کچھ مدت قبل ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کپتان کو میڈیا کے زریعے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان آپ دعا کریں کہ آپ کے اقتدار کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت آجائے تو آپ کی کچھ بچت ہوجائے گی اور اگر ن لیگ کی حکومت آگئی تو پھر اپنی خیر منائیں ۔اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کپتان کو شائد بلاول کی دعا مانگنے کی ہدایت پسند نہیں آئی اور دعا نہیں مانگی حالانکہ دعائیں رد بلا کے لیئے ہوتی ہیں ہونی کو انہونی میں بدل دیتی ہیں اور مشکلات اور مصیبتوں کا رخ موڑ دیتی ہیں ۔قصہ مختصر کہ دعا نہیں کی گئی اور اب ن لیگ کے صدر شہباز شریف کا نام مجوزہ قومی حکومت کے وزیراعظم کے طورپر لیا جارہا ہے
ستم یہ کہ اسی پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ میں شہباز شریف سے کہوں گا کہ وزیرداخلہ کوئی اچھا بندہ رکھیں ۔یہ بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پر زومعنی مسکراہٹ تھی ۔اور اب جو تجاویز سن رہے ہیں اس کے مطابق ممکنہ وزیرداخلہ ن لیگ کے رانا ثنا اللہ کا نام آرہا ہے ۔اب خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ مبینہ منشیات کے جھوٹے کیس میں گرفتار ہونےوالے رانا ثنا اللہ کی وزارت داخلہ کے ایام کپتان اوران کی ٹٰیم کے لیے کتنے بھاری ہوسکتے ہیں ۔ایسے میں کم سے کم ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ ملک میں انتقام کی سیاست کا دروازہ بند ہونا چاہیے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ دروازہ کپتان اور ان کی ٹٰم نے کھولا ہے اب اس کو بند کوئی اور کرے گا اگر کیا تو۔
رہی بات کہ کیا ہورہا ہے تو عزیزو صورتحال یہ ہے کہ اس برے وقت سے بچنے کی حکومت ہر کوشش کررہی ہے ۔عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا کہ شائد کوئی راستہ مل جائے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت کے سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل کو یقین دہانی کرنی پڑگئی کہ کسی رکن اسمبلی کو ووٹ دینے سے نہیں روکا جاسکتا اور اسمبلی کے سامنے ہجوم بھی نہیں ہوگا اور عملی طورپر حکمران جماعت کے جلسہ کی درخواست ڈی چوک کی بجائے پریڈ گراونڈ کے لیے دے دی گئی ۔رہی بات کہ ایک شق کی تشریح کی تو اس کے لیے بھی 24 مارچ کو لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے اور اس کی وضاحت بھی جلد ہوجائے گی۔
متحدہ اپوزیشن کا اعتماد بتا رہا ہے کہ معاملات ان کے ہاتھ میں ہیں جبکہ کپتان کی تقاریر اس بات کی غمازی کررہی ہیں کہ معاملات ہاتھ سے نکل گئے ہیں ۔تاہم کپتان نے مقبول نعروں کا سہارا لے لیا ہے اور کم سے کم اپنی جماعت کے ورکرز کا حوصلہ بڑھا دیا ہے ۔اس سارے مرحلے میں کپتان کی کارکردگی کہیں پس پشت چلی گئی ہے اور بات اب مذہبی نعروں ،انا اور خودداری پر آگئی ہے ۔کپتان نے کہا تھا کہ وہ اقتدار سے باہر زیادہ خطرناک ہوگا تو کسی حد تک یہ بات درست لگ رہی ہے مگر پریشانی کی بات یہ ہے کہ کپتان کا خطرہ اپوزیشن کو نہیں ان کو ہوسکتا ہے جو کپتان کو اقتدار میں لائے تھے۔
کل اگر مقبولیت کے چکر میں اور خود کو مافوق الفطرت ثابت کرنے کے لیئے کپتان نے بھرے مجمع میں وہ باتیں بھی کرنی شروع کردیں جو راز رکھی جاتی ہیں جو سرگوشیوں میں کی جاتی ہیں تو پھر کیا ہوگا۔اور کپتان سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ ایسا کربھی دے تو سوچیں کیا ہوگا یہ ایسے ہوگا کہ پرانے وقتوں کی محبتوں کی طرح خون سے لکھے گئے پریم پتر کو عطر میں ڈبو کرمحبوب کی طرف بھیجا جائےا ور وہ خط محبوب کے کسی خونخوار قسم کے رشتہ دار کے ہاتھ لگ جائے تو اس کے بعد کی صورتحال کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیا ہوتی تھی اور اسی طرح اگر کپتان نے راز کی باتیں مجمع عام کردیں تو سوچیں کیا ہوگا
ہونے کو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے یہ ممکنات کی دنیا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن اپنی عدم اعتماد کی تحریک ہی واپس لے لے اور کپتان کو آسان رستہ دے کہ بقیہ ماندہ مدت میں جو کرنا ہے کرلو ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کپتان آخری گیند تک لڑنے کی نیت سے کمر کس لے مگر اس کی ساری وکٹیں ہی گرجائیں اب اکیلا کپتان کیسے کھیل سکتا ہے ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخری اوور کی ساری گیندیں ہوجائیں اور کپتان مطلوبہ سکور پورا نا کرسکے ۔جہاں تک سیاسی پنڈتوں کی رائے ہے وہ یہ ہے کہ اب گھر جانا نوشتہ دیوار ہے ۔اور شائد کپتان کو یہ بات معلوم ہوگئی ہے اس لیئے اس کی حالیہ تقاریر پر اگر غور کیا جائے تو وہ کسی وزیراعظم کی نہیں اپوزیشن لیڈر کی تقاریر زیادہ لگ رہی ہیں
اس صورتحال میں بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ اپوزیشن نے نئے سیٹ اپ کے لیے ہوم ورک پورا کیا ہوا ہے۔اب یہ نیا سیٹ اپ کتنی مدت کے لیے ہوگا کیسےچلے گا اور کیا ڈلیور بھی کرسکے گا یا نہیں یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ ملکی معیشت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔تاہم اگر موجودہ اپوزیشن اگر برسراقتدار آگئی اور ابتدائی دنوں میں الیکشن ریفارمز کی ترامیم ختم کرکے نئے انتخابات کی طرف جاتی ہے تو یہ اپوزیشن کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا ۔کیونکہ اس مدت میں کپتان کی ٹٰیم میں ایک بھونچال آنا ہے اور کھلاڑیوں نے ضمیر کی آواز پر دیگر پارٹیوں کا رخ کرنا ہے اور کپتان ایک بار پھر 2013 سے پہلے کی پوزیشن پر چلا جائے گا۔رہی بات کہ آئندہ عام انتخابات کا نتیجہ کیا ہوگا تو اس کا تجزیہ بہت آسان ہے اور وہ یہ کہ ناتو کپتان کو خفیہ ہاتھ کی آشیر باد حاصل ہوگی اور ناہی عوامی مقبولیت کا وہ گراف ہوگا جو 2018 میں تھا سندھ میں پی پی پی ، پنجاب میں ن لیگ اور کے پی کے میں جے یوآئی ، اے این پی ، ن لیگ اور پی پی پی ٹف ٹائم دیں گی اور بلوچستان تو پہلے ہی ریاست کے ساتھ ہوتا ہے ۔لہذا مریم نواز شریف کے مطابق کپتان کے لیئے دی گیم از اوور ناو اور ساتھ ہی اگلا الیکشن بھی ہاتھ سے گیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...