چاربرس گزر گئے۔ پورے چار برس!
عمائدین اور وزراء، ندیم اور مصاحب، سب بے بس تھے۔ نصر بن احمد سامانی واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا!
آج بادغیس الگ صوبہ ہے مگر اس وقت ہرات کا حصہ تھا اور تفریحی مقام تھا۔ سامانی بادشاہ پایہ تخت بخارا سے چلا اور بادغیس ٹھہرا۔ دلفریب بہار تھی۔ ہرطرف پھول ہی پھول (ہاں! کبھی یہ علاقے پھولوں سے آباد تھے!) پھر جاڑا آگیا۔ سو سے زیادہ قسموں کے انگور! کوئی بغاوت بھی نہ ہوئی کہ نصر کو واپس جانا پڑتا۔ موسم ایک بار پھر بدلا اور سیستان اور مازندران سے پھل آنا شروع ہوگئے۔ جب بھی بہار گزرتی، واپسی کی تیاری ہوتی اور پھر اگلی بہار تک نصر رک جاتا۔ چار سال اسی طرح گزر گئے۔
وہ عظیم الشان شاعر رودکیؔ جس نے فارسی زبان میں سب سے پہلے باقاعدہ دیوان مرتب کیا، بادشاہ کے ہمراہیوں میں تھا۔ حاضر جوابی اور وسعت مطالعہ نے اسے بادشاہ کے ازحد قریب کر رکھا تھا۔ شان یہ تھی کہ سفر پر نکلتا تو دو سو پیادے جلو میں ہوتے اور اسباب سفر چار سو اونٹوں پر ہوتا۔ سب رودکیؔ کے پاس آئے۔ طے ہوا کہ رودکیؔ بادشاہ کو بخارا واپس جانے پر آمادہ کرے گا تو پانچ ہزار اشرفیاں معاوضہ میں دیں گے۔ دوسرے دن رودکیؔ دربار میں حاضر ہوا۔ نصر انگور کی بیٹی سے دل بہلا رہا تھا۔ خوش گلو رودکیؔ نے گانا شروع کیا۔
بوئی جوئی مولیان آید ہمی
یاد یار مہربان آید ہمی
ای بخارا شادباش و شاد زی
شاہ سویت میہماں آید ہمی
شاہ سرو است و بخارا بوستان
سرو سوئی بوستان آید ہمی
شاہ ماہ است و بخارا آسمان
ماہ سوئی آسمان آید ہمی
مولیان ندی کی خوشبو آرہی ہے اور یار مہربان کی یاد بھی! اے بخارا سلامت رہو کہ بادشاہ تمہاری طرف چل پڑا ہے۔ بخارا باغ ہے اور بادشاہ سرو کا درخت! اور اب سرو اپنے باغ کو آرہا ہے۔ بادشاہ چاند ہے اور بخارا آسمان۔ چاند اپنے آسمان کا رخ کررہا ہے۔
نصر نے کوچ کا حکم دیا۔ روایت ہے کہ کئی کوس تک سستانے بھی نہ ٹھہرا!!
