بلاول بھٹو، پنجاب میں کیا کرپائیں گے؟
بلاول بھٹو زرداری، پاکستان کی سیاست میں سب سے نوجوان قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں اپنے نانا کی کچھ کچھ سیاسی لائن کو چھونے کا آغاز کیا ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے علاوہ وہ پنجاب کو اپنی سیاسی اور انتخابی مہم کا مرکز بناتے جا رہے ہیں۔ اس میں انہوں نے دو حکمت عملیاں اپنا رکھی ہیں۔ ایک جنوبی پنجاب اور دوسری وسطی پنجاب۔ جنوبی پنجاب کی سیاست پر جاگیرداروں کی گرفت ہے ، اس لیے وہ جنوبی پنجاب میں وہ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ آئندہ انتخابات میں یقینی کامیابی رکھنے والے امیدواروں کے حلقوں اور شہروں میں جلسے منعقد کررہے ہیں تاکہ اس طرح وہ انتخابی نتائج میں عددی کامیابی کو یقینی بنا سکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وسطی پنجاب ہی وہ خطہ تھا جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک مقبول لیڈر کے طور پر اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ 1970ء اور 1977ء کے انتخابات میں وہ وسطی پنجاب کے حتمی رہنما جانے جاتے تھے۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد بدلتی سیاسی اور سماجی صورتِ حال کے تحت پی پی پی وسطی پنجاب میں سکڑتی چلی گئی۔ 1988ء کے انتخابات سے آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے، پی پی پی وسطی پنجاب میں انتخابی اور سیاسی طور پر کمزور ہوتی گئی۔ اس کے دو اسباب ہیں: ایک سبب نئے جنم لینے والے سیاسی اور سماجی تغیرات اور دوسرا پی پی پی کا اپنے طبقاتی اور ترقی پسند موقف سے دھیرے دھیرے دور ہوتے چلے جانا، وسطی پنجاب میں بڑھتی مڈل کلاس کا اس کے ہاتھوں سے چھن جانا ہی پی پی پی کی غیرمقبولیت کا راز ہے۔ اس مڈل کلاس کو پہلے مسلم لیگ (ن) نے اپنی قیادت فراہم کی اور پھر نئی جنم لینے والی مڈل کلاس اور نوجوان آبادی کو عمران خان نے اپنی سیاسی طاقت بنا لیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کا وسطی پنجاب کے شہروں میں کمزور ہونا، خود پیپلزپارٹی کی اپنی خامی ہے۔ اگر پی پی پی ایک بھرپور طبقاتی اور ترقی پسند لائن لیتی رہتی تو شاید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پنجاب میں ایک مقبول جماعت کے طور پر ظہورہی ممکن نہ ہوتا۔ لیکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نام نہاد مفاہمت کی سیاست جوکہ درحقیقت سرمایہ داری، جاگیرداری ، حکمران طبقات سے مفاہمت کی سیاست تھی، یکدم تیز ہوگئی اور اس خلا کو پی ٹی آئی نے پُرکردیا۔ بعد از بے نظیر بھٹو مفاہمت کا عمل درحقیقت حکمرانی کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنے سے عبارت ہوا۔
اور یوں 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی، وسطی پنجاب سے غائب ہوئی اور اس کی جگہ پاکستان تحریک انصاف سامنے آگئی۔ 2008ء سے 2013ء تک حکومت اور حکمرانی کے مفاہمتی سفر کے دوران پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی مرکز وسطی پنجاب سے غائب نظر آنے لگی۔ افسوس کہ پی پی پی اپنے سیاسی مخالفین کو جی ٹی روڈ کی پارٹی کا طعنہ دینے میں فخر محسوس کرنے لگی اور اسی کے ساتھ ’’تخت لاہور‘‘ کا طعنہ، نہ جانے پی پی پی ان دو طعنوں سے کن لوگوں کو خوش کرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ یہ دو طعنے پی پی پی کی طاقت نہیں بلکہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہیں۔ جی ٹی روڈ اور دیگر آبادیوں سے لبریز شہر پاکستان کی مڈل کلاس کا بڑا حصہ ہیں۔ پی پی پی اس مڈل کلاس کو جس طرح طعنے کے طور پر پیش کررہی تھی، اس نے پی پی پی کی ساکھ کو پورے پنجاب میں متاثر کیا اور یوں پنجابی ووٹرز کو احساس ہونے لگا کہ پی پی پی اُن کی جماعت نہیں۔ وہ تو بس سندھ کی ایک جماعت ہے۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو، پنجاب اور خصوصاً وسطی پنجاب کو اپنی سیاست کا دل سمجھتے تھے اور اسی طرح اُن کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی۔ اگر پنجاب اور وسطی پنجاب کو بے نظیر بھٹو اپنی سیاسی طاقت نہ سمجھتیں تو وہ 10اپریل 1986ء کو اپنی جلاوطنی کے بعد عوامی سیاست کا بھرپور آغاز کرنے کے لیے نام نہاد ’’تخت لاہور‘‘ ہی کیوں واپس آتیں جہاں لاہور اور وسطی پنجاب کے عوام نے اُن کا بے مثال استقبال کیا۔ اس لحاظ سے 2008ء کے بعد پی پی پی پنجاب کی سیاسی طاقت اور حقیقت کو اپنی نالائقی سے کھوتی چلی گئی۔
اور آج بلاول بھٹو زرداری دھیرے دھیرے اس طرف گامزن ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ مگر اس کے لیے اُن کو جلسوں سے زیادہ اپنے سیاسی موقف اور Narrative پر غور کرنا ہوگا۔ پنجاب کے دل لاہور کو ’’تخت لاہور‘‘ کہنے اور جی ٹی روڈ جیسے طعنوں سے توبہ تائب کرنا ہوگا اور یہ باور کروانا ہوگا کہ آج بھی پاکستان کے سب سے زیادہ غریب اسی صوبے میں بستے ہیں۔ اُن کو اپنے بیانات وخطابات میں پنجاب کے ا ندر طبقاتی سیاسی لائن لینی ہوگی۔ وہ جنوبی پنجاب کے جاگیردار جوکہ Electable سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں، اُن کی طاقت کی بجائے فیصل آباد، سرگودھا، لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ ، راولپنڈی، شیخوپورہ، ملتان، اور پنجاب کے دیگر اربن مراکز میں بسنے والے غریبوں اور پنجاب کے دیہات میں رہنے والے غریبوں کے درمیان ایک سیاسی اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ایک بھرپور ترقی پسند سیاسی لائن ہی اُن کی پارٹی کو وسطی پنجاب سے لے کر پورے پنجاب تک دوبارہ مقبول پارٹی بنا سکتی ہے۔ پی پی پی کو یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ وہ صرف سندھ تک محدود جماعت ہے۔ اُن کی پارٹی تو اپنے اس نعرے پر نازاں تھی کہ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر، بے نظیر۔‘‘ نہ جانے کس نالائق دانشور نے اُن کو اس لائن پر لگادیا کہ ’’تخت لاہور‘‘ اور جی ٹی روڈ کو طعنے کے طور پر اپنا لو۔
بلاول بھٹو زرداری اگر اپنی پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ ایک مقبول جماعت بنانا چاہتے ہیں تو اُن کو اپنی پارٹی کو بے نظیر بھٹو شہید کے سیاسی موقف تک ہی نہیں بلکہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی موقف تک جانا ہوگا۔اپنی پارٹی کو پنجاب کی مڈل کلاس، شہروں کی محنت کش اور دیہات کے مزارعوں کی پارٹی بنانا ہوگا۔ یہ تب تک ممکن نہیں، جب تک وہ ایک ریڈیکل ترقی پسند لائن نہ لیں۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف سخت موقف اور اسی کے ساتھ سامراج کے خلاف سخت لائن ہی وہ راز ہے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مقبول لیڈر میں بدل دیا۔ اور اس مقبولیت کا پھل 2007ء تک پی پی پی کاٹتی رہی۔ بلاول بھٹو زرداری ایک نوجوان لیڈر کے طور پر اگر یہ کچھ کر جائیں تو وہ اپنے مقابل دیگر سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا صفایا کرسکتے ہیں۔