وزیراعظم کے حالیہ دورہ روس کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ایک موقف یہ ہے کہ ان حالات میں پہلے سے طے شدہ دورہ منسوخ کرکے اقوام عالم میں متنازعہ ہونے سے بچا جاسکتا تھا جبکہ ایک موقف یہ ہے کہ یہ دورہ کافی پہلے سے طے شدہ تھا لہذا اس دورے کو منسوخ کرنا ممکن نہیں تھا اور اس دورے سے ملک و قوم کو بہت فائدہ ہونے جارہا ہے ۔یہ بحث تو جاری رہے گی تاہم اس دورے کے مثبت یا منفی اثرات سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔تاہم یہ طے ہے کہ روس یوکرائن تنازعہ سے دنیا ایک بحران کی طرف بڑھ رہی ہے لامحالہ اس کے اثرات پوری دنیا پراپنا منفی اثر چھوڑیں گے ۔
منفی اثر تو پیکا آرڈیننس نے بھی آزادی اظہار رائے پر ڈالا ہے نتیجہ یہ کہ سوائے حکومتی اراکین کے باقی تمام طبقے اس آرڈیننس کی مخالفت کررہے ہیں ۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے اس کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے جبکہ صحافتی تنظیموں نے اس آرڈیننس کے خلاف مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے ۔بارہا عرض کی ہے ایک بارپھر کہہ رہا ہوں کہ اقتدار کے مزاج اور رویے ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ن لیگ نے یہ قانون بنا کر ابتدا کی تو تحریک انصاف اس کو انتہا تک لے کے جارہی ہے نتیجہ یہ کہ اگر یہ قانون موجود رہا تو کل یہ دونوں جماعتیں رویں گی ۔مکافات عمل ہے کہ جو کچھ ن لیگ نے اپنی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے قائدین کی جس طرح کردار کشی کی وہی کچھ تحریک انصاف نے ن لیگ کے ساتھ کیا۔اب موجودہ حالات اور مستقبل میں تحریک انصاف کے ساتھ کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے
بات اگر اندازوں کی کی جائے تو کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ گزشتہ عام انتخابات میں برسراقتدار آنے والی تبدیلی سرکار ملک کی معیشیت کومحض چارسال میں اس مقام پرلے آئے گی کہ عام آدمی کا جینا دوبھرہوجائے گا۔بجلی ، گیس ، پٹرول اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے تبدیلی کے تمام نشے ہرن کردئیے ہیں۔روزانہ کی دیہاڑٰی یا پھر مہینے بھی کی تنخواہ وہ چھوٹی چادر بن گئی ہے جس سے سرڈھانپیں تو پیر ننگے ہوتے ہیں اور پیر ڈھانپیں تو سرننگا ہوتا ہے۔مہنگائی کے سونامی نے تباہی مچا دی ہے ۔ابھی بھی کچھ بچت تھی اب خیر سے گرمیوں کا سیزن شروع ہونے جارہا ہے اور بجلی کے بلوں نے رہی سہی کسر پوری کردینی ہے ۔ان گرمیوں میں عوام تکلیف پہنچے گی بجلی کے بل حقییقی معنوں میں عوام کو رلائیں گے۔
اس سے قبل گندم کا بحران پیدا ہونے والا ہے جلد ہی گندم کی فصل اترنے والی ہے اور اس بار گندم حکومت کی مقرر کردہ امدادی قیمت پر کسان فروخت کرنے کو تیار نہیں ہیں مہنگی ترین کھاد اور ڈیزل کے بعد گندم کے نرخ میں اضافہ کسان کی منافع کی ہوس نہیں بلکہ اخراجات پورے کرنے کی کوشش ہوگی لہذا گندم کی مصنوعی قلت ہوگی نرخ بڑھیں گے اور پھر مہنگے داموں گندم فروخت ہوگی اور یوں عام دیہاڑی دار آدمی پس کر رہ جائے گا۔دو وقت کی روٹی کی خاطر ہلکان ہونے والی جنتا کو شائد دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہی نا ہو۔ایک زرعی ملک کی عوام اگر مہنگا اناج خریدے گی تو یہ کس کی نااہلی ہوگی کون زمہ دار ہوگا اس کا اور اس نالائقی کی سزا کیا ہونی چاہیے یہ فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے
اور شائد عوام حکومتی نالائقیوں اور نااہلیوں پر فیصلہ کرچکی ہے بس اس پر عمل درامد ہونا باقی ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ جتنے ضمنی الیکشن ہوئے سوائے ایک دو نشستوں کے حکومتی امیدوار برے طریقے سے ہارے ہیں ۔کے پی کے میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابی نتائج بھی حکومت کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں ۔ دوسرے مرحلے کے نتائج بھی پہلے سے مختلف نہیں ہوں گے ۔اس کے بعد مئی میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی حکومتی امیدواروں کے لیئے کسی سرپرائز سے کم نہیں ہوں گے۔اور اگر حکومتی معاشی کارکردگی اسی طرح رہی تو آئندہ سال کے عام انتخابات تحریک انصاف کے لیئے قطعی خوشگوار نہیں ہوں گے
اسی مہنگائی کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو آج کراچی سے عوامی مارچ شروع کررہے ہیں۔یہ مارچ سات یا آٹھ مارچ کو اسلام آباد پہنچ کر اختتام پذیر ہوگا۔ایک اندازے کے مطابق یہ ایک کامیاب لانگ مارچ ہوگا جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد شرکت کرئے گی ۔مارچ میں سندھ کے عوام کی شرکت قابل فہم ہے دیکھنا یہ ہےکہ جب یہ مارچ پنجاب میں داخل ہوگا تو پنجاب کی کتنی عوام نکلتی ہے ۔توقع یہی کی جارہی ہے کہ مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے عوام اس مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے اور عوام کی حاضری کی بنیاد پر یہ ایک کامیاب لانگ مارچ ہوگا۔
سوال پھر بھی وہی ہے کہ کیا اس کے بعد مہنگائی کم ہوجائے گی کیا روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے اگر ہاں تو پھر ٹھیک ہے اگر نہیں تو پھر عوام کو اس ازیت سے نجات دلانے کے لیئے لانگ مارچ کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اپوزیشن لانگ مارچ کے اختتام پر متفقہ طورپر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تاریخ دے اور پھر بھرپور تیاری کے ساتھ اس عدم اعتماد کو کامیاب کرائے ۔اگر یہ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی اور موجودہ حکومت مزید ایک ڈیڑھ سال حکومت کرتی ہے تو یاد رکھیں عام آدمی کی حالت مزید ابتر ہوجائے گی ۔ایسی حالت میں صرف حکومت کی ہی ساکھ خراب نہیں ہوگی بلکہ اپوزیشن کی ساکھ کو بھی دھچکا لگے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست ضرور کی جائے تاہم عام آدمی کے زندہ رہنے کی بھی تدبیر کی جائے ۔طے شدہ امر ہے کہ اس مہنگائی میں عام آدمی کا جینا اور مطمئن زندگی بسر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوچکا ہے۔حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اور عوام پر اتنا بوجھ ڈالے جتنا وہ اٹھانے کی سکت رکھتے ہوں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...