توکیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس ملک پر ہمیشہ اس طبقے کی حکمرانی رہے جو کلف لگی کھڑکھڑاتی پوشاکیں پہنے ڈبل کیبنوں میں گھومتا ہے۔ ساتھ کلاشنکوف بردار رکھتا ہے۔ بڑی بڑی مونچھوں پر گھی چپڑا ہوتا ہے اور اسمبلی میں صرف ہاتھ کھڑ اکرتا ہے۔ کتاب کے لفظ ہی سے اسے نفرت ہے۔
کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس مظلوم‘ مفلوک الحال ملک پر ڈیرہ دار ہی حکومت کرتے رہیں، جن کے ڈیروں میں مفرور مجرم رہتے ہیں‘ جن کی زندگی کا مقصد پٹواری اور تھانے دار کو قابو میں رکھنا ہے، جو حریفوں کے گھروں میں ڈاکے ڈلواتے ہیں اور آگ لگادیتے ہیں‘ جوبے بس عورتوں کو برہنہ کرکے گلیوں میں پھراتے ہیں‘ جو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی شادیاں نہیں کرتے کہ زمین کم نہ ہوجائے‘ جو معصوم بے گناہ لڑکیوں کو مارکر صحرا میں دفن کردیتے ہیں اور پھر کابینہ میں جا بیٹھتے ہیں‘ جو چاہتے ہیں کہ ان کے کمّی قیامت تک کمّی ہی رہیں!
کیا تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی تضحیک کرنے والے چاہتے ہیں کہ اربوں روپے کا حرام ہڑپ کرنے والے پراپرٹی ڈیلر، تھانوں پر حملہ کراکے چھوٹ جانے والے مجرم، ایفی ڈرین کی منشیات میں ملوث دوافروش، عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے مجاور اور سرکار سے زمینیں ہتھیانے والے ضمیر فروش‘ دستار پوش ہی اس ملک میں دندناتے پھریں اور شریف لوگ کونوں کھدروں میں دبک کررہیں ؟کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ غنڈوں، اٹھائی گیروں اور چپڑی ہوئی مونچھوں والے ان پڑھوں کی سیاست سے تنگ آکر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اس ملک سے ہجرت ہی کرتے رہیں، سفارت خانوں کے آگے قطاریں باندھے کھڑے رہیں اور یہ ملک ٹھاہ ٹھاہ کرنے والوں ہی کی چراگاہ بنارہے ؟
آج جو لوگ برگر فیملی کی مکروہ اصطلاح ٹیلی ویژن چینلوں پر کسی خوف ملامت کے بغیر استعمال کرکے بدنما بتیسیوں کی نمائش کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ چوراہوں پر کھڑے ہوکر چرغے، سری پائے اور ٹکاٹک کھانے والوں ہی کا یہاں غلبہ رہے‘ جن کے بارے میں منیر نیازی نے کہا تھا: ؎
بندے نہیں سَن
جانور سَن
روٹیاں کھائی جاندے سَن
تے رولا پائی جاندے سَن
جو نانبائیوں سے بحث کرتے ہیں کہ نان پر تل کم لگے ہیں، جورات کو سونے سے پہلے آخری لفظ کڑاہی کا اور صبح بیدار ہوکر پہلا لفظ بالٹی کا منہ سے نکالتے ہیں، جن کا کھانا زندگی کے لیے نہیں بلکہ جن کی زندگی کھانے کے لیے ہے، جوپورا منہ کھول کر سب کے سامنے خلال کرتے ہیں اور جنہوں نے اس خوبصورت شہر کو‘ اس لاہور کو جو کبھی کالجوں اور باغوں کے لیے مشہور تھا، کھابوں کا شہر بناکر رکھ دیا ہے!
