آج سے صرف پچاس سال پہلے سالانہ ایک کروڑ لوگ چیچک کا شکار ہو رہے تھے اور بیس لاکھ اموات ہوتی تھیں۔ اس کے مقابلے کی داستان آسان نہیں۔ اس کے خلاف چلنے والی مہم کے وقت عالمی ادارہ صحت کے سربراہ سمیت کم ہی کسی کو یقین تھا کہ اس کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔ اربوں لوگ جن میں سے ایسے ممالک بھی جو ڈبلیو ایچ او کے ممبر نہیں، ان تک پہنچنا کیسے ممکن ہو گا۔ اس کے خاتمے کے لئے مختص ہونے والا ابتدائی بجٹ بھی صرف ڈھائی ملین ڈالر تھا۔ ختم کرنے کی ٹیکنالوجی یعنی اس کی ویکسین موجود تھی مگر اصل مسئلہ عالمی سیاست، وسائل اور سکیل کا تھا۔
نائیجیریا میں ڈاکٹر بل فیج نے اس پر دلچسپ حکمت عمل بنائی۔ ویسی جیسے آگ بجھانے کے لئے کی جاتی ہے۔ جس جگہ پر چیچک تھی، اس کے اطراف میں ہالہ بنا کر ان گاؤں میں ویکسینیشن کی گئی۔ جن جگہوں پر لوگ سفر کرتے تھے، ان کو ٹارگٹ کیا گیا۔ ملنے والی اس معلومات کے ساتھ اور مقامی لوگوں کے تعاون سے پندرہ فیصد آبادی کو ویکسین دے کر چھ ہفتے میں اس پر قابو پایا گیا۔
سب سے بڑے سکیل پر چیچک کے خلاف جنگ کا میدان بھارت میں اترپردیش اور بہار بنے۔ فوجی آپریشن کی طرز پر 1973 میں دس روز میں تمام لوگوں گھروں میں قید کر کے ویکسین دی گئی اور ایک لاکھ تیس ہزار ہیلتھ ورکرز نے اس میں حصہ لیا لیکن اگلے سال بھی دس ہزار لوگ چیچک کا شکار ہوئے۔ یہ راؤنڈ ایک بار پھر کیا گیا۔ مئی 1975 میں یہ بھارت سے ختم ہو چکی تھی۔
اس کا آخری میدان صومالیہ تھا۔ 12 اکتوبر 1977 کو موگادیشو کے قریب ایک گاؤں میں دو بچے ہسپتال لائے گئے۔ ہسپتال کا ملازم علی مالن ان کی وجہ سے چیچک کا شکار ہو گیا۔ ہنگامی بنیادوں پر ہسپتال کے تمام عملے کو الگ کر دیا گیا اور ان کی ویکسین دی گئی۔ جس شخص سے بھی علی مالن ملا تھا، اس کی نشاندہی کی گئی اور ان کو مانیٹر کیا گیا۔ اس علاقے تک پہنچنے والے راستوں کی نگرانی کی گئی۔ اس گاؤں میں چیک پوسٹس لگا کر آنے جانے والوں کو ویکسین دی گئی۔
علی مالن دنیا میں آخری شخص تھا جو چیچک کا شکار ہوا۔ چیچک دنیا میں واحد انسانی مرض ہے جس کا جڑ سے خاتمہ کیا گیا ہے۔ کسی مرض کو ختم کرنے والے آخری چند کیس سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
چیچک کا آخری مریض علی مالن، ان دس ہزار رضاکاروں میں سے ہے جنہوں نے پورے صومالیہ میں پھر کر پولیو کے خاتمے کے لئے محنت کی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ چیچک کا آخری مریض صومالیہ میں تھا۔ پولیو کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیۓ۔
ایک وقت میں پولیو دنیا میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتا تھا۔ اس کے خلاف عالمی مہم 1988 میں شروع ہوئی۔ شمالی اور جنوبی امریکہ اور چین میں اس کا خاتمہ 1994 میں ، یورپ میں 1998 میں ہو گیا۔ لیکن اس کا خاتمہ دنیا سے مکمل طور پر نہیں ہوا۔ اس وقت پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں اس کے پچھلے سال بائیس نئے کیس آئے ہیں۔ اگر پولیو کا بھی علی مالن کی طرح آخری کیس کا جڑ سے خاتمہ ہو جاتا ہے تو یہ ایک بڑے مرض کے خلاف فتح ہو گی۔ دوسری صورت میں خطرہ یہ ہے کہ یہ ان تین ممالک سے باہر نہ نکل جائے یا پھر اس کا وائرس وہ روپ نہ دھار لے جس پر ویکسین اثر انداز نہ ہو۔
مویشیوں میں بیل روگ اس طرح کا مرض ہے جس کا خاتمہ عالمی تعاون سے ہوا ہے۔ اس کی جنگ کے آخری میدان ایتھوپیا، صومالیہ، یمن، پاکستان اور سوڈان تھے۔
پولیو ہی کیوں جب اتنی بیماریاں اور بھی ہیں؟ ایک وجہ یہ کہ اس کے خاتمے کا آسان طریقہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ہر بیماری کے لئے اس طرح کا بچاؤ میسر نہیں۔ انسانی جسم کے باہر یہ وائرس زندہ نہیں رہ سکتا اس لئے اس کے آخری مریض کے ختم ہونے کے بعد یہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے ختم ہو جائے گی۔ اس سے خطرہ کس قدر زیادہ ہے؟ ہر سال متاثر ہونے والے لاکھوں مریضوں کے افسوس ناک کہانیاں زیادہ پرانی نہیں اور کسی بیماری کے خاتمے کے لئے آخری چند کیس ختم کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے تو اس جڑی دنیا میں اس کی عالمی واپسی زیادہ مشکل نہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا اس بارے میں یہ کہنا تھا
Solution rests on good science but that's as far as science can go. Implementation depends on good management, co-operation and working through politics
ساتھ لگا پہلا گراف چیچک کے دنیا سے خاتمے کا ہے۔ دوسرا پولیو کے پچھلے تیس برسوں کا دنیا میں خاتمہ جغرافیائی لحاظ سے اور تیسرا اس خاتمے کو اعداد کے لحاظ سے دکھاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