کہا جاتا ہے کہ قدیم مصری جانوروں سے محبت کرتے تھے، جس کا ثبوت وہ ملنے والی فرعون کی ممیوں سے ملنے والی جانوروں کی ممیاں بھی ہیں، جن میں جانوروں کے سر والے دیوتا اور دیگر جانوروں کی ممیاں ہیں، کیا مصریون اور جانوروں کے درمیان تعلق اتنا ہی سیدھا تھا کہ جتنا کہ دریافت ہوا ہے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ پالتو جانوروں میں بلیاں، کتے، بندر نمایاں تھے، وہ اگرچہ آج کل کے جانوروں کی طرح زندگی نہیں گزر تے تھے، مگر گھروں میں ایک مفید اضافی ضرور سمجھے جاتے تھے، جیسا کہ چوہوں اور سانپوں کو مارنے اور گھروں سے دور رکھنے کے لیے بلیوں کو گھر میں رکھا جاتا تھا، اناج کے ذخیروں کو محفوظ بنانے، رکھوالی کرنے اور صحرا یا دلدل میں شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، بلکہ بلیوں کو دلدل میں شکار کی مہم پر بھی ساتھ رکھا جاتا تھا، بعض اوقات تو شکار کیے ہوئے پرندوں کو سرکنڈوں سے نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جیسا کہ قدیم دریافت شدہ تصاویر میں نمایا ں ہے کہ مصری بلیوں کو شکار کے لیے کس طرح استعمال کیا کرتے تھے،
اسی طرح آئی پوئی کے مقبرے سے ملنے والی پالتو بلی کو چاندی کی بالی پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو گیارہ سو قبل مسیح کا زمانہ تھا، اسی طرح ایک اور ملنے والی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک بلی اپنے مالک کی آنگھوٹی کے ساتھ کھیل رہی ہے، قدیم مصر میں پالتو جانوروں اور مالکوں کے درمیان واضح پیار، محبت کے جذبات نمایا ں تھے، آثار قدیمہ سے ملنے والے دستاویز کے مطابق قدیم مصر میں بلی کا نام بھی رکھا جاتا تھا، وہاں زیادہ تر بلیوں کو میو کہا جاتا تھا، جو بلی کو پکارنے کے لیے قدیم مصری لفظ ہے، سالتھ ساتھ قدیم مصری دیوی جس کا نام باسٹیٹ ہے، یہ الجھن سامنے آتی ہے کہ بلی کیا قدیم مصر میں کوئی دیوی تھی، یا پھر مصری بلیوں کی پوجا کرتے تھے، مگر اس تضاد کو حل کرنے کے لیے ہمیں مصریوں کے دیوتاوں کی فطرت دیکھنے کی ضرورت ہے ،بہت سے مصری دیوتاؤں کی نمائندگی بعض اوقات جانوروں کے سروں سے یا مکمل طور پر جانوروں کی شکل سے کی جاتی تھی، مثال کے طور پرکھیپری سر کے لیے برنگ ، بلی کے سر کے لیے باسٹ ، شیر کے سر کے لیے سیگھمٹ، گائے کے سر کے لیے ہاتور یا گائے کے کان اور گھوڑے کو فالکن کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا، تاہم ، ان سب کو مکمل انسانی شکل میں بھی پیش کیا جاتا تھا، گویا جب کسی دیوتا کو کسی جانور کے سر کے ساتھ دکھایا جاتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس دیوتا میں اس جانور کی خصوصیات یا اس کے طرز عمل کو ابھار، نمایا ں طور ظاہر یا پیش کر رہے ہیں، جیسا کہ کھیپری اپنے برنگی سر کے ساتھ سورج کی نمائندگی کرتا ہے، یا پھر گوبر سے تازہ پھنسے ہوئے رنگین گیند کو طلوع فجر میں افق پر ابھرتے ہوئے سورج کے مثماثل کہا جاسکتا ہے،قدیم مصری دیوتا ہورس کے ساتھ فطرت کے مشاہدات کے ذریعے ، خصوصیات دیوتاؤں کی طرف منسوب کی گئیں اور اس کی نمائندگی جانور کی تصویر سے ہوئی اور وہ جانور دیوتاوں سے جڑنے کی وجہ سے ذبیحہ نہیں کیے جا سکتے تھے، ، جس کی مثال جدید دور میں ہندوستان کی ہے، جہاں گائے کی پوجا کی جاتی ہے، پرستش کی جاتی ہے، بلکہ گاو