قدرت نے کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی۔
اس نے سب کو دماغ دیا۔کچھ نے اس دماغ کو ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال کیا اورکچھ نے لائف سیونگ ادویات بنانے کے لیے برتا۔ کچھ نے انسانوں کی فلاح کے منصوبے بنائے اور کچھ نے بینک لوٹنے کی سکیمیں سوچیں۔ قدرت نے بہت سوں کو بہادری کا جوہر بخشا۔ کچھ نے اسے کھوپڑیوں کے مینار بنانے پر لگایا اور کچھ اسے نہتے انسانوں کے دفاع کے لیے بروئے کار لائے۔ بہت سوں کو دولت ملی۔ کچھ نے محلات بنائے، سونے کی بنی ہوئی کاروں کے آرڈر دیے‘ ہوائی جہازوں میں خواب گاہیں بنوائیں‘ پسندیدہ طوائفوں کے لیے پورے کے پورے جزیرے خرید ڈالے۔ لاس ویگاس کی ایک ایک رات میں کروڑوں درہم و دینار کی قمار بازی کی۔ کچھ نے وہی دولت غریب ملکوں میں پولیو جیسی لعنت کے خاتمے پر خرچ کی۔ تعلیم پھیلائی اور لوگوں کی زندگیاں آسان کرنے کے لیے اربوں ڈالر صرف کر دیے۔
قدرت نے کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی۔
ہر ملک اور ہر قوم کو کم و بیش ہر شے دی۔ اس نے سب کو سمندر دیے۔ پھر کچھ نے انہیں قزاقی کے لیے استعمال کیا اور کچھ نے تجارت کے لیے۔ قوموں کو اسلحہ سازی کا ہنر بخشا۔ کچھ نے اسے فروخت کیا اور دولت کمائی۔ کچھ نے اس سے اپنے ہم وطنوں کو ہلاک کیا۔ سب کو جنگل دیے۔ کہیں یہ جنگل ڈاکوئوں کی کمین گاہیں بن گئے اور کہیں پرندوں اور جانوروں کی پناہ گاہ اور انسانوں کے لیے سیرگاہ۔ سب کو پہاڑ دیے۔ کچھ نے اس میں سے معدنیات نکالیں اور وارے نیارے کر لیے۔ کچھ نے ان پہاڑوں پر بسیں اور ٹرینیں چلائیں اور دنیا بھر سے سیاح کھینچے‘ کچھ نے پہاڑوں کو دہشت گردوں کی مچانیں بنایا۔ مفرور ڈاکوئوں کے مستقر بنائے اور ارد گرد کی آبادیوں کے لیے زندگی جہنم بنا دی۔
میں یہ سطور ’’ولسن خاکنائے‘‘ میں لکڑی کے ایک بنچ پر بیٹھا لکھ رہا ہوں۔ یہ سینکڑوں مربع میل پر مشتمل ایک عظیم الشان سیرگاہ کا حصہ ہے۔ اگر آپ آسٹریلیا کا نقشہ غور سے دیکھیں تو اس کے جنوب مشرقی کونے میں‘ خشکی کا ایک لمبوترا سا حصہ سمندر کے اندر دور تک چلا گیا ہے۔ پرائمری سکول میں رٹا لگوایا گیا تھا کہ آبنائے پانی کا وہ ٹکڑا ہوتا ہے جو خشکی میں دور تک چلا جائے۔ ظہور نظرؔ نے خوب کہا تھا ؎
آبنائے خوف کے چاروں طرف ہے دشتِ مرگ
اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں
اور خشکی کا وہ حصہ جو سمندر میں دور تک چلا جائے‘ خاکنائے (Pro Montory) کہلاتا ہے۔ اس خاکنائے کو آسٹریلین ’’ولسن پرام‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ صرف اسے محفوظ کیا گیا ہے اور آبادی کے پھیلائو سے بچایا گیا ہے۔ یہاں جنگل ہیں اور سمندر کے کنارے بیچ (Beach) ہیں۔ بہت سے ساحلوں کے سوا اور کوئی قدرتی منظر نہیں لیکن سیاحوں کی بھرمار ہے۔ وکٹوریہ صوبے کی حکومت نے صرف یہ کیا کہ سیاحوں کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کردی۔ صاف ستھرے گیسٹ ہائوس ہیں جن میں کچن سے لے کر کپڑے دھونے تک سب سامان موجود ہے۔کوئی نوکر ہے نہ گیسٹ ہائوس کا مالک ۔ انٹرنیٹ پر بکنگ کرائیے، تالے کا کوڈ بتا دیا جائے گا، خود ہی کھول کر جتنے دن رہناہے رہیے‘ جاتے وقت صفائی کر جایئے۔ جنہوں نے کیمپنگ کرنی ہے ان کے لیے مخصوص مقامات تیار کیے گئے ہیں۔ باتھ روم ہیں ، ہاتھ دھونے کے لیے جگہ جگہ پانی کے کنکشن ہیں۔ ہزاروں لوگ خیمے نصب کیے رہ رہے ہیں۔ کوئی دو دن کے لیے‘ کوئی ہفتہ بھر کے لیے اور کوئی مہینے کے لیے۔ یہ لوگ اپنی سائیکلیں‘ ماہی گیری کا سامان‘ پانی پر تیرنے کے تختے‘ باربی کیو کے لیے اشیائے خورونوش‘ چائے کافی کا سامان‘ نوشیدنی پانی‘ غرض ہر ممکنہ شے ساتھ لاتے ہیں۔ پھر کچھ تیراکی کرتے ہیں‘ کچھ سائیکلوں پر سینکڑوں میل کی مہم جوئی‘ کچھ صرف پیدل چلتے ہیں۔ ایک ایک دن میں تیس تیس پچاس پچاس میل‘ لیکن اگر پانچ ہزار افراد بھی ایک ہفتہ قیام کر کے جائیں تو صفائی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ کوئی شاپنگ بیگ‘ جوس کا کوئی ڈبہ‘ کوک کی بوتل کا کوئی ڈھکنا‘ کاغذ کا کوئی ٹکڑا‘ کوئی کاغذی گلاس‘ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ ساحل کی ریت پر سینکڑوں لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ، کافی پی رہے تھے ، اُٹھے تو کوئی نشان چھوڑکرگئے نہ داستان!