حکمرانوں کو پایہ تخت عزیز ہوتے ہیں۔ کیوں نہ ہوں! پایہ تخت ہی تو شو روم ہوتا ہے! انقرہ کو دیکھئے! رشک آتا ہے۔ کوالالمپور شیشے کی طرح چمکتا ہے! دہلی کا حال دھند کی وجہ سے لاہور سے بھی بدتر تھا۔ حکومت نے توجہ کی۔ ٹرانسپورٹ گیس پر کردی اور دنیا کی ساتویں بہترین زیر زمین ریلوے تعمیر کی! یہ سب کچھ ہوتا رہا اور پاکستانی دارالحکومت تنزل کی منزلیں طے کرتا ایک گندے قصبے کی شکل اختیار کرتا گیا۔ ایک وقت تھا کہ مغربی سیاح کہا کرتے تھے کہ یہ چندی گڑھ کی نسبت کہیں زیادہ صاف ستھرا ہے۔ آج اس کا پرسان حال کوئی نہیں! سپر مارکیٹ اور جناح سپر کے خوبصورت شاپنگ سنٹر SLUMS میں بدل چکے ہیں۔ ریڑھیوں اور کھوکھوں کی بہار ہے! جہاں کرسٹل ون اور کرسٹل ٹو جیسا ایک ایک دیدہ زیب مغازہ تھا وہاں اب ٹھیلے لگے ہیں۔ لالچی تاجروں نے دکانوں کے سامنے پارکنگ میں کچی آبادیوں جیسے ’’کچے بازار‘‘ لگوا دیئے۔ خود بھی ناجائز کرائے لے رہے ہیں اور ترقیاتی ادارے کے آتش خور بھی انگاروں سے شکم پروری کررہے ہیں۔ شہر میں پانی ہے نہ سیکورٹی۔ ڈاکوئوں کا راج ہے۔ غلاظت اتنی کہ ضرب المثل بننے کو ہے۔ قانون کے ’’نفاذ‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اس قلم کار نے اپنی گنہگار آنکھوں سے سیوریج بھرے نالے پر مسجد بنتی دیکھی۔ جہاں پیاز اور لہسن تک کھا کر آنا ناپسند فرمایا گیا وہاں بیٹھے تو بدبو کی لپٹیں آرہی تھیں۔ ایک خوبصورت شہر تھا جو ختم ہوگیا۔ نااہلی اور کرپشن کی نذر ہوگیا۔ شاہراہیں رہیں نہ خیابان! پارک نہ باغات! رہائش گاہیں دکانوں میں تبدیل ہورہی ہیں اور دکانیں ہٹیاں بنتی جارہی ہیں۔ ہے کوئی رودکیؔ جو نغمہ زن ہو؟ کہاں ہیں دارالحکومت کے شعراء؟ اپنے شہر کے مرثیے کیوں نہیں لکھ رہے؟ کہاں ہیں حضرت احسان اکبر؟ طارق نعیم اور اختر عثمان کیوں خاموش ہیں؟ محبوب ظفر کہاں ہے؟ فرح یار نے کیا خوبصورت نظم لکھی ’’چین سے چائے کی پتیاں آگئیں۔ سہ پہر سج گئی۔ وحید احمد نے ’’ہم شاعر ہوتے ہیں‘‘ جیسا شعر آشوب لکھا۔ شہر آشوب کیوں نہیں لکھتا؟ ضیا جالندھری زندہ ہوتے تو نوحہ لکھتے اور منشا یاد ماتمی کہانی لکھ کر قلم توڑ دیتے!
لیکن کوئی کیا کرسکتا ہے! لشکر سالاروں سے ولولہ لیتے ہیں اور دارالحکومت حکمرانوں کے قیام سے۔ قیام ہی نہ ہو تو دلچسپی کون لے اور کیسے لے۔ ارشاد احمد عارف نے لکھا ہے کہ وزیراعظم کو پانچویں روز اسلام آباد کاٹنے کو دوڑتا ہے! دارالحکومت کو چھوڑیے، یہاں ملک کی سلامتی خطرے میں ہے اور فیصلے نہیں ہو پا رہے! کچھ باندھا جاتا ہے نہ کھولا جاتا ہے۔ پندرہ دن میں تیسرا اکٹھ ہوگیا اور برآمد کچھ نہیں ہوا۔ میٹرو جیسے ذاتی دلچسپی کے منصوبوں کا معاملہ ہو تو کوئی کمیٹی بنتی ہے نہ مشاورت کے بازار سجتے ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کا مسئلہ ہو تو قانونی اور آئینی موشگافیوں میں دن کیا ہفتے گزر رہے ہیں
وہ شاخ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
اے پی سی منعقد ہوتی ہے تو وزیراعظم کے دائیں بائیں بیٹھنے والوں کو دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے!کیا یہ ہیں وہ رہنما ہم جن کے رحم و کرم پر ہیں؟ جن کی ’’بے لوث‘‘ قیادت سے ایک زمانہ آشنا ہے!!؎
