بلاول بھٹو، ایک لیڈر کا ظہور
ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ انتخابات کا تسلسل برقرار رہے تو جمہوریت مضبوط ہوجائے گی اور اس کا پھل عوام کو ملنے لگے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی یہ دلیل ترقی پسند دیا کرتے تھے اور اب یہ دلیل دائیں بازو کے لوگ دیتے ہیں۔ میں اس موضوع پر کئی بار اِنہی صفحات پر تفصیل سے اپنا نقطۂ نظر لکھ چکا ہوں۔ میرے مستقل قارئین یقینا میرے تجزیے سے آگاہ ہوں گے۔ اگر یہ دلیل اسی قدر درست ہے تو پھر بھارت میں ستر سال سے جمہوریت کا تسلسل بھارت کو ایک حقیقی جمہوری سماج کیوں نہ بنا سکا؟ اور اس کے پھل ٹوٹ کر عوام کی جھولیوں میں کیوںکر نہ گر سکے اور بھارت دنیا کی سب سے غربت کیوں ہے؟ اور ہر انتخابات میں سینکڑوں کی تعداد میں قاتل، مافیا، مذہبی انتہا پسند، غنڈے اور کرپٹ لوگ،جیت کر لوک سبھا سے لے کر ریاستوں کی اسمبلیوں میںکیوں کر پہنچ جاتے ہیں؟ اس لیے کہ ہمارے ہاں متعارف ہونے والی جمہوریت، مغربی جمہوریت سے یکسر مختلف ہے۔ برصغیر میں جمہوریت سامراج کی متعارف کردہ ’’کلونیل ڈیموکریسی‘‘ ہے۔ اس سیاسی ڈھانچے میں قاتل، لوٹ مار کرنے والے تو پنپ سکتے ہیں، عام آدمی نہیں۔ چوںکہ ہمارا ریاستی اور سماجی ڈھانچا کلونیل بنیادوں پر جس طرح قائم کیا گیا، اس پر جس قسم کی جمہوریت پنپ اور پھل پھول سکتی ہے، اس کو ہم بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ 1985ء سے پاکستان میں انتخابات تین سالوں کے تسلسل کے بغیر منعقد ہورہے ہیں۔ 1999ء سے 2002ء تک تین سالوں کی رکاوٹ کے علاوہ، اس دوران انتخابات کے نتیجے میں جو قیادت ابھر کر سامنے آئی ہے، وہی آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس دوران نظریہ، منشور اور سیاسی فکر بھی انتخابات میں معدوم ہوتی گئی اور جمہوری رویے بھی۔ 2013ء کے انتخابات تک اور اس کے بعد افسوس کہ نئی مقبول ہونے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح ان منفی رویوں کے رحجان کو تقویت دی ہے، اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اوئے توئے کا کلچر، گالیوں کو اپنی انتہا تک پہنچانے میں پی ٹی آئی نے ’’بھرپور کردار‘‘ ادا کیا۔ اور اس نئی مقبول ہونے والی جماعت نے اپنے سیاسی کارکنوں کو سیاسی تربیت میں گالی گلوچ، تہمت بازی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس کی وجہ اعلیٰ قیادت سے متعارف ہونے والی سیاسی زبان اور رویے ہیں۔ اسی لیے 2018ء کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے قائدین، سیاسی نظریے، سیاسی منشور اور انتخابی منشور کی بجائے گالیوں، تہمتوں اور بیہودہ زبان کے ساتھ اترے ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا سماج، ہماری سیاسی ثقافت اور انتخابی عمل مزید جمہوری ہونے کی بجائے زوال کی طرف گامزن ہوئے ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں جس چیز سے سب کو آہستہ آہستہ متوجہ کیا، وہ ہے بلاول بھٹو کی انتخابی مہم۔ سیاسی اندازِبیان اور سب سے اہم انتخابات کو تہمت، گالی، مخالفین کو الٹا لٹکا دینے کی مہم بنانے کی بجائے انہوں نے سیاسی منشور اور سیاسی نظریے کو اوّل وآخر سرفہرست رکھا۔ دھیرے دھیرے اُن کی اس مثبت اور حقیقی معنوں میں واحد سیاسی انتخابی مہم نے عام لوگوں سے لے کر اہل فکر لوگوں تک کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک ایک دن میں اٹھارہ سے بیس انتخابی جلسے منعقد کرکے اس انتخابی مہم کو دوبارہ بحال کردیا جو اب ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی تھی۔ اُنہوں نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی انتخابی روایت کو بھرپور طریقے سے اپنایا اور ایک ایک دن میں انہوں نے سینکڑوں میل سفر کرکے ایسے ہی انتخابی جلسوں سے خطابات کیے۔ بلاول بھٹو نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز اپنے انتخابی منشور کی شائع شدہ کتاب سے کیا۔ دوسروں نے انتخابی مہم کا آغاز گالی، انتقام، تہمت، غداری اور کفر کے فتووں اور مخالفین کو جیلوں میں بھیج دینے اور سرعام الٹا لٹکا دینے کے نعروں سے کیا۔
بلاول بھٹو نے اپنی انتخابی مہم سے عام لوگوں میں خوشی، حیرانی اور اطمینان کی ایک نئی امید قائم ہونے لگی، اسی لیے جب اُن کا انتخابی قافلہ درجنوں قصبات سے ہوتا ہوا سرگودھا پہنچا تو پاکستان کا وہ میڈیا جو لیڈروں کے سکینڈلز کو قومی خبر کے طور پر پیش کرکے سب سے پہلے خبر دینے کا اعزاز حاصل کرنے میں سر غرور سے اونچا کرلیتا ہے، وہ بھی مجبور ہوا کہ اب اس کو بھی خبر بنایا جائے کہ ایک نوجوان کیسے ہزاروں بڑے بڑے جلسوں میں کامیاب ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ بلاول بھٹو کا درازقد ہونا نہیں اور نہ ہی اُن کی نوجوانی ہے بلکہ اُن کا وہ سیاسی موقف ہے جس میں لوگوں کے مسائل کا ذکر ہے اور اس پر اُن کے لہجے کی شائستگی نے معاشرے میں سخت گیر زبان کو مثبت انداز میں شکست دینے کا آغاز کردیا ہے۔ دھیمے لہجے میں عوام کے مسائل کی بات، معاشی منشور کی بات، انہوں نے ایک ترقی پسند موقف اپنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی عوام کی بات کرے تو بات بن جاتی ہے۔ انہوں نے محنت کشوں کے حقوق، استحصالی نظام اور عوامی حقوق کی بات کی ہے اور سب سے اہم یہ کہ انہوں نے اس موقف میں کامیابی کا جو میدان چنا، وہ وسطی پنجاب ہے اور یوں ا س تاثر کو زائل کرنے کا آغاز کردیا ہے کہ پی پی پی پنجاب مخالف جماعت بن چکی ہے۔ یہ تاثر بنانے میں جنوبی پنجاب کے اُن جاگیرداروں کا کردار ہے جو اپنی طبقاتی سیاست یعنی جاگیردارانہ گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے وسطی پنجاب کو ’’تخت لاہور‘‘ جیسے طعنے دے کر پی پی پی میں اپنا اثرورسوخ قائم اور مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔ پی پی پی کی اٹھان اور مقبولیت میں ہمیشہ وسطی پنجاب نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ اپنی سیاست کا مرکز وسطی پنجاب کو بنایا۔ میں بلاول بھٹو سے جب پہلی بار ملا تو تب بھی اُن کو یہی گوش گزار کیا اور آخری بار بھی کہ خدارا آپ اس تاثر کو مسترد کردیں اور اس حوالے سے پچھلے دو سالوں میں مَیں نے انہی صفحات پر کالم بھی لکھے کہ جن میں اُن کو اس طرف بار بار متوجہ کیا۔ اُن کے سامنے بالمشافہ ملاقات میں مَیں نے جو نکات پیش کیے اور پھر کالموں میں تحریر کیا، بلاول بھٹو نے اُن پر اپنی میٹنگز میں سنجیدگی سے بحث کی۔ اُن کے اردگرد اس وقت جو قائدین ہیں، وہ صرف سیاسی بصیرت ہی نہیں رکھتے بلکہ سیاسی تربیت اور نظریے میں اپنی مثال آپ ہیں، جن میں مولا بخش چانڈیو، اعتزاز احسن، جمیل سومرو، قمرالزمان کائرہ اور دیگر لوگ شامل ہیں۔
بلاول بھٹو کی پارٹی جس طرح 2013ء کے انتخابات میں سکڑی، اس نے پی پی پی کے ہمدردوں ہی نہیں بلکہ تمام درد اور ویژن رکھنے والے اہل فکر لوگوں کو فکر میں مبتلا کردیا تھا کہ پاکستان کی واحد بین الصوبائی جماعت کا یوں ایک صوبے تک محدود ہوجانا، پاکستان کے وفاق کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ راقم نے اس مایوسی کے دوران بار بار تحریروں اور مختلف تقریبات میں یہ کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان کے پسے ہوئے عوام کی روایتی پارٹی ہے۔ اس کو اقتدار کے ہوس پرستوں نے اس مقام تک پہنچایا۔ جب بھی کوئی شخص اس پارٹی کے اندر نظریاتی بات کرے گا، پاکستان کے عوام کی روایتی پارٹی دوبارہ اپنی مقبولیت بحال کروانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بلاول بھٹو نے اپنی پارٹی، انتخابی مہم اور سیاست کو اس نظریاتی بحران سے باہر نکالنے کا اچھا آغاز کیا ہے اور اہم ترین بات کہ ایک وفاقی پارٹی کی وفاق کی تمام اکائیوں میں بحالی، پاکستان کے لیے اتحاد کی علامت کو بحال کرنے کا آغاز ہے۔
لاہور میں دو سال قبل بڑے اینکرز اور اینکریاں ایک ڈنر میں مدعو تھے، جس میں مہمانِ خصوصی بلاول بھٹو زرداری تھے۔ اس ڈنر میں پاکستان کے ’’سینئرز‘‘ اور ’’چوٹی کے تجزیہ نگار‘‘ موجود تھے۔ سب اُن کو خوف زدہ کرنے میں پیش پیش تھے۔جب محفل اپنے عروج کو پہنچی اور الیکٹرانک میڈیا کے یہ نومولودتجزیہ نگار اس نوجوان لیڈر کو خوف میں گھیرتے ہوئے دائرہ تنگ کرتے چلے گئے کہ آپ کے تو ہر حلقے میں اب بس پانچ پانچ ہزار ووٹ رہ گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی اب ختم ہوچکی ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں یکدم بولا، ’’بلاول صاحب، ان ٹی وی اینکرز کو کیا علم کہ سیاسی جماعتیں کیسے بنتی ہیں۔‘‘ میرے اس برملا سخت جملے پر اینکرز اور اینکریاں یکدم چپ ہوگئے۔ اسی میز پر بیٹھے محترم عارف نظامی صاحب بولے، میں بھی؟ میں نے عرض کی، جی ہاں ۔ اور دوبارہ بات جاری رکھتے ہوئے کہا، سیاسی جماعتیں بنانے کا شعور اور ادراک صرف سیاسی کارکن رکھتے ہیں۔ اُن کے پاس جائیں، وہ آپ کو آپ کی پارٹی بنا کر دکھا دیں گے۔ اور یہاں جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے ہر حلقے میں پانچ پانچ ہزار ووٹرز ہیں، یہ بھی غلط ہے۔ یہ پانچ پانچ ہزار ووٹرز نہیں، ہر حلقے میں آپ کے سیاسی کارکن ہیں۔ ووٹرز توآپ کے لوٹ لیے مختلف سیاسی جماعتوں نے، نظریاتی بحران اور پارٹی کے اقتدار کے ہوس پرست جاگیردارا ور نودولتیے لوگوں کی سیاست نے۔ جس پارٹی کو پاس ٹرینڈ پانچ پانچ ہزار سیاسی کارکن ہوں، وہ تو کسی بھی سماج میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ آپ نظریاتی بحران کا حل کریں، آپ کے مایوس سیاسی کارکن آپ کی پارٹی کو ایسا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ آپ پھر پنجاب میں ایک ہاتھ سے ایک سیاسی جماعت کی مقبولیت کو دفن کرسکتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے دوسری سیاسی جماعت کو۔کیوں کہ پنجاب میں Right vs Right سیاسی جماعتیں برپا ہیں۔ یہاں سیاسی کشمکش ہی دایاں بازو بمقابلہ دایاں بازو ہے۔ آپ اپنے نانا کی سیاسی فکر، اندازِسیاست کو بحال کریں۔ آپ کے سیاسی کارکن وہ انقلاب برپا کرسکتے ہیں جس کے لیے پنجاب کے عوام منتظر ہیں۔ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں آپ کا عوام سے رابطے اور نظریے کاپُل ٹوٹ چکا ہے۔ یہ پُل آپ کی طرف سے جماعت کے اندر نظریاتی بحالی اور اپنے سیاسی کارکن کو دوبارہ متحرک کرنے پر دوبارہ قائم ہوسکتا ہے۔
کل 25جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں پی پی پی، انتخابی نتائج میں کوئی حیران کن کامیابی حاصل کرنے میں تو کامیاب نہیں ہوگی، لیکن اِن انتخابات نے پاکستان میں ایک بار پھر نظریاتی سیاست، مہذب سیاسی لب ولہجے، طبقاتی اور وفاقی سیاست کو بحال کرکے دوبارہ متعارف ہونے کا آغاز کردیا ہے، جس کا کریڈٹ بلاول بھٹو، اُن کی ٹیم اور پارٹی کو جاتا ہے۔ بلاول بھٹو آئندہ چند سالوں میں پاکستان کے مقبول ترین، ترقی پسند، عوامی اور وفاق کے مقبول لیڈر بننے کے سفر میں کامیابی سے داخل ہوگئے ہیں۔ ایک نئی عوامی سیاست کا ظہور۔ ایک نئے عوامی لیڈر کا ظہور۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو جاگیرداروں، لٹیروں، نودولتیوں، غیرنظریاتی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے دیں۔ پارٹی کو پارٹی کے وارثوں یعنی سیاسی کارکنوں کے حوالے کرنے کے لیے باقاعدہ حکمت عملی اپنائیں۔ پارٹی کے اندر مضبوط جمہوری ڈسپلن کو لاگو کریں۔ پارٹی کو خاندانی رشتے داریوں سے باہر نکالیں۔ پارٹی کو حقیقی معنوں میں اس کے مالکوں کے حوالے کریں۔ اس کے کارکن اور عوام۔ وگرنہ کیا ہوگا۔ اس بار آپ مقبول ہوں گے، جیسے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو۔ اور اُن کے قتل کے پارٹی کے اندر جاگیردار اور اقتدار کے بھوکے کرپٹ لوگ، تیسری بار اس پارٹی، ملک اور عوام کا خون چوسیں گے۔ بلاول بھٹو وقت آپ کا ہے، اب آپ نے طے کرنا ہے کہ اس وقت کو صحیح طریقے سے منظم کرکے اس خواب کو پورا کیا جائے جو آپ کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھا اور جس کی خاطر وہ سُولی پر جھول گئے کہ پاکستان کا مالک محنت کرنے والے ہاتھوں کو بنایا جائے۔ ایک ویلفیئر ریاست، جمہوری اور عوامی ریاست۔
“