درخت اور جھاڑیاں محفوظ ہیں۔ ایک شاخ تک کوئی نہیں کاٹتا۔ اگر شکار ممنوع ہے تو سب کے لیے ممنوع۔ کسی عرب شہزادے کو چھوٹ ہے نہ کسی صدر یا وزیراعظم کو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ا من و امان ہے۔ مکمل سکیورٹی ہے اور سکیورٹی کا احساس ہے۔ اُوئے، کرنا تو دور کی بات ہے‘ کوئی کسی کی سمت دیکھتا بھی نہیں۔ ساری دنیا کے سیاح امڈے پڑتے ہیں۔کروڑوں ڈالرکا زرِمبادلہ کمایا جا رہا ہے۔
قدرت نے ہمیں جو علاقے بخشے ہیں‘ ان کی خوبصورتی اور دلکشی پر سینکڑوں نہیں‘ ہزاروں وِلسن پرام قربان کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر تھا کہ ہم انہیں سیاحت کی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں یا اپنی غربت‘ نااہلی اورکرپشن کے شو روم کے طور پر۔ ہم نے دوسرا راستہ استعمال کیا اور کامیاب رہے اس لیے کہ فیصلہ تو ہو چکا ہے۔ ’’انسان کو وہی کچھ حاصل ہوتا ہے جسے حاصل کرنے کی وہ سعی کرتا ہے‘‘۔
وہ امریکی نہیں بھولتا جو ہنزہ میں ملا تھا ، دو عشرے قبل۔۔۔ جس کا دعویٰ تھا کہ ہنزہ سوئٹزر لینڈ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ وہ سفر بھی نہیں بھولتا جو گلگت سے راولپنڈی تک (تادمِ تحریر آخری بار) کیا۔ ایبٹ آباد تک کوئی باعزت ریستوران تھا، نہ ہوٹل۔ سحردم ایک جگہ وضو کیا‘ وضو کر کے پلٹا تو بالکل ساتھ آدم کا ایک بیٹا رفعِ حاجت کر رہا تھا! خواتین کے ساتھ کوئی سفر کرے تو ہوش ایسے ٹھکانے آئیں کہ نسلوں کو اس سفر سے منع کر جائے۔ صاف ستھرا کھانا ،چائے، کافی مفقود ہے اور اسی پر بس نہیں‘ جو کچھ میسر ہے اس کا بل اتنا ظالمانہ جیسے بھتے کی پرچی ہو۔ ایک ادارہ پی ٹی ڈی سی (پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن) موجود ہے لیکن یہ سیاحت کے نام پر کلنک کے ٹیکے کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں تعیناتیاں سیاسی‘ جماعتی، شخصی اور قبائلی بنیادوں پر ہوں وہاں کارپوریشنیں کام نہیں کرتیں‘ کرپشن اور نااہلی کا رِستا ہوا ناسور ہوتی ہیں۔ یہی کچھ ٹورازم کارپوریشن کے ساتھ ہوتا رہا۔ جو اقتدار میں آیا اس نے کسی نہ کسی نااہل کو بٹھا دیا۔ ماضی قریب میں ایک مولوی صاحب سیاحت کے وزیر بنے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ٹورازم کارپوریشن کے افسرِاعلیٰ کی پجارودل کو بھا گئی ، یہاں تک کہ ان کے ’’بندوں‘‘ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ سکردو اورگلگت میں قومی ائرلائن کی فردِ عمل اتنی سیاہ ہے کہ سیاحت کی ترقی تو دور کی بات ہے‘ ہنزہ‘ گلگت اور بلتستان کے باشندے باقاعدہ سینہ کوبی کریں تو کم ہے۔ صرف اس حقیقت کا ماتم کرتے رہیں کہ ہزاروں‘ لاکھوں من خوبانی‘ انگور‘ آڑو اور سیب ہر سال ضائع ہو رہا ہے تو ماتم آسمان میں شگاف ڈال دے۔
کشمیر سے لے کر کاغان تک ، بلتستان سے لے کر ہنزہ تک، چترال سے لے کر سوات تک جو کچھ قدرت نے اس ملک کو دیا‘ دنیا میں شاید ہی کسی کو دیا ہو۔ اب یہ ہم پر منحصر تھا کہ ہم اس کا کیا کرتے ہیں ؎
وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“