانداروں میں بھی ہم-جنس پرستی دیکھنے میں آتی ہے جن میں چمپنزی ( chimpanzees) شامل ہیں۔ چیمپینزی محض نسل بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ قربت، جنگیں ختم کرنے کے لیے سیکس کا استعمال کرتے ہیں، بقول یووال نوح ہراری کے۔
جینیات کے ماہرین(geneticist) نے ہم-جنس پرستی پر کیا ریسرچ کی ہے؟
ایم-آئی-ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کی سینیئر ماہرِ جینیات انڈریا گینا اور انکی ٹیم نے تقریباً پانچ لاکھ لوگوں کا DNA ٹیسٹ کیا کہ شاید ہم-جنس پرستی کے حوالے سے کسی خاص “gay gene” کی کھوج لگائی جاسکے لیکن اس ریسرچ میں نہ ہی کوئی “gay gene “ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی “straight gene”۔ انڈریا کہتی ہیں کہ جنسیت (sexuality) ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے، اس پر ریسرچ کرکے کسی نتیجے کو برآمد کرنا ممکن نہیں فی الحال۔ ایسی ہی ایک قسم کی جنسیت اور بھی ہے جسے “asexual” یا “ace” کہا جاتا ہے، جس میں انسانوں کو کوئی جنسی کشش نہیں ہوتی، کئی مشہور سیلیبرٹی خود کو کھلے عام “ace” کہتے ہیں البتہ اسکے بھی کوئی سائینٹفک شواہد موجود نہیں ہیں۔ بقول سوشیالوجسٹ کے، جنسیت ایک پیچیدہ عمل ہے جس پر اکثر ماحول اور زندگی میں ہونے والے تجربات کا بھی اثر ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے متعلق کوئی بھی ٹھوس یا حتمی بات کہنا ممکن نہیں۔ البتہ سائنسدانوں کے مطابق ہم-جنس پرستی کی جانب مائل ہونا کوئی بیماری نہیں۔
فلسفہ ہم-جنس پرستی کو کس نظریے سے دیکھتا ہے؟
سائنسدان نکولا ٹیسلا کہتے ہیں کہ اگر کائنات کے راز سمجھنا چاہتے ہو تو اسے انرجی، فریکونسی اور وائیبریشن کی سطح پر تسخیر کرو۔ نکولا کی اس بات سے ملتے جلتے کانسیپٹز ہمیں ہندو فلسفہ میں لنگم [lingam(masculine)] اور یونی[yoni (feminine)]، چائنیز فلسفے میں یِن ((f) Yin) اور ینگ ((m)Yang) کی صورت میں ملتے ہیں۔ ویسے تو روحانیت میں جنسیت پر کوئی تبصرہ موجود نہیں، لیکن کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ہم-جنس پرستی میں انرجی کا بھی کردار ہوسکتا ہے(وہ لوگ جو انرجی وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے مطابق)۔
ان دونوں فلسفوں کا ماننا ہے کہ ہر مردانہ قوت میں ایک چھوٹا ساحصہ زنانہ قوت کا ہوتا ہے اور یونہی زنانہ قوت میں ایک حصہ مردانہ قوت کا بھی ہوتا ہے۔ سائنس نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اسٹروجن (جو کہ زنانہ ہارمون ہے) مردوں میں بھی ایک خاص مقدار میں پایا جاتا ہے جبکہ ٹیسٹوسٹیرون (جو کہ مردانہ ہارمون ہے) اتنی ہی خاص مقدار میں خواتین میں پایا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو انرجی کے قانون پر یقین رکھتے ہیں انکا ماننا ہے ہوسکتا ہے کہ کچھ خواتین میں ینگ(مردانہ انرجی) زیادہ ہونے کے باعث انکی کشش دوسری خواتین کی جانب ہوتی ہوں اور بعض مردوں میں یِن (زنانہ انرجی) زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ہم-جنس پرستی کی جانب مائل ہوجاتے ہوں۔ اسکا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں البتہ محض ایک نظریہ ہے۔
حقیقت سے نظریں چرانا ہمیں بہتر زندگی کی جانب لے کر نہیں جاتا بلکہ اور بھی تکلیف دیتا ہے، آپ کتنی ہی نفرت کر لیں ہم-جنس پرستی سے لیکن آپ کے نفرت کرنے سے وہ بدل نہیں جاتی بلکہ بقول کارل یونگ کے وہ آپکا “شیڈو” بن جاتی ہے۔ کسی بھی فیلنگ کو اگنور کرنا یا دبانے سے بہتر ہے کہ اس پر ریسرچ کی جائے اسے محسوس کیا جائے یا سمجھا جائے۔ ایسے موضوعات کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے تمام تر نفرتوں اور جانبداریوں سے بالا تر ہوکر۔ جج کرنا، گالیاں دینا آسان ہے لیکن منطقی بنیادوں پر کسی کے احساسات یا اس کے ساتھ درپیش مسائل کو سمجھنا اور سپورٹ کرنا یقیناً بہت مشکل اور ہمت کا کام ہے۔
(مجھ سے اِن باکس میں کسی نے ہم-جنس پرستی پر لکھنے کی ریکویسٹ کی تھی، میں نےاس ٹاپک پر کوئی کتاب نہیں پڑھی، جو بھی آرگیومنٹز پیش کیے ہیں وہ انٹرویو اور مختلف ریسرچ سے لیے گئے ہیں، میرے پاس اس ٹاپک کی زیادہ انفارمیشن نہیں۔ اگر کسی کے پاس اس ٹاپک سے متعلق کوئی ریسرچ، معلومات یا کتاب کا حوالہ ہے تو کومنٹ میں شیئر کر سکتے ہیں)۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...