کیا ممی ڈیڈی کہہ کر کروڑوں ووٹروں کی توہین کا ارتکاب کرنے والے چاہتے ہیں کہ یہاں اقتدار انہی کے پاس رہے جو ماں جیسی قابل احترام ہستی کو ’’ما‘‘کہتے ہیں اور تُو کرکے خطاب کرتے ہیں ؟جونوجوان آئی ٹی کے میدان میں آج بھارت کا مقابلہ کررہے ہیں، بنک چلارہے ہیں ، مالی اداروں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ان کی توہین کا ان لوگوں کو کیا حق پہنچتا ہے جن کا کتاب اور قلم سے ، لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ سے، برائے نام تعلق بھی نہیں ، جوصرف دولت اکٹھی کرتے ہیں اور پھر اس دولت سے اقتدار خریدتے ہیں۔ جن کی صبح پامسٹوں کو ہاتھ دکھاکر اور شام زائچہ فروشوں کے سامنے سجدہ ریز ہوکر گزرتی ہے اور جوفائیوسٹار ہوٹلوں میں نجومیوں کو اس طرح رکھتے ہیں جیسے ڈیروں پر رکھیل رکھی جاتی ہے۔
اس طبقے نے اس ملک میں لائبریریوں کو ختم کیا، کتاب فروشوں کو چلتا کیا اور اب یہ چاہتے ہیں کہ جولوگ پڑھے لکھے ہیں، وہ اس ملک کو ان کے لیے چھوڑ کر ان تارکینِ وطن سے جاملیں جن تارکینِ وطن کو محض اس لیے ووٹ دینے کا حق نہیں ملا کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں!ٹیلی ویژن سکرینوں پر ممی ڈیڈی کی بانسری بجاکر مسرور ہونے والے نیم خواندہ سیاست دانوں کو معلوم ہے کہ جس دن لاکھوں تارکینِ وطن کو ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا، ان کی بانسریوں کے سوراخوں سے خوشی کے نغموں کے بجائے بین پھوٹنے لگیں گے۔
جس شخص نے یہ ملک بنایا تھا، آخر وہ کس طبقے سے تعلق رکھتا تھا؟ اس کے پاس زمین تھی نہ ڈیرہ، بندوق بردار تھے نہ پٹواری، وہ مرغبانی کا کاروبار کرتا تھا نہ پراپرٹی کا۔ قائداعظم نے ولایت میں تعلیم حاصل کی۔ انگریزی لباس پہنا، انگریزی زبان بولی، چھری کانٹے سے کھانا کھایا اور کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنی وضع قطع بدلی نہ طوراطوار ، نہ لائف سٹائل؛ وہ یہ راز پارگئے تھے کہ لنگوٹی باندھ کر تیسرے درجے کے ڈبے میں سفر کرنے والا گاندھی محض نمائش کے لیے اس طرح کررہا ہے۔ کانگرس کے ورکر تیسرے درجے کے اس ڈبے کو پہلے ڈی ڈی ٹی سے دھوتے تھے جس میں اس گندم نما جو فروش نے سفر کرنا ہوتا تھا۔ کروڑوں اربوں کے سکینڈلوں میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے یہ لوگ جس طبقے کو برگر اور ممی ڈیڈی کا طعنہ دے رہے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ طبقہ‘ یہ مڈل کلاس کے لوگ اپنی لیاقت سے، اپنے دماغ سے اور اپنی شبانہ روز محنت سے اس مقام پر پہنچے ہیں۔ پینسٹھ سال سے اس ملک کی ہڈیاں بھنبھوڑنے والوں کو آج دکھ ہے کہ مڈل کلاس پیداکیوں ہوگئی ہے۔ ان کا فائدہ اسی میں تھا کہ یہ مڈل کلاس ٹوئٹرہی پر لگی رہتی، پولنگ سٹیشنوں پر نہ پہنچتی ۔ لیکن افسوس ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اس ملک پر آخر پڑھے لکھے لوگوں کا بھی حق ہے!
تمہارے بچے تمہاری وراثت میں ڈیرے تو سنبھال سکتے ہیں، کلف لگی کھڑکھڑاتی پوشاکیں پہنے ، ڈبل کیبنوں میں سوار ٹریفک کے قانون تو پامال کرسکتے ہیں، تھانوں سے مجرموں کو تو چھڑاسکتے ہیں، پڑھے لکھوں کا مذاق تواڑا سکتے ہیں، لیکن مشہورعالم یونیورسٹیوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور عظیم الشان مالی اداروں میں نہیں پہنچ سکتے۔ وہ آئی ٹی میں بھارت کو آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ تم نے اس پنجاب کو گندم اور چینی درآمد کرنے والا گداگر بنادیا جس کی زمینداری تمہاری تحویل میں ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب کا چھوٹا سا ٹکڑا جوسرحد پار ہے، پورے بھارت کو اناج فراہم کررہا ہے۔ جس کلاس کا تم مذاق اڑا رہے ہو، یہ وہی کلاس ہے جس کی بھارت نے پذیرائی کی، سرآنکھوں پر بٹھایا، اسی مڈل کلاس نے بھارت کو آئی ٹی اور ملٹی نیشنل میدانوں میں آسمان تک پہنچا دیا۔ جن لوگوں کا قافیہ تنگ کرکے تم ملک سے باہر بھیجنا چاہتے ہو، ان لوگوں کو بھارت واپس بلارہا ہے، بھارت Reverse- Brain-Drain
کالطف اٹھارہا ہے اور تم تھانے کچہری کی سیاست کو بچانے کے لیے انہیں سیاست سے اور نتیجتاً ملک سے دور رکھنا چاہتے ہو!
لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ تمہارے بیمار خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے۔ جن کی تم تضحیک کررہے ہو اور جن کی تحقیر کے لیے نام رکھ کر تم قرآنی حکم (ولا تنابزوا بالالقاب) کی خلاف ورزی کررہے ہو، وہ اب مونچھ اور کلف کلچر کو تبدیل کرکے رہیں گے۔ جس اعلیٰ تعلیم یافتہ قائداعظم نے یہ ملک بنایا تھا، اس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ پیروکار ہی یہ ملک بچائیں گے ! ؎
مجھ پہ ہنستے تو ہیں پر دیکھنا روئیں گے رقیب
لبِ خنداں کی قسم ! دیدہ ٔ گریاں کی قسم
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...