شوکت عزیز کی پلاسٹک کی بنی ہوئی وزارت عظمیٰ کا زمانہ تھا۔ وزیراعظم کے لیے ہوائی جہاز خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ خریداری کئی مراحل سے گزری۔ ہوتے ہوتے کئی محکموں کا عمل دخل ہوگیا۔ وفاقی وزارت خزانہ کا ایک حصہ وزارت دفاع میں واقع ہے۔ اس حصے کا سربراہ ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس کہلاتا ہے۔ یہ انتظام دفاع کو سہولت پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ مسائل یہیں حل ہوتے رہیں اور ہر کام کے لئے اسلام آباد کا رخ نہ کرنا پڑے۔ جن اہم امور میں وزارت خزانہ اسلام آباد کے فیصلوں کی ضرورت پڑتی ہے، ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس ان امور کے لیے اسلام آباد سے پوچھ لیتا ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس کو ایک دن ایک معروف صحافی کا فون آیا: ’’کیا آپ وہ فائل مجھے دکھا سکتے ہیں جس میں وزیراعظم کے لیے خریدے گئے جہازوں کا معاملہ چلتا رہا؟‘‘
ایڈیشنل سیکرٹری نے ایک لمحہ سوچے بغیر جواب دیا… ’’صاحب! اس خریداری کا دکھ تو مجھے بھی ہے لیکن بہت معذرت کہ فائل نہیں دکھا سکوں گا۔ یہ فائل میرے پاس حکومت پاکستان کی امانت ہے۔‘‘
ایڈیشنل سیکرٹری کی اس معروف صحافی سے اچھی دعا سلام تھی۔ یہ اور بات کہ ٹیلیفون پر ہونے والی اس مختصر گفتگو کے بعد صحافی نے سردمہری اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ ایک بار ایڈیشنل سیکرٹری ان کے ادارے میں ایک دوست سے ملنے گیا۔ وہ کمرے کے باہر کھڑے تھے۔ تاثر یہی دیا کہ جان پہچان ہے نہ دعا سلام۔ لیکن یہ اصل مسئلہ نہیں۔ قصہ بیان کرنے کا مدعا اور ہے۔
آج آئین کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ کی خالص ظاہری تعبیر کی ترجمانی بہت سے معروف اور نیک نام صحافی کررہے ہیں، شدومد سے کررہے ہیں اور جارحیت کے ساتھ کررہے ہیں۔ چھوٹا سا سوال ہے کہ اگر سرکاری اہلکار فائل دکھانے کی خیانت کرتا تو کیا وہ باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتا؟ (یہ الگ بات کہ منظور نظر ہوجاتا!) لیکن کیا ایک اہلکار سے ایسا مطالبہ کرنا باسٹھ تریسٹھ کی روح کے ساتھ ہم آہنگ ہے؟
پرویز مشرف کے عہد زیاں میں جس صحافی نے یہ خبر بریک کی تھی کہ ایک معروف مذہبی جماعت کے رہنما کو جی ایچ کیو کی طرف سے زرعی زمین دی گئی ہے، اس صحافی کو معروف مذہبی جماعت کے ترجمانوں نے انتہائی افسوسناک خطاب سے نوازا۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ آج وہی صحافی باسٹھ تریسٹھ کی جس تعبیر کی ترجمانی کررہے ہیں اس تعبیر پر اسی مذہبی جماعت کے ارکان سو فیصد پورا اترتے ہیں۔ یہ حضرات دعائے قنوت بھی فر فر سنا سکتے ہیں اور چھ کلمے بھی۔ بہت سوں کو کلام پاک پورا یا اس کے اکثر حصے حفظ بھی ہوں گے، لیکن کیا جانچنے کے لیے یہ معیار کافی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں کوئی بتائے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظمؓ نے کیوں پوچھا تھا کہ وہ شخص لوگوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟ جب لوگوں نے عرض کیا کہ وہ صاحب نمازوں اور روزوں میں حد سے زیادہ سرگرم ہیں تو خلفیہ راشد نے اس گواہی کو کافی کیوں نہ سمجھا؟ کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی اپنی پسندیدہ تعبیر ایک بار نہیں لاکھ بار کرے، انصاف کی بات یہ ہے کہ امت کیلئے حضرت عمرؓ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہنمائی فرما گئے ہیں کہ کسی کو جانچنا ہو تو یہ دیکھو کہ وہ معاملات میں کیسا ہے؟ لوگوں کے ساتھ اس کا برتائو کیسا ہے۔ رہیں عبادات تو وہ اس کا اور اس کے پروردگار کا معاملہ ہے۔ دعائے قنوت تو حجاج بن یوسف کو بھی یاد تھی ۔ اسے چھ کلمے بھی آتے ہوں گے۔ اگر صرف عبادات کی بنیاد پر جانچنا ہوتا تو حجاج بن یوسف پابندی سے نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا لیکن کیا اس کا موازنہ اس گورنر سے کیا جاسکتا ہے جس سے امیر المومنین نے پوچھا تھا تم اپنی رہائش گاہ سے تاخیر کے ساتھ کیوں برآمد ہوتے ہو تو اس نے جواب دیا تھا کہ میرے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا ہے۔ دھوتا ہوں تو خشک ہونے تک پہننے کے لیے کچھ اور میسر نہیں، باہر کیسے نکلوں؟
کوئی اس سے یہ نتیجہ نہ نکالے کہ عبادات کی اہمیت نہیں۔ خدا اور خدا کے رسولؐ نے جو فرائض مقرر کیے ہیں ان کی اہمیت کو ایک رمق بھی نہیں گھٹایا جاسکتا۔ خمر حرام ہے اور قیامت تک حرام رہے گا۔ ربوٰی حرام ہے اور اسے کوئی بھی حلال نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ اختیار بھی کسی کو نہیں کہ وہ اپنے آپ ہی کو شارح سمجھے اور اپنی تشریح کو حرف آخر جان کر دوسروں پر مسلط کرے۔ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ربوٰی کی تشریحات میں کئی مکاتب فکر ہیں۔ مفتی اعظم الازہر سے لے کر مفتیٔ پاکستان مولانا محمد شفیع تک کئی تعبیریں ہیں، کئی اختلافات ہیں۔ جی پی فنڈ پر جو منافع ملتا ہے اور جسے سود کہا جاتا ہے، کئی علما نے جائز
قرار دیا ہے اور اگر یہ کالم نگار بھول نہیں رہا تو مفتی محمد شفیع مرحوم بھی ان میں شامل ہیں اور یہ تو ہمارے سامنے کا واقعہ ہے کہ ہمارے دور کے نامور عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی نے اسلامی بنکاری میں نئے تصورات نکالے۔ جمود توڑا اور ان کٹر مسلمانوں کو جو عام بنکاری سے اجتناب کرتے ہیں، اسلامی بنکاری کا راستہ دکھایا۔ لیکن بہت سے علما نے جن میں مولانا تقی عثمانی کے قابل احترام اساتذہ بھی شامل ہیں، اس ساری جدوجہد پر شدید اعتراض کیا اور اسلامی بنکاری کو ناجائز قرار دیا۔ نامور شاعر جناب سعود عثمانی جو مولانا تقی عثمانی کے بھتیجے ہیں، اس کی پوری تفصیل بتا سکتے ہیں۔ یہ تعبیر و تشریح کا مسئلہ ہے۔ آخر کوئی شخص جو عالم دین بھی نہیں، ٹیلی ویژن پر کس طرح اصرار کرسکتا ہے کہ وہی حرف آخر ہے! پیش
ے کی وجہ سے یا حادثے کی وجہ سے اگر پردۂ سیمیں تک رسائی ہوگئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام پر اجارہ داری بھی حاصل ہوگئی ہے!
معاملات! حضور معاملات! مسلمان ہونے کی کسوٹی معاملات ہیں، محض عبادات نہیں! اس بلکتی سسکتی قوم کے کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرنے والے ڈاکو چھ کلمے سنا کر قومی اسمبلی کے دروازے میں دوبارہ داخل ہونے کو ہیں:
وہ شاخ گُل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
http://columns.izharulhaq.net/2013_04_01_archive.html
“