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے، تم سے برا بھی ہو؟
ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نونہالان وطن بھون دیئے گئے۔ کمانڈرز وقت کی نزاکت کو بھانپ کر سمجھا رہے ہیں کہ مزید وقت ضائع نہ کیا جائے اور وسیع اتفاق رائے کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی نذر نہ کیا جائے۔ آرمی چیف کو بیان دینا پڑ رہا ہے کہ خصوصی عدالتیں فوج کی نہیں، حالات کی ضرورت ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایک مضحکہ خیز صورت حال ہے! ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ شرعی عدالتیں قائم کی جائیں۔ جیسے ملک میں پہلے کوئی شرعی عدالت نہیں! مولانا تقی عثمانی اور پیرکرم شاہ جیسے ثقہ علماء شرعی عدالت کے جج رہے۔ ایک اور صاحب کو اس نازک وقت میں ایک ہی نکتہ سوجھا ہے کہ ایکشن پلان سے مدارس کا لفظ حذف کردیا جائے۔ کیوں؟ اسی لئے کہ اجارہ داری پر حرف نہ آئے۔ کچھ حضرات کو دہشت گردی کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے اس میں سازش نظر آرہی ہے! تو کیا یہ بھی سازش ہے کہ آٹھ سال تک ایک طالب علم ایک مخصوص مسلک کے ماحول میں رہتا ہے۔ اس کا کسی دوسرے مسلک، کسی دوسرے مکتب فکر کے لوگوں سے کوئی رابطہ ہے نہ تبادلہ خیال۔ آٹھ سال بعد جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے اور اسے دوسرے مسالک اور دوسرے مکاتب فکر سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ سمجھوتہ ہی نہیں کر پاتا۔ اگر سازش ہورہی ہے تو اس سازش کا توڑ اس نیک عمل سے کیجئے کہ اپنے اپنے مسلک فکر کے طلبہ اور اساتذہ سے کہئے کہ دوسرے مسالک کی مسجدوں میں جائیں اور ان کے اماموں کے پیچھے نمازیں پڑھیں!
یہ تو اندر کی حالت زار ہے۔ خارج کا احوال یہ ہے کہ افغان صدر نے پاکستانی سیاست دانوں کو براہ راست مدعو کرلیا ہے۔ میڈیا نے بتایا ہے کہ پہلے مرحلے میں افغان صدر نے چار پشتون رہنمائوں کو دعوت دی ہے! کل بھارتی حکومت اپنے پسندیدہ پاکستانی سیاست دانوں کو بلا لے گی۔
پرسوں کوئی اور ملک اپنے مسلک کے رہنمائوں کو دعوت دے ڈالے گا! اس سے اگلے روز امریکی حکومت ان سیاست دانوں کو ٹکٹ بھیج دے گی۔ جو اس کے مطلب کی بات سمجھیں اور کریں! حکومت پاکستان سارے کھیل سے باہر ہو جائے گی! گویا پاکستان نہ ہوا غریب کی جورو ہوگئی! اس معاملے کو سمجھنے کے لیے کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں! جن سیاست دانوں کو افغان حکومت نے مدعو کیا ہے انہیں جواب یہ دینا چاہئے تھا کہ صدر اشرف غنی صاحب! یاد فرمائی کا شکریہ مگر پاکستان میں ایک جمہوری اور نمائندہ حکومت قائم ہے۔ آپ اس سے رابطہ کیجیے۔ مگر یہاں تو لاٹری نکل آنے کا سماں ہوگا! اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ہے! ذاتی مفاد پر سب کچھ قربان ہوسکتا ہے! گزشتہ اڑسٹھ سال کی تاریخ سب کچھ بتا رہی ہے! صائب تبریزی بھی کہاں یاد آگیا؎
توبہ برلب، سبحہ برکف، دل پر از شوق گناہ
معصیت را خندہ می آید زاستغفار ما
لبوں پر توبہ ہے ہاتھ میں تسبیح ہے مگر دل گناہوں کے شوق میں مرا جارہا ہے۔ ہمارے استغفار پر معصیت کو بھی ہنسی آنے لگی ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