ماتا کا رتبہ دیا جاتا ہے، اور ہندو قوم گائے کا گوشت نہیں کھاتی نہ ہی گائے کو ذبح کیا جا سکتا ہے، تاہم قدیم مصر میں، اگرچہ گائے ہاتور دیوتا کے لیے مقدس تھی مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ ان کی ہر گائے میں دیوی تھی، مگر گائے کا گوشت جو کھانا چاہے کھا سکتا تھا، جب مصرکسی دیوتا سے عقیدت رکھتے، تو اس کا کانسی کا مجسمہ بنا لیتے تھے، جو عام بات تھی، مگر اس زمانے میں کانسی کیو نکہ بہت مہنگی تھی، اس لیے دیوتاوں کے لیے قربانی دینے کے لیے ان سے وابستہ جانوروں کی ممیاں بنانا آسان تھا، اور پورے مصر میں اس طریقے پر عمل کیا جا تا تھا، قدیم مصرسے کھدائی کرتے ہوئے لاکھوں جانوروں کی ممیوں کو دریافت کیا گیا ہے، بلیاں باسٹیٹ دیوتا کے لیے مقدس تھیں، مگر مچھ سوبیک دیوتا کے لیے جانا جاتے تھے، آئی بیس تھوتھ دیوتا کے لیے مقدس تھا، شاید اسی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ وہ جانوروں سے محبت کرنے والی قوم ہیں، یا پھر اس قدر محبت یا عقیدت کہ اپنے مرنے والے جانوروں کی ا ممیاں بناتے ہیں،
سوبیک کی نمایاں خصوصایت میں بادشاہت تھی، جس کا ایک عصا ہوا کرتا تھا،جو شاہی قلعہ کی نمائندہ تھیں، سوبیک بھی بادشاہت کی خصوصات رکھتا تھا کہ اس کے پاس بھی ایک عصا اور شاہی قلعہ منسوب تھا، اسی سوبیک کو مگر مچھ دیوتا نیتھ کے بیٹے کا درجہ حاصل تھا، جو طاقت ، پانی اور زرخیزی کا دیوتا تھا، یا پھر خالق دیوتا کہا جاسکتا ہے، نیل مگرمچھ مصری دریا نیل میں کثرت سے رہتے تھے اور لمبائی میں چھ میٹر تک لمبے تھے، اور انہیں نیل میں سب سے زیادہ اموات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، جیسا کہ قدیم مصری پانی ، خوراک ، نقل و حمل اور کپڑے دھونے کے لیے دریائے نیل پر انحصار کرتے تھے ،وہاں مگرمچھ ایک بہت ہی حقیقی خطرہ تھے اور سوبیک کی عبادت کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے، سو بیک دیوتا کو پری خاندان سے پہلے کی مدت سے پوجا جا تھا تھا جس کا زمانہ تین ہزار ایک سو پچاس قبل مسیح تھا، مصری مین جا بجا بہت سے مزارات ہوا کرتے تھے، جو سو بیک سے منسوب کیے گئے تھے، نیو کنگڈم قبل مسیح) کے بہت سارے ثبوت موجود ہیں جو ہ میں بتاتے ہین کہ اس زمانے میں مگر مچوں کو کو خاص طور پر پالا جاتا تھا، کوم اومبو میں جہاں ایک جھیل ہوا کرتی تھی، مگر مچھوں کا گھر سمجھی جاتی تھی، یہاں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ مگر مچھ پیار کرنے یا زندگی گزارنے کے لیے نہیں پالی جا تے تھے بلکہ ان کو ذبح کیا جاتا تھا کہ ان کی ممیاں بنائی جا سکیں اور خدا کو پیش کیا جائے، قدیم مصری قبرستانون ہوار، لہون، تھیپس، میڈیننٹ وغیرہ میں سے ہزاروں مگر مچھوں کی ممیان دریافت کی گئی ہیں، جن میں چھوٹے کم عمر مگر مچھوں کے ساتھ بالغ اور چھ میٹ تک لمبے مگر مچھ بھی شامل ہیں، جن میں ان کے انڈے بھی موجود ہیں، ہیروڈوٹس، پانچویں صدی قبل مسیح میں لکھتا ہے کہ فایوم میں موئیرس جھیل پر لوگوں نے وہاں پر اٹھنے والے مگرمچھوں کو کھلایا ، اور انہیں سوبیک کے اعزاز کے طور پر کنگن اور بالیاں سے آراستہ کیا،دریائے نیل میں مگر مچھوں کی تعداد اتنی زیا دہ ہو چکی تھی کہ ان کو مارنا ممنوع نہیں تھیا، یہاں ماہی گیر بھی ان مگر مچھوں کو مار دیا کرتے تھے، ایک بار جب مندر کے مگرمچھ مر گئے یا ذبح کیے گئے تو انہیں ممی بنایا گیا، اور پھر مٹی کے تابوتوں میں دفن کردیا گیا، باسٹ ، شیرنی کے سر کے ساتھ ، شمسی ڈسک ، اور کوبرا کے بچے کی پیدائش کی دیوی کی نمائندگی کرتا تھا، صرف مگرمچھ صرف جانوروں کی ممیاں نہیں تھیں جو دیوتاؤں کو پیش کی جا تی تھیں، بلکہ بلیوں کی نت نئے ڈیزائنوں والی ممیاں بھی بنائی جاتی تھیں اور پھر انہیں دفنا دیا جاتا تھا، جو بوباسٹیس اور سکقرہ کے قبرستانوں میں پائی گئی ہیں۔ یہ بلی دیوی باسٹیٹ دیوتا کے لیے وقف تھیں،۔ مصری تاریخ کے تناظر میں باسٹٹ دیوتا کے ماننے والوں کا فرقہ نیا تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ فر قہ شیرنی دیوی سیکھمت سے پیدا ہوامگر تصاویر میں اس کی شبیہ زیادہ پرانی ہیں، باسٹ سورج دیوتا کا بیٹا شیرنی سیکھمیٹ امن کی علامت تھا، باسٹیٹ کو اکثر بلی کے بچوں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے، کیونکہ اس کا مرکزی کردار حفاظتی ماں کی حیثیت سے ہوتا تھا ۔ جب ہیروڈوٹس مصر میں تھا تو اس نے تبصرہ کیا کہ سینکڑوں ہزاروں یاتری اس جگہ پر آتے ہیں تاکہ دیوی کو خراج عقیدت پیش کرسکیں ،باسٹ دیوتا کو ایک بار ایک کلٹ سنٹر کے لوگوں نے نے ایک بلی کی ماں کو دیوی کے لیے اس امید کے ساتھ وقف کیا کہ وہ ان کی دعاؤں کا جواب دے گی۔ ان ممیوں کو مندر کے پجاریوں نے فروخت کیا تھا جنہوں نے سوبیک کی طرح ایک بریڈنگ پروگرام چلایا تھا اور ذبح کے لیے بلیاں فراہم کی تھیں ، وہاں ایک پجاری بلی کی روح کو کھانے اور دودھ دیا کر تا تھا، پھر قربان گاہ کو کو فریسکو ، تازہ پھولوں کے کلوں ، کمل کے پھولوں اور مجسموں سے سجایا جاتا تھا، سوبیک اور باسٹیٹ کے لیے وقف ہونے والی ممیوں کی تیاری ایک منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا تھا اور یہ بات واضح تھی کہ طلب سپلائی سے بڑھ چکی تھی، بہت سی بلیوں کو گلا گھونٹ کر مارا جاتا تھا، یا ان کی گر دنیں توٹ دی جاتی تھیں، یا پھر انہیں ذبح کر دیا جاتا تھا، تاہم، کئی ممیوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مکمل بلیوں کی باقیات نہیں تھیں بلکہ پیکنگ میٹریل اور بلی کے جسم کے ٹکڑوں کا سا ایک مجموعہ تھا جسے ممی کی شکل میں ڈھال دیا گیا تھا، اسی طرح کے نتائج اس وقت ہمارے سامنے آئے ،جب مگرمچھوں اور بلیوں کی ممیوں کو اسکین کیا گیا یا ایکس رے دکھایا گیا کہ کچھ سرکنڈوں، مٹی اور جسم کے حصوں سے بنے ہوئے تھے مگر صحیح شکل میں ڈھلے ہوئے تھے۔ کیا یہ ;39;جعلی;39; جانوروں کی ممیاں تھیں ، یا پھر بے ایمان پجا ریوں کا کام تھا، یا پھر مصر کے دیوتاوں اور مذہبی مقامات کی یا تر ا پر آئے کو لوٹنے کا طریقہ تھا، تاہم جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ نوجوان جانوروں کو ذبح کرنے کا یہ طریقہ اور پھر ممیاں بنا کر انہیں یا تریوں کو فروخت کرنا عجیب سی بات ہے، ایک طرف جانوروں کو ان کی خصوصیات اور رویے کی وجہ سے تعظیم دی جاتی تھی جسے ایڈمرل سمجھا جاتا تھا جو کسی دیوتا سے وابستہ ہوتے تھے،۔ تاہم دوسری طرف بلی کے بچوں کو ذبح کرنا اور مگرمچھ کے انڈوں کو فروخت کے لیے ہٹانا جانوروں کی بادشاہت کے لیے انتہائی عملی نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے۔
ختم شدہ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...