بلا عنوان
میں جب بھی اسلام آباد میں ھوتا ھوں تو شام کو سپر مارکیٹ ضرور جاتا ھوں اور مسٹر بکس کے سامنے باغ میں بنچ پرہیٹھ کرآتے جاتے لوگوں کا نظارہ کرتا ھوں ۔ ونڈو شاپنگ کرتا ھوں اور جب سورج کی روشنی پر رات پردہ کرنے لگتی ھے تو میں واپس اپنے ٹھکانے پر لوٹ جاتا ھوں ۔ ایک سردیوں کی بات ھے کہ میں اپنے اسی معمول پر تھا کہ میری توجہ کا مرکز ایک بزرگ بنا ۔ وہ سورج ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے سر پر ایک بڑا سا چھابا ٰاٹھائے آتا اورجس بنچ پر میں اکثر ہیٹھتا تھا اس کے نزدیک اسے سجا کر ہیٹھ جاتا ۔ اس کے چھابے میں مونگ پھلیاں ہوتیں اور ان کے ڈھیر کے درمیان مٹی کی ایک کُجی میں کوئلے سلگ رھے ھوتے ۔ بچے جوان اور ھر طرح کے لوگ اس سے گاہے بگاہے مونگ پھلیاں خریدتے تھے ۔ کوئی دس روپے کی اور کوئی پانچ روپ کی یا شاید بیس روپے کی ۔ وہ رات کو کب تک وہاں بیٹھا رھتا مجھے اندازہ نہ تھا کیونکہ میں پہلے ہی وہاں سے اٹھ آتا تھا ۔ اس بزرگ کی عمر اتنی تھی کہ اسے یہ کام کرنے کی بجائے گھر پر آرام کرنے کی ضرورت تھی ۔ ایک روز میں نے سوچا کہ میں دیکھوں کہ وہ وہاں سے کب واپس جاتا ھے ۔ میں اپنے معمول کے وقت ہر نہ اٹھا اور سپر مارکیٹ میں اس وقت تک موجود رھا جب تک وہ بزرگ وھاں سے نہ اٹھا ۔ دس سے اوپر کا سمے تھا کہ اس بزرگ نے اپنا چھابا سمیٹا جس میں اب بہت کم مونگ پھلیاں رہ گئیں تھیں ، سر پر رکھا اور اور آہستہ آہستہ چلتا اپنے گھر کی طرف چل پڑا ۔ میں نے اندازہ کیا کہ اس روزوہ لگ بھگ چھ گھنٹے وھاں بیٹھا تھا ۔ اگلے روز وہ آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آتا ھے ۔ جواب میں اس نے بتایا کہ وہ سی ڈی اے ہسپتال کے پاس ایک کچی بستی میں رہتا ھے اور وہیں سے آتا ھے ۔ میرا اگلا سوال یہ تھا کہ وہ روز کتنے کی بکری کر لیتا ھے تو وہ بولا ؛
'' پانچ سے چھ سو تک کی مونگ پھلی بیچ لیتا ہوں جس سے مجھے سو سے ڈیڑھ سو روپے بچ جاتے ہیں ۔ "
میں انے اس سے اس کے بچوں کے بارے میں پوچھا تو مجھے اندازہ ھوا کہ اس کے بچے اس کے تابع ھیں اور اگر وہ مونگ پھلیاں نہ بھی بیچے تووہ اسے آرام سے گھر بٹھا کر اس کو روٹی پانی اور دوا دارو کا خرچہ اٹھا سکتے ھیں۔ اس کی باتوں یہ مجھے یہ بھی سمجھ میں آیا کہ وہ اس فلسفے کا قائل تھا کہ جب تک ہاتھ پاوٗں چلتے ھیں تو اولاد یا کسی اور کی محتاجی سے بچنا چاہیے ۔
بزرگ کی عمر اسی برس کے لگ بھگ تھی ۔ اب میں نے اس سے سوال کیا کہ اس کے چھابے میں کتنے کی مونگ پھلی پڑی ہوئی ھے تو اس نے کہا؛
" یہی کوئی چھ سو روپے کی ھوگی ۔ "
میں نے جیب سے چھ سو روپے نکالے اور اسے تھما کر کہا کہ یہ تم مجھے دے دو اور گھر جا کر آرام کرو ابھی تھوڑی دیر میں سخت سردی شروع ہو جائے گی ۔ اس نے پیسے مجھے لوٹاتے ہوئے کہا؛
" بابو جی آپ مجھے اس لذت اور خوشی سے محروم کرنا چاہتے ہیں جو میں ان پاتچ چھ گھنٹوں میں رنگ برنگے کپڑے پہنے لوگوں ، بچوں اور عورتوں کو مونگ پھلیاں بیچ کر حاصل کرتا ھوں ۔ یہ سب میری اولاد کی طرح ہی تو ہیں ۔
جواب میں میرے پاس کچھ کہنے کو نہ تